ہدایہ کی بے اصل احادیث اور مناظرانہ افراط وتفریط

مولانا محمد عبد اللہ شارق

( زیرِ ترتیب مقالہ ”احادیثِ ہدایہ ۔ فنی حیثیت اور غیر علمی رویے“ سے انتخاب)

تسامحات کی اقسام

  حدیث وروایت کے معاملہ میں الہدایہ کے مصنف مرغینانی سے جو تسامحات ہوئے ہیں، وہ کئی طرح کے ہیں اور ہمارے علم کے مطابق یہ تسامحات زیادہ نہیں، محض اکا دکا مقامات پر ہوئے:

(۱) بعض احادیث کے مضمون میں اضافہ ہوگیا۔ جیسے”ایما صبی حج عشر حج ثم بلغ فعلیہ حجۃ الاسلام“ یہ حدیث کتبِ حدیث میں موجود ہے، مگر اس میں ”عشر“ کا لفظ نہیں ہے، جس کے ہونے نہ ہونے سے بہرحال معنی اور مفہوم میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔(الدرایۃ۔ رقم۳۹۱)

(۲)حدیثِ مو قوف کو مرفوع لکھ دیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک حدیث ”من ام قوما ....“ کو مرفوع لکھا جوکہ محدثین کے علم کے مطابق موقوف ہے اور ان کے ہاں یہ مرفوعا ثابت نہیں۔ (الدرایۃ۔ رقم ۲۱۴)

(۳) راوی کا نام درج کرنے میں چوک ہوگئی۔ (الدرایۃ۔ رقم ۱۶۶)

(۴) کہیں کہیں روایت بالمعنی کا ”ارتکاب“ کردیا۔

(۵) محدثین کے حوالہ سے کوئی بات نقل کرنے میں مغالطہ ہوگیا۔ مثلا انہوں نے ایک حدیث کے بارہ میں ابوداود کے حوالہ سے نقل کیا کہ انہوں نے اس کو ضیعف قرار دیا ہے، جبکہ بعد والوں کو سنن ابوداود میں ایسی کوئی بات کہیں نہیں مل پائی۔(الدرایۃ۔ رقم ۴۵)

(۶) بعض جگہ ضعیف حدیث سے استدلال کیا، ورنہ صحیح احادیث موجود تھیں۔

(۷) بعض ایسی احادیث سے انکار کردیا جو ان کے علم میں نہ تھیں یا پھر مستحضر نہ تھیں۔ (الدرایۃ۔ رقم۱٠۲۷)

(۸) بعض ایسی بے اصل احادیث بیان ہوگئیں جن کی کوئی سند محدثین کو نہ مل سکی اور نہ ہی کتبِ حدیث میں ان کا کوئی اتا پتہ ہے۔

بے اصل احادیث کی امثال

  یہاں چونکہ ہم بے اصل احادیث پر بطورِ خاص بات کررہے ہیں اور افراط وتفریط سے دوچار ہونے والے فریقین کے درمیان زیادہ موضوعِ بحث بھی الہدایہ کی ایسی ہی احادیث بنتی ہیں، اس لئے آخری نکتہ پر ہی ہم تفصیل سے بات کریں گے، جبکہ باقی نکات کے بارہ میں اتنا بتاتے چلیں کہ ایسے تسامحات کی مثالیں محدثین کے ہاں بھی اتنی مل جائیں گی کہ شاید ان کا احصاءمشکل ہوگا۔ سو اگر ان تسامحات کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کی تحقیر وتذلیل درست ہے تو پھر محدثین کو کس ضابطہ کی رو سے ریلیف دیا جاسکے گا؟ افراط وتفریط کے رویوں پر بات کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ ہم یہاں پر ہدایہ میں مذکور بے اصل احادیث کی چند مثالیں بھی آپ کے سامنے رکھتے چلیں۔ الہدایہ کی کئی بے اصل احادیث ایسی ہیں جن کی کسی مکمل یا ادھوری سند کا کوئی اتہ پتہ اور کوئی سرا محدثین کو نہیں ملا، نہ تو روایت باللفظ کے درجہ میں اور نہ ہی روایت بالمعنی کے درجہ میں اور انہی کو ”بے اصل احادیث“ کہتے ہیں۔ ایسی دس ”احادیث“ بطورِ مثال ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:

(۱)من صلی خلف عالم تقی فکانما صلی خلف نبی (الدرایۃ۔ رقم۲٠۱)

(۲) من ترک الاربع قبل الظہرلم تنلہ شفاعتی (الدرایۃ۔ رقم۲۶٠)

(۳) اخروہن (ای: النساء) من حیث اخرہن اللہ (الدرایۃ۔ رقم۲٠۹)

(۴) الرفع محمول علی الابتداء۔ کذا نقل عن ابن الزبیر (الدرایۃ۔ رقم۱۸٠)

(۵) لاترفع الایدی الا فی سبعۃ مواطن۔۔۔۔۔۔ (الدرایۃ۔ رقم۱۸٠)

(۶) فاوضوا فانہ اعظم للبرکۃ (الدرایۃ۔ رقم۷۵۵)

(۷) ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلس علی مرفقۃ حریر (الدرایۃ۔رقم۹۴۲)

(۸) صلوۃ النہار عجماء (الدرایۃ۔ رقم ۱۹۳)

(۹) ثلاث جدہن جد، النکاح والطلاق والیمین (الدرایۃ۔ رقم۶۲۷)

(۱۰) قال فی خبیب: سید الشہداءورفیقی فی الجنۃ (الدرایۃ۔ رقم ۸۸٠)

اینٹی احناف مصنفین کا رویہ

  بر صغیر کے جوشیلے انیٹی احناف مصفنین صاحبِ ہدایہ کے ان تسامحات کو کیا رنگ دیتے ہیں، کیسے ان تسامحات کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کی شخصیت کا مثلہ تک کردیتے ہیں اور کس طرح مناظرانہ حاشیہ آرائی کے جوش میں علمی آداب وقرائن کو یکسر نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں، اس کا اندازہ کرنے کے لیے اپنے حلقہ کے ایک ذمہ دار مصنف مولانا محمد جوناگڑھی کے جملوں کا ایک انتخاب ملاحظہ کیجئے جو ان کی کتاب ”درایتِ محمدی“ سے اخذ کیا گیا ہے، واضح رہے کہ یہ سب جملے من وعن انہی کے الفاظ پر مشتمل ہیں:

 ”صاحبِ ہدایہ نے بڑی دلیری کی ہے کہ اپنا مذہب ثابت کرنے کے لئے حدیثِ رسول میں اضافہ کردیا۔(درایتِ محمدی۔ صفحہ۳۵) یہ اضافہ ان کا گھریلو جملہ ہے جو کسی حدیث کی کتاب میں نہیں۔ (صفحہ۳۴)حنفی مذہب ثابت کرنے کے لئے ٹھیکیدار مذہبِ حنفی صاحبِ ہدایہ بڑا زور لگاتے ہیں، ضعیف احادیث پیش کرتے ہیں اور پھر ان میں بھی اضافے کرتے ہیں(۳۵، ۳۶)محبانِ رسول اس تہمت کو قطعا برداشت نہیں کرسکتے۔ (صفحہ۳۶)علامہ موصوف نے ایک حدیث میں ایک ایسا لفظ بڑھا دیاکہ دونوں مطلب نکل آئے۔ شافعی مذہب اڑ گیا، حنفی مذہب جم گیا۔ اور فتح مندی کا سہرا سر پر بندھ گیا۔ گو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا بڑا جرم ہے، لیکن مذہب کی پاسداری بھی عجیب چیز ہے جو انسان کے دل میں سوائے اس کی وقعت کے جس کا مذہب مانتا ہے، کسی اور کو باوقعت رہنے ہی نہیں دیتی۔ (۳۶)یہ مصنف صاحب کا کارخانہ ساز لفظ ہے۔ (۳۸) انہوں نے اپنے قول کو قولِ پیغمبر کہا ہے۔ (۳۸)ضرورت تھی کہ شافعی مذہب کی جڑیں کھودی جائیں، اس لیے ایک حدیث میں یہ جملہ بڑھا دیا۔ (۴٠) سوائے ہدایہ شریف کے حدیث کی کسی اور کتاب میں تو یہ الفاظ نہیں ہیں، ہاں اگر مصنف ہدایہ ہی کو نبی مان لیا جائے پھر تو سارا ہدایہ ہی حدیث ہے۔ (۳۹) پوری کی پوری حدیث گھڑ لی (۴۲) یہ خاص مصنف کے گھریلو اور من گھڑت الفاظ ہیں (۵۲) کسی کے بیٹے کو دوسرے کا بیٹا کہنا بڑا پاپ ہے، اسی طرح ایک کی بات کو دوسرے کی طرف منسوب کرنا بھی ایک شرمناک علمی غلطی ہے۔ پھر غیر نبی کی باتو ں کو نبی کی باتیں کہنا صریح ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن علامہ مصنف نے بے کھٹکے موقوف روایت کو مرفوع حدیث کہہ دیا (۵۹) ابراہیم نخعی کے قول کو رسول اللہ کا قول کہنا یا تو یہ معنی رکھتا ہے کہ ابراہیم نخعی بھی رسول اللہ تھے یا یہ کہ امام ابو حنیفہ کی رائے کے ثبوت کے لئے یہ جائز ہے کہ رسول اللہ کی نہ کہی بات کو ہم رسول اللہ کی بات کہہ دیں(۶٠) مصنف صاحب جانتے ہیں کہ میری یہ کتاب مقلد پڑھیں گے جنہیں قرآن وحدیث ٹٹولنا کہاں نصیب ہوگا۔ جو ہم کہیں گے وہ پتھی کی لکیر ہوگی، بس اس ہمت پر جو چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں اور جس کا چاہتے ہیں نام لے دیتے ہیں۔ (۴۱)“

مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا نصیب ہوا؟

  مصنف کہتے ہیں کہ مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا کہاں نصیب ہوگا، سو اطلاعا عرض ہے کہ مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا نصیب ہوا ہے۔ چنانچہ کئی حنفی مقلدین نے ہی ”الہدایہ“ کی احادیث کی تخریج لکھی ، علم الاسناد کے اصولوں پر ان کو پرکھا، تسامحات کی توضیح کی، نیز تنقیح وتخریج کا یہ سارا کام خود مرغینانی ہی کے منہج فکر کے مطابق اور گویا ایک معنی میں انہی کی رضامندی سے ہوا کیونکہ ہم جان چکے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے پیش روﺅں کی احادیث کو اسی اصول پر پرکھتے رہے ہیں اور وہ اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہ تھے۔ پچھلے ہمیشہ پہلوں کے علمی تسامحات کو نشان زد کرتے رہے ہیں، یہ کوئی حیرت کی بات نہیں اور نہ ہی اس معاملہ میں غیر ضروری عقیدت یا مخالفانہ عصبیت کو ہوا دینے کی ضرورت ہے۔ احناف کے محدثین نے جس طرح الہدایہ کی احادیث کی تخریجات لکھی ہیں اور جس طرح بے اصل احادیث کو نشان زد کیا، جوشیلے اینٹی احناف مصنفین کو بھی اس کی اچھی طرح خبر ہے۔ چنانچہ مرغینانی کے مختلف تسامحات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ خود ہی حنفی علماءکے حوالے بھی دیتے رہتے ہیں کہ دیکھئے ، کیسے ایک حنفی عالم ہی احادیثِ ہدایہ پر (علمی انداز میں)ناقدانہ کلام کررہا ہے، لیکن افسوس کہ خود اسی پہلو پر غور کرتے ہوئے اپنے افراط کو اعتدال میں بدلنے کے لئے کوئی محنت نہیں کرتے۔

کیا تساہل اور افتراءہم معنی ہیں؟

  ”درایتِ محمدی“ سے لیے گئے گذشتہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ مصنف مذکور کے نزدیک مرغینانی مفتری، کذاب اور واضع الحدیث ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹی احادیث اپنے دل میں بیٹھ کر جوڑتے تھے، جبکہ ثبوت اس کا صرف یہی ہے کہ ان کی کتاب میں چند بے اصل احادیث آگئی ہیں۔ چنانچہ یہ خیالات صرف ایک محمد جوناگڑھی صاحب کے نہیں، اسی طبقہ  فکر کے مولانا وحید الزمان خان نے ”تنقید الہدایہ“ میں اور محمد یوسف جے پوری نے ”حقیقۃ الفقہ“ میں بھی چند بے اصل احادیث کی بناءپر صاحبِ ہدایہ کے لئے ”افتراء“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے معاصر حافظ ارشاد الحق اثری تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ (دیکھئے ان کی کتاب: احادیثِ ہدایہ کی فنی وتحقیقی حیثیت۔ صفحہ۱۸)

  یہاں میں ایک سادہ سا سوال ان حضرات کے سامنے رکھتا ہوں کہ کیا محض اس بنیاد پر کسی کومکمل وثوق کے ساتھ ”واضع الحدیث“  کہا جاسکتا ہے کہ اس کی کتاب میں چند غیر معتبر اور بے اصل احادیث بغیر تصریح کے آگئی ہیں؟ (واضح رہے کہ کسی کو مکمل وثوق کے ساتھ ”واضع الحدیث“  کہنا تقریبا اس کو دائرہ ایمان سے خارج کرنے کے مترادف ہے) اگر ان کا جواب اثبات میں ہے تو پھر کیا وہ ابنِ قیم، ابنِ جوزی، شوکانی، ذہبی، امام شافعی، ابن عبدالبر اور سیوطی کو بھی کذاب اور ”واضع الحدیث“ کہیں گے جن کی کتابوں میں موضوع، بے اصل اور غیر معتبر احادیث بغیر کسی سند اور صراحت کے موجود ہیں،جیساکہ ہم مقالہ کی ابتداءمیں اس کی تفصیل عرض کرچکے ہیں۔

اینٹی احناف مصنف اور مولانا عبد الحی لکھنوی

  اہلِ علم کے تسامح کو تسامح اور تساہل پر محمول کرنے کی بجائے اسے ان کی ”دین دشمنی“ پر محمول کرنا اور یہ سمجھنا کہ وہ دین کے حلیہ کو جان بوجھ کر بگاڑنا چاہتے تھے، شاید اِس حلقہ کے جوشیلے مصنفین کا یہی وہ رویہ ہے جسے دیکھتے ہوئے مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی جیسے نہایت معتدل حنفی نے بھی ان کے لیے بہت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں، واضح رہے کہ مولانا عبد الحی لکھنوی ایک جید حنفی عالم ہیں، وہ تقلیدِ جامد کے سخت خلاف ہیں اور حنفی ہونے وکہلانے کے باوجود انہوں نے بے شمار مسائل میں اپنے ہی امام سے برملا اختلاف کیا ہے اور ان کے انہی اختلافات کو لے کر اینٹی احناف مصنفین عمومی حنفیوں کو چھیڑتے بھی رہتے ہیں، نیز مولانا ارشاد الحق اثری نے ایک کتابچہ ”مسلکِ احناف اور مولانا عبد الحی لکھنوی“ میں ان تمام اختلافات کو بڑی عرق ریزی سے جمع کردیا ہے جس پہ وہ بجا طور پر مستحقِ تبریک ہیں، مگر کیا وہ جانتے ہیں کہ مولانا فرنگی محلی نے خود ان کے طبقہ کے غیر عالمانہ رویوں کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے کتنے شدید الفاظ استعمال کیے ہیں، اگر نہیں تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں، مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ ہماری حیثیت یہاں پر صرف ناقل کی ہے اور ذاتی طور پر ہم خود اتنے شدید تبصرہ کے حق میں نہیں۔ مولانا لکھنوی لکھتے ہیں کہ یہ نیچریوں کے چھوٹے بھائی اور نیچریت کے بعد مسلمانانِ ہند کے لیے دوسرا بڑا فتنہ ہیں، ان کے الفاظ ہیں:

”واخوانہم (ای: النیاشرہ) الاصاغر المشہورین بغیر المقلدین الذین سموا انفسہم باہل الحدیث وشتان مابینہم وبین اہل الحدیث شاع فی جمیع بلاد الہند وبعض بلاد غیر الہند فخربت بہ البلاد ووقع النزاع والعناد“ (الآثار المرفوعۃ۔ صفحہ۶)

نیز اس سے ملتی جلتی ایک عبارت ان کی کتاب ”امام الکلام فی القراءۃ خلف الامام“ کے آغاز میں بھی موجود ہے۔

  واللہ ہم خود حیران ہیں کہ مولانا لکھنوی نے یہ اتنی غیر معمولی اور مبالغہ آمیز بات کیسے لکھ دی، جبکہ ان کا اعتدال ضرب المثل ہے؟ کیا یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اینٹی احناف حضرات کچھ فروعی مسائل میں احناف سے اختلاف کرتے ہیں؟ نہیں، حنفیوں سے اختلاف تو خود فرنگی محلی نے بھی بہت سے مسائل میں کیا ہے، پھر دوسروں سے کیا شکوہ؟ ہمارا خیال ہے کہ مولانا کی حسیات میں یہ تیزی فقط ان رویوں کو دیکھ کر پیدا ہوئی کہ اینٹی احناف حضرات کے یہاں محض دوسروں سے اختلاف ہی نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ فروعی مسائل میں مختلف رائے رکھنے والوں کے بارہ میں یوں تاثر دیا جاتا ہے کہ شاید وہ دین کے دشمن ہیں اور قصدا وعمدا غیر صحیح آراءاختیار کرکے دین کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے کہ فروعی مسائل میں ہونے والے اختلاف کو اگر یہ رنگ دیا جائے تو پھر احناف کو چھوڑیے، کیا سلف وخلف میں سے کوئی بھی آدمی ہماری بدگمانی کی تلوار سے بچ سکے گا اور کیا یہ بدگمانی امت کی دینی صحت کے لیے درست ہے؟ تقلیدِ جامد کے رویوں پر تنقید ہونی چاہئے اور اس حوالہ سے لوگوں کی ذہن سازی کے لیے اینٹی احناف طبقہ کے بھی کسی قدر مثبت کردار کا اعتراف کرنا چاہئے، مگر دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ فروعی اختلافات اور اہلِ علم کے تسامحات کو لے کر طعن وتشنیع کا توپ خانہ کھول لینا قطعا درست نہیں اور یہ اسلاف ومحدثین کے نہج کے خلاف ہے۔

خوش گمانی کے غلو پر مبنی رویہ

  پہلا رویہ اگر مخالفانہ عصبیت پرمبنی تھا تو یہ دوسرا رویہ غیر ضروری حد تک بڑھے ہوئے جوشِ عقیدت کا نتیجہ ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیساکہ بعض لوگ جوشِ عقیدت میں اور اپنی کم علمی کی بناءپر غزالی کی احیاءالعلوم وغیرہ میں مذکور احادیث کو صرف اس وجہ سے سندِ قبولیت دینا چاہتے ہیں کہ غزالی بہت بڑے عالم تھے اور یقینا چھانٹ پھٹک کرکے ہی انہوں نے یہ احادیث نقل کی ہوں گی۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ احادیثِ ہدایہ کے معاملہ میں ہمارے ہاں کے بہت سے احناف خاصی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں محض حسنِ ظن کی بناءپر بغیر سند کے سندِ قبولیت عطا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے عجیب وغریب تاویلات بیان کی جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ احادیثِ ہدایہ علمی نقد ونظر سے بالا تر نہیں اور یہ کہ جن علماءنے ہدایہ میں مذکور روایات کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ علم الاسناد کی کسوٹی پر تولا ہے، ان میں اکثریت خود حنفی علماءاور شارحین کی ہے، مثلا علامہ زیلعی، عینی، ابن الہمام، عبدالقادر القرشی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، قاسم بن قطلوبغا اور مولانا عبدالحی لکھنوی وغیرہ کے ناموں پر آپ غور کرسکتے ہیں، جن کی عبارات وتخریجات کا ایک مفصل تعارفی اشاریہ ہم سابقہ سطور میں عرض کرچکے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ خصوصا ہندوستانی احناف حدیث کے باب میں عمومی طور پر دوسروں کی تو کیا، خود اپنے محدثین کی بھی ٹھیک طرح قدر نہیں کرپائے۔

  مولانا عبدالحی نے اپنی کتابوں میں جہاں احادیثِ ہدایہ پر کلام کیا ہے، وہاں بعض حنفیوں کی اس حساسیت کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کی اس طرح کی عبارات کا ایک اشاریہ گذشتہ سطور میں گذر چکا ہے۔ اسی طرح شیخ عبد الفتاح ابوغدۃ نے جو اپنی تصانیف میں مذکورہ رویہ پر بار بار تنقید کی ہے، وہ بھی غالبا اسی تناظر میں ہے۔ پہلے مذکور غیر علمی رویہ کی طرح یہ رویہ بھی اپنے حلقہ کے بعض ذمہ دار مصنفین کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے اور اسی وجہ سے اِس رویہ کو بھی زیرِ بحث لانے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ تاہم یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ استدلال کی کم زوری کے باوجود اس حلقہ کے لب ولہجہ میں ہمیں فریقِ اول کی طرح کی کوئی ناشائستگی بہرحال نظر نہیں آئی۔ لہجہ کی شائستگی کا اندازہ کرنے کے لیے ایک معروف حنفی مصنف مولانا عبد القیوم حقانی کا اقتباس ملاحظہ کیجئے، وہ لکھتے ہیں:

”صاحبِ ہدایہ نے متقدمین ائمہ پر اعتماد کرتے ہوئے ا ن کی روایات کو اپنی تصنیف میں جگہ دی ہے۔ بعد میں فتنہ  تاتار میں متقدمین کا علمی سرمایہ بہت کچھ ضائع ہوگیا اور بہت سی کتابیں جو پہلے متداول تھیں، اب فتنہ میں بالکل معدوم ہوگئیں۔ اب اربابِ تخریج نے ان روایات کو متقدمین ائمہ کی تصانیف میں تلاش کرنے کی بجائے ان کتابوں میں تلاش کیا ہے جو ان کے عہد میں تھیں،  اسی لیے ان کو متعدد روایات کے متعلق یہ کہنا پڑا کہ یہ روایت حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ مخرجینِ احادیث ہدایہ بصراحت لکھتے ہیں کہ ہم کو نہ مل سکیں، حالانکہ وہ روایات کتاب الآثار اور مبسوط امام محمد وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ کچھ ہدایہ ہی کی خصوصیت نہیں، خود صحیح البخاری کی تعلیقات میں بھی بہت سی ایسی روایتیں موجود ہیں جن کے بارہ میں حافظ ابنِ حجر نے یہی تصریح کی ہے جس کی اصل وجہ وہی متقدمین کی کتابوں کا فقدان ہے، ورنہ امام بخاری یا صاحبِ ہدایہ کی شان اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ ان کے متعلق کسی نے بے اصل روایت بیان کرنے کا شبہ بھی ظاہرکیا ہو۔“ (ہدایہ اور صاحبِ ہدایہ۔ صفحہ۵۷، ۵۸)

عبارت میں ابہام

  واضح رہے کہ ہم نے مولانا حقانی کا یہ اقتباس صرف لہجہ کی شائستگی کو واضح کرنے کے لیے دیا ہے، ورنہ مولانا حقانی کی عبارت مبہم ہے کہ آیا وہ امکانات اور حسنِ ظن کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کا حقِ احترام محفوظ رکھوانا چاہتے ہیں یا پھر ان امکانات کے زور پر ہدایہ کی بے اصل احادیث کو نقد ونظر سے ماوراءبھی ٹھہرانا چاہتے ہیں، تاہم انہوں نے جس طرح ہدایہ کی بے اصل احادیث کو تعلیقاتِ بخاری پر قیاس کیا ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف صاحبِ ہدایہ کے ساتھ حسنِ ظن کا تقاضا ہی نہیں کر رہے، بلکہ ان کی نقل کردہ بے اصل روایات کو بے اصل کہنا بھی درست نہیں سمجھتے ہیں اور ہم مولانا حقانی کا تمام تر احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس معاملہ میں ان سے اختلاف کی جسارت کرتے ہیں۔ ہم اپنے مقالہ میں اہلِ علم کے حوالہ سے بہت تفصیل کے ساتھ عرض کرچکے ہیں کہ بعض بے اصل احادیث کا کسی کی کتاب میں مذکور ہوجانا جیسے اسے تہمت زدہ نہیں بنا دیتا کہ اس نے خود یہ احادیث وضع کی ہیں، اسی طرح یہ تساہل اس کی علمی ثقاہت کے خلاف بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا صرف مرغینانی کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ ابن قیم، ابن ِ جوزی اور شافعی جیسی قد آور شخصیات کے ہاں بھی اس طرح کے تساہل کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ لہذا تساہل کی ایسی کوئی مثال سامنے آنے پر مصنف کے معتقدین کو پریشان نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کی علمی ثقاہت کو تحفظ دینے کے لیے کوئی غیر علمی رویہ اپنانا چاہئے کیونکہ اس نوعیت کے تساہل سے اگر کسی کی ثقاہت متاثر ہونے لگے تو پھر ہمیں سب سے پہلے ان محدثین سے ہاتھ دھونے پڑیں گے جن سے یہ تساہل ہوا اور جن کی تفصیل گذشتہ سطور میں گذر چکی ہے۔ خصوصا مرغینانی کی احادیث کو محض حسنِ ظن کی بناءپر قبول کرنا تو خود ان کے اپنے منہج سے انحراف ہے جسے قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے۔

  مختصرا دوبارہ کہہ دیتے ہیں کہ بے اصل روایات میں دو امکانات ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ مصنف سے تساہل ہوا ہو اور وہ ان روایات کی اسنادی پوزیشن پر کماحقہ نظر نہ ڈال سکا ہو یا پھر یہ کہ وہ روایات کسی ایسی کتاب اور سند کے ذریعہ اس تک پہنچی ہوں جو حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگئی ہو، سو اصحاب الحدیث اور سنجیدہ علماءکا مزاج یہ رہا ہے کہ وہ ایسی روایات پر کلام کرتے ہوئے ان دونوں امکانات کو مدِ نظر رکھتے ہیں، وہ ایک طرف ناقل مصنف کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ان روایات کو علم الاسناد کی کسوٹی پر تولنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اگر روایات کو محض حسنِ ظن کے زور پر قبول کرنا شروع کردیا جائے اور حسنِ ظن ہی کو اساس ٹھہرایاجائے تو پھر علم الاسناد کی کوئی وجہِ جواز باقی نہیں رہتی۔ جس طرح سلف حسنِ ظن کی بجائے علم الاسناد کی کسوٹی پر روایات کو تولتے رہے، اسی طرح خلف نے سلف کی روایات کو بھی تولا ہے اور کسی روایت کی صحت وضعف کا واحد دائمی معیار علم الاسناد ہی رہا ہے۔ اسلاف کی علمی روایت کے مداح اور ترجمان معاصرین میں اب یہ اعتدال کی شان نظر نہیں آتی، وہ یا تو حسنِ ظن کی بناءپر بے اصل احادیث کو مقبول ٹھہرادیتے ہیں اور بشری تساہل کے امکان کو نظر انداز کردیتے ہیں، یا پھر بدگمانی کے زور پر بات کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ جس مصنف کی کتاب میں یہ بشری تساہل ہوا، وہ خود ہی مفتری اور کذاب ہے، جبکہ حسنِ ظن کے پہلو کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔

تعلیقاتِ بخاری اور بلاغاتِ مالک وغیرہ پر قیاس

  رہی بات احادیثِ ہدایہ کو ”تعلیقاتِ بخاری“ پر قیاس کرنے کی تو تعلیقاتِ بخاری کے ساتھ ہم یہاں ”بلاغاتِ مالک“ اور ترمذی کے ”وفی الباب“ کوبھی شامل کرلیتے ہیں کیونکہ بعض لوگوں کے لئے یہ بھی مغالطہ کا باعث بنتے ہیں اور احادیثِ ہدایہ کو وہ ان پر بھی قیاس کرتے ہیں۔صحیح البخاری میں بعض روایات بغیر سند کے یا نامکمل سند کے ساتھ موجود ہیں جنہیں ”تعلیقاتِ بخاری“ کہا جاتاہے، اسی طرح موطا امام مالک میں بھی کچھ روایات بغیر سند کے موجود ہیں جنہیں ”بلاغاتِ مالک“ کہا جاتا ہے، نیز جامع الترمذی میں بھی اکثر وبیشتر ”وفی الباب“ کے تحت کسی ایسی روایت کی دیگر سندوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جس کی ایک مکمل سند خود امام ترمذی چند سطور قبل درج کرچکے ہوتے ہیں، تاہم ”وفی الباب“کے تحت وہ اس روایت کی باقی سندوں میں سے صرف صحابہ کے نام ذکر کرتے ہیں اور طوالت سے بچنے کے لیے پوری اسناد ذکر نہیں کرتے۔ان میں سے کسی کے بارہ میں بھی یہ سمجھنا کہ یہ سب بغیر سند کے ایسے ہی مقبول ہیں جیساکہ مکمل سند والی احادیث ہوتی ہیں اور پھر ہدایہ کی بے اصل احادیث کو بھی ان پر قیاس کرنا، ناواقفیت ہے۔ ذیل میں ترتیب وار ان کی تفصیل دی گئی ہے:

  امام بخاری نے التزام کیا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث درج کریں گے۔ نیز سند کے ساتھ انہوں نے جو احادیث بیان کی ہیں، وہ گواہی دیتی ہیں کہ انہوں نے اپنا یہ التزام اور وعدہ مکمل طور پر نبھایا بھی ہے۔ نیز ان کی بہت ساری تعلیقات ایسی ہیں جنہیں وہ خود دوسرے مقام پر مکمل سند کے ساتھ بیان کردیتے ہیں یا پھر کسی اور کتاب میں اس کی مکمل سند مل جاتی ہے اور وہ بھی صحیح ہوتی ہے۔ امام بخاری کی احتیاط، ایفائے عہد اور ان مذکور قرائن کو دیکھتے ہوئے بعض علماءنے ان کی ”تعلیقات“ کو بھی مجموعی طور پر”صحیح“ فرض کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان حضرات کے نزدیک بھی ان کا وہ درجہ نہیں جو صحیح البخاری کی سند والی یعنی ”مسند“ احادیث کا ہے۔ جبکہ بعض علماءتو ان سب تعلیقات کو مجموعی طور پر ”صحیح“ ہی نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ اضافی قرائن کی روشنی میں ان کی تعلیقات کی صحت کو جانچتے ہیں۔ (کوثر النبی، مولانا عبدالعزیز پرہاروی۔ صفحہ۲۲) لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ ”صحیح البخاری“ اپنی تمام تر قدرومنزلت کے باوجود بھی علم الاسناد کی نقد وپرکھ سے مستثنی نہیں۔ اس کی تعلیقات کو مطلقا قبول کرنے کے اضافی شواہد وقرائن موجود ہیں، مگر اس کے باوجود بعض محدثین ان کو مطلقا قبول نہیں کرتے اور ان کا یہ اختلاف ریکارڈ پر ہے، جبکہ جو کرتے ہیں تو وہ بھی ان کو خود بخاری ہی کی ”مسند احادیث“ کے برابر نہیں سمجھتے۔ اب ”الہدایہ“ کی بے سند احادیث کے لئے بھی اگر کچھ قرائنِ قبولیت کسی بھی درجہ میں موجود ہوتے تو کم ازکم حنفی ناقدین ومحدثین میں سے ہی کوئی نہ کوئی ان کا ضرور ذکر کرتا اور وہ متفقہ طور پر انہیں نقد وجرح کا موضوع نہ بنا رہے ہوتے۔

  بلاغاتِ مالک کے لیے بھی قرائنِ قبولیت موجود ہیں، مثلا سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام مالک جب کسی حدیث کے ساتھ ”بلغنی“ (بلاغت) کا اسلوب اختیار کریں تو فی الواقع اس کی صحیح سند موجود ہوتی ہے۔ (اوجزالمسالک۔ جلد۱، صفحہ۳۱۷)لیکن اس کے باوجودامام مالک کے ہی پیروکار ابن عبدالبر نے ضرورت محسوس کرتے ہوئے”بلاغاتِ مالک“ کی تخریج کی ہے جن کی تعداد اکسٹھ (۶۱) تک پہنچتی ہے۔ ستاون (۵۷) بلاغات کی تخریج میں وہ کامیاب ہوگئے، جبکہ چار احادیث کے بارہ میں انہوں نے برملا لاعلمی کا اظہار کیاجن کے نمبر ہیں: ۳۳۱، ۴۵۶، ۱۱۴۵، ۳۳۵٠۔پھر ان میں سے بھی تیسری روایت کے ساتھ امام مالک کے صریح الفاظ موجود ہیں کہ مجھے یہ روایت ثقہ اور معتبر راویوں کے ذریعہ پہنچی ہے، خواہ انہوں نے ان کے نام ذکر نہیں کئے، جبکہ دوسری حدیث کی تخریج بھی ابنِ عبدالبر کے علاوہ بعض دیگر حضرات نے کسی درجہ میں کردی ہے۔(اوجزالمسالک۔ جلد۲، صفحہ ۳۲۳) باقی رہ گئی چوتھی اور پہلی حدیث تو اگرچہ بلفظہ ان کی تخریج نہیں ہوسکی، مگر روایت بالمعنی کے درجہ میں ان کی سند بھی موجود ہے۔ (اوجزالمسالک۔ جلد۶، صفحہ ۱۷٠، ۱۷۱۔ جلد۱، صفحہ ۳۱۷) اب الہدایہ کی احادیث کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اگر کسی حدیث کی تخریج میں محدثین کسی بھی درجہ میں کامیاب ہوگئے تو اسے قبول کیا گیا ہے لیکن جو سراسر بے اصل ہیں تو انہیں آخر ”موطا“ کی کون سی احادیث پر قیاس کرتے ہوئے سندِ قبولیت بخشی جاسکتی ہے؟

  باقی رہا ”جامع الترمذی“ کے ”وفی الباب“ کامعاملہ تو اس کی نوعیت یہ ہے کہ امام ترمذی ہر باب میں کم از کم ایک روایت مقدور بھر مکمل سند کے ساتھ لکھتے ہیں، بعد ازاں اسی باب میں ”وفی الباب“ کے عنوان کے تحت ان تمام صحابہ کے نام جمع کرتے ہیں جن سے وہ حدیث مروی ہوتی ہے ، لیکن طوالت سے بچنے کے لئے ہر صحابی تک اپنی مکمل سند ذکر نہیں کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ”نفسِ حدیث“ پر کوئی ضعیف اثر نہیں پڑتا، بلکہ کسی درجہ میں اس کی مزید تائید ہی ہوجاتی ہے۔ ترمذی نہ تو کسی روایت کو بغیر سند کے نقل کرتے ہیں اور نہ ہی کسی نے ان کی روایات کو بغیر سند کے قبول کرنے کی بات کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہدایہ کی بے اصل احادیث کو ان کے ساتھ جوڑتے ہوئے سندِ قبولیت عطا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

حسنِ ظن کا دائرہ کار اور محدثین کا اعتدال

  باقی اس میں شک نہیں کہ ہم ہدایہ کی جن احادیث کو تساہل پر محمول کررہے ہیں، ضروری نہیں کہ ان میں واقعی مصنف سے ہی تساہل ہوا ہو، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ ان کے پاس اس کی صحیح سند کا کوئی حوالہ موجود رہا ہو اور تخریج کرنے والے اصحابِ علم سے ہی تحقیق وتفتیش میں کوئی کمی رہ گئی ہو، چنانچہ ہدایہ کی ایسی کئی احادیث ہیں جن کو بعض اصحابِ تخریج نے بے اصل قرار دیا، مگر قاسم بن قطلوبغا نے اپنی تصنیف ”منیۃ الالمعی“ میں ان کی تخریج کردی۔ ہم اس امکان اور حسنِ ظن کے قائل ہیں اور یہ خود محدثین ہی کے منہج کے عین مطابق ہے۔ علامہ ابراہیم بن حسن الکورانی الشافعی نے المسلک الوسط الدانی الی الدرر الملتقط للصنعانی کے ابتدائی دو صفحوں میں اس پہلو پر بڑی نفیس گفتگو کی ہے۔ وہ امام سیوطی کے توسط سے نقل کرتے ہیں کہ سے ان احادیث کے بارہ میں سوال کیا گیا جن کو شوافع کے ائمہ اور احناف کے ائمہ اپنی فقہ کی کتابوں میں نقل کرتے ہیں اور کتبِ حدیث میں ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملتاتو انہوں نے جواب دیا کہ عین ممکن ہے کہ ان ائمہ کے پاس ان احادیث کی کچھ اسناد موجود رہی ہوں جو ہم تک نہ پہنچ سکی ہوں۔“ (صفحہ۲)

  تاہم یہ محض ایک امکان ہے اور محض اس امکان کے زور پر کسی حدیث کی توثیق نہیں کی جاسکتی چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خود ابنِ حجر، سیوطی اور کورانی نے ہی حسنِ ظن اختیار رکھنے کے ساتھ ساتھ، دوسری طرف کئی ایسی احادیث کو اپنی کتابوں میں نشان زد بھی کیا ہے جن کی تخریج وہ نہیں کرپائے تاکہ لوگوں کو ان پر متنبہ کیا جاسکے، لیکن ان کو صاف صاف جھوٹ ومن گھڑت قرار دینے کی بجائے وہ ذومعنی الفاظ اختیار کرتے ہیں جو اعتدال کا مرقع ہوتے ہیں اور جو حدیث کی اسنادی پوزیشن کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ناقل مصنف کے بارہ میں حسنِ ظن کی گنجائش بھی باقی چھوڑتے ہیں۔اس کی تفصیل مقالہ میں ذکر کردی گئی ہے۔


حدیث و سنت / علوم الحدیث

(جنوری ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter