اہل تشیع کا علم الدرایہ اور اہلسنت کا فن مصطلح الحدیث
ان تمام سوالات و ملاحظات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اہل تشیع کے متاخرین نے اہلسنت کے طرز پر مصطلح الحدیث کا جو فن ایجاد کیا ،جو شیعی حلقوں میں علم الدرایۃ کے نام سے موسوم ہے ،وہ متعدد وجوہ سے اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث سے فروتر اور تساہل پر مبنی ہے ،اللہ تعالی اس سلسلے کو مکمل کرنے کی توفیق دے ،اس سلسلے کی ایک بحث میں ہم اہلسنت کے علوم مصطلح الحدیث اور شیعہ متاخرین کے علم درایۃ کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے ، جب تساہل پر مبنی علم الدرایہ کی رو سے الکافی کے دو ثلث ضعیف ہیں ،اگر اہلسنت کے کڑے معیارات پر الکافی کو پرکھا جائے ،تو الکافی میں صحیح احادیث کی تعداد چند سو رہ جائے گی ۔
بطور ِنمونہ صرف ایک معیار کا فرق بتانا چاہوں گا تاکہ اندازہ ہوجائے کہ اہلسنت کے علوم مصطلح الحدیث کا معیار کتنا سخت اور اہل تشیع متاخرین کے علم الدرایۃ کا معیار کتنا تساہل پر مبنی ہے ۔(دیگر امور میں تقابل ایک مستقل بحث میں ان شا اللہ ذکرکریں گے)
اہل سنت کے نزدیک صحیح حدیث کونسی کہلائے گی ؟اس سلسلے میں حافظ ابن حجر شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں:
"وخبر الاحاد بنقل عدل ،تام الضبط ،متصل السند ،غیر معلل و لاشاذ ھو الصحیح لذاتہ"1
یعنی روایت کے صحیح بننے کے لئے پانچ شرائط ہیں:
1۔تمام راوی عادل ہوں ۔
2۔ضبط میں تام ہوں ۔
3۔سند اول تا آخر متصل ہو ۔
4۔معلل نہ ہو ۔
5۔شاذ نہ ہو ۔
جبکہ اس کے برخلاف اگر ہم شیعہ علم الدرایہ میں صحیح کا معیار دیکھیں ،تو ہمیں اہلسنت کے معیار سے تساہل پر مبنی نظر آئے گا ،چنانچہ معروف شیعہ محدث زین الدین عاملی المعروف بالشہید الثانی اپنی کتاب "البدایہ فی علم الدرایۃ " میں صحیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"الصحیح وھو ما اتصل سندہ الی المعصوم بنقل العدل الامامی عن مثلہ ،فی جمیع الطبقات وان اعتراہ شذوذ ،"2
یعنی صحیح حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل ہو اور تمام رواۃ عادل اور امامی شیعہ ہو،خواہ اس حدیث میں شذوذ ہوں ، یوں اہل تشیع کے معیار کے مطابق صحیح حدیث وہ ہوگی ،جس میں یہ تین شرائط ہوں: ( اہلسنت کے ہاں صحت حدیث کے لئے پانچ شرائط ضروری ہیں کما مر)
1۔ تمام رواۃ عادل ہوں ۔
2۔تمام رواۃ امامی شیعہ ہوں ۔
3۔اس حدیث کی سند متصل ہو ۔
حدیث کے صحیح ہونے کے لئے اس کا شذوز اور علت سے سالم ہونا اہل تشیع کے نزدیک ضروری نہیں ،چنانچہ شہید ثانی اپنی اسی کتاب کی شرح میں لکھتے ہیں:
ونبہ بقولہ "و ان اعتراہ شذوذ" علی خلاف ما اصطلح علیہ العامہ من تعریفہ ،حیث اعتبرو سلامتہ من الشذوذ۔۔۔و ارادو بالعلۃ ما فیہ من اسباب خفیۃ قادحۃ یستخرجھا الماہر فی الفن ،و اصحابنا لم یعتبروا فی حد الصحیح ذلک"3
اور ماتن نے و ان اعتراہ شذوذ کے قول سے عامہ (اہلسنت ) سے اختلاف کیا ،جن کے نزدیک صحیح کی تعریف میں سلامت عن الشذوذ ضروری ہے ،نیز اہل سنت کے نزدیک علت فی الحدیث سے مراد وہ خفی خرابی ہے ،جس پر ماہر فن ہی مطلع ہوسکتا ہے ،ہمارے اصحاب(شیعی محدثین ) نے صحیح کی تعریف میں علت سے حفاظت کی شرط نہیں لگائی ہے۔
اس کے علاوہ الشہید الثانی کی عبارت میں ضبط کا بھی ذکر نہیں ہے ،جبکہ ضبط یعنی حدیث کو یاد رکھنے کے لئے حافظہ یا اس کی کامل کتابت ایک ضروری شرط ہے ،اس لئے بعض شیعہ علماء کو یہ بات کھٹکی اور انہوں نے لکھا کہ عدالت کی شرط میں ضبط کا ذکر بھی ضمنا آگیا ،چنانچہ علامہ مامقانی لکھتے ہیں:
"وانت خبیر بان قید العدل یغنی عن ذلک لان المغفل المستحق للترک لا یعدلہ احد"4
آپ کو پتا ہے کہ عدل کی قید ضبط سے مستغنی کر دیتی ہے ،کیونکہ ایسا غافل آدمی ،جو ترک کا مستحق ہو ،اس کی تعدیل کوئی بھی نہیں کرتا ۔
ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کرتے ،کیونکہ اس سلسلہ مضامین میں ہم نے کوشش کی ہے کہ وہی بات ذکر کریں ،جو خود اہل تشیع علماء نے لکھی اور کہی ہے ،ورنہ یہ بات بدیہی ہے کہ عدالت ایک اختیاری وصف ہے ،جو انسان کی دینداری کو ظاہر کرتی ہے ،جبکہ ضبط دینداری سے الگ ایک وصف ہے ،جو پڑھی ہوئی چیز کو یاد رکھنے اور اس کو محفوظ رکھنے کے اہتمام کو ظاہر کرتا ہے ،اسی وجہ سے شیخ جعفر سبحانی نے ضبط کو عدالت کے مفہوم میں داخل کرنے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:
"المقصود من السلامۃ من غلبۃ السہو و الغفلۃ الموجبۃ لوقوع الخلل علی سبیل الخطا کما حقق فی الاصول ،وحینئذ فلا بد من ذکرہ"5
ضبط سے مقصود غلبہ سہو اور ایسی غفلت سے سلامتی ہے ،جو روایت میں خطا کیو جہ سے خلل کے وقوع کا سبب ہو ،جیسا کہ اصول میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ،اس لئے ضبط کا ذکر تعریف میں ضروری ہے ۔
ضبط سے متعلق ہم اہل تشیع کی تاویل قبول بھی کر لیں کہ وہ عدالت کے مفہوم میں داخل ہے ،تب بھی اہل سنت و اہل تشیع کے ہاں صحیح کے معیار میں فرق یہ ہے کہ اہل سنت نے معیار سخت کرتے ہوئے پانچ شرائط کا ذکر کیا ہے ،جبکہ اہل تشیع نے تساہل سے کام لیتے ہوئے صحیح کے لئے صرف تین شرائط کو کافی قرار دیا ہے ۔اس لئے اگر ہم اہل سنت کے معیار پر الکافی کو پرکھیں گے ،تو الکافی میں صحیح احادیث کی تعداد اس سے کہیں کم رہ جائے گی ،جو صحیح روایات اب اہل تشیع نے الگ کی ہیں ۔
8۔موضوع احادیث کی چھان بین و تنقیح
اہلسنت اور اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کے بنیادی فروق میں سے ایک اہم ترین فرق فریقین کے حدیثی تراث میں موضوع روایات کی چھان بین و تنقیح کا فرق ہے ،علمائے اہل سنت نے حدیث کی تدوین کے ساتھ ہی حدیثی ذخیرے میں مختلف طرق و اسباب سے وارد شدہ موضوع احادیث کی چھان بین کا کام شروع کیا ، علمائے اہل سنت نے دو طرح سے اس موضوع پر کام کیا:
1۔ پہلا کام حدیث ِموضوع پر اصولی مباحث کی صورت میں کام کیا ،وضع حدیث کا معنی و مفہوم ،وضع ِحدیث کی اقسام ،وضع ِحدیث کے اسباب ،متھم بالکذب اور وضع حدیث کے عادی رواۃ کا تعین وغیرہ جیسے امور پر تفصیلی مباحث کتب رجال اور کتب مصطلح الحدیث میں ملتے ہیں ۔
2۔وضع ِحدیث پر علمی کام کے ساتھ عملی طور پر موضوع احادیث کو حدیثی ذخیرے سے الگ کرنے کاکام بھی کیا اور الموضوعات کے نام سے بکثرت کتب لکھی گئیں ،جن میں حدیثی تراث میں موجود موضوع اور جھوٹی روایات کو الگ جمع کیا گیا ہے ،تاکہ ان کی طرف مراجعت کر کے موضوع حدیث کی پہچان ہوسکے ۔چنانچہ اس سلسلے کی اہم کتب یہ ہیں:
1۔کتاب الموضوعات محمد بن عمرو العقلی ، م ۳۲۲ھ
2۔تذکرۃ الموضوعات محمد بن طاہر مقدسی م ۵۰۷ھ
3۔ الاباطیل والمناکیر حسین بن ابرہیم الجوزقانی ، م ۵۴۳ھ
4۔ کتاب الموضوعات عبدالرحمن بن الجوزی ، م ۵۹۷ھ
5۔ المغنی عن الحفظ والکتاب عمر بن بد موصلی ، م ۶۲۳ھ
6۔الدر الملتقط فی تبیین الغلط حسن بن محمد صاعانی ، م ۶۵۰ھ
7۔اللألی المنشورۃ فی الاحادیث المشہورۃ حافظ ابن حجر عسقلانی ، م ۸۵۲ھ
8۔الکشف الخبیث عمن رمی بوضع الحدیث حافظ ابراہیم الحلبی ، م ۸۴۱ھ
9۔المقاصد الحسنۃ عبدالرحمن سخاوی ، م ۹۰۲ھ
10۔اللألی المضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ جلال الدین السیوطی ، م ۹۱۱ھ
11۔الذیل علی الموضوعات جلال الدین السیوطی
12۔ تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص جلال الدین السیوطی
13۔الغماز علی اللماز نور الدین ابو الحسن سمہودی ، م ۹۱۱ھ
14۔الدرۃ اللامعۃ فی بیان کثیر من الاحادیث الشائۃ شہاب الدین احمد، م ۹۳۱ھ
15۔تنزیہ الشریعۃ عن الاحادیث الموضوعۃ ابوا لحسن علی بن محمد عراق ، م ۹۶۳ھ
16۔تذکرۃ الموضوعات محمد طاہر بن علی پٹنی ، م ۹۸۶ھ
17۔قانون الموضوعات محد طاہر بن علی پٹنی
18۔موضوعات کبیر علی بن سلطان القاری ، م ۱۰۱۴ھ
19۔ المصنوع فی احادیث الموضوع علی بن سلطان ……………
20۔الفوائد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ مرعی بن یوسف الکرمی ، م ۱۰۳۳ھ
21۔کشف الالتباس فیما خفی علی کثیر من الناس غرس الدین خلیلی ، م ۱۰۵۷ھ
22۔ الاتقان ما یحسن من الاحادیث الدائۃ علی اللسن نجم الدین محمد بن الغزی ، م ۱۰۶۱ھ
23۔ کشف الخفا و مزیل الالباس اسماعیل بن محمد عجلونی ، م ۱۱۶۲ھ
24۔کشف الالہی عن شدید الضعف والموضوع الواہی محمد حسینی سندروسی ، م ۱۱۷۷ھ
25۔ الفوائد المجموعۃ فی ا لاحادیث الموضوعۃ محمد بن علی شوکانی ، م ۱۲۵۰ھ
26۔ الاثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ عبدالحئ لکھنوی ، م ۱۳۰۴ھ
اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ چوتھی صدی سے لیکر عصر حاضر تک بلا تعطل اہل سنت میں موضوع احادیث و روایات کی تنقیح کا کام جاری رہا ،ان کتب کی بدولت اہل سنت کا حدیثی تراث موضوع احادیث سے بلا شبہ کافی حد تک پاک ہے ،نیز عہد بہ عہد گھڑی جانے والی روایات اور ان کے رواۃ کا بھی ایک واضح تعارف ان کتب سے ملتا ہے ،یوں اہل سنت کے حدیثی تراث میں موضوع روایت کا تعین با آسانی ہوسکتا ہے ۔
اس کے برخلاف جب شیعی تراث ِحدیث کو دیکھا جاتا ہے تو وہاں اس قسم کی کوئی سر گرمی نظر نہیں آتی ، اس کا اقرار اہل تشیع محققین نے بھی کیا ہے ،چنانچہ معروف شیعہ محقق ہاشم معروف بحرانی اپنی کتاب "الموضوعات فی الاثار و الاخبار" میں لکھتے ہیں:
"والذی لا یجوز لہ التنکیر لہ ان محدثی السنۃ من اوساط القرن الخامس کانو اکثر وعیا و ادراکا للاخطار التی احاطت بالحدیث الشریف من محدثی الشیعۃ فالفوا با لاضافۃ لی کتب الروایہ و احوال الرجال عشرات الکتب خلال القرنین من الزمن حول الموضوعات و بعضہا یجعل ھذا الاسم بالذات"6
ترجمہ:اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ پانچویں صدی ہجری کے وسط سے ہی محدثین اہل سنت بنسبت اہل تشیع محدثین کے ،حدیث شریف کو لاحق خطرات سے زیادہ آگاہ اور باخبر تھے ،چنانچہ اہل سنت محدثین نے رجال و حدیث کی کتب کے ساتھ ساتھ دو صدیوں تک بیسیوں کتب موضوعات سے متعلق لکھیں،اور بعض کتب موضوعات ہی کے نام سے موسوم کر دی گئیں ۔
آگے شیخ ہاشم بحرانی موضوعات سے متعلق اہل تشیع محدثین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اما الشیعہ فقد تجاہلوا ھذا الموضوع و کانہ لا یعنیہم من امرہ شیئ فی حین ان الموضوعات بین مرویاتہم لا تقل عددھا و اخطارھا عن الموضوعات السنیہ۔۔۔۔لکنھم لم یحاولوا خلال ھذا لقرون الطوال ان یضعوا ولو کتابا واحدا یشتمل ولو علی نماذج من الموضوعات فی مختلف المواضیع"7
ترجمہ:بہرحال شیعہ اس موضوع سے بے خبر رہے ،ایسا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اس موضوع کی کوئی اہمیت نہیں تھی ،حالانکہ شیعہ مرویات میں موضوع احادیث اور ان مرویات کے متنوع نقصانات سنی موضوع روایات سے ہر گز کم درجہ کی نہیں ہیں ۔۔۔لیکن شیعہ محدثین نے ان صدیوں میں بطورِ نمونہ بھی ایک ایسی کتاب نہیں لکھی ،جو مختلف موضوعات سے متعلق موضوع روایات پر مشتمل ہو ۔
چونکہ موضوع روایات کی تنقیح اور ذخیرہ حدیث سے اس کی علیحدگی تراث ِحدیث کو تشکیک و وضع سے بچانے کے لئے اہم ترین عامل ہے ،اس لئے بعض معاصر شیعہ محققین نے شیعی تراث میں موضوعات سے متعلق کتب نہ ہونے کی کچھ توجیہات کی ہیں ،ہم بغرض افادہ ان توجیہات پر بھی ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں ۔
معاصر شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ نے شیعی تراث کی اس خامی پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:
لكن الملاحظ ھنا أنّ الإماميۃ لم يتركوا كتاباً في الأحاديث الموضوعۃ، ولعلّ أول كتاب ـ كما يری بعض الباحثين المعاصرينـ ھو كتاب الأخبار الدخيلۃ الذي أنھی مؤلّفہ الشيخ محمد تقي التستري المجلّد الأول منہ عام 1369ھ، فيما أنھی المجلّد الرابع والأخير منہ عام 1401ھ ،يطرح ھذا الأمر تساؤلاً: لماذا لم تشتغل الإماميۃ علی التصنيف في الموضوعات كما اشتغل سائر المسلمين؟8
ترجمہ: ملاحظہ کرنے کی بات یہ ہے کہ امامیہ نے احادیث موضوعہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی ،شاید اولین کتاب بعض محققین کے بقول محمد تقی تستری کی الاخبار الدخیلہ (یاد رہے یہ کتاب اصلا موضوعات پر نہیں لکھی گئی ،بلکہ یہ کتاب شیعی تراثِ حدیث میں موجود اغلاط و اخطاء کے تعین پر مشتمل ہے ، کتاب کی چار جلدوں میں موضوع روایات پر صرف ایک باب باندھا گیا ہے )ہے،جس کی پہلی جلد 1369ھ اور آخری چوتھی جلد 1401ھ میں لکھی گئی ،یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ امامیہ نے دیگر مسلمانوں طرح موضوع روایات پر مستقل کتب کیوں نہیں لکھیں؟
شیخ حیدر حب اللہ نے اس سوال کے جواب پر لمبی بحث کی ہے ،نکات کی شکل میں موصوف کی توجیہات کاخلاصہ پیش کیا جاتا ہے:
1۔پہلی توجیہ موصوف نے یہ کی ہے کہ دور اموی میں خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے سنی تراث میں وضع ِحدیث کی وبا چل پڑی ، جبکہ شیعی تراث کو اس قسم کی صورتحال سے واسطہ نہیں پڑا ،اس لئے شیعہ محدثین کو موضوعات الگ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔ اس توجیہ پر خود موصوف نے رد کیا ہے کہ کسی ایک کا سبب کا نہ ہونا دلیل نہیں ہے کہ وضع ِحدیث کے دیگر اسباب بھی منتفی ہوئے۔
2۔دوسری توجیہ موصوف نے شیعہ معاصر شیخ رضا سے نقل کی ہے کہ شیعہ تراث چونکہ چھانٹی کے دو مراحل سے گزرا ،پہلا مرحلہ کتبِ اربعہ سے پہلے اصول اربعمائہ کی صورت میں ،دوسرا مرحلہ کتب اربعہ کی صورت میں ،اس لئے شیعہ محدثین کو موضوع روایات الگ کرنے ضرورت پیش نہ آئی ( اصول اربعمائہ پر ہم اس سلسلے میں مفصلا بحث کر چکے ہیں کہ کیسے دو تہائی اصول محض فرضی ہیں ،نیز کتب اربعہ نے صحت حدیث کا جو معیار مقرر کیا تھا ،اس پر بھی ہم اس سلسلے میں نقدِ حدیث کے اصولی معیار کے تحت مفصلا بحث کر چکے ہیں ،اس لئے ہر دو مراحل ہی تراث ِ حدیث میں موضوع روایات کا سبب بنی ہیں ،کما مر)
3۔ تیسری توجیہ موصوف نے یہ پیش کی ہے کہ پانچویں صدی میں بعض شیعہ محدثین وضع حدیث کو روکنے کی اہم ترین کوششیں کیں ،جیسے قم کے ایک محدث احمد بن محمد اشعری نے بعض کبار رواۃِ حدیث کو قم سے اس لئے نکالا کہ وہ وضاعین سے روایت کرتے تھے ،اس لئے بھی شیعہ محدثین کو الگ سے موضوع روایات مرتب کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔(یہ توجیہ علمی اعتبار سے لطیفہ ہی کہلائی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ کسی ایک یا زیادہ محدثین کا وضاعین و ضعاف رواۃ سے روایت نہ لینا یا اس بارے میں تشدد سے کام لینا اس بات کی دلیل کیسے بن سکتی ہے کہ اب ان وضاعین یا دوسرے وضاعین کی موضوع روایات کو الگ سے مرتب کرنے کی ضرورت نہیں ہے فافہم)
4۔ ایک توجیہ موصوف نے یہ بھی پیش کی کہ چونکہ شیعہ حلقوں میں روایت من باب التقیہ بھی ایک جہت ہے ،اس لئے بہت سی روایات کو موضوع سمجھنے کی بجائے اسے تقیہ پر مبنی روایات کہا جاسکتا ہے ۔(یہ توجیہ بھی موضوعات کے باب میں غیر متعلق ہے ،اس لئے کہ تقیہ کا تعلق روایت کے معنی و مفہوم اور مدلول سے ہے ،جبکہ وضع ِروایت کا تعلق روایت کے سندی و رجالی اعتبار سے ثبوت و تیقن سے ہے ، مدلولی اعتبار سے روایت کا تقیہ پر مبنی ہونا اس کے سندی اعتبار سے ثبوت یا عدم ِ ثبوت میں کیونکر موثر ہوگا؟یا للعجب)9
ان توجیہات کی کمزوری بلکہ غیر متعلق ہونا چونکہ کافی واضح ہے ،اس لئے شیخ حیدر موصوف بھی بحث کے آخر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوئے:
المھم أننا نميل إلی رأي السيد ھاشم معروف الحسني، ونری أنّہ آن الأوان لعلماء الحديث الشيعۃ أن يفتحوا ھذا البحث، ويضبطوا قواعدہ. ولا يكتفوا بجھود السلف، مھما كانت الموضوعات قليلۃ، شرط أن لا يفرطوا في ذلك خارج إطار الدليل والحجّۃ10
ترجمہ: ہم اس بارے میں ہاشم معروف بحرانی کی رائے کی طرف میلان رکھتے ہیں اور ہماری رائے یہ ہے کہ اب وہ وقت آگیا کہ شیعہ محدثین موضوع مرویات کی چھانٹی کا بند دروازہ کھولیں ،اس کے قواعد منضبط کریں ،اور اس سلسلے میں سلف کی کوششوں پر اکتفاء نہ کریں (سلف کی کونسی کوششیں اس با ب میں ہوئی ہیں ،جن کی طرف موصوف اشار ہ کر رہے ہیں ،ایک طرف خود شیعہ حلقوں میں اس دروازے کے بند ہونے کی بات کر رہے ہیں ،دوسری طرف سلف کی کوششیں بھی مان رہے ہیں ،یا للعجب)خواہ موضوع مرویات کتنی بھی قلیل ہوں ،بشرطیکہ اس باب میں دلیل و حجت کے دائرے سے خارج کوئی کام نہ کیا جائے ۔
ان موضوع روایات کی چھانٹی نہ ہونے کی وجہ سے شیعی حلقے اپنے عقائد و مذہب کے بارے میں مختلف مشاکل کا شکار رہے ہیں،اہل تشیع اہل علم کو بھی اس کا ادراک ہے ،چنانچہ شیخ ہاشم بحرانی لکھتے ہیں:
"انھم لا یزالون یعانون مما ترکتہ تلک الموضوعات من اثار سیئۃ علی المذہب الشیعی"11
اہل تشیع مسلسل ان برے نتائج و آثار کو جھیل رہے ہیں ،جو ان موضوع روایات کی وجہ سے مذہب شیعہ پر پڑ رہے ہیں ۔
حواشی
1. نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر ، حافظ ابن حجر ،ص 67
2. البدایہ فی علم الدرایہ ،شہید ثانی ،انتشارات ِمحلاتی ،قم ،ص23
3. شرح البدایہ فی علم الدرایہ ،منشورات ضیاء الفیروز آبادی ،قم ،ص22
4. مقباس الھدایہ ،عبد اللہ مامقانی ،منشورات دلیل ما ،قم،ص124
5. اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص51
6. الموضوعات فی الاثار و الاخبار ،ہاشم بحرانی ، دار التعارف للمطبوعات ،بیروت ،ص88
7. ایضا:ص89
8. ظاہرۃ الوضع فی الحدیث الشریف ،حیدر حب اللہ ،ص62
9. ایضا:ص63 تا 69
10. ایضا:ص 68
11. الموضوعات فی الاثار و الاخبار ،ہاشم بحرانی ،ص89
(جاری)