قرآن جلانے کا حق؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ناروے میں ہونے والے واقعے پر مختلف اطراف سے بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ دیارِ مغرب میں، بالخصوص ناروے میں رہنے والوں کا زاویۂ نظر کچھ اور ہے، دیارِ مشرق، بالخصوص پاکستان میں رہنے والے کچھ اور انداز میں سوچتے ہیں۔ کسی کی توجہ ناجائز پر صبر و تحمل اور لغو سے اعراض والی آیات و احادیث پر ہے تو کوئی جہاد و قتال یا کم سے کم بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دیتا ہے؛ جبکہ کسی نے اپنے ہاں کے بعض جذباتی لوگوں کو شرمندہ کرنا زیادہ ضروری سمجھا جو بعض اوقات غیرمسلموں کی مذہبی شخصیات یا شعائر کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ کل سے جاری اس ساری بحث میں وہ سوال کہیں دب گیا ہے جس پر اس طرح کے واقعات کے تناظر میں بحث سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے۔

وہ سوال یہ ہے کہ کیا اظہار راے کی آزادی کے حق پر یہ قید لگائی جاسکتی ہے کہ اس حق کے ذریعے آپ کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین نہیں کریں گے اور اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ جرم ہوگا؟

واضح رہے کہ ناروے میں پولیس کی جس کارروائی کا ذکر کیا جارہا ہے ، اس کا تعلق "توہینِ مذہب" سے نہیں بلکہ "نفرت انگیز" تحریر و تقریر یا حرکات سے ہے اور دونوں باتوں میں اصولی طور پر بہت بڑا فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کےلیے صرف اس بات پر توجہ کریں کہ اگر ایسی تحریر و تقریر یا حرکات کو آپ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیں ، یعنی ان پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے اعراض کا رویہ اختیار کرلیں، تو یہ معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث نہیں رہیں گی اور اس وجہ سے ان کو "نفرت انگیز" نہیں مانا جائے گا اور قانون ان کو تحفظ فراہم کرے گا۔

اس لحاظ سے دیکھیں تو شامی نوجوان عمر نے جو کچھ کیا اس کا کم سے کم فائدہ یہ ہے کہ ایسی تحری و تقریر و حرکات کو  بدستور نفرت انگیز اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث سمجھا جاتا رہے گا اور اس وجہ سے پولیس ان کو روکنے پر خود کو مجبور پائے گی۔

"توہینِ مذہب کے حق "کے متعلق استدلال کو سمجھنے کےلیے زیادہ نہیں تو دو صفحات کا ایک مضمون پڑھنے کی تجویز دوں گا جو مشہور امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن نے The Right to Ridicule کے عنوان سے نیو یارک ٹائمز کےلیے لکھا تھا اور 23 جون 2006ء کو شائع ہوا تھا۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ رونالڈ ڈوورکن میرے پسندیدہ ترین فلسفیِ قانون ہیں۔ قانونی اصولوں کی وضاحت جس طریقے سے وہ کرتے ہیں ، وہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے فلسفیانہ نظام کا ایک اہم جزو حقوق کے متعلق ان کے تصورات ہیں جن کی وضاحت کےلیے انھوں نے کئی مقالات لکھے جو بعد میں Taking Rights Seriously کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ ان کی ایک قابلِ قدر کاوش ، جوقانون کے متعلق نظریات میں اساسی تبدیلی کا باعث بنی، یہ تھی کہ انھوں نے دکھایا کہ  قانونی احکام (rules) جو جزئیات پر لاگو ہوتی ہیں، جج کےلیےان سے بھی زیادہ اہمیت قانون کے قواعدِ عامہ (general principles of law) کی ہوتی ہے اور یہ کہ وہ امور جہاں عام طورپر فرض کیا جاتا ہے کہ قانون خاموش ہے کیونکہ اس کے متعلق قانون میں کوئی جزئیہ نہیں پایا جاتا، وہاں بھی قانون خاموش نہیں ہوتا بلکہ اپنے قواعدِ عامہ کے ذریعے ان امور کے جواز  و عدم جواز کا فیصلہ کرتا ہے اور جج کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی پر فیصلہ کرنے کے بجاے قانون کے متعلقہ عام قواعد مستخرج کرکے ان کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرے۔ جنھیں اصولی مباحث سے دلچسپی ہے وہ جانتے ہیں کہ ڈوورکن کا یہ منہج فقہاے احناف کے منہج سے بے حد قریب ہے ۔

تو آئیے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ ممتاز امریکی فلسفیِ قانون اس مسئلے کا تجزیہ اصولی بنیادوں پر کیسے کرتا ہے؟

ڈوورکن کے مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ 2006ء میں ڈنمارک کے بعض اخبارات نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل ہوا تھا۔ بعد میں بعض برطانوی اور امریکی اخبارات نے بھی یہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم مسلمانوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یہ فیصلہ منسوخ کردیا اور یہ خاکے شائع نہیں کیے۔ اس تناظر میں ڈوورکن نے نیو یارک ٹائمز کےلیے یہ مضمون لکھا جسے اس نے عنوان دیا : The Right to Ridicule، یعنی تضحیک کا حق۔

ڈوورکن آغاز یوں کرتے ہیں کہ  برطانوی اور امریکی اخبارات کا یہ فیصلہ کہ وہ یہ کارٹون شائع نہیں کریں گے، عملی نتائج کے اعتبار سے اچھا فیصلہ ہے کیونکہ ان کے شائع ہونے کے نتیجے میں قوی اندیشہ تھا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے اسی طرح شدید ردعمل سامنے آتا اور مختلف ممالک میں مزید لوگوں کی جانیں ضائع ہوتیں اور مزید املاک کو نقصان پہنچتا۔ مزید یہ کہ ان کارٹونوں کی اشاعت سے برطانوی اور امریکی مسلمانوں کو بھی مزید اذیت ہوتی کیونکہ انھیں دیگر مسلمانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ ان کارٹونوں کی وجہ سے ان کے مذہب کی توہین ہوئی ہے۔

کیا برطانوی اور امریکی مسلمان خود یہ توہین محسوس نہ کرتے جب تک غیربرطانوی اور غیر امریکی مسلمان انھیں نہ بتاتے؟ ڈوورکن اس سوال سے تعرض نہیں کرتا لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک برطانوی اور امریکی مسلمان اتنے عقل مند ہیں کہ وہ توہینِ مذہب پر جذباتی ردعمل ظاہر نہ کرتے ، یا اسے اتنی اہمیت نہ دیتے لیکن برطانیہ اور امریکا سے باہر کے مسلمانوں کی وجہ سے انھیں بھی اذیت محسوس ہوتی۔ اس بحث میں یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے اور دیارِ مغرب میں مقیم صبر و تحمل کے داعی مسلمانوں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

ڈوورکن دوسرا اہم پہلو یہ سامنے لاتا ہے کہ عام قارئین کا یہ حق تھا کہ وہ خود دیکھ لیتے کہ کیا یہ کارٹون واقعی توہین آمیز تھےیا نہیں ؟مزاح کی سطح کیا تھی؟ان کا اثر کیا تھا؟ وغیرہ۔ وہ کہتا ہے کہ اس لحاظ سے شاید پریس کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ یہ کارٹون شائع کرتا۔ تاہم ساتھ ہی ڈوورکن کہتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ جو مرضی دیکھیں یا پڑھیں ، خواہ اس کا نقصان کتنا ہی زیادہ ہو۔ بہ الفاظِ دیگر نقصان کے پہلو سے قدغن کے جواز کو وہ مجبوراً مانتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قدغن کب اور کس حد تک لگائی جاسکتی ہے؟

پریس اگر اس طرح خود پر قدغن لگاتا رہے تو اس کے نتیجے میں کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟ ڈوورکن اس سلسلے میں معلومات، دلیل ، ادب ، آرٹ کے ضیاع کے خدشات ذکر کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پر تشدد ردعمل دکھانے والوں کو شہ ملتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اس ردعمل کی وجہ سے وہ ان چیزوں کی شاعت روک پائے ہیں۔ وہ اس سے یہ استدلال کرتا ہے کہ گویا پریس ان لوگوں کا دباو مان کر انھیں آئندہ کےلیے مزید دباو ڈالنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم ڈوورکن متوقع نقصان کا ایک اور پہلو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کارٹونوں کے خلاف مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں ہونے والے مظاہرے سیاسی مقاصد کےلیے تھے اور اب اگر یہ کارٹون دوبارہ شائع کیے جاتے تو سیاسی مقاصد کے حصول کےلیے لوگ مزید مظاہرے کرتے جس کے نتیجے میں زیادہ توڑ پھوڑ ہوتی۔ یوں ڈوورکن کی راے میں کارٹونوں کی اشاعت کا فیصلہ واپس لے کر پریس نے عملاً بہتر راستہ اختیار کیا۔

اس مقام پر ڈوورکن یہ اہم سوال اٹھاتا ہے کہ خواہ عملی نتائج کے اعتبار سے کارٹونوں کی اشاعت کا فیصلہ حکیمانہ نظر آتا ہو ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اظہار راے کی آزادی کے حق پر بالخصوص "کثیر الثقافتی معاشرے" کے تناظر میں قدغن لگائی جاسکتی ہے؟  کیا کسی مذہب کےلیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو ، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟ یہاں پہنچ کر ڈوورکن اصل قانونی اور اصولی مباحث کی طرف آتا ہے۔

وہ پوری صراحت کے ساتھ یہ دعوی کرتا ہے کہ اظہار راے کی آزادی مغربی ثقافت کی کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے جسے دوسری ثقافتوں کی خاطر، جو اسے نہیں مانتیں، محدود کیا جاسکے، بالکل اسی طرح جیسے مسیحی علامات کے ساتھ ہلال یا منارے کےلیے گنجائش پیدا کی جائے۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ اظہار راے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے! (Free speech is a condition of legitimate government.)کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور جب کسی کو کسی قانون یا پالیسی کے متعلق اپنی راے کے اظہار سے روکا جائےتو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔

وہ مزید کہتا ہے کہ تضحیک اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہےاور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کےلیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس بنیاد پر ڈوورکن یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی۔

یہاں ڈوورکن اس بات کی وضاحت کےلیے ، کہ کیوں جمہوریت میں اظہار راے کے حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی، کہتا ہے کہ اگر کمزور اور غیرمقبول اقلیتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہار راے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار راے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گے۔

اسی استدلال پر وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اظہار راے پر قدغن سے ان کو نقصان ہوگا ۔ اس ضمن میں وہ اس بات پر بھی بحث کرتا ہے جس کی طرف مسلمان عام طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ کئی یورپی ممالک میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور اظہار راے پر اس قدغن کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمان بالعموم اسے دوغلی پالیسی اور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈوورکن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اظہار راے پر ایک اور قدغن بھی مان لیں۔ اس کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ مذکور قدغن بھی دور کردی جائے۔

ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہ ہوتا ہے ، تو پھر مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی راے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو !

آخر میں وہ ساری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے :

Religion must observe the principles of democracy, not the other way around. No religion can be permitted to legislate for everyone about what can or cannot be drawn any more than it can legislate about what may or may not be eaten. No one’s religious convictions can be thought to trump the freedom that makes democracy possible.

(مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے ، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کےلیےیہ قانون بناسکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ ہر کسی کےلیے یہ قانون نہیں بناسکتی کہ وہ کیا کھاسکتے ہیں اور کیا نہیں ۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے ۔ )

ڈوررکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی چاہیے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی سوال پر بحث سے ناروے یا دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں وہ صبر و تحمل اور اعراض کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں؟ یادرکھیے کہ ناروے ، یاکہیں اور ، پولیس یا دیگر ادارے اگر اس طرح کی حرکتیں روکنے کی کوشش کریں تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے قانون کی رو سے "توہینِ مذہب" جرم یا ان کے اخلاقی پیمانے پر یہ برا کام ہے۔ ان کےلیے اصل معیار "جمہوریت" اور "حقوقِ انسانی" کا معیار ہے اور اس معیار پر اس کام کو وہ برا نہیں سمجھتے۔ یہ کام صرف تب برا بنتا ہے جب اس کی وجہ سے "خوفِ فسادِ خلق" پیدا ہو۔ چنانچہ مکرر عرض ہے کہ اگر عمر کی طرح کے "جنونی " اور "جذباتی" مسلمان مفقود ہوجائیں تو پھر ناروے کی پولیس یا دیگر ادارے کبھی اس کام میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ اس کام میں مداخلت کرنے والوں کو مجرم اور برا سمجھیں گے۔

یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ٹیکنولوجی کی ترقی کی وجہ سے کوئی ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے ناروے یا دیگر ممالک یہ موقف نہیں اختیار کرسکتے کہ ہمارے معاملات پر دیگر ممالک کے مسلمانوں کو رد عمل دکھانے کا حق نہیں ہے، اور ہمارے مسلمانوں کو تو صبر و تحمل کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ دنیا اگر واقعی گلوبل ویلج بن چکی ہے تو پھر معاملہ صرف ناروے کی مسلم اقلیت کا نہیں بلکہ دنیا میں سوا ارب سے زائد مسلمانوں کا ہے۔

آخر میں پاکستان کے قانونی نظام کے متعلق بھی اہم بات نوٹ کرلیں کیونکہ اگر ناروے یا امریکا میں مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے تو پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔

چنانچہ ہم نے اپنے اساسی قانون، یعنی دستورِ پاکستان ، کے دیباچے میں پہلے جملے میں ہی اقرار کیا ہے کہ پوری کائنات پر حکم صرف اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے اور یہ کہ ہم قانون سازی اور حکومت کے تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہی استعمال کریں گے۔ اسی دیباچے میں ہم نے مزید یہ اقرار کیا ہے کہ  ہمارا قانونی نظام ان اصولوں پر قائم ہے جو جمہوریت، آزادی، مساوات، برداشت اور معاشی انصاف کے متعلق اسلام نے دیے ہیں (The principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed)۔

جی ہاں، ہمارے ہاں جمہوریت اور حقوق کو مذہب کی پابندی کرنی ہوگی، خواہ ڈوورکن کو کتنا ہی برا لگے ۔


دین اور معاشرہ

(جنوری ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter