ایران کے معروف اپوزیشن گروپ ’’قومی مزاحمتی کونسل‘‘ کی چیئرپرسن مریم رجاوی نے گزشتہ دنوں سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی اسلامی امریکی سربراہی کانفرنس کے فیصلوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ لاہور کے ایک روزنامہ میں 6 جون 2017ء کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق مریم رجاوی نے پیرس میں اپنی پارٹی کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں جنگوں اور دہشت گردی کا ماخذ ایران کو قرار دینے کا اعلان حقیقت ہے اور ایران میں ولایت فقیہ پر مبنی سیاسی نظام ہی خطے میں بد امنی اور دیگر تمام مسائل کی جڑ ہے۔
مریم رجاوی کا تعلق مسعود رجاوی کے خاندان سے بتایا جاتا ہے جو شاہ ایران کے دور میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’’تودہ پارٹی‘‘ کے لیڈر تھے اور شاہِ ایران کے خلاف انقلاب کی جدوجہد کا حصہ تھے۔ بادشاہت کے خلاف انقلاب کی عوامی جدوجہد میں ایران کے مذہبی راہنماؤں کے ساتھ کمیونسٹ اور نیشنلسٹ عناصر بھی شریک تھے مگر کامیابی کے بعد مذہبی راہنماؤں کی قوت کار، نظم و ضبط ، منصوبہ بندی اور بے پناہ عوامی حمایت کے باعث باقی عناصر بتدریج پیچھے ہٹتے چلے گئے اور مذہبی قیادت نے انقلاب کا تمام تر نظم نہ صرف اپنے ہاتھ میں لے لیا بلکہ وہ اب تک اسے کامیابی کے ساتھ چلا بھی رہے ہیں جو ان کے نظریات اور پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود بہرحال ان کا کریڈٹ بنتا ہے۔ ہمارے ہاں دراصل معاملات کو صرف ایک رخ سے دیکھنے کا مزاج اس قدر پختہ ہوگیا ہے کہ اس سے مختلف زاویہ سے صورتحال کا جائزہ لینا ’’شجرِ ممنوعہ‘‘ کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے، ورنہ عقائد و نظریات سے ہٹ کر عوامی انقلاب لانے، اسے کنٹرول کرنے اور کامیابی و تسلسل کے ساتھ اسے جاری رکھنے میں ایرانی مذہبی قیادت کی اب تک کی حکمت عملی اور طریق کار کی اسٹڈی کی ضرورت ہے۔ مگر ہم محض جذباتی نعروں اور مطالبوں والی قوم ہیں اور اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری لینے کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔
مریم رجاوی اور ان کی قومی مزاحمت کونسل کا ایجنڈا کیا ہے اور ان کے حالیہ نظریات و افکار کا دائرہ کیا ہے، ہم سرِدست نہ اس سے پوری طرح آگاہ ہیں اور نہ ہی ان سے دلچسپی کا کوئی فوری داعیہ ہمارے سامنے ہے۔ البتہ انہوں نے مشرقِ وسطٰی کی تازہ صورتحال کے بارے میں اسلامی امریکی کانفرنس کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہوئے جو مذکورہ بالا دو جملے کہے ہیں ان کے بار ے میں ہم کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
ایک یہ کہ ان کے نزدیک ایران میں ولایت فقیہ پر مبنی سیاسی نظام خطے میں بد امنی اور دیگر تمام مسائل کی جڑ ہے اور دوسرا ان کے خیال میں ایران کو خطے میں موجودہ جنگوں اور دہشت گردوں کا ماخذ قرار دینا درست ہے۔ مریم رجاوی اگرچہ پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور اپنے خاندانی ماضی کے باعث بائیں بازو کے خیالات کی حامل سمجھی جاتی ہیں لیکن بہرحال وہ ایرانی ہیں، سیاسی راہنما ہیں اور ایرانی قوم کے ایک حصے کی نمائندگی کرتی ہیں اس لیے ان کی اس بات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کا جائزہ لینا معاملات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
’’ولایت فقیہ پر مبنی سیاسی نظام‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ایرانی دستور میں اثنا عشری شیعہ مذہب کے عقائد کو دستور و قانون کی بنیاد بنایا گیا ہے جس کے مطابق بارہ اماموں میں سے آخری بزرگ جو ’’امام غائب‘‘ اور ’’ولی عصر‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جاتے ہیں، چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں اس لیے حاکمیت اعلیٰ کا حق وہی رکھتے ہیں اور ایرانی دستور میں انہی کی حاکمیت کو عملاً نافذ کرنے کا نظم وضع کیا گیا ہے۔ امام غائب کے ظاہر ہونے تک کا زمانہ ’’غیبوبت‘‘ کا زمان کہلاتا ہے اور اس دوران ان تک براہ راست رسائی بھی میسر نہیں ہے، اس لیے ان کی نیابت کے لیے اپنے وقت کے سب سے بڑے اور ممتاز فقیہ کو ان کا قائم مقام چنا جاتا ہے جس کے لیے ایرانی دستور میں باقاعدہ طریق کار اور شرائط طے ہیں۔ اس دستوری طریق کار کے مطابق جو صاحب اس منصب کے لیے چن لیے جاتے ہیں انہیں ’’ولایت فقیہ‘‘ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے او روہ امام غائب کے نمائندہ کے طور پر ان کے اختیارات استعمال کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہیں حکومت، صدر، پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمٰی سمیت کسی بھی ادارے کے کسی بھی فیصلے کو ’’ویٹو‘‘ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور ان کے کسی فیصلے کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ وقت میں یہ حیثیت جناب آیت اللہ خامنہ ای کو حاصل ہے۔
’’ولایت فقیہ‘‘ کا یہ شخصی اختیار ’’پاپائے روم‘‘ کے ان اختیارات کے مشابہ لگتا ہے جو انہیں یورپ کے بادشاہی دور میں حکومتوں کے مذہبی سرپرست کے طور پر حاصل تھا اور شاید مریم رجاوی بھی ولایت فقیہ کے اسی پہلو پر تنقید کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مجھ سے ایک مجلس میں کسی دوست نے سوال کیا کہ سعودی عرب کا نظام شخصی بادشاہت پر قائم ہے، کیا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں بادشاہت کی کسی بھی شکل کو اسلامی نہیں سمجھتا اور نہ اس کی حمایت کرتا ہوں لیکن مجھے شخصی اختیارات کے حوالہ سے بادشاہت او رولایت فقیہ میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا کہ عملی نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے۔
جہاں تک خطے میں جنگوں اور دہشت گردی کے فروغ میں ایران کے مبینہ کردار کی بات ہے اس کا بھی گہری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ہمارے خیال میں سب سے زیادہ یہ ضرورت خود ایران کی ہے کہ وہ انقلابِ ایران کے بعد سے اب تک کی صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لے اور دیکھے کہ موجودہ حالات کے پس منظر میں اس کی پالیسیاں اور طرزِ عمل کہاں کہاں اور کس کس انداز میں جھلک رہا ہے۔ ہم اس سے قبل یہ بات متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ اگر انقلابِ ایران کو مذہب دشمنی اور سیکولرازم کے عالمی تسلط کے اس دور میں ایک کامیاب مذہبی انقلاب کے دائرے میں محدود رکھا جاتا اور اسے ایک مسلکی انقلاب کے طور پر اردگرد کے دیگر ممالک میں برآمد کرنے کی پالیسی اختیار نہ کی جاتی تو آج صورتحال یقیناً بہت مختلف ہوتی۔
ایک کامیاب مذہبی انقلاب کے طور پر ہم بھی انقلابِ ایران کا خیرمقدم کرنے والوں میں شامل تھے اور ہم نے یہ توقع وابستہ کر لی تھی کہ ایران کا کامیاب اور بھرپور مذہبی انقلاب عالم اسلام کی ان مذہبی قوتوں اور تحریکوں کا معاون بنے گا جو اپنے اپنے ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے محنت کر رہی ہیں۔ لیکن یہ توقع غلط ثابت ہوئی حتیٰ کہ خود ہمارے ہاں پاکستان میں اسلامی تحریکوں کو سپورٹ کرنے کی بجائے ’’فقہ جعفریہ‘‘ کے نفاذ کی تحریک کے عنوان سے پریشان کن مسائل کھڑے کر دیے گئے۔ جبکہ دیگر مسلم ممالک بالخصوص مشرقِ وسطٰی میں بھی مسلکی ہم نواؤں کو منظم و متحرک بلکہ مسلح اور مورچہ بند کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی جیسا کہ عراق، شام، کویت، سعودی عرب، لبنان اور یمن وغیرہ کی صورتحال سے واضح ہے۔ یہاں تک کہ اردن کے فرمانروا شاہ عبد اللہ کو ایک موقع پر یہ کہنا پڑا کہ ’’ہم اس خطے کے سنی شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں‘‘۔ جبکہ اس حصار کو آج سعودی عرب کے گرد کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایران عراق جنگ سے لے کر یمن اور شام کے موجودہ بحران تک حالات و واقعات کا جو تسلسل ہمارے کربناک ملی المیوں کی نشاندہی کر رہا ہے اس میں یقیناً عالمی استعمار کا کردار سب سے زیادہ شرمناک او رخوفناک ہے لیکن اس سے ہم اس کے علاوہ اور کیا توقع کر سکتے ہیں؟ ہم خطے میں سنی و شیعہ کے باہمی تصادم کے حق میں نہیں ہیں بلکہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اس حوالہ سے اب تک جو ہو چکا ہے اسے کسی طرح ’’ریورس گیئر‘‘ لگے کیونکہ اس کا فائدہ اسرائیل اور اس کے سرپرست عالمی استعمار کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ لیکن ایرانی راہنما مریم رجاوی کی طرح ہمارے خیال میں بھی ماضی اور مستقبل دونوں حوالوں سے اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کا کوئی راستہ ضرور نکالے ورنہ خطرہ ہے کہ خطہ کے امن کے ساتھ ایران کا مذہبی انقلاب بھی اس انتشار کی زد میں آئے گا۔