آپ کے مجلے میں اردو تراجم قرآن کے سلسلے میں قسط وار ایک جائزہ شائع ہورہا ہے، جس میں مترجمین کی خدمات اور ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے قرآن کے تراجم میں بعض جگہوں پر بشری تقاضوں سے جو تسامح اور غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے صحیح ترجمے سے باخبر کیا گیا ہے۔ مترجمین میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، شیخ سعدیؒ ، شاہ عبدالقادرؒ ، شاہ رفیع الدینؒ ، محمد جوناگذھیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ وغیرہ کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور غلطیوں کی نشاندہی کے سلسلے میں قرآنی نظائر اور علمی دلائل سے کام لیا گیا ہے۔
یہ عظیم خدمت مولانا حافظ محمد امانت اللہ اصلاحی صاحب کے افادات اور رہنمائی کی روشنی میں ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب انجام دے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قرآن اور قرآنی علم کی ایک عظیم خدمت ہے جس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بحمداللہ ہندوپاک دونوں جگہوں پر اس جائزے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس جائزے کے کام کو باحسن طریق انجام دینے کی توفیق عطافرمائے اور قارئین کو اس سے مستفید ہونے کا شرف عنایت کرے۔
حافظ امانت اللہ صاحب کی یہ خدمت غیرمعمولی، وقیع اور معتبر ہے۔ موصوف کے علم اور قرآنی فہم کے سلسلے میں بھلے ہی عام لوگوں کو علم نہ ہو، لیکن ۱۹۶۲ء یا ۱۹۶۳ء کی بات ہوگی جب ایک واقعے نے مجھے چونکا دیا، جبکہ ایک بزرگ عالم دین نے جن کا اپنا خاص موضوع بھی قرآن تھا، برملا حافظ امانت اللہ صاحب کے قرآنی فہم اور تفقہ پر اعتماد ظاہر کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ رام پور کے قیام کے دوران جب میں قرآن مجید کا ہندی میں ترجمہ کررہا تھا، اس وقت مجھے قرآن مجید کے مشکل مقامات کو سمجھنے کی فکر ہوتی تھی۔ حالانکہ مولانا عبدالحئی صاحب کا کہنا تھا کہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے اور نہ اتنی گہری تحقیق میں پڑنے کی ضرورت ہے، بس یہ ہے کہ جو عام ترجمے قرآن مجید کے ملتے ہیں ان میں سے کسی نہ کسی کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔
قرآن مجید کے کچھ مشکل مقامات کو سمجھنے کے لیے میں مولانا صدرالدین اصلاحی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ بہت خوشی کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئے اور قرآن کے مطالب اور مفہوم کو سمجھاتے رہے۔ اس سلسلے میں وہ امام راغب اصفہانی وغیرہ کی طرف بھی رجوع کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ قرآن کے ایک مقام کے بارے میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ بہت مشکل مقام ہے اس کے لیے حافظ امانت اللہ صاحب سے ملو، ہمیں امید ہے کہ وہ مسئلہ کو حل کردیں گے، ان کا علم تازہ ہے۔ حالانکہ مولانا کے لیے کچھ نہ کچھ مفہوم بتاکر مجھ کو مطمئن کردینا مشکل نہیں تھا، لیکن یہ انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھی کہ طالب علم کو جہاں تک ممکن ہو، حقیقی رہنمائی ملنی چاہیے۔ مولاناکے اس طرز عمل سے دوباتیں کھل کر سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ اپنے سے کم عمر عالم کے علم، سمجھ اور تفقہ کا برملا اعتراف کرنا، یہ مولانا کی وسیع القلبی کی دلیل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مولانا صدرالدین اصلاحی صاحبؒ جو خود قرآن پر گہری نظر رکھتے تھے اورقرآن ان کا خاص موضوع تھا، وہ مولانا حافظ امانت اللہ اصلاحی صاحب کے علم اور ان کی گہری سمجھ کا نہ صرف یہ کہ دل سے اعتراف کرتے تھے، بلکہ اس کا کھل کر اظہار بھی فرمایا۔
مولانا محمد فاروق خان
(مترجم قرآن مجید بزبان ہندی واردو)