گزشتہ جنوری میں پاکستان اور انڈیا میں، نوٹرے ڈیم یونیورسٹی، انڈیانا امریکہ کے ذیلی ادارے the Kroc Institute for International Peace Studies کے زیر اہتمام درس نظامی کے فضلاء کے لیے ’’مدرسہ ڈسکورسز‘‘ کے عنوان سے ایک آن لائن تربیتی کورس کا آغاز کیا گیا جس میں تقریباً پندرہ فضلاء انڈیا سے اور اتنے ہی پاکستان سے شریک ہیں۔ ہفتہ میں دو دن آن لائن کلاس ہوتی ہے ، کورس کا مقصد درس نظامی کے فضلاء کو تہذیب و تمدن کے تبدیل شدہ ماحول اور جدید سائنسی نظریات و سائنسی ترقی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سوالات سے روشناس کروانا اور علمی طور پر ان سوالات کا سامنا کرنے کے قابل بنانا ہے۔ کورس کے سرپرست ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ ہیں جو آج کل یونیورسٹی آف نوٹریڈیم کے مختلف اداروں the Kroc Institute for International Peace Studies, the Department of History اور the Keough School of Global Affairs میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اسلامیات اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب اس کورس کے کوآرڈینیٹر ہونے کے ساتھ انسٹرکٹر کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ماہان مرزا کا آبائی تعلق پاکستان سے ہے۔ انہوں نے پہلے یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن سے میکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر مذہبی تعلیم کی طرف رجوع کیا اور Yale University سے مذہبیات میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کی۔ انڈیا سے ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اس کورس کی Lead faculty ہیں۔ ڈاکٹر وارث مظہری نے دار العلوم دیوبند سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ، انڈیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ پاکستان میں مولانا عمار خان ناصر اس کورس میں Lead faculty کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
کورس کے پہلے سمسٹر کے اختتام پر 5 تا 11 اپریل 2017 ایک ntensive workshop منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب امریکہ سے تشریف لائے۔ پہلے تین دن انہوں نے انڈیا میں گزارے اور وہاں کے شرکاء کے ساتھ مختلف موضوعات پر نشستیں ہوئی جن میں پاکستان کے شرکاء آن لائن شریک رہے۔ تین دن کے بعد شرکاء کے لیے ایک Study Tripکا انتظام کیا گیا تھا۔ انڈیا کے شرکاء نے اس ٹرپ کے دوران دہلی میں مولانا وحید الدین خان اور علی گڑھ میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی سے ملاقات کی اور مختلف علمی و تاریخی مقامات کا دورہ کیا، جبکہ پاکستان کے شرکاء نے 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد کا دو روزہ مطالعاتی دورہ کیا۔
8 اپریل کو شرکاء نے الندوہ لائبریری ، مری روڈ چھتر میں ادارے کے سربراہ مفتی سعید خان صاحب سے ملاقات کی اور ان کی راہنمائی میں لائبریری کے مختلف شعبہ جات ملاحظہ کیے۔ اسی دن شام کے وقت ایک مقامی ہوٹل میں ڈاکٹر ادریس آزاد (پروفیسر آف فزکس، انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد) اور ڈاکٹر محمد زاہد مغل (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ معاشیات، نسٹ اسلام آباد) کے ساتھ نشست کا اہتمام تھا جس میں اس موضوع پر بھرپور گفتگو کی گئی کہ فزکس کے میدان میں جدید سائنسی تصورات کیا ہیں، نیز یہ کہ ان تصورات سے مذہب کے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کیا ہیں اور ان کا کس طرح سامنا کیا جا سکتا ہے۔ اس مجلس میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب بطور صدر مجلس شریک ہوئے اور اختتامی گفتگو کے ساتھ دعا بھی انہوں نے ہی کروائی۔
9 اپریل کو دس بجے دن ایک مقامی ہوٹل میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (PIPS) کے زیر اہتمام کورس کے شرکاء کے لیے مختلف سائنس دانوں کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں PIPS کے نمائندہ محمد اسماعیل خان، سینئر کالم نگار اشفاق سلیم مرزا اور معروف دانشور اور قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اے ایچ نیر شریک تھے۔ اسی دوران ڈاکٹر ماہان مرزا بھی انڈیا سے پاکستان پہنچ چکے تھے جو اس نشست میں ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس مجلس میں پروفیسر اے ایچ نیر کے ساتھ ان کے ایک کولیگ ڈاکٹر رضوان بھی تشریف لائے تھے جنہوں نے جدید فزکس کے بنیادی ڈھانچے پر عمدہ گفتگو کی۔ اس نشست کا موضوع بھی جدید سائنسی تصورات کی وجہ سے مذہب کو درپیش چیلنجز ،تھا لیکن اس سے ہٹ کر بھی بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ شرکاء نے ان موضوعات پر کھل کر گفتگو کی اور ماہرین نے طلبہ کے سوالات کو خندہ پیشانی سے سنا اور کھلے دل سے ان کے جوابات دینے کی کوشش کی۔
Intensive کے اختتام پر یہ قافلہ گوجرانوالہ واپس روانہ ہوا۔ ڈاکٹر ماہان مرزا بھی ساتھ ہی گوجرانوالہ تشریف لے آئے اور اگلے دو دن ان کی سرپرستی میں الشریعہ اکادمی میں ورکشاپ کی مختلف نشستیں منعقد کی گئیں جس میں انڈیا کے شرکاء بھی آن لائن شریک ہوئے۔ انڈیا میں ہونے والی نشستوں میں ڈاکٹر وارث مظہری نے "امام غزالی کا فلسفہ علم" پر گفتگو کی، جبکہ ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی نے "علم الکلام کے اساسی مباحث" پر اور ڈاکٹر راما کرشنا نے " concept of regional "history and universal history پر روشنی ڈالی۔ ورکشاپ کے سارے سیشنز میں ڈاکٹر ماہان مرزا نے فلسفے کے ابتدائی تعارف پر لکھنے جانے والے جوسٹین گارڈر کے مشہور ناول "Sofie's world" کے مختلف حصوں کا خلاصہ بیان کیا۔ یہ ناول شرکاء کورس کو ورکشاپ سے پہلے مہیا کر دیا گیا تھا تاکہ وہ اس کا مطالعہ کر کے ورکشاپ میں شریک ہوں۔ پاکستان سے مولانا عمارخان ناصر نے علامہ ابن خلدون کے فلسفہ تاریخ پر بات کی۔ اختتامی نشست سے استاذ گرامی مولانا زاہد الراشدی نے مختصر خطاب کیا اور مذہب اور سائنس کے عنوان سے پر مغز گفتگو کی۔ انھی کی دعا پر اس ورکشاپ کا اختتام ہوا۔
ورکشاپ میں ہونے والی کچھ گفتگوؤں کا خلاصہ ہم یہاں پر پیش کر دیتے ہیں۔
ورکشاپ میں مولانا عمارخان ناصر نے "مقدمہ ابن خلدون اور فلسفہ تاریخ" کے موضوع پر گفتگو کی۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
ابن خلدون سے ہم لوگ واقف ہی ہیں اور ان کو فلسفہ تاریخ کے بانی کے طور پر جانتے ہیں۔ ابن خلدون کے حوالے سے تین چار حوالوں سے گفتگو ہو گی۔
ان میں ایک بات تو یہ ہے کہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ کی بالکل ابتدا میں تاریخی واقعات کو جانچنے کے جو معیارات قائم کیے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ محدثانہ معیار پر روایت کو جانچنے کے معیارات کے ساتھ اس روایت یا واقعہ کے متن کو کچھ عقلی و معاشرتی معیارات پر بھی جانچنے کی ضرورت ہے ۔اگر واقعہ عقلاً اور عادۃ ممکن نہیں تو راویوں کی جرح و تعدیل کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس اصول کے تحت ایک تو ابن خلدون نے بہت سی تاریخی روایات کو پرکھا ہے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کچھ ایسی روایات پر بھی نقد کیا ہے اور سوالات اٹھائے ہیں جو احادیث کی کتابوں میں مستند ذرائع سے روایت ہوئی ہیں۔ ان میں ایک روایت حضرت آدم علیہ السلام کے قد کے بارے میں ہے کہ ان کے قد کی لمبائی ساٹھ ذراع تھی ، پھر آہستہ آہستہ نسل آدم کا قد کم ہوتا گیا اور اب تک کم ہورہا ہے۔ یہ روایت محدثین کے معیار کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے، اور صحیح بخاری میں آئی ہے۔ انہوں نے اس روایت پر یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے پاس جو تاریخی ریکارڈ موجود ہے جو کئی ہزار سال پہلے تک کا ہے، اس میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انسانوں کا قد اس قدر لمبا تھا۔
اسی طرح ظہور مہدی کی روایات پر انہوں نے سوالات اٹھائے۔ انہوں نے ان روایات پر محدثانہ اسلوب میں بھی نقد کیا ہے، لیکن اصل ان کا نقد تاریخی اعتبار سے ہے۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں جبکہ قریش کی سیاسی عصبیت ختم ہو چکی ہے، کوئی ایک شخص آ کر کیسے اپنے شخصی بل بوتے پر ان کے اقتدار کو دوبارہ قائم کر دے گا؟ یہ تاریخ اور سیاست کے اساسی قواعد کے خلاف ہے۔ اسی طرح غالباً ابن خلدون نے یہ بھی محسوس کیا کہ جس دور میں یہ روایات زیادہ مشہور ہوئی ہیں، اس وقت کچھ سیاسی عوامل تھے اور کچھ گروہوں کی سیاسی ضرورت تھی جو اس طرح کے تصور کا محرک بنی۔ اس ماحول کے زیر اثر یہ روایتیں بنائی گئیں یا ان کی نسبت کی گئی۔ بہرحال یہ ابن خلدون کے تنقیدی منہج کا اہم نکتہ ہے کہ انھوں نے روایات کو پرکھنے کا جو درایتی معیار قائم کیا، وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محدثانہ ذرائع سے آنے والی روایات پر نقد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو مذہبی ذہن کے لیے ایک حساس معاملہ بن جاتا ہے۔
دوسرا پہلو ان کا مشہور نظریہ عصبیت ہے، کہ سیاسی طاقتیں کیسے اقتدار حاصل کرتی ہیں ، کیسے ان کا اقتدار قائم رہتا ہے اور کیسے اور کب وہ زوال کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے عصبیت کی تھیوری پیش کی۔ اس تصور کو اسلامی تاریخ پر جب ابن خلدون نے منطبق کیا ہے تو کئی اہم تاریخی تغیرات کی تعبیر میں دوسرے مؤرخین سے ان کی رائے کافی مختلف ہو گئی ہے۔ مثلاً وہ روایات جو قریش کی حکمرانی کے بارے میں آئی ہیں، ان کی روشنی میں کافی عرصہ تک یہ مذہبی اور کلامی بحث چلتی رہی ہے کہ مذہبی طور پر قریش ہی خلافت کے حق دار ہیں۔ کئی صدیوں تک یہ بات ایک مذہبی تصور کے طور پر مقبول رہی۔ لیکن ابن خلدون نے اس کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی ہدایت نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے وہی عصبیت کا اصول کام کر رہا تھا۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ قریش کو قبائل مضر میں غالب حیثیت حاصل تھی اور عرب کے سارے قبائل ان کی اس حیثیت کا اعتراف کرتے تھے۔ چنانچہ اگر قریش کے علاوہ اقتدار کسی کے سپرد کیا جاتا تو یقینی طور پر اہل عرب ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتے اور قریش کے علاوہ دوسرے قبائل مضر انھیں اپنی اطاعت پر مجبور نہ کر سکتے۔ یوں اجتماعیت ختم ہو جاتی، حالانکہ شریعت مسلمانوں میں اتفاق اور وحدت پیدا کرنا چاہتی تھی۔ اس کے برعکس اقتدار قریش کے سپرد کیے جانے کی صورت میں وہ لوگوں کو اپنی اطاعت پر آمادہ کر سکتے اور اپنے سامنے جھکا سکتے تھے، اس لیے ان کے مقابلے میں کسی کے اختلاف کا بھی خدشہ نہیں تھا۔ گویا اقتدار کے لیے قریشی ہونے کی شرط اس بنیاد پر عائد کی گئی کہ وہ مضبوط عصبیت کے مالک تھے تاکہ ان کے ذریعے سے ملت کو مجتمع اور قوت کو متحد رکھا جا سکے۔ قریش کے متحد ہونے سے مضر کے سارے قبائل متحد ہو جاتے اور ان کے سامنے تمام اہل عرب جھک جاتے اور پھر اہل عجم بھی احکام دین کے تابع ہو جاتے جیسا کہ اسلامی فتوحات کے زمانے میں ہوا اور اس کے بعد اموی اور عباسی خلافت کے زمانے میں یہ صورت حال برقرار رہی، تا آنکہ رفتہ رفتہ عرب عصبیت کمزور ہوتی گئی اور خلافت کا معاملہ کمزور پڑ گیا۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ شریعت کی نظر میں اصل اصول کی حیثیت ’’عصبیت‘‘ کو حاصل ہے جو ہمیشہ کے لیے ہے اور اس کی روشنی میں جس زمانے میں جس گروہ کو بھی عصبیت حاصل ہو جائے، وہ حکومت واقتدار کا حق دار ہوگا۔
اسی طرح ابن خلدون نے ایک عنوان یہ قائم کیا ہے: "انتقال الخلافۃ الی الملک" کہ کیسے خلافت ملوکیت میں منتقل ہوئی۔ یہ بھی ہماری روایت کی ایک بڑی اہم بحث ہے۔ عموماً اہل اسنت اور خصوصاً اہل شیعہ کی یہ رائے ہے کہ ملوکیت کی طرف اس کو منتقل کرنے کا عمل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوا ، اور یہ عمل ٹھیک نہیں تھا۔ پھر اس کی مختلف توجیہات کی جاتی ہیں۔ یہاں پر بھی ابن خلدون اس واقعے کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں اور عصبیت کے نظریے کو بنیاد بناتے ہوئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کی Justification بھی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر امیر معاویہ خاندان امیہ سے باہر اقتدار کو منتقل کرنے کی کوشش کرتے تو اسے اموی عصبیت قبول نہ کرتی اور امت دوبارہ تشتت وافتراق کا شکار ہو جاتی۔ ابن خلدون کا موقف اس حوالے سے بھی کافی مختلف ہے کہ خلافت و ملوکیت میں کوئی بہت جوہری فرق ہے۔ ابن خلدون کے نزدیک ان میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ وہ اس کو غیر اہم اور ظاہری فرق سمجھتے ہیں۔
تیسرا پہلو ان کا نظریہ عروج و زوال ہے جو ایک حوالے سے نظریہ عصبیت ہی کی توسیع ہے۔ ابن خلدون کا خیال ہے کہ جب تک کسی گروہ کو مطلوبہ عصبیت حاصل رہتی ہے، اس وقت تک اس کا عروج قائم رہتا ہے اور جب یہ عصبیت کمزور اور ڈھیلی ہونا شروع ہو جاتی ہے تو اس کا اقتدار ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔یہی بحث ایک بڑے اہم تاریخی سوال کی شکل اختیار کر لیتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی اساس کیا ہے؟ ابن خلدون کے زمانے میں بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ زوال کا شکار نہیں ہوئی تھی ۔اس لیے ان کے ہاں یہ بحث تو ملتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اندر کیسے مختلف خاندان اور گروہ عروج حاصل کر رہے ہیں اور زوال کا شکار ہو رہے ہیں، اقتدار میں آ رہے ہیں یا اقتدار سے ہٹائے جا رہے ہیں، لیکن بحیثیت مجموری پوری امت مسلمہ کے عروج و زوال پر کیا اصول لاگو ہوتے ہیں ، یہ بحث نہیں ملتی۔ تاہم انہوں نے اپنے تناظر میں جو اصولی بحثیں کی ہیں، وہ اصولی طور پر یہاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسی بھی قوم کو اقتدار ہمیشہ کے لیے نہیں ملتا ، ہر قوم ایک خاص وقت کے لیے ہی اقتدار میں آتی ہے۔ پھر ایک دوسری قوم اٹھتی ہے اور اس کو ہٹا کر اقتدار میں آ جاتی ہے، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ابن خلدون کے دور میں شاید اس کے آثار نہیں تھے کہ وہ اس اصول کو بحیثیت امت مسلمانوں پر لاگو کر کے دکھا سکتے۔ تاہم بعد میں آنے والے مفکرین نے اس اصول کو مسلمان امت پر منطبق کر کے عروج و زوال کی تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ابن خلدون کے ساتھ کچھ اور مفکرین مثلاً شاہ ولی اللہ، علامہ انور شاہ کاشمیری وغیرہ کو ملا کر اس پر غوروفکر اور گفتگو کریں، کیونکہ ان مفکرین کو یہ موقع ملا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو عروج کے بعد زوال کے مرحلے سے بھی ہم کنار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
آخری بات یہ کہ ابن خلدون کے بعض عمرانی افکار کا شاہ ولی اللہ کے عمرانی افکار کے ساتھ تقابل کرنے کی ضرورت ہے۔ شاہ ولی اللہ بھی ہماری تاریخ کے بہت اہم مفکرہیں اور انسانی اجتماعیات کو دیکھنے کی بڑی عمدہ اپروچ رکھتے ہیں۔ ان دونوں مفکرین کے مابین کچھ اتفاقات بھی پائے جاتے ہیں اور اختلافات بھی۔ ان دونوں کو ملا کر مطالعہ کرنے سے تاریخ اور عمرانیات کے بہت اہم پہلو واضح ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے امام غزالی کے فلسفہ علم پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
میرا موضوع امام غزالی اور ان کے نظریات ہے۔ میں دو حوالوں سے بات کروں گا، "امام غزالی اور علم الکلام" اور "امام غزالی کا تصور علم"۔ علم الکلام کے حوالے سے امام غزالی کا نقطہ نظر کہیں مثبت لگتا ہے اورکہیں منفی۔کہیں وہ متکلمین کی تعریف کرتے ہیں اور کہیں ان کی مذمت بیان کرتے ہیں۔ اپنی کتاب المستصفیٰ میں علم الکلام کو وہ کلی علم قرار دیتے ہیں اور باقی علوم کو جزئی۔ اس طرح علم الکلام کے حوالے سے امام غزالی کے بارے میں مفکرین کی آرا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ امام غزالی علم الکلام کو پسند نہیں کرتے اور اس کے سخت ناقد ہیں اور کچھ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ علماء متقدمین میں سے کئی افراد میں یہ رویہ پایا جاتا ہے کہ کسی علمی نکتے پر ان کی رائے ایک دور میں ایک رہی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد دوسری ۔ تو کیا امام غزالی کے ہاں بھی یہی رویہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اہل علم کی آراء ان کے بارے میں مختلف ہوئیں؟ امام غزالی یہ بھی کہتے ہیں کہ علم الکلام کے مباحث کو دیکھنا ، پڑھنا اور سیکھنا بسا اوقات واجب عینی ہو جاتا ہے ، یعنی پہلے کلام میں غوروفکر کرنا بدعت تھا لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہی بدعت واجب عینی بن گیا۔
دیگر علوم کے بارے میں بھی ان کا یہی رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک جگہ پر ان کی عبارت ہے "ادلۃ القرآن مثل الغذاء ینتفع بھا کل انسان وادلۃ المتکلمین مثل الدواء ینتفع بھا آحاد الناس ویستضر بھا الاکثرون" یہ عبارت ان کی کتاب "الجام العوام" کی ہے۔ ایک جگہ پر "القرآن" کی جگہ الفقہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے "احیاء العلوم" میں جہاں مختلف علوم کی درجہ بندی ہے، وہاں علم فقہ کا درجہ بہت کم کردیا ہے۔ علم فقہ پر بات کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ علم الفقہ ایک دنیاوی علم ہے ، اور پھر اس کی لمبی چوڑی توجیہات بیان کی ہیں کہ یہ دنیاوی علم کیوں ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ فقہاء علماء الدنیا ہیں ، علماء الآخرۃ نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل فقہ کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب خصومات و جھگڑے ہوں ، لوگوں کا شریعت سے تعلق بہت کمزور ہو گیا ہو، سماج اپنی صحیح بنیادوں پر نہ چل رہا ہو، اس میں اخلاقی زوال سا آ گیا ہو۔ پھر ایسی جگہ عدالتیں قائم ہوتی ہیں اور فقہاء کو احکامات و مسائل کو ترتیب دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر سماج اپنی صحیح ڈگر پر چل رہا ہو اور یہ خرابیاں نہ ہوں تو پھر فقہ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور فقہاء معطل محض ہو کر رہ جائیں گے۔
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی چیز ایک وقت میں بدعت ہو اور دوسرے وقت میں واجب عینی بن جائے، یہ کیسے ہوتا ہے ؟ اور اس اصول کو ہم کہاں کہاں استعمال کر سکتے ہیں ؟ ہم برصغیر کی تاریخ میں دیکھیں تو اس کے کئی مظاہر نظر آتے ہیں ، مثلاً انگلش سیکھنا کسی وقت حرام ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے ، اب یہ تحول مکانی کیسے ہوتا ہے ؟ اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کن چیزوں کو ہم نے ممنوعات کے خانے میں ڈال رکھا ہے۔ اور ان میں کتنی چیزوں کو مستقبل میں ممنوعات سے نکال کر واجبات یا مباحات کے خانے میں ڈالنا پڑے گا؟
اسی طرح غزالی کے ہاں یہ بحث بھی ملتی ہے کہ نصوص کی سطح پر ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن۔ غزالی کے ہاں اس ظاہر و باطن کی مذمت بھی ملتی ہے اور حمایت بھی۔ اب یہ سوال ہے کہ کس حد تک ان کے ظاہر کی پیروی کی جائے اورکس حد تک ان کے باطن کی؟
پروفیسر ادریس آزاد (پروفیسر آف فزکس، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد) نے بڑی آسان زبان اور عمدہ اسلوب میں جدید فزکس کے اہم مباحث شرکاء کے سامنے رکھے۔ ان کا لیکچر بہت اہم تھا، ان کے لیکچر کے اہم پوائنٹس حسب ذیل ہیں:
جدید فزکس کا دور 1905 سے شروع ہوا جب آئن سٹائن نے theory of special relativity پیش کی۔ جدید فزکس میں تین بڑے بریک تھرو آئے۔ پہلا theory of special relativity ، دوسرا theory of general relativity ، تیسرا Quantum۔ اس کے بعد 1967 سے 2017 فزکس میں تھیوریز تو بہت آئیں لیکن قوانین یا لاز کوئی نہیں آئے۔ جدید فزکس کا یہ سارا عمل 1905 سے 1930 تک مکمل ہو گیا اور یہی ابھی تک چھایا ہوا ہے۔
جدید فزکس کی وجہ سے پہلے سے موجودٹائم اور سپیس کا تصور تبدیل ہوا اور Time Dilation کا تصور آیا ، اسی کے ساتھ متحرک اشیاء کے لیے contraction length کا تصور آیا ۔ یہ تصورات سیاروں کے فاصلے، خلاء میں سفر اور مستقبل یا ماضی میں سفر کرنے کے تصور میں بہت اہم ہیں۔
آئن سٹائن نے سائنسی تعریفات میں بڑی تبدیلی پیدا کی، تقریباً ہر چیز کی نئی تعریف کی گئی۔ کسی بھی چیز کی جو تعریف نیوٹن کے دور میں تھی، وہ اب تبدیل ہو گئی ہے۔ اگرچہ نصاب میں آج بھی امریکہ سمیت ہر جگہ اسکولوں میں نیوٹن والی تعریف ہی پڑھائی جا رہی ہے۔ مثلاً پہلے یہ تصور تھا کہ کشش ثقل چیزوں کو نیچے سے کھینچ رہی ہے، لیکن آئن سٹائن کے آنے سے یہ تصور بدل گیا۔ اب یہ تصور ہے کہ gravity چیزوں کو نیچے سے کھینچنے کا نام نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف دھکیلنے کا نام ہے۔
ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کا موضوع "مذہب کے لیے سائنس کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجز اور ان کا سامنا کرنے کا طریقہ" تھا۔ انہوں نے کہا کہ سائنس کے بارے میں ہمارے کچھ غلط تصورات ہیں جو سائنس کا لفظ سننے کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ مثلاً سائنس سے ہمارے ذہن میں مشینوں کا تصور آتا ہے جیسے فریج ، گاڑی وغیرہ۔ سائنس ان چیزوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو سائنس کے حاصلات ہیں۔ دوسری چیز ہم سمجھتے ہیں کہ شاید سائنس کسی specific method of knowing کا نام ہے اور وہ تجرباتی طریقہ کار ہے۔ یہ تصور کسی حد تک ٹھیک بھی ہے، لیکن پورا درست نہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ It is more than that۔ اس میں الہایاتی تصورات بھی ہیں ، تجربات بھی ہیں اور دیگر معاشرتی چیزیں بھی موجود ہیں ، کیوں کہ یہ سائنس کا سارا عمل انسان کرتا ہے اور انسان کے ہر عمل کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ سائنس بھی ایک سوشل پراسس ہے، اس کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور ہمارے نزدیک سائنس کا مقصد اس کائنات پر انسانی ارادے کا تسلط قائم کرنا ہے۔ اس کو سرمایہ دارانہ معاشی نظام سے ہٹا کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ جو بھی عمل سائنس کی فیلڈ میں ہو رہا ہے، اس پر سرمایہ لگ رہا ہے اور کچھ لوگ یا ممالک یہ سرمایہ فراہم بھی کر رہے ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک سائنس کا مقصد اس وقت اس سرمایہ دار یا سرمایہ دارانہ نظام میں موجود قوتوں کے ارادے کو اس کائنات میں مسلط کرنا ہے۔ سائنس کے تقریباً ہر مظہر میں یہی فکر کارفرما ہے۔ مثلاً موسمیات کی ساری ریسرچ اس لیے نہیں ہو رہی کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کیسے بارش برساتا ہے۔ یہ ساری ریسرچ اس لیے ہے کہ بارش جہاں ہم چاہتے ہیں، وہاں بارش ہو۔اسی طرح دیگر سائنسی تحقیقات میں بھی ہے۔ انسان یہ چاہتا ہے کہ سائنس کے ذریعے میں دنیا کو جنت بنا لوں، یعنی اس میں جو میں چاہتا ہوں، وہ ہو جائے۔ اب اس ماحول میں حلال و حرام کے سارے مباحث ، ساری حد بندیاں اور قیدیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہ اصل چیلنج ہے۔کائنات کی تسخیر کا محرک انسانی فلاح کا تصور ہونا چاہیے نہ کہ انسانی ارادے کا تسلط اور سرمایہ دارانہ سوچ۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنی اختتامی گفتگومیں کہا کہ:
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جب اسلامی سلطنت پھیلی تو کئی قسم کے فلسفوں سے مسلمانوں کا واسطہ پڑا ، ان میں یونانی فلسفہ تھا ، ایرانی فلسفہ تھا ، ہندو فلسفہ وغیرہ۔ ان سب فلسفوں میں سب سے ممتاز یونانی فلسفہ تھا۔ ان سب فلسفوں کا اپنا اپنا پس منظر تھا ، اپنی اپنی تعبیرات تھیں۔اس سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے اور علم الکلام وجود میں آیا۔ ابتدائی طور پر علم الکلام کی مذمت کی گئی اور یہ کہا گیا کہ اس میں نفع سے نقصان زیادہ ہے، اس لیے اس میں نہ پڑو۔ بلکہ یہاں تک تاریخ میں ہے کہ امام ابو یوسف کے دور تک یہ بحث رہی ہے کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ یہ اس لیے تھا کہ ان لوگوں کو اپنے لیے علم الکلام کی ضرورت نہیں تھی۔ علم الکلام کی ضرورت مباحثے اور مکالمے کے لیے پیش آئی ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ نے اس کی حد بندی کی ہے کہ عقائد کی کی تعبیر و تشریح میں اگر الجھن پیش آئی ہے تو اس کے لیے، عقائد کے اثبات کے لیے اور جو اعتراضات ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے علم الکلام کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے لیے پھر ہماری پوری تاریخ ہے، ابوالحسن اشعری ہیں ، ابو منصور ماتریدی ہیں، غزالی ہیں ، ابن رشد وغیرہ ہیں۔ برصغیر میں ہمیں دو فلسفوں کا سامنا تھا۔ ایک ہندو فلسفہ اور دوسرا ایرانی فلسفہ جس کو ہمایوں ایران سے واپسی پر اپنے ساتھ لایا ہے۔ان فلسفوں کے تناظر میں جو مسائل پیدا ہوئے، ان کا سامنا یہاں کے علماء نے کیا ہے جن میں مرکز کی حیثیت حضرت مجدد الف ثانی کو حاصل ہے۔ پھر شاہ ولی اللہ ہیں۔
اس وقت فکر و فلسفہ میں ایک نئی تبدیلی آئی ہے اور بڑی بنیادی تبدیلی ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔یہ مغربی فکر و فلسفہ ہے جس کو ہیومنزم کا فلسفہ کہا جاتا ہے ، انسانیت کا فلسفہ کہا جاتا ہے۔ اس کا زیادہ تعلق عقلیات سے نہیں ہے، سماجیات سے ہے۔اس تبدیلی کی ایک وجہ یہ بنی کہ معقولات میں پہلے سائنس اور فلسفہ اکٹھے تھے۔ اس دور میں سائنس کا دائرہ الگ ہو گیا اور فلسفہ کا دائرہ الگ ہو گیا۔ فلسفہ عقلی بحثوں تک محدود ہو گیا اور سائنس مشاہدات، محسوسات اور تجربات پر آ گئی۔ اس کے علاوہ مغرب میں جبر کے خلاف جو بغاوت ہوئی ہے، خواہ وہ چرچ کا جبر ہو، بادشاہت کا جبر ہو یا جاگیرداری کا، اس سے دو بغاوتیں اکٹھی ہو گئیں۔ سائنس نے فلسفہ سے بغاوت کر دی اور سماج نے مذہب سے بغاوت کر دی۔ ان دونوں بغاوتوں کا بنیادی ماخذ تو مغرب ہی ہے اور یہ اسی کا فلسفہ ہے لیکن جب مغرب کو غلبہ حاصل ہوا ہے تو پھر مغرب کو یہ شوق ہوا کہ یہ فلسفہ ہم تک نہیں رہنا چاہیے، دوسروں تک بھی جانا چاہیے۔ اسی تناظر میں مستشرقین نے علمی وفکری جنگ کا آغاز کیا۔ اسی کے ساتھ ہمارے سیاسی نظام خلافت کے خاتمے کو بھی مغرب نے ضروری سمجھا کیوں کہ "خلافت" کا ادارہ پوری اقدار سمیت اس فلسفے کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کے لیے انہوں نے معاشی، عسکری، معاشرتی، مواصلاتی غرض ہر قسم کے ذریعہ کو استعمال کیا ، اور اس غلبہ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ تازہ دم تھے اور ہم تھک چکے تھے۔
اس غلبے کے کئی پہلوؤں میں سے ایک تہذیبی پہلو ہے کہ مغرب نے اپنے پس منظر میں پیدا ہونے والے فلسفہ کو ہم پر مسلط کرنا شروع کیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ماحول تھا جیسا کہ اتباع تابعین کے زمانے میں یونانی فلسفہ کے در آنے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا یا برصغیرمیں ہندو فلسفہ کا سامنا ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا ، لیکن اس دفعہ بدقسمتی سے ہمارا رویہ ماضی سے مختلف تھا ۔ ماضی میں ہم نے ان مسائل کو face کیا ہے، ان کا سامنا کیا ہے ، اب ہم بالکل تحفظ پر آگئے ہیں اور بچاؤ کرتے کرتے اپنے گھروں کی چار دیواری کے اندر بند ہوگئے اور اب وہاں بھی ہم محفوظ نہیں ہیں۔ہم نے سیاسی مغلوبیت کو اپنے اوپر طاری کر لیا اور آگے بڑھنا ، سامنا کرنا ، اقدام کرنا ہمارے ایجنڈے سے بالکل نکل گیا اور صورتحال ہنوز اسی طرح ہیں۔ ہمیں مغربی فکر و فلسفہ کا بطور فلسفہ سامنا کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم کلام یا عقائد کی نئی تشریح کو نئے عقائد بنانا یا گھڑنا کے مترادف سمجھتے ہیں۔ یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نئے عقائد بنائے جائیں بلکہ عقائد کی عصر حاضر کی نفسیات کے مطابق تعبیر کرنا ہے۔خدا خدا ہی رہے گا ، رسول رسول ہی رہے گا ، قیامت قیامت ہی رہے گی ، ختم نبوت ختم نبوت ہی رہے گی۔لیکن آج کی نسل کو اس کی نفسیات اور ماحول کے مطابق یہ باتیں سمجھنانے کی بہر حال ضرورت ہے جس کی طرف ہم اجتماعی طور پر نہیں آ رہے۔ اقبال نے تو یہ بات فقہ کے دائرے میں کی تھی، یعنی دین کے علماء اور سماج کے علماء۔وہ فقہ کی تشکیل نو کے داعی تھے ، یہ انفرادی و اجتماعی طور پرکسی نہ کسی حد تک ہو رہی ہے۔ لیکن کلام و عقائد کے باب میں شاید کوئی کوشش ہو رہی ہو، لیکن کوئی قابل ذکر نہیں۔
میں نے اپنے دو تین بزرگوں کو یہ تجویز دی تھی کہ ہم "شرح العقائد" پڑھاتے ہیں جو کہ یونانی فلسفے کے تناظر میں ہے ۔ اس کی کوئی جلد ثانی لکھے جو مغربی فلسفہ کے تناظر میں ہو۔ ضرورت سب محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ کوئی لکھے۔ یہ وہی کام ہے جو اقبال فقہ میں کروانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے دو طبقے مل جائیں جو قدیم و جدید کے حامل ہوں یا ایک طبقہ جو ان دونوں کا حامل ہو، وہ یہ کام کر لے ، اس کام کی ضرورت بہر حال ہے۔ایک ہی طبقہ ہو تو بہتر ہے جس کی ہمارے قدیم کلامی مباحث پر بہت گہری نظر ہو اور اس کے ساتھ مغربی فلسفہ کو اس کے پورے پس منظر اور اثرات سمیت سمجھتا ہو۔
دوسرا موضوع مذہب اور سائنس ہے ، میں اب تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ ہم نے مذہب اور سائنس کو کیسے آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سائنس نے ترقی شروع کی ہے تو اس کا سامنا مسیحیت سے ہوا اور مسیحیت نے سائنس کے مقابل محاذ کھڑا کر دیا، سزائیں دیں ، فتوے لگائے کہ یہ مباحث کائنات کے نظام میں دخل دینا ہے وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلیلیو کو سزا دی گئی اور تین سو سال کے بعد پوپ بینیڈکٹ نے اس پر معافی مانگی ہے۔
قرآن پاک تو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن نے جہاں علم کی بات کی ہے جیسے پہلی وحی میں فرمایا : عَلَّمَ الاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ، اس میں اتنا عموم ہے کہ اس کو کسی دائرے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، مقصدیت کے اعتبار سے ایک فرق قرآن بیان کرتاہے جس کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ سورہ آل عمران کے آخر میں "اُولُوا الاَلْبَابِ" کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عقل والے وہ ہیں جو اللہ پاک کو یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق پر غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ ہماری آج کی سائنس کا یہ المیہ ہے کہ یہ تجربات بھی کرتی ہے ، مشاہدات بھی کرتی ہے ، یہ دیکھتی ہے کہ "یہ کیا ہے ؟" اور "اس سے فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے ؟" لیکن " یہ کیوں ہے؟" یہ ہماری سائنس کے موضوع میں شامل ہی نہیں ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ مقصدیت کا تعین بھی ضروری ہے۔ قرآن ایک اور جگہ پر کہتا ہے : سَنُرِیھِمْ آیَاتِنَا فیِ الآفَاق وَفِی اَنْفُسِھِمْ۔ یہ سب جنرل اور میڈیکل سائنس ہے، لیکن اس کے بعد کہا : حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ، تاکہ اللہ کی حقانیت تمہارے سامنے واضح ہو۔ یہاں بھی مقصدیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس کا آغاز الحاد سے ہوا تھا لیکن سائنس کا نتیجہ اللہ کی آیات کی تصدیق ہے۔
اور ایک فرق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا، علم نافع اور علم ضار کا۔ اسلام کا سارا فلسفہ علم اسی پر مبنی ہے۔ علم بذات خود علم ہوتا ہے ، اس کا استعمال اس کو نافع یا ضار بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ سائنس کے بارے میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔ مثلاً چارلس اس پر بہت بات کرتا ہے کہ سائنس کو تم انسانیت کے نفع کے لیے استعمال کر رہے ہو یا نقصان کے لیے ؟ اس پر وہ سائنس دانوں کو بہت کچھ کہتا ہے اور ٹھیک کہتا ہے۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی فرمایا کرتے تھے کہ مغرب نے علم میں بہت ترقی کی ہے، لیکن علم کے استعمال کا طریقہ نہیں سیکھا، علم کے استعمال کی اخلاقیات و دائرے نہیں سیکھے۔ خلاصہ یہ کہ سائنس مذہب کے مخالف نہیں ہے اور میرے نزدیک تو بالکل نہیں ہے بلکہ قرآن پاک خود سائنس کی دعوت دیتا ہے ، غوروفکر کی دعوت دیتا ہے مقصد کے اعتبار سے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سائنس کا انسانیت کو کیا فائدہ ہے اور فائدہ بھی صرف دنیا کا نہیں بلکہ آخرت کے فائدہ کو بھی ایجنڈے میں شامل کرنا ہو گا ، تبھی اس کا غلط استعمال کنٹرول میں آ سکتا ہے۔
اس پوری ورکشاپ میں مذہب اور سائنس کے حوالے سے جو اہم نکات زیر بحث آئے، وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ ہمارے ذہنوں میں پہلے ٹائم اور سپیس کا تصور نہایت محدود تھا۔ ہم ٹائم اسی کو سمجھ رہے تھے جو ہمیں روز مرہ زندگی میں سمجھ آ رہا ہے، جو گزر رہا ہے اور کبھی واپس نہیں آئے گا ، ہمیں بس اس گزرے ہوئے وقت کا حساب دینا ہے لیکن اس ورکشاپ کی وساطت سے اس تصور میں تبدیلی آئی اوریہ پتہ چلاکہ ٹائم ایک relativeچیز ہے۔ جس کو ہم ٹائم سمجھ رہے ہیں، وہ ایک اضافی تصور ہے۔ اگر خلا میں چلے جائیں تو اس کو ماپنے کا معیار بدل بھی سکتا ہے۔
2۔ ہمارے ذہن میں ایک تصور یہ تھا کہ سائنس کے مذہب کے خلاف ہونے میں مختلف اطراف سے جبر کا عمل دخل ہے، مثلاً کلیسا کی طرف سے مذہبی جبر وغیرہ۔لیکن ورکشاپ میں زیر بحث آنے والے نکات سے یہ معلوم ہوا کہ یہ اختلاف کسی چیز کا ردعمل نہیں بلکہ سائنس کی nature کا حصہ ہے۔ جیسے جیسے کائنات کی دریافت ہو رہی ہے، ویسے ہی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مذہب کا رویہ بہت سی چیزوں پر سوال نہ اٹھانے کا تھا، لیکن سائنس ان چیزوں پر بھی سوال کھڑے کر رہی ہے۔ اسلوب میں تبدیلی آئی ہے اور مذہب کے بیانیے کے مقابل ایک پورا بیانیہ کھڑا ہو گیا ہے، اس لیے سائنس اور مذہب میں اختلاف کی نوعیت محض ردعمل کی نہیں ہے بلکہ کچھ بہت Original سوالات ہیں جو کسی جبر کا نتیجہ نہیں ہیں۔ جہاں تک مختلف سطح پر ہونے والے جبر کا تعلق ہے تو اس نے سائنس اور سائنس دانوں کے رویے میں یہ چیز شامل کر دی ہے کہ وہ مذہب کے پیرایے میں آنے والی کسی بھی چیز کو بڑی عجلت میں رد کر دیں اور اس عجلت میں بسا اوقات وہ تحقیق وجانچ کے اپنے ہی قائم کردہ معیارات کو بھی استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس سے وہی رویہ جو ابتداء میں اہل مذہب نے سائنس کے لیے اختیار کیا تھا، اب سائنسدان مذہب و اہل مذہب کے لیے اختیار کر رہے ہیں۔
3۔ مذہب میں ذرائع علم میں عقل کو ثانوی حیثیت حاصل ہے ، اول درجہ وحی کا ہے۔ اگرچہ عقل عملی طور پر سب ذرائع سے فائق ہی نظر آتی ہے، لیکن جن ایک مرتبہ عقلی بنیاد پر وحی کو تسلیم کر لیا جائے تو بہت سے امور میں خصوصاً مابعد الطبیعاتی امور میں عقل کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ سائنس میں وحی کی کوئی حیثیت نہیں۔ عقل اور تجربہ ومشاہدہ ہی اتھارٹی ہے۔ عقل کبھی بھی معطل نہیں ہوتی۔ مذہب میں جہاں وحی کی بات آ جائے، وہاں عقل کو چھوڑنے اور سوال نہ کرنے کی بات مانی جاتی ہے اور کئی جگہوں پر سوچ بچار کو بڑھانے پر بھی پابندی لگ جاتی ہے۔لیکن سائنس میں اس کائنات، طبیعات یا مابعد الطبیعات کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس کو سوال سے استثناء حاصل ہو اور اس پر غورو فکر کرنے اور اس کو زیر بحث لانے کی ممانعت ہو۔
4۔ سائنس جو کلیات یا مسلمات بناتی ہے، ان کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی بنیاد تجربہ پر ہے اور بار بار کے تجربہ سے ایک جیسے نتائج کے حصول نے سائنس کو ایک قسم کا اعتماد فراہم کر دیا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے قائم کردہ مقدمات یا کلیات بھی اسی حساب سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، لیکن مذہب کو گزشتہ دو تین صدیوں سے اس چیلنج کا سامنا ہے کہ اس کے مقدمات سائنسی یا عقلی کسوٹی پر یا تو ثابت نہیں ہو پا رہے یا اہل مذہب اس کو ثابت نہیں کر پا رہے۔ اس لیے مذہب و اہل مذہب کا مورال گرتا جا رہا ہے اور سائنس کی طرف توجہ بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اس سے انسانی زندگی میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ انسانی زندگی کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کا جواب سائنس کے پاس نہیں یا اگر جواب ہے بھی تو وہ انتہائی بودا اور غیر تسلی بخش ہے۔ ان پہلوؤں میں جذباتی تسکین، بہت سے نفسیاتی گوشے، دعا و التجا کا جذبہ، برتر ہستی کا فطری تصور، خالق کا خیال اور مقصدیت وغیرہ اہم ہیں۔ مذہبی تصورات بہر حال انسانی جذبات و احساسات کی تسکین و تسلی کا شاید ابھی تک واحد ذریعہ ہیں، مثلاً موت کے بعد کی زندگی میں جزا و سزا کا تصور اور اس کے نتائج، دعا ، التجا ، حصول مدد و مناجات وغیرہ۔
دوسرا یہ کہ مذہب کے بنائے ہوئے مسلمات Questionable نہیں ہیں۔ مذہب بہت سی چیزوں کو صرف مان لینے کی ہدایت ہی نہیں کرتا، اس پر سوال نہ کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ جبکہ سائنس کے کلیات پرہر وقت سوال ہو سکتا ہے۔ یہ Questionable ہیں اور کوئی بھی دلائل کے ساتھ ان پر نہ صرف اعتراض کر سکتا ہے بلکہ ان کو جھٹلا کر کوئی نیا نظریہ بھی دے سکتا ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی فرق ہے۔
5۔ اہل مذہب اور اہل سائنس کے درمیان مسائل کا سب سے بڑا سبب ان کے بیچ کا بعد و دوری ہے۔ بہت سے نظریات کے بارے میں اہل مذہب بات کرتے ہیں کہ سائنس اور سائنسدان یہ کہتے ہیں، لیکن ان کے اصل تناظر کا ان کو کچھ پتہ نہیں، محض سنی سنائی اور سطحی باتوں کی بنیاد پر تاثرات کی عمارت تعمیر کر لی گئی ہے۔ یہی حال سائنسدانوں کا ہے کہ وہ اہل مذہب سے دور بیٹھ کر ان کے خیالات کو اپنے ذہن میں کچھ معنی دے کر ان سے بدظن ہو جاتے ہیں۔اس کا احساس اے ایچ نیر، پروفیسر اشفاق سلیم مرزا اور ڈاکٹر رضوان صاحبان کے ساتھ نشست میں بھی ہوا۔ جناب اے ایچ نیر نے دوران گفتگو یہ سوال کیا کہ آپ لوگ یہ بتائیں کہ اجتہاد کیا ہوتا ہے اور اس کا دائرہ کار اور حدود کیا ہیں ؟ اس سوال سے پہلے انہوں نے کائنات میں مختلف دریافتوں کے بعد پیدا ہونے والے سوالات کا تذکرہ کیا اور ان کے بارے میں پوچھا کہ کیا ان کے بارے میں اجتہاد ہو سکتا ہے ؟؟ اس پر مولانا عمار خان ناصر نے اسلامی شریعت میں اجتہاد کی حیثیت کو بڑی عمدگی سے واضح کیا، لیکن وہاں لوگوں کی Body language یہ بتا رہی تھی کہ وہ اجتہاد کے اس دائرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اپنے ذہن میں اجتہاد کا مفہوم اور دائرہ کار اس مفہوم اور دائرہ کار سے مختلف ہے جو کہ ہمارے اسلامی لٹریچر میں حقیقتاً ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے جس کا اظہار ڈاکٹر رضوان صاحب نے کیا کہ اہل مذہب کی طرف سے ہمیں اس رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان سائنسدانوں کو کیا پتہ ہے، یہ تو بے وقوف لوگ ہیں اور اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہل مذہب کم از کم ہمیں بے وقوف تو نہ کہیں اور نہ سمجھیں۔
6۔ سائنس کے حوالے سے مختلف لوگوں کی گفتگو سننے سے یہ تاثر بھی ذہن میں آیا کہ کائنات کی تخلیق کی وضاحت میں سائنس کے پیراڈائم میں بھی بہت سے گوشے ایسے ہیں جن کی سائنس دان کوئی تسلی بخش توضیح نہیں کر سکتے اور ان کے مفروضات اس کی توجیہ نہیں کر پاتے، مثلاً روشنی کے Particle like behavior اور Wave like behaviorمیں weirdness کا مشاہدہ۔ گویا کائنات اور فطری عوامل کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جن کی کوئی قابل قبول تعبیر عقلی حوالے سے ابھی تک ممکن نہیں۔
7۔ مذہب کے نمائندگان کی طرف سے سائنس کے نمائندوں سے یہ دریافت کیا گیا کہ سائنس کے نظریات کون سا اٹل ہیں۔ یہ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ آج ایک نظریہ ہے تو کل کوئی نئی تحقیق اس کو رد کر کے دوسرا نظریہ پیش کر دے گی۔ پھر ان پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟ اس کی وضاحت میں اے ایچ نیر اور ڈاکٹررضوان صاحب نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ سائنس کا کوئی نیا نظریہ آنے سے پرانے نظریہ کی بالکلیہ نفی ہو جاتی ہے بلکہ نئے نظریہ کے باوجود بہت سی چیزوں کی وضاحت پرانے نظریات سے ہی ہوتی ہے ، اکثر اوقات نئے نظریات کچھ gaps کو پر کرنے کے کام آتے ہیں۔ پرانے نظریات اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور ان کی اہمیت بھی مخصوص دائروں میں مسلم رہتی ہے۔
ورکشاپ میں ہر لیکچر کے بعد انڈیا و پاکستان کے شرکاء کو بحث ومباحثہ کا موقع دیا جاتا تھا جس میں وہ لیکچر کے مندرجات پر کھل کر گفتگو کرتے اور اپنے سوالات مقررین کے سامنے رکھتے۔ مقررین سوالات کو سن کر اہم اور بنیادی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتے۔ آخری دن کورس کے شرکاء کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ اپنے دلچسپی کے کسی موضوع پر presentation پیش کریں اور پوری ورکشاپ کے بارے میں اپنے تاثرات کورس کی ویب سائٹ پر قائم Discussion forum پر ڈال دیں تاکہ تمام شرکاء ایک دوسرے کی آراء سے استفادہ کر سکیں۔