نظری آراء کا اختلاف نہ مضر ہے نہ اس کو مٹانے کی ضرورت ہے، نہ مٹایا جاسکتا ہے۔اختلاف رائے نہ وحدت اسلامی کے منافی ہے نہ کسی کے لیے مضر، اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے جس سے نہ کبھی انسانوں کا گروہ خالی رہا نہ رہ سکتا ہے۔ یہ اختلاف خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں بھی ہوتا رہا اور خلفاء راشدین اورعام صحابہ کرامؓ کے عہد میں امور انتظامیہ کے علاوہ نئے نئے حوادث اور شرعی مسائل جن کا قرآن و حدیث میں صراحتاً ذکر نہ تھا ، ان کے استخراج میں جب انہیں اپنی رائے اور قیاس سے کام لینا پڑاتو ان میں اختلاف رائے ہوا جس کا ہونا عقل و دیانت کی بنا پر ناگزیر ہے۔اسی طرح بعد میں تابعین عظام کا عمل بھی ہر ایک اہل علم کے سامنے ہے؛ لیکن صحابہ وتابعین کے اس پورے خیر القرون میں اس کے بعد ائمہ مجتہدین اور ان کے پیروؤں میں کہیں ایک واقعہ ایسا سننے میں نہیں آیا کہ ایک دوسرے کو گمراہ یافاسق کہتے ہوں یاکوئی مخالف فرقہ اور گروہ سمجھ کر ایک دوسرے کی اقتدا کرنے سے روکتے ہوں یا ان اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل یا سب وشتم ، توہین و استہزا کا بازار گرم کرتے ہوں؛بلکہ ان مقدس زمانوں میں ایسا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
اما م ابن عبدالبر قرطبی اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم‘‘ میں سلف کے باہمی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں :
’’ہمیشہ اہل فتاوی فتویٰ دیتے رہے ۔ ایک شخص غیر منصوص مسائل میں ایک چیز کو حلال قرار دیتا ہے اور دوسرا اسے حرام قرار دیتا ہے، مگر نہ حرام کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حلال ہونے کا فتویٰ دیا، وہ ہلاک اور گمراہ ہوگیا نہ حلا ل کہنے والا یہ سمجھتا ہے‘‘ (وحدت امت از مفتی محمد شفیع)
ہندوستان میں بھی انگریز کے برسر اقتدار آنے سے پہلے علماء کا آپس میں بعض مسائل و معمولات میں اختلاف ہونے کے باوجودایک دوسرے کے لیے احترام کا جذبہ غالب تھا۔
’’دیوبند و بریلی اختلافات سے مشترکات تک ‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون الشریعہ نامی ویب سائٹ پر نظر سے گزرا ۔ صاحب مضمون کی فرقہ واریت اور مسلکانہ رنجشوں اور کدورتوں کی تلافی کے لیے لکھی جانے والی تمہید نے متاثر کیا۔لیکن پورا مضمون پڑھ کر افسوس ہوا کہ عنوان اور تمہید تو اس قدر خوبصورت لیکن اندر سے مضمون سراسر بریلوی مکتب فکر کی ترجمانی۔
آنے والی سطور میں ہم غیر جانب دارانہ طریق سے دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کے نزاع اور صاحب مضمون کی بریلوی مکتب فکر کی ترجمانی کا جائزہ لیں گے۔
دیوبندی بریلوی مناقشہ :بحث مباحثہ سے مناظرہ تک‘‘ پر ایک نظر
بعض حضرات اور شاید صاحب مضمون بھی ناواقفیت کی وجہ سے خیال کرتے ہیں کہ مروجہ میلاد شریف، عرس، قیام ، قوالی، فاتحہ ، نذرونیاز وغیرہ یا دسواں، بیسواں، چالیسواں، برسی وغیرہ کے بدعت یا غیر بدعت ہونے میں دیوبندی مکتب فکر اور بریلوی مکتب فکرکے علماء میں جو اختلاف ہے یہی ان دونوں مکاتب فکر کے اختلاف کی بنیاد ہے۔ لیکن ایسا سمجھنا درست نہیں ہے کیونکہ ان مسائل میں اختلا ف کا تذکرہ اس وقت سے ہے جب بریلوی یا دیوبندی لفظ کسی خاص مسلک کا ترجمان بنا تھا نہ عا م لوگ ان ناموں سے آشنا تھے۔ شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کی کتاب ’’ماءۃ مسائل‘‘ میں مندرجہ بالا مسائل کی تفصیل موجود ہے جو دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کے مدارس کے قیام سے پہلے کی کتاب ہے۔علاوہ ازیں ان مسائل کی یا ان جیسے دیگر مسائل کی حیثیت کسی بھی فریق کے ہاں ایسی نہیں ہے کہ ان کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کسی مسلما ن کو کافر اور خارج از اسلام کہا جاسکے۔
جہاں تک مضمون نگار نے مولانا شاہ اسماعیل دہلوی اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے اختلاف کا ذکر کیا ہے تومولانا شاہ اسماعیل شہید دہلویؒ اور مولانا خیر آبادی کے درمیان مسئلہ امکان نظیر وغیرہ پر اختلاف تھا ۔ یہ اختلاف خالصتاًعلمی اختلاف تھا۔ دراصل شاہ اسماعیل دہلوی نے’’ تقویۃ الایمان‘‘ میں عموم قدرت باری تعالی کے تحت یہ لکھا کہ ’’اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو لاکھوں ، کروڑوں نبی ولی جن و فرشتے جبرئیل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کرڈالے ‘‘اس پر مولانا فضل حق خیر آبادی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام صفات کاملہ میں مثل اور نظیر محال ہے ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں؛ مولانا شاہ اسماعیل دہلوی اور مولانا فضل حق خیرآبادی کے درمیان اتنی بات متفق علیہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل نہ موجود ہے اور نہ ہوسکتا ہے، اختلاف اس پر تھا کہ نظیر کیوں نہیں ہوسکتی؟ علامہ فضل حق خیر آبادی کے نزدیک ممتنع بالذات ہے اور مثل مذکور مستلزم کذب باری ہے جب کہ مولانا شاہ اسماعیل دہلوی صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’اس مقام پر اس قدرثابت کرنا مقصود ہے کہ مثل مذکورقدرت الہیہ کے تحت داخل ہے مثل مذکورکا وقوع ثابت کرنا مقصود نہیں۔‘‘ (رسالہ یک روزی ص۱۳۸)
آگے لکھتے ہیں:
’’ ہاں البتہ مثل مذکورکے وقوع کا قول کرنا کذب باری کو جائز ماننا ہے معاذاللہ من ذالک ، رہا مثل مذکور کے امکان کا قول کرنا پس وہ کذب باری کے امکان کو مستلزم نہیں‘‘(یک روزی ص ۱۴۴)
آپ دیکھ رہے ہیں ساری بحث امکان نظیر کی ہے وقوع یا اثبات نظیرکو مولانا شہید بھی صحیح نہیں سمجھتے۔رہی بات یہ کہ کیا مولانا شہید سے پہلے بھی کسی نے اس قسم کی مثال دی ہے تو اس ضمن میں تفسیر رازی سے امام رازی کا قول پیش کرتا ہوں۔ امام رازیؒ قرآن پاک کی آیت: ’’وَلَو شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِی کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیرًا‘‘ (سورۃ الفرقان: ۵۱) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے اس بات پر کے ہر بستی کے اندر ایک رسول ایک نذیر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) جیسا پیدا کردے‘‘۔
بتاےئے کیا فرق ہے، اما م رازی ؒ اور شاہ اسماعیل دہلوی ؒ کی’’ تقویۃ الایمان‘‘ والی مثال میں؟
اس کے علاوہ ایک غیر جانب دار شہادت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فضل حق خیر آبادی نے شاہ اسماعیل دہلوی شہید کے خلاف اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (دیکھیں ’’امیرا لروایات‘‘ روایت امیر شاہ خان عن مفتی عنایت اللہ مرحوم)
مولانا فضل حق خیر آبادی جب مولانا شاہ اسماعیل دہلوی کے مخالف تھے تو مولانا خیرآبادی کے شاگرد مولانا سراج الدین لکھنوی اس مسئلہ میں شاہ اسماعیل دہلوی کے ساتھ تھے اپنے استاد کے ساتھ نہ تھے۔ اس سے مولانا خیر آبادی کے اختلاف کا وزن آسانی سے معلوم ہوسکتا ہے ۔ مولانا سراج الدین نے اس مسئلہ میں مولانا خیر آبادی کے خلاف ایک رسالہ بھی لکھا جس کانام تھا’’امکان نظیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم و امتناعہ‘‘دیکھیے مورخ الہند مولانا عبدالحئی لکھنوی کی کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ج ؍۷ )
اس کے علاوہ مولانا حیدر علی رام پوری جو کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ کے شاگرد رشید تھے نے بھی مولانا فضل حق خیر آبادی کے رد میں متعدد رسائل لکھے۔
مولانا شاہ اسماعیل دہلوی کے بارے میں بدلے موقف کی تائید مولانا فضل حق خیر آبادی کے صاحبزادے مولانا عبدالحق خیرآبادی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے ۔مولانا احمد رضاخان بریلوی کی مولانا عبدالحق خیر آبادی سے جو گفتگو ہوئی، اسے ہم المیزان کے’’ احمد رضانمبر‘‘ سے نقل کرتے ہیں:
’’(مولانا عبدالحق خیر آبادی صاحب نے مولانا احمد رضاخان بریلوی سے) پوچھابریلی میں آپ کا کیا شغل ہے؟ فرمایا تدریس و تصنیف اور افتاء۔ پوچھا کس فن میں تصنیف کرتے ہو؟ اعلی حضرت نے فرمایا جس مسئلہ دینیہ میں ضرورت دیکھی اور رد وہابیہ میں۔علامہ نے فرمایا، آپ بھی رد وہابیت کرتے ہیں ،ایک وہ ہمارا بدایونی خبطی ہے کہ ہر وقت اس خبط میں مبتلا رہتا ہے‘‘ (ص ۳۳۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا شاہ اسماعیل کے بارے خیرآبادی حضرات کا وہ موقف نہ تھا جو بدایونیوں اور بریلی کے حضرات کا تھا۔ اور وہ اس اختلاف کی شدت کو محض خبط کے علاوہ اور کچھ نہ تصور کرتے تھے۔
مولانا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی مرحوم کی تحقیق میں مولانا خیرآبادی اورمولانا شاہ اسماعیل شہید میں جو بھی اختلاف تھا وہ محض اجتہادی تھا،ہدایت و ضلالت کا اختلاف نہ تھا۔پیر صاحب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر کے متعلق سوال کیاگیا تو آپ نے یوں جواب دیا:
’’اس مقام پر امکان یا امتناع نظیرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنا مافی الضمیرظاہر کرنا مقصود ہے نہ تصویب یا تغلیظ کسی فریقین کی اسماعیلیہ و خیر آبادیہ میں سے شکراللہ تعالی سعیہم ۔راقم سطور دونوں کو ماجورو ثواب جانتاہے۔‘‘ (فتاوی مہریہ ص۱۱)
حکیم محمود احمد برکاتی صاحب جن کی تعریف بریلوی مکتب فکر کے مولانا عبدالحکیم شرف قادری صاحب نے بھی کی ہے ۔ (آپ فطری طور پر خیرآبادی خانوادہ سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے اور وقتا فوقتا اکابر خیر آبادی کی خدمات پر علمی اور تحقیقی کام کرتے ہیں )لکھتے ہیں۔
’’مگر اس کے باوجود انہوں نے(یعنی شاہ اسماعیل شہید نے)جہاد کیا اور خداکی راہ میں جان دے دی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے افکارامتناع نظیر، امکان کذب ، شفاعت وغیرہ متعددہ سے ہمیں اختلاف ہے ۔ہمارے بزرگوں نے انہیں بروقت ٹوکااور برحق ٹوکامگر مجاہدو شہید ہونے سے انکار کی جرأت ہم میں نہیں ہے، دل کانپتا ہے۔‘‘ (مولانا حکیم سید برکات احمد، سیرت اور علوم، ص۲۸۱،۲۸۲)۔
جہاں تک دیوبندی بریلوی اختلاف کو سمجھنے کے لیے صاحب مضمون نے مولانا قاسم نانوتوی مرحوم کی ’’تحذیر الناس‘‘ کا ذکر کیا ہے تو یہ اختلاف بھی دیوبندی بریلوی اختلاف کی بنیا د قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ مولانا قاسم نانوتوی نے اثر ابن عباسؓ کی تشریح و توضیح کی ، چونکہ اثر ٹھیک تھا تو ایسا مضمون و مفہوم بیان فرمایا کہ جس سے عقیدہ ختم نبوت بھی دلائل سے بیان ہوگیا اور روایت کا بھی صحیح مطلب بیان کرکے رد ہونے سے بچایا۔دوسرا یہ کہ علماء کی آراء میں اختلاف ہوجاناکوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی باوجود اثر ابن عباسؓ کی تشریح و توضیح میں اختلاف کے تادم زیست مولانا قاسم نانوتوی کے ساتھ اخوت و محبت کے ساتھ پیش آتے رہے جیسا کہ’’ عمدۃ الرعایہ‘‘ کے مقدمہ سے معلوم ہوتا ہے۔باقی مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا عبدالحئی لکھنوی کا اس اثر کے حوالے سے تقریبا اتفاق ہے اورمولانا عبدالحئی لکھنوی نے اثر ابن عباسؓ کی تصحیح پر باقاعدہ ایک رسالہ ’’زجر الناس علی انکاراثرابن عباس ضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ لکھااور اس روایت کے مضمون کودرست سمجھا۔جب کہ بریلوی مکتب فکر کے ممتاز علماء محض’’ اثر ابن عباس‘‘ کے مضمون کو درست سمجھنے والے کو ختم نبوت کا منکر سمجھتے ہیں۔(دیکھیے عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ص ۶۰ ) ۔ باقی مولانا اشرف علی تھانوی کے کہنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہندوستان کے اہل علم حضرات نے مولانا قاسم نانوتوی کے اس نقطہ سے دلائل کی بنیاد پر اعتراض کیامگر اس نقطہ کو بنیاد بنا کر تکفیر کسی نے نہیں کی۔
انوار ساطعہ
اسی طرح مضمون نگار نے ’’انوار ساطعہ‘‘ کو دیوبندی بریلوی اختلاف کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ ’’ انوار ساطعہ‘‘ کے بارے میں بتاتا چلوں کہ انوار ساطعہ مولانا عبدالسمیع رامپوری نے ۱۳۰۲ھ (الشریعہ ویب سائٹ کے مضمون پرکتاب کا سن طباعت کتابت کی غلطی سے ۲۰۳۱ھ لکھا ہے) میں’’ انوار ساطعہ دربیان مولود فاتحہ‘‘ لکھی جس کے جواب میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے۱۳۰۴ھ میں ’’براہینِ قاطعہ علی ظلام انوار ساطعہ‘‘ لکھی۔ صاحب مضمون نے انوار ساطعہ پر معاصرین علماء کی تقاریظ اور براہین قاطعہ پر کسی تقریظ کے نہ ہونے سے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انوار ساطعہ میں موجود نظریات و معمولات تو اہل السنۃوالجماعۃ کے مصدقہ ہیں جب کہ براہین قاطعہ میں موجود عقائد و معمولات خود ان علماء کے تراشیدہ ہیں ۔ اول تو براہین قاطعہ تقاریظ کے لیے دیگر ہم عصر علماء کو پیش ہی نہیں کی گئی دوم انوار ساطعہ میں جن مسائل کو اختلافی بتایا گیاہے ہندوستان کے اکابر علماء اس پر اپنی رائے پہلے سے ہی دے چکے تھے۔ ذیل میں بریلوی دیوبندی مسلکی نسبتوں سے پہلے کے اکابر علماء کے معمولات و عقائد کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ (۹۷۱ ؍ ۱۰۳۴ ھ)
’’ہرگاہ ہر محدث بدعت است و ہربدعت ضلالت،پس معنی حسن در بدعت چہ بود‘‘
ترجمہ .......’’جب ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے پس بدعت میں حسن وخوبی کے کیا معنی؟‘‘
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا یہ قول آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔حق جو باطل کے پردوں میں مستور ہوگیا تھا آپ نے مجددانہ عزیمت سے اور مجاہدانہ جدو جہد سے اسے اصلی صورت اور اصلی شان میں دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ عاجز کے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’بدعت حسنہ ‘‘ کی پردہ دری ہے ۔آپ سے اس دور میں کہ جب دیوبندی بریلوی مدارس قائم نہیں ہوئے تھے اور’’ انوار ساطعہ دربیان مولود و فاتحہ‘‘ اور’’ براہین قاطعہ‘‘ جیسی کتب بھی معرض وجود میں نہیں آئیں تھیں مولودخوانی سے متعلق پوچھا گیا کہ ’’خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا اور نعت و منقبت کے قصائد(خوش الحانی کے ساتھ) پڑھنے میں کیا مضائقہ ہے؟۔
حضرت امام ربانی ؒ اس کا انتہائی بصیرت آمیز جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’میرے مخدوم ! فقیر کے دل میں آتا ہے کہ جب تک اس دروازہ کو مطلق طور پر بند نہ کریں گے اس وقت تک ابوالہواس باز نہیں آئیں گے اگر تھوڑا سا بھی جائز کریں گے تو بہت تک پہنچ جائے گا مشہور مقولہ ہے تھوڑا زیادہ کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی دفتر سوم ،مکتوب نمبر ۷۲)
ملاحظہ فرمائیں کہ امام ربانی تو ایسی محفل میلاد کو جس میں قرآن خوانی اور نعت خوانی ہو کبھی جائز نہیں سمجھتے ۔بعینہ ایسے ہی مفہوم کا سوال جب علماء دیوبند میں سے مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب سے پوچھا گیا توآپ کا جواب بھی یہی تھا جو امام ربانی مجددالف ثانی کے مکتوب میں درج ہے کہ اس زمانہ میں ایسی مجلس مولود جس میں کوئی خلاف شرع امور نہ ہوں، درست نہیں۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ
اما م ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے زمانہ میں ہی ایک اور عظیم شخصیت حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تھی۔آپ نے عقائد اہل سنت اور معمولات اہل سنت کوصحیح شکل میں رکھنے کے لیے جو کاوشیں کی وہ قابل تحسین ہیں۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ایک جگہ لکھتے ہیں’’باجماعت نفل ادا کرنا مکروہ ہے ‘‘(ماثبت بالسنہ)حضرت شیخ جماعت کے ساتھ نوافل ادا کرنے کو مکروہ فرما رہے ہیں جب کہ بریلوی مکتب فکر کے حضرات کے معمولات میں سے ہے کہ خصوصاً ۲۷؍ رمضان اور ۱۵؍ شعبان کی راتوں میں نوافل کی جماعت ہوتی ہے اور ا سکے لیے باقاعدہ اعلانات کیے جاتے ہیں۔اسی طرح نماز کے بعد مصافحہ کرنے کو حضرت شیخ بدعت کہتے ہیں۔ (اشعۃ اللمعات ج ۴ ص ۲۴) حضرت شیخ قبروں پرقبوں کے جواز کے بھی قائل نہیں ہیں۔ (شرح سفر السعادۃص ۳۴۹)اسی طرح میت کے کفن پر کچھ بھی لکھنے کو ناجائز فرماتے تھے۔ (مکتوبات شیخ: مکتوب نمبر۶۴)
قارئین کرام! یہ وہ معمولات ہیں جو بریلوی مکتب فکر کے لوگوں میں بڑی شدومدسے رائج ہیں اور ان کے خلاف کرنے والوں کو بریلوی مکتب فکر کے حضرات وہابی یا اہل سنت سے خارج قراردیتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کی وفا ت کے ۸۰؍ سال بعد اور عالمگیر بادشاہ کی وفات سے چار سال پہلے اما م الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نواح دہلی میں پیدا ہوئے۔شرک و بدعات اور ہندوانہ چلن جو حضرت مجدد ،شیخ عبدالحق اور سلطان عالمگیرؒ کی جدوجہد سے مٹنے لگے تھے ، سلطان عالمگیر کی وفات کے بعد پھر سر اٹھانے لگے۔ نام نہاد فقرا اورصوفیہ فقر کی بساط بچھا کر سادہ لوح مسلمانوں کے مال اور ایمان پر ڈاکہ ڈالنے لگے۔حجر پرستی کی جگہ قبر پرستی نے لے لی۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اور سب سے بڑی بدعت جو لوگوں نے اختراع کی وہ قبورکے بارے میں ہے اور ان قبروں کوانہوں نے عید بنا رکھا ہے‘‘(تفہیمات الٰہیہ ج ۲ص۶۴)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’جو اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی یا سالار مسعود غازی کے مزار پر اس لیے گیا کہ وہاں اپنے لیے دعا کرے گا اور وہاں ضرور دعا قبول ہوگی تو اس نے بڑا گناہ کیااور یہ ایسے ہے جیسے کو ئی بتوں کو پوجے یا لات وعزیٰ کو پکارے۔‘‘ (ایضاًص ۴۵)
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ اس وقت بھی ایسے لو گ پورے پھیلاؤکے ساتھ موجود تھے جس طرح کے نظریات کے حامل لوگ شہرِ خرافات میں آج موجود ہیں۔
علم غیب کے متعلق لکھتے ہیں:
’’پھر جان لیجیے کہ لازم ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے واجب الوجودجل مجدہ کی صفات کی نفی کی جائے جیسے علم غیب اور عالم کی تخلیق وغیرہ اور ان امور کی کمی ہرگز ان کی شان میں کمی نہیں کرتی‘‘ (ایضاً ص ۲۴)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ :
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے اور جانشین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں:
’’شرک وکفر کی باتوں میں سے ہے کہ ائمہ و اولیاء کا رتبہ انبیاء علیہم السلام کے برابر جاننا،انبیاء علیہم السلام کے لیے لوازم الوہیت جیسے علم غیب کا عقیدہ رکھنا،ہر ایک کی پکار ہر ایک جگہ سے سن لینا تمام مقدورات پر ان کی قدرت(مختار کل)ماننا۔‘‘ (تفسیر عزیزی ج۱،ص ۵۲)
شاہ صاحب محدث دہلوی زیارات قبور کے لیے کوئی دن مقرر کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’زیارا ت قبور کے لیے کوئی دن مقرر کرنا بدعت ہے‘‘ (فتاوی عزیزی)
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ
قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی جنہیں بیہقی وقت کہتے تھے، لکھتے ہیں: اولیاء کی قبور پر جواونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغاں کرتے ہیں اور اس قسم کے جتنے کام کرتے ہیں سب حرام یا مکروہ (تحریمی) ہیں۔ (مالابد منہ ص ۸۶)
دسواں، چالیسواں ،برسی کے متعلق وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میرے مرنے کے بعد دنیوی رسمیں مثلاًدسواں اور بیسواں اور چالیسواں اور ششماہی اور سالانہ برسی عر س کچھ بھی نہ کریں‘‘(مالابدمنہ ص ۱۶۱)
شاہ محمداسحاق محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:
’’میت کے دفن کرنے کے بعد قبرپر اذان مکروہ ہے اس لیے کہ احادیث سے اس کا ہونا معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ (ماءۃ مسائل،ص۶۴)
ملاحظہ فرمائیں کہ دیوبندی مکتب فکر کے علماء نے براہین قاطعہ میں کوئی نئے معمولات یا عقائدمتعارف نہیں کروائے تھے بلکہ وہی عقائد و معمولات جوہندوستان میں سلف و خلف سے چلتے آرہے تھے، بیان کیے۔
ہندوستان کے اکابر علماء کے معمولات و عقائد سے کس نے اختلاف کیا؟
حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تجدیدی فکر اور اما م الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے جانشینوں کی علمی سوچ سے سب سے پہلے مولانا فضل رسول بدایونی (۱۲۱۳ھ ،۱۲۸۹ھ)نے اختلاف کیا۔ انگریز دور میں سرکار کے ملازم تھے۔ مشہور مؤرخ پرفیسر ایوب قادری صاحب لکھتے ہیں:
’’مولوی فضل رسول بدایونی حکومت انگریزی کی ملازمت میں اول مفتی عدالت اور پھر کلکٹر میں رشتہ دار رہے۔‘‘ (تذکرہ علماء ہند ص ۳۸۲،۳۸۱))
مولانا فضل رسول بدایونی کی اکثر تصانیف انگریز ملازمین کی اعانت سے چھپتی تھیں۔ پروفیسر محمد ایوب قادری بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مولوی فضل رسول بدایونی کی تصانیف کی طباعت کے سلسلہ میں ایک بات خاص طور پر نوٹ کی کہ ان کی اکثر تصانیف کسی نہ کسی سرکاری ملازم کی اعانت سے شائع ہوئیں ۔‘‘ (جنگ آزادی 1857ء ص۶۳)
مولانا پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے اقتدار علمی پر حملہ کیا ۔حضرت شاہ اسماعیل ؒ اور حضرت شاہ محمد اسحق دہلویؒ تو ایک طرف آ پ نے مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار ونظریات سے بھی اختلاف کیا۔ مشہور غیرمقلدمؤرخ محمد اسحاق بھٹی صاحب نے جو مولانا کے متعلق لکھا ہے، وہ کافی حدتک درست لکھا ہے اور مولانا فضل رسول بدایونی کی کتب اس پر صادق آتی ہیں۔لکھتے ہیں:
’’مولانا فضل رسول بدایونی بہت بڑے فقیہ اور مجادلہ و مناظرہ میں مشہور تھے۔ اپنے مسلک اور نقطۂ نظر میں سخت متعصب تھے۔ علماء سے مخاصمت اور بحث و جدل میں تیز تھے۔ مولانا اسماعیل شہید کی تکفیر کرتے تھے اور انہوں نے جو بدعات و رسومات کی تردید کی ہے، اسے غلط قرار دیتے تھے۔ بعض مسائل کی وضاحت کے سلسلے میں حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو بھی ہدف تنقید بنا لیتے اور اس ضمن میں بہت آگے نکل جاتے۔‘‘ (فقہائے پاک و ہند تیرہویں صدی ہجری، جلد سوم )
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے بارے ’’بوارق محمدیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’شاہ ولی اللہ دہلوی کی ان کتابوں پر مطلع ہوئے تو ان کی(یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی) کی کتابوں کلمات فرقہ ظاہریوں(وہابی، نجدیوں)نے بہت دخل پایا۔اگرچہ دوسری جگہ اس کے خلاف بھی پایا جاتا ہے‘‘ (شوارق صمدیہ ترجمہ بوارق محمدیہ ص ۶۰) ۔
مولانا فضل رسول بدایونی کے خلاف شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگردمولانا سراج احمد سہسوانی نے رسالہ ’’سراج الایمان‘‘ لکھا۔
مولانا احمد رضاخان بریلوی اما م ربانی مجدد الف ثانی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’کوئی مجددی ان کے قول(یعنی مجدد الف ثانی کے قول)سے استدلال کرے تو وہ جانے۔ ہم تو ایسے شخص کے غلام ہیں جس نے جو بتا یا وحی سے بتایاخدا کے فرمانے سے کہا۔‘‘ (ملفوظات اعلی حضرت حصہ ۳ ص ۷۰)
مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی مکتب فکر میں جنہیں حکیم الامت جانا جاتا ہے، لکھتے ہیں:
’’حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب و قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ بیشک بزرگ ہستیاں ہیں؛ لیکن یہ حضرات مجتہد نہیں تاکہ کراہت تحریمی و حرمت فقط ان کے قول سے ثابت ہو، اس کے لیے مستقل دلیل شرعی کی ضرورت ہے‘‘ (جاء الحق ص ۲۹۴)
مولانا محمد عمر اچھروی مولانا احمد رضاخان بریلوی کے شاگردمولانا محمد حسین صاحب کے ہاں زیر تعلیم رہے ۔ تذکرہ اکابر اہل سنت میں مولف مولانا عبدالحکیم شرف قادری صاحب( جن کے بارے میں بریلوی مکتب فکر کے مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی منیب الرحمان صاحب چئیر مین روئیت ہلال کمیٹی لکھتے ہیں کہ بریلوی مسلک میں یہ حجت و سند کا درجہ رکھتے ہیں) انہیں اپنے اکابر میں شمارکرتے ہیں مولانا عمر اچھروی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جب (حرمین شرفین سے)واپس پہنچے تو حالت دگرگوں ہوچکی تھی۔ اور اپنے والد ماجد کا عطیہ ولایت بھی کھو بیٹھے تھے حتی کہ والد ماجد کے سلجھے ہوئے مریدین نے جب ہتک آمیز کلمات بزرگوں کی شان میں سنے تو دست افسوس ملتے ملتے علیحدہ ہوگئے۔محمد بن عبدالوہاب کے عقیدہ کی چند کتابیں بلاغ المبین وغیرہ انبیاء و اولیاء کی توہین میں شائع کیں............دہلی میں شور برپا ہوگیا شاہ ولی اللہ وہابی ہوچکاہے۔ چنانچہ حیات طیبہ کے ص ۱۲؍ پر درج ہے کہ تما م علماء اسلام نے متفقہ طور پر فتوی کفر صادر کئے تو شاہ صاحب کا جدی و علمی وقار ہباء منثورا ہوگیا۔‘‘ (مقیاس حنفیت ص ۵۷۶)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ان دو حضرات نے ابھی اپنے دادا کے حنفی مذہب کو پسند فرمایا۔ لیکن آبی اثر ضرور ہوتا ہے کچھ نہ کچھ شاہ ولی اللہ صاحب کا معمولی سا رنگ چڑھا۔‘‘ (ایضاً ص ۵۷۷)
قریب قریب یہی کچھ مولانا شاہ تراب الحق قادری صاحب کے اہتمام سے لکھی جانے والی کتاب ’’مکمل تاریخ وہابیہ‘‘ ص ۷۲ تا۷۹ پر بھی درج ہے۔ ممبئی سے المیزان کا احمد رضا نمبر چھپا تھا جس میں مولانا سید عبدالکریم علی ہاشمی یوں رقم طراز ہیں:
’’اس مذہب کے آخری اما م ابن عبدالوہاب جس نے یہ طریقہ اپنے شیخ طریقت شیخ محمد حیات سندھی سے لیاہے اور اس نے مدینے کے ۲۷ استادوں سے لیا ہے شیخ احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ان ہی محدثین میں سے پانچ اصحاب حدیث سے حدیث سند حاصل کی ہے چنانچہ سب سے پہلے آپ مدینہ سے وہابی مذہب ہندوستان لے کر آئے۔‘‘ (المیزان کا امام احمدرضانمبرص ۶۱۰)
مولوی غلام مہر علی چشتیاں مولف ’’دیوبندی مذہب‘‘ لکھتے ہیں:
شاہ ولی اللہ نے ہگا، شاہ عبدالعزیز نے اس پر مٹی ڈالی مگر اسماعیل نے اسے ننگا کرکے سارے ملک کو متعفن کردیا۔‘‘ (عصمۃالنبی ص ۷،۸)
اس پورے پس منظر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ ہندوستان میں دیوبندی مکتب فکر سے پہلے کے علماء و اکابرین سے عقائد و معمولات میں اختلاف کرنے والے حضرات بریلوی مکتب فکر سے ہیں اختلاف کا جو تخم مولانا فضل رسول بدایونی نے بویا تھا، وہ احمد رضاخان ، مفتی احمد یار نعیمی، مولانا عمر اچھروی ، شاہ تراب الحق قادری اور مولانا غلام مہر علی چشتی کی صورت میں تناور درخت بن چکا ہے۔مولانا شاہ اسماعیل دہلوی اور مولانا فضل حق خیر آبادی کا اختلاف تو بعد کی بات ہے۔
مقرظین انوار ساطعہ
اب آتے ہیں انوار ساطعہ پرتقاریظ لکھنے والے علماء کی طرف توانوار ساطعہ پر تقاریظ لکھنے والے علماء باوجود بعض معمولات میں اجتہادی و فکری رائے کے اختلاف کے دیوبندی مکتب فکر کے علماء کی تکفیر و تفسیق نہیں کرتے تھے بلکہ باہمی عقیدت و احترام کے ساتھ تعلقات قائم تھے بلکہ بعض نے تو مولانا احمد رضاخان کی تکفیری کاوشوں کی حوصلہ شکنی کی۔ بعض علماء نے انوار ساطعہ کی بعض جزیات سے اپنی کتب میں اختلاف بھی کیا۔ذیل میں اس ضمن میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
۱۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ جو مولانا عبدالسمیع رامپوری کے پیرو مرشد ہیں، ’’ضیاء القلوب ‘‘میں مولانا رشید احمد گنگوہی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جوشخص مجھ سے عقیدت رکھے، و ہ مولوی رشیداحمد صاحب سلمہ سے اور مولوی محمد قاسم صاحب سلمہ کو میری جگہ بلکہ مجھ سے بلندمرتبہ سمجھے، اگرچہ ظاہر میں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ میں ان کی جگہ پر ہوں اور وہ میری جگہ پراور ان کی صحبت کو غنیمت سمجھے کہ ان کے ایسے لوگ زمانے میں نہیں پائے جاتے اور ان کی برکت خدمت سے فیض حاصل کرے۔‘‘ (ضیاء القلوب ص ۷۲)
۲۔مولانا لطف اللہ علی گڑھی ؒ آپ علما ء دیوبند اور بانیان ندوۃ العلماء کو آخری زندگی تک مسلمان اور اہل سنت والجماعت سمجھتے تھے۔ آپ کے تلامذہ میں مولانا عبدالحق حقانی صاحب تفسیر حقانی اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی جیسی برگزیدہ ہستیاں شامل ہیں۔ مولانا کے بارے میں احمد رضاخان اور ان کے ہمنواؤں نے یہ تاثر دیا کہ مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ بھی ندوۃ العلماء کے خلا ف ہیں اورانہوں نے ندوۃ کے خلاف فتویٰ پر دستخط کیے ہیں جس کی بعد میں مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ نے تردید کی ۔مولانا احمد رضاخان کو مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ نے ایک مفصل خط تحریر کیا جس میں مولانا احمد رضاخان کوشغل تکفیر سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
’’ ذرا غور فرمائیے!ہماری سختی اور تشدد نے ہمارے اہل سنت والجماعت کواور بالخصوص احناف کوکیسے سخت صدمہ پہنچایاہے.......افسوس صد افسوس! ہمیں اپنے پاک مذہب کی ذلت پر ذرا نظر نہیں ہوتی ، مولانا(احمد رضاضان بریلوی) ذرا خداکے لیے غور کیجیے اور دشمنان دین کو ہم پر اور ہمارے پاک مذہب پر ہنسنے کا موقع نہ دیجیے‘‘۔
اس مراسلت کاکوئی نتیجہ نہ نکلابلکہ مخالفت کی آنچ تیز ہوگئی۔ندوۃ العلماء کے لیے ندوۃ الجہلاء کالفظ وضع کیا گیا۔ ۔۔۔ ندوۃ کے بعض علماء کی تکفیر بھی کی گئی ۔ اس جنگ میں مولانا احمد رضاخان، مولاناعبدالقادر بدایونی اور مولانانذیراحمد خان رامپوری شامل تھے (سیرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ ص۱۷۱،۱۷۲)
۳۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری صاحب کے بارے میں تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہورمولف پیر زادہ اقبال احمد فاروقی میں ہے مولانانے عنوان باندھاہے:
’’مولانا قاسم سے دل لگی :مولانا قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری دونوں میں گونہ ایسے تعلقات تھے کہ باہم مزاح و ظرافت کی گفتگو کبھی کبھی ہوجایا کرتی تھی۔ (ص ۱۸۵)
آگے اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ الغرض یہ کہ اختلاف کی شدت اس طرز کی نہیں تھی کہ جس طرز کی بنیاد مولانا احمد رضاخان نے ڈالی ،تفصیل آگے آرہی ہے ۔
۴۔مفتی ارشاد حسین رام پوری صاحب سے کسی نے سوال کیاکہ ’’انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیائے کرام کو سوائے قبر کے حاضرو ناظر جان کر پکارنا بطو راستمدادیا بایں نظر کہ وہ سنتے ہیں جس جگہ ان کو پکارے جائز ہے یا نہیں۔ آپ نے جواب دیا:
’’حاظر اور ناظر اور ہر جگہ ہروقت سننے والا جان کر کسی کو سوا اللہ تعالی کے پکارنا جائز نہیں‘‘ (فتاوی ارشادیہ ص۱۶۷)
معلوم ہوا کہ بعض معمولات میں فکری و رائے کے اختلاف کے باوجود اعتقادی اختلاف نہ تھا۔
(جاری)