بیانیہ یا Narrative ہماری سیاست و صحافت کی نئی اصطلاح ہے جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی، اس سے پہلے شاید کہیں اس کا ذکر آیا ہو، لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا۔ البتہ ایک نئے ’’عمرانی معاہدے‘‘ (Social Contract) کی بات کی جاتی رہی ہے، حالانکہ کسی ملک کا دستور ہی اس کا عمرانی معاہدہ ہوتا ہے اور پاکستان کا دستور اتفاقِ رائے سے 14 اگست 1973ء کو نافذ ہوا اور اْس کے بعد سے اب تک اس میں 22 ترامیم ہوچکی ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم نے اِسے فیڈریشن سے کنفیڈریشن کی طرف سرکا دیا ہے۔
7 ستمبر 2015ء کو وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں قومی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے ایک مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی: مفتی منیب الرحمن، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفر اور مولانا عبدالمالک۔
میں نے بنیادی مسودہ ترتیب دیا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شریک کار تھے، پھر اسے پانچوں تنظیمات کے اکابر کے پاس بھیجا، انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، بعض نے کچھ ترامیم تجویز کیں، کچھ حذف و اضافہ کیا اور پھر میں نے حتمی مسودہ 22 اکتوبر 2015ء کو کوآرڈی نیٹر نیکٹا جناب احسان غنی کو ارسال کیا کہ وہ متعلقہ اہل اقتدار کو اِسے دکھا دیں اور اگر وہ اس میں کوئی ردّوبدل چاہیں تو اس کی نشان دہی کردیں۔ میں نے اِسے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب جنرل رضوان اختر کو بھی ارسال کیا کہ اگر اس میں وہ اپنا کوئی حصہ ڈالنا چاہیں یا کوئی اضافہ مطلوب ہو تو مطلع کریں، ہم باہمی مشاورت سے اسے حتمی شکل دیں گے۔ اس دوران میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیانیہ کا ذکر آتا رہا، لیکن سرکار کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت وقت کے لیے آئے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے یا کوئی نئی افتاد نازل ہوجاتی ہے، انہیں ان چیزوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چونکہ ہمارے میڈیا کے کرم فرما حضرات کا ہدف مدارس اور اہل مدارس ہوتے ہیں، اس لیے وہ مشقِ ستم فرماتے رہتے ہیں۔ ان پر نہ کوئی ذمے داری عائد ہوتی ہے، نہ ان کے لیے حب الوطنی کا کوئی معیار ہے، نہ ہی ملکی سلامتی کے حوالے سے ان پر کوئی قید و بند عائد کی جاسکتی ہے، اْن کی زبان کی کاٹ سے ویسے ہی اہل اقتدار لرزاں و ترساں رہتے ہیں، خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار کی آرزو میں بیٹھے ہوں۔ سو ایک کمزور طبقہ مدارس و اہلِ مدارس کا رہ جاتا ہے جس پر مشقِ ناز کی جائے اور یہ بھی ان کی خواہش رہتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے اور جتنا ہوسکے ان کی مشکیں کَسی جائیں۔ لہٰذا ہم نے اپنے تناظر میں یہ بیانیہ ترتیب دیا۔ دو تین ماہ قبل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اہلِ عقل و دانش کی کوئی مجلس ترتیب دی گئی اور ظاہر ہے کہ بنیادی قرطاسِ عمل اِسی عاجز کا ترتیب دیا ہوا تھا، بیرونِ ملک سفر کی وجہ سے میں خود اِن دانائے روزگار اشخاص کی دانش سے مستفید نہ ہوسکا اور محروم رہا۔
البتہ طیور کی زبانی جو اڑتی سی خبر ملی، وہ یہ تھی کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کا بیانیے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسی کوئی ہوا اسے لگنی چاہیے۔ ہمیں حیرت ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے کی جمہوریت میں بھی اجازت نہیں ہے، سو جمہوریت اور جمہوری اَقدار کس چڑیا کا نام ہے، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ویسے تو اسرائیل میں بھی مذہبی جماعتیں سیاسی دوڑ میں شامل ہیں، جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹس کے نام سے جماعت قائم ہے اور اِن سے اْن کے نظام کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے سے ریاست کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
ہمارا مرتبہ بیانیہ درج ذیل ہے:
ہمارے وطن عزیز میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے داخلی طور پر تخریب وفساد، دہشت گردی اور خروج و بغاوت کی صورتِ حال ہے اور اس کے بار ے میں دینی لحاظ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ابہامات اور اشکالات وارد ہو رہے ہیں۔ بعض حضرات یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ اس ذہنی نہاد کے پیچھے مذہبی محرکات کارِفرما ہیں اور انھیں دینی مدارس و جامعات سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید یا ترغیب ملتی رہی ہے۔ لہٰذا ہماری دینی اور ملی ذمہ داری ہے کہ اس کے ازالے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے اپنا شرعی مؤقف واضح کریں اور اسی بنا پر ہم نے اسے قومی بیانیے کا عنوان دیا ہے، پس ہمارا موقف حسب ذیل ہے:
(1) اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی و ملی میثاق سے ہوتا ہے: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ نیز دستور میں اس بات کا اقرار بھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ اگرچہ دستور کے ان حصوں پر کماحقہ عمل کرنے میں شدید کوتاہی رہی ہے، لیکن یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومت وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
(2) پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی پرامن جدوجہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے، یہ پاکستان کے دستور کا تقاضا بھی ہے اور اس کی دستور میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہماری رائے میں ہمارے بہت سے ملکی اور ملّی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے روگردانی ہے۔ حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کو فعال بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مبنی قانون سازی کرے، جو کہ دستوری تقاضا ہے۔ نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، حرام قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ریاست، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، عدمِ استحکام سے دوچار کر رہی ہیں، تقسیم در تقسیم اور تفرقے کا باعث بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے ضربِ عضب کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھا ہے اور قومی اتفاقِ رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اب ہماری مسلّح افواج نے ایک نئی مہم شروع کی ہے، جس کا عنوان ہے: ’’رَد الفَسَاد‘‘، ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
(3) اکیسویں آئینی ترمیم میں جس طرح دہشت گردی کو ’’مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ دہشت گردی اور ملک کے اندر داخلی فساد کی باقی تمام صورتوں کو یکسر نظرانداز کر دینا مذہب کے بارے میں نظریاتی تعصب کا آئینہ دار ہے، اور اس امتیازی سلوک کا فوری تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے ملک میں قیامِ امن کے لیے ہمارے عزم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد بھی معلوم ہوا ہے کہ ہماری لبرل جماعتیں مذہب اور اہلِ مذہب کو ہدفِ خاص بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں، اوراِسی لیے تیئسویں ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا، اگرچہ اس اختلاف کا سبب دراصل ان کی ایک دوسرے سے شکایات، گلے شکوے اور کچھ خدشات ہیں۔
(4) تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے 2004ء میں اتفاقِ رائے سے شرعی داائل کی روشنی میں قتل ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، ہم اس کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔ نیز لسانی علاقائیت اور قومیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، یہ بھی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں اور شریعت کی رو سے یہ بھی ممنوع ہے، لہٰذا ضربِ عضب کا دائرہ ان سب تک وسیع کیا جائے۔
(5) مسلمانوں میں مسالک و مکاتبِ فکر قرونِ اولیٰ سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی۔ لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہ ہے۔ اِن کو پبلک یا میڈیا میں زیرِ بحث لانا بھی انتشارپیدا کرنے اور وحدتِ ملی کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔ اِن کو انتظامی اور انضباطی اقدامات سے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق یا قانون بنا کر اسے سختی سے نافذ کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تعزیری اقدام بھی تجویز کر سکتی ہے۔
(6) فرقہ وارانہ نفرت انگیزی، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اور آئین و قانون کی رو سے ناجائز ہے اور یہ ایک قومی اور ملی جرم ہے۔
(7) تعلیمی اداروں کا، خواہ وہ دینی تعلیم کے ادارے ہوں یا عصری تعلیم کے، ہر قسم کی عسکریت اور نفرت انگیزی پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے، تو اس کے خلاف ثبوت و شواہد کے ساتھ کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(8) دینی مدارس پر مبہم اور غیر واضح الزامات لگانے کا سلسلہ ختم ہوناچاہیے۔ دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات حکومت کو لکھ کر دے چکی ہیں کہ اگر اس کے پاس ثبوت و شواہد ہیں کہ بعض مدارس عسکریت، دہشت گردی یا کسی بھی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہیں، تو ان کی فہرست جاری کی جائے۔ وہ خود نتائج کا سامنا کریں یا اپنا دفاع کریں، ہم ان کا دفاع نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی حمایت کریں گے۔
(9) ہم بلا استثنا تمام دینی مدارس میں کسی منفی سرگرمی کی مطلقاً نفی نہیں کر سکتے، ہماری نظر میں انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کومحض دینی مدارس سے جوڑنا غیرمنصفانہ سوچ کا مظہر ہے۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہد سا منے آئے ہیں کہ یہ روش جدید عصری تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں بھی فروغ پا رہی ہے، اس کے نتیجے میں مغرب کے پر تعیش ماحول سے نکل کر لوگ وزیرستان آئے، القاعدہ اور داعش سے ملے، جبکہ یہ جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ پس تناسب سے قطعِ نظر یہ فکر ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ سو یہ فکری نہاد جہاں کہیں بھی ہو، ہماری دشمن ہے۔ یہ لوگ دینی مدارس یا جدید تعلیمی اداروں یا کسی بھی ادارے سے متعلق ہوں، ہمارے نزدیک کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
(10) دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ دینی تعلیم کھلے ماحول میں ہونی چاہیے اور طلبہ و طالبات پر کسی قسم کا جسمانی یا نظریاتی تشدد یا جبر روا نہیں ہے۔ الحمدللہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول کھلا ہے اور اس میں عوام بلا روک ٹوک آسکتے ہیں اور کوئی چیز مخفی نہیں ہے، یہ ادارے ملکی قانون کے تحت قائم ہیں اور ملکی قانون کے پابند ہیں اور رہیں گے۔
(11) ہر مکتب فکر اور مسلک کو مثبت انداز میں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے، لیکن اہانت آمیز اور نفرت انگیزی پر مبنی اندازِ بیان کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح صراحت، کنایہ، تعریض، توریہ اور ایہام کسی بھی صورت میں انبیائے کرام ورسل عظام علیہم السلام، اہل بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شعائر اسلام کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 295 کی تمام دفعات کو لفظاً اور معناً نافذ کیا جائے، اور اگر اس قانون کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے، تو اس کے اِزالے کی احسن تدبیر کی جاسکتی ہے۔ فرقہ وارانہ محاذ آرائی کے سد باب کی یہی ایک قابلِ عمل صورت ہے۔
(12) عالم دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ کلماتِ کفر کو کفر قرار دے اور سائل کو شرعی حکم بتائے، البتہ کسی شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے، یہ قضا ہے اور عدالت کا کام ہے۔ مفتی کا کام صرف شرعی حکم بتانا ہے، اس سے آگے ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ اسی لیے ہمارے فقہائے کرام نے ’’لزومِ کفر‘‘ اور ’’التزام کفر‘‘ کے فرق کو واضح کیا ہے۔
(13) اس وقت پاکستان میں جدید تعلیم ایک انتہائی منفعت بخش صنعت بن چکی ہے۔ پلے گروپ اور نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے ناقابل یقین حد تک غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ اعلیٰ معیاری تعلیم قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے اور مالی لحاظ سے کمزور طبقات کی پہنچ سے دور ہے، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو مستقل حیثیت حاصل ہے، کیونکہ پبلک سیکٹر میں تعلیم کا معیار انتہائی حد تک پست ہے۔ ہمیں تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے پر اعتراض نہیں ہے، اعتراض یہ ہے کہ تعلیم کو صنعت کے بجائے سماجی خدمت کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جو پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے لیے’’نہ نفع نہ نقصان‘‘ یا مناسب منفعت کی بنیاد پر فیسوں کا تعین کرے اور انہیں اس بات کا پابند کرے کہ وہ کم از کم پچیس فیصد نادار طلبہ کو میرٹ پر منتخب کر کے مفت تعلیم دیں۔ عصری تعلیم کے پرائیویٹ اداروں میں کئی قسم کی درآمد کی ہوئی نصابی کتب پڑھائی جا رہی ہیں اور ان کا نظامِ امتحان بھی بیرونِ ملک اداروں سے وابستہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے نصاب پر مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان میں تعلیم پانے والی ہماری نئی نسل اسلامی اور پاکستانی ذہن کی حامل ہو اور سب سے آئیڈیل بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسکول گریجوایشن کی سطح تک یکساں نصابِ تعلیم اور نظامِ امتحان رائج ہو۔
(14) پاکستان میں رہنے والے پابند آئین و قانون تمام غیرمسلم شہریوں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ہم حقوقِ انسانی کی مکمل پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
(15) اسلام خواتین کو احترام عطا کرتا ہے اور ان کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حقوق مقرر ہیں۔ ان کو جاگیرداری، سرمایہ داری اور قبائلی رسوم پر مبنی سماجی روایات کی بنیاد پر وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں اخلاقی اور معاشرتی دباؤ ڈال کر وراثت سے دست برداری حاصل کی جاتی ہے۔ قرآن سے شادی کا تصور بھی وراثت سے محروم کرنے کی غیر شرعی رسم ہے۔ وراثت کا استحقاق محض دست برداری سے ختم نہیں ہوتا، قرآن و سنت کی رو سے تقسیمِ وراثت شریعت کا لازمی قانون ہے۔ شریعت کی رو سے اگر کوئی وارث اپنا حصہ رضا و رغبت سے اور کسی جبر و اکراہ کے بغیر کسی کو دینا چاہے، تو بھی محض دست برداری کافی نہیں ہے۔ جائیداد مالکانہ طور پر اس کے نام پر منتقل کرنا اور اسے اْس پر قبضہ دینا لازمی ہے، اس کے بعد ہی وہ مالکانہ حیثیت سے تصرف کرسکتا ہے۔ عورتوں پر تشدد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری پر نہایت تاکید کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے۔ خواتین کی جبری شادی ہمارے دیہی اور جاگیردارانہ سماج کی ایک خلافِ شرع روایت ہے، اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اسے قانون کی طاقت سے روکے۔ اسلام عورت کے حق رائے دہی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شرعی حدود کی پابندی کی جائے۔
ہم نے دینی مدارس و جامعات کی رجسٹریشن کا میکنزم بھی بنا کر دیا، تمام ضروری کوائف ومعلومات اس میں شامل کی گئیں اور تفصیلی کوائف کے لیے اصل کیفیت نامہ کے ساتھ ضمنی فارم مرتب کر کے دیے۔ اسی طرح ڈیٹا فارم بھی مرتب کر کے دیا اور طے پایا کہ پہلے سے قائم سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو قانونی تصور کیا جائے گا، اور ان سے دوبارہ رجسٹریشن کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہی اصول سابق صدر جناب جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ طے پایا تھا اور اْن کے دور میں اس پر عمل رہا۔ یہ بھی طے پایا کہ پہلے سے رجسٹرڈ مدارس اور نئی رجسٹریشن حاصل کرنے والے مدارس سالانہ ڈیٹا بھی فراہم کریں گے اوراس کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور یا وزارتِ تعلیم میں ایک سیل قائم کیا جائے گا یا صوبے اس ذمہ داری کو انجام دیں گے۔ ہماری معلومات کے مطابق ہمارے تیارے کیے گئے اس مسودہ قانون کی صوبوں سے منظوری بھی لی گئی، لیکن پھر اس پر قانون سازی نہ ہوسکی۔
ماضی قریب میں صوبہ سندھ کی اسمبلی نے ایک متنازعہ بل بنایا، لیکن وہ اب تک معرضِ التوا میں ہے، کیونکہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ جنابِ سید مراد علی شاہ متعدد وعدوں کے باوجود اتفاقِ رائے کے لیے اب تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کرسکے اور حکومت کے اِسی شعار کی وجہ سے ’’تبدیلی مذہب ‘‘ کا قانون جو دراصل ’’قانونِ امتناعِ قبولِ اسلام ‘‘ ہے، صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود قانون نہ بن سکا اور اس کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے کے لیے جنابِ آصف علی زرداری کے وعدے اور ہدایت کے باوجود کوئی اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو ملامت کرنے میں لگی رہتی ہیں، لیکن ہمیں سنجیدگی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی اور سب پنجابی محاورے کے مطابق ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)