علمِ سماجیات : دعوت نامے کی باز طلبی؟

پیٹر برجر

ترجمہ: عاصم بخشی


زندگی کے اس موڑ پر ایک ماہر سماجیات کے طور میرے تشخص میں ایسا کچھ خاص داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ اگر علمی تخصص کی بابت پوچھا جائے تو میں خود کو ماہر سماجیات ہی کہوں گا، لیکن اِس تخصیص کا اِس سے کچھ خاص لینا دینا نہیں جو میں کرتا ہوں یا خود کو سمجھتا ہوں۔ میں اِس علمی دائرے سے منسلک محققین کے کام پر سرسری توجہ ہی دیتا ہوں اور یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ بھی میرے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال کچھ ایسی بری بھی نہیں۔لیکن مجھے کبھی کبھار یاد آتا ہے کہ میں اپنی پرجوش جوانی میں دوسروں کو کافی جذباتی انداز میں اپنی تحریروں (جو خوش قسمتی سے آج بھی اشاعت میں ہیں) اور تدریس سے علم سماجیات کی دعوت دیتاتھا۔ کیا مجھے اپنے اس عمل پر پشیمان ہونا چاہئے؟ کیا مجھے متانت سے دعوت کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دینا چاہئے تاکہ ایک دیوالیہ ادارے کا رخ کرتے مزید معصوم طلباء کی گمراہی کا الزام مجھ پر نہ لگے؟ میرا خیال ہے کہ ان دونوں سوالوں کا جواب ایک شکستہ دل سی ’’نہیں‘‘ ہے۔ ’’نہیں‘‘ کیوں کہ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ و ہ علم سماجیات جس کی میں نے کبھی وکالت کی تھی آج بھی اتنا ہی مستند ہے ، اور’’ شکستہ دل‘‘ کیوں کہ خود کو ماہر سماجیات کہنے والے بہت سے لوگ واقعتا یہ نہیں کر رہے۔ کیا ان حالات کے بدلنے کا کوئی امکان ہے؟ شاید نہیں جس کی محکم سماجیاتی وجوہات ہیں۔تاہم اس سے پہلے کہ علاج کے امکانات کا جائزہ لیا جائے، واضح تشخیص ضروری ہے۔

یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ ایک عظیم اور تیزرفتار تبدیلیوں کا دور ہے۔ یہ محض اس وسیع قلب ماہیت کا ایک سرعت پذیر دور ہے جو پہلے یورپ اور پھر تیز رفتاری سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جدیدیت کا بہاؤ تھا۔یہ یاد دہانی چشم کشا ہے کہ علم سماجیات اس عظیم بہاؤ کے کسی نہ کسی حد تک فہم اور اس پر ممکنہ طور پر قابو پانے کی کوشش کے نتیجے میں وضع ہوا۔ یہ صورتِ حال واضح طور پر ان تین ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں واضح طور پر علم سماجیات کے تین ممیز روایتی دھارے ظہور میں آئے، یعنی فرانس، جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ جدیدیت کا فہم بلکہ شاید اس کو قابو میں لینے کی خواہش! کیا ہی رعب دار تجویز ہے! لہٰذا اس میں حیرا نی کی کوئی بات نہیں کہ اولین سماجی گرو قابل رشک ذہنی اور زیادہ تر مثالوں میں انفرادی صلاحیتیں رکھنے والے اہل علم تھے۔ کئی علمی نسلوں بعد آنے والے متاخرین سے اسی قسم کی قابل موازنہ خصوصیات کی توقع خام خیالی ہو گی۔ لیکن کم از کم فکری رویوں میں ایک مخصوص تسلسل کی توقع تو کی جا سکتی ہے، یعنی ماہیت نہیں تو کم از کم ایک قسم کا جوہری تسلسل ہی سہی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ منظر نامہ ایسا ہی ہے۔اپنے کلاسیکی دور یعنی تقریباً ۱۸۹۰ سے ۱۹۳۰ کے درمیان علمِ سماجیات نے زمانے کے ’’عظیم سوالوں‘‘ سے تعلق رکھا، لیکن آج یہ زیادہ تر ان سوالوں سے کتراتا نظر آتا ہے اور جب نہیں کتراتا تو انہیں بہت مجرد انداز میں موضوع بناتا ہے۔

کلاسیکی ماہرین سماجیات اپنی خواہشات و تعصبات سے اوپر اٹھ کر سماجی منظرنامے پر ایک معروضی نظر ڈالنے میں بہت محتاط تھے(جس کی تعریف میکس ویبر نے اپنے بدنامِ زمانہ تصور ’’آزاد قدری‘‘ سے کی)، جب کہ آج ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد بہت فخر سے اپنی غیر معروضیت یعنی حزبی فرقہ واریت کا اعلان کرتی ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ میں علم سماجیات ٹھوس تجربیت پسندی کی فضا پیدا کرنے پر مائل تھا جسے لوئس ورتھ نے ’’تحقیق سے اپنے ہاتھ میلے کرنے‘‘ سے تشبیہ دی اور جسے ایک سماجیاتی قوتِ شامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔آج زیادہ تر ماہرین سماجیات اپنی تحقیق کی مجرد عفونت ربا خاصیت پر فخر کرتے ہیں جو نظری معاشیات کے ماڈل وضع کرنے جیسی ہے۔تعجب ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے کبھی کسی جیتے جاگتے انسان کا انٹرویو لیا یا کسی سماجی تقریب میں ذوق و شوق سے شرکت بھی کی۔ 

کہاں کیا غلط ہوا؟ اور کیا اب بھی یہ صورتِ حال سدھارنے کے لئے کچھ کیا جا سکتا ہے؟ میں اعتماد سے کوئی مستند تشخیص یا علاج پیش کرنے سے قاصر ہوں۔ نہ ہی یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اس تمام عرصے میں علم سماجیات کو لاحق عارضوں سے خود بھی محفوظ رہ سکاہوں۔لیکن کامل تشخیص نہ سہی، میں ایک امید افزا علاج کی اپنی سی کوشش ضرور کروں گا تاکہ کم از کم بیماری کی علامتوں کا کچھ بیان ممکن ہو سکے۔ اور میں یہ کام چار ایسی اہم واقعاتی تبدیلیوں کے تناظر میں کروں گا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد رونما ہوئیں۔ ان میں سے ہر ایک تبدیلی نے اگر تمام نہیں تو زیادہ تر ماہرین سماجیات کو حیران کر کے رکھ دیا۔ یہی نہیں بلکہ ان تبدیلیوں کے واضح طور پر منصہ شہود پرآنے کے بعد ماہرین سماجیات کسی سماجیاتی تناظر میں ان کے فہم او ربیان سے قاصر رہے۔ ان تبدیلیوں کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سماجیاتی تھیوری کی ان کے ادراک یا پیشین گوئی میں ناکامی اسی بات کی علامت ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم بگاڑ ضرور واقع ہوا ہے۔

پہلی مثال:

۱۹۶۰ کے اواخر اور ۷۰ کے اوائل میں اہم مغربی صنعتی معاشروں میں ایک ثقافتی اور سیاسی زلزلہ برپا ہوا۔ سب کچھ بہت اچانک تھا۔ رسمی سماجیات کی عینک سے دیکھا جائے تو یہاں ایک عاجز کر دینے والا سوال سامنے آیا: کیسے ممکن ہے کہ روئے زمین پر بلکہ پوری تاریخ میں سب سے زیادہ خوش حال افراد اسی سماج کے خلاف تشدد پر آمادہ ہوں جس نے انہیں خوش حال کیا؟ اگر ہم امریکی سماجیات کی جانب دیکھیں تو اس وقت بھی آج کل کی طرح کئی کالجوں کے نصاب میں یہی قضیہ پڑھایا جاتا تھا کہ لوگ خوش حالی کے ساتھ زیادہ قدامت پسند ہو جاتے ہیں۔ یہ قضیہ شاید مذکورہ بالا واقعے تک بہت مستند ہو۔ لیکن اس سیاسی و ثقافتی زلزلے کے بعد یقیناًدرست نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس سیاست و ثقافت دونوں میں ’’ترقی پسند‘‘ تحریکیں سماجی طور پر خوش حال بالا مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں یعنی نیا بایاں بازو، سیاست نو کے دھارے، جنگ مخالف، حقوقِ نسواں ، ماحولیات اور سبز نظریات کی تحریکیں وغیرہ۔ دوسری طرف، چاہے ان کے روحِ رواں رانلڈ ریگن، مارگریٹ تھیچر یا ہیلمٹ کوہل ہوں، نئی قدامت پسند تحریکوں نے خود کو زیریں مڈل کلاس اور محنت کش طبقات کے ایسے دھارے سے منسلک کیا جو ساتھ ہی ساتھ ایک چارو ناچار پرانی قدامت پسند اسٹیبلشمنٹ کو بھی گھسیٹ رہا تھا۔ امریکہ میں (اسی قسم کے ردعمل برطانیہ اور اس وقت کے مغربی جرمنی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں) پرانی طرز کے مضافاتی کلب رپبلی کنز نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے غیر ترقی یافتہ علاقوں کے اناجیلی مبلغین، ثقافتی غضب سے بھرے ہوئے مقامی لوگوں، اسقاطِ حمل کے مخالفین اور کئی دوسرے نام نہاد سماجی طبقات سے مصافحہ کیا۔ دوسری طرف مڈل کلاس کے انتہا پسند مفکرین نے اگر ثقافتی نہیں تو سیاسی طور پر خود کو اپنی نظریاتی وابستگی سے منسلک’’محنت کش عوام‘‘ کے ساتھ نہیں بلکہ نچلے ترین طبقات کے نام نہاد نمائندوں اور دوسرے حاشیائی طبقات کے ساتھ کھڑا پایا۔ 

مجھے آج بھی بروکلن کے مضافات کا ایک منظر بخوبی یاد ہے جہاں ہم ساٹھ کی دہائی کے وسط سے ستر کے اواخر تک رہے۔ یہ علاقہ تیزی سے اشرافیہ میں تبدیل ہو رہا تھا (ہم اس تبدیلی کا حصہ تھے) یعنی ایک مقامی محنت کش طبقہ ایک پیشہ ور بالا مڈل کلاس میں ڈھل رہا تھا۔ گلی میں تقریباً ہر گھر میں اس زمانے کی سیاسی سنجیدہ روی کے مطابق امن کے اشتہار چسپاں تھے جیسے ’’امریکہ ، ویت نام سے باہر‘‘، ’’جنگ نہیں محبت‘‘، ’’وہیل مچھلیوں کو بچاؤ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ صرف ایک استثناء تھا: ایک گھر نے اس قسم کے پیغام لگا رکھے تھے کہ ’’ ویت نام میں فوجیوں کی ہمت بندھاؤ‘‘، ’’اپنی مقامی پولیس کا ساتھ دو‘‘ اور ’’بندوقوں کا نہیں کمیونسٹوں کا اندراج کرو‘‘۔ اس گھر میں ایک عمر رسیدہ معذور اور رنڈوا پرانا فوجی رہتا تھا۔ ایک دن اس آدمی کو بے دخل کر دیا گیا۔ سپاہی آئے اور ا س کا سامان گلی میں رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد اسے بھی اپنی وہیل چیئر پر بٹھا کر ایک امریکی فوجی ٹوپی پہنے گلی میں چھوڑ دیا گیا۔ اس کے کچھ دوست اسے ساتھ لے گئے اور پھر اس کا سامان بھی کسی گاڑی میں کہیں چلا گیا۔ اگلے ہی ہفتے اس گھر میں کچھ نئے لوگ آ گئے۔ فوراً کھڑکیوں میں امن کے پیغامات لگا دیے گئے۔

آج کا رائج نظریہ یہ ہے کہ’’ساٹھ کی دہائی کا آخر‘‘ تاریخِ رفتہ ہے جو بس یادِ ایام کی بازگشت کے طور پر واپس لوٹ آیا ہے۔یہ صریحاً ایک غلط تعبیر ہے:ساٹھ کی دہائی کا آخر محو نہیں ہوا بلکہ سیاسی اور ثقافتی دونوں طریقوں سے ایک اداراتی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس تبدیلی کی کسی حد تک ایک نیم مؤثر سماجیاتی وضاحت وہ نام نہاد ’’نئی طبقاتی تھیوری ‘‘ تھی جو ستر کی دہائی میں ایک مختصر سے عرصے کے لئے منظر عام پر آئی اور اس کے بعد سے تقریباً فراموش کر دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وضاحت بائیں اوردائیں بازو کی دونوں تعبیرات رکھتی ہے جو بالترتیب ایلون گولڈنر اور ارونگ کرسٹول نے پیش کیں۔ دونوں تعبیرات ہی کلی طور پر حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں اور ترقی یافتہ صنعتی معاشروں کے لیے طبقاتی سماجیاتی تھیوری کی تشکیل نو ایک کٹھن چیلنج ہے۔ لیکن یہاں میرے پیش نظر یہ مسئلہ نہیں۔ہمارا سوال یہ ہے کہ ماہرین سماجیات کس طرح اتنے عظیم مظہر کے ادراک سے بے خبر رہے؟ شاید کسی حد تک یہ جانے مانے روایتی سماجیاتی مناہج کو تبدیل کرنے کی جھجک ہے۔

بائیں بازو کے سماجیاتی مفکرین نے خاطر خواہ ناکامی سے کوشش کی کہ اس سماجی مظہر کو’’مڈل کلاس کی پرولتاریت‘‘ جیسے مارکسی مقولات میں سکیڑ دیا جائے۔ ہمارے کچھ ’’بورژوا‘‘ ہم عصروں نے ’’منصبی سیاست‘‘ کے بارے میں کچھ بڑبڑانے کی کوشش کی۔لیکن شاید سب سے بہتر تعبیر یہی ہے کہ زیادہ تر سماجی مفکرین خود بھی اسی مظہر کا ایک حصہ تھے۔ اس زمانے میں اس پیشے کو اپنانے والی نسل جو آج تدریسی وابستگی کی ایک عمر گزار چکی ہے، سینوں پر امن کے چمکتے تمغے چپکائے پھر رہی تھی۔ ان کے لئے یہ حق و باطل کی جنگ تھی اور آج بھی ہے، گو اب سیاسی سنجیدہ روی کی علامات کسی حد تک جگہ بدل چکی ہیں۔ چاہے وہ پیشہ ور ماہرین سماجیات ہی کیوں نہ ہوں، لوگ اپنی وابستگیوں کی سماجیاتی وضاحتیں قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ باالفاظِ دیگر، اس تبدیلی کے ادراک کی حد تک علم سماجیات کی ناکامی کی وجہ نظریاتی اندھیارے ہیں۔ 

دوسری مثال:

آج کی دنیا میں ایک بنیادی پیش رفت جاپان اورمشرقی ایشیا کے دوسرے ممالک کی تیز رفتار معاشی سبقت ہے۔ یہ محض نہایت تیزرفتاری سے برپا ہونے والا ایک عظیم معاشی معجزہ نہیں بلکہ غیر مغربی سماجی سیاق و سباق میں کامیاب جدیدیت کا وہ پہلا واقعہ ہے جو ماہرین سماجیات کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے۔ میں کچھ عرصے سے یہی استدلال پیش کر رہا ہوں کہ یہ سرمایہ دارانہ جدیدیت کا دوسرا واقعہ ہے جو یقیناًفی نفسہ اپنے اندر بہت سے دلچسپی کے سامان تو رکھتا ہی ہے لیکن جدید سماج کے نظری تناظر میں مزید اہمیت رکھتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ جاپان خود اپنی خاطر نہیں بلکہ ہماری خاطر ہی فہم کا تقاضا کرتا ہے۔یہ بھی بالکل غیر متوقع واقعہ تھا۔ پچاس کی دہائی میں جب جدیدیت کی تھیوری تشکیل پا رہی تھی، اگر اس کے وکلاء سے یہ سوال کیا جاتا کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے کون سا ایشیائی ملک سب سے زیادہ کامیابی کا احتمال رکھتا ہے تو گمان یہی ہے کہ جواب فلپائن ہوتا جو کہ اب اس خطے کے سرمایہ دارانہ حصے میں واحد معاشی حادثہ ہے۔ اس زمانے میں ہونے والی ایک کانفرنس میں، جسے آج کچھ مندوبین ذرا اضطراب سے یاد کرتے ہیں، ایک وسیع اتفاق ظاہر کیا گیا کہ کنفیوشی مذہب کوریائی اور چینی سماج کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج اس ثقافتی ورثے کو مشرقی ایشیائی معاشی کامیابی کی ایک علت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

جدیدیت کی تھیوری ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں متزلزل ہو گئی تھی جب اسے عمومی طورتحقیر کی نیت سے مغربی سامراج کا نظریہ کہا جاتا تھا۔ اس عرصے میں بائیں بازو کے ماہرین سماجیات نام نہاد نظریہ انحصاریت کو وضع کرنے میں مصروف تھے جس کی رو سے سرمایہ داریت ناگزیر طور پر پسماندگی کے تسلسل کو بڑھاوا دیتی ہے، ظاہر ہے کہ جس کا حل اشتراکیت ہے۔ یہاں تجربے اورنظریے میں ایک اوٹ پٹانگ سی ہم عصری پائی جاتی ہے۔ عین اس وقت جب سرمایہ دارانہ مشرقی ایشیا ایک عظیم معاشی ترقی اور خوشحالی کے دور سے گزر رہا تھا اور ہندچین تا جزائر غرب الہندتمام اشتراکی معاشرے ایک مایوس کن ٹھہراؤ میں دھنس رہے تھے ، زیادہ سے زیادہ ماہرین سماجیات ایک ایسے نظریے کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے جس کے مطابق حالات الٹ ہونے چاہئے تھے۔ مزاحیہ ترین تقریب جس میں کچھ سال قبل شریک ہونے کا اتفاق ہوا، زمانہ جدید کے ایک عظیم معاشی معجزے تائیوان میں ہونے والی ایک کانفرنس تھی۔کانفرنس تائیوان کے بارے میں تھی یعنی اسے کیسے سمجھا جائے۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر مدعو کئے جانے والے زیادہ تر امریکی اہل علم ایسے انحصاریت پسند مفکرین تھے جو اس سے قبل لاطینی امریکہ میں سرگرمِ عمل رہ چکے تھے۔ وہ پوری دلیری سے تائیوان کے واقعات کو اپنے نظرئیے میں گھسیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کانفرنس کی سب سے بڑی نظری کامیابی ’’منحصر ترقی‘‘ کا ایک تصور تھا جو قیاساً تائیوان کی صورت حال کی وضاحت کر تاتھا۔یہ بات تو خیر قابل فہم ہے کہ اس سے قبل لاطینی امریکہ سے باہر کی دنیا کے بارے میں نا تجربہ کار نومارکسیوں نے شاید اسے معقول مان لیا ہو، لیکن ان سر ہلاتے تائیوانی سماجی سائنسدانوں کو کیا کہا جائے جن کے سامنے dependencia کا مستشرقی ترجمہ پیش کیا جا رہا تھا۔ ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے: جہاں انحصاریت پسندی کا نظریہ عالمی معاشیات کے تناظر میں بری طرح رد کیا جا چکا ہے، وہاں شاید عالمی ثقافت کے تناظر میں اس کی کوئی پیش گویانہ قدر وقیمت باقی ہو، آخر ’’دنیائے اولیٰ ‘‘ کے مفکرین کے پاس اعلیٰ و ارفع وسائل اور سرپرستیاں ہوتے ہوئے کم ترقی یافتہ ملکوں میں ان کا ایک ’’نمائندہ طبقہ‘‘ وجود میں آ ہی جاتا ہے۔ 

سچ پوچھیے تو میرا دوسرا دعویٰ ہر گز دعویٰ اول جیسا نہیں کیوں یہاں ماہرینِ سماجیات کی جانب سے مسئلے کو سمجھنے کی قرار واقعی کوشش کی گئی ہے گو وہ اس کی پیشین گوئی میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مذکورہ بالا مابعد کنفیوشیائی مفروضہ پہلے پہل ماہرین سماجیات کی جانب سے ہی وضع کئے جانے کے بعد خطے اور خطے سے باہر کے ماہرین سماجیات کے درمیان خاطر خواہ علمی مباحث کا موضوع رہا ہے۔ بایاں بازو تو ظاہر ہے اپنی نظریاتی وجوہات کے باعث اس بحث میں شریک نہیں ہوا، لیکن بائیں بازو سے تعلق نہ رکھنے والے ماہرین سماجیات بھی اس میں کچھ خاص حصہ لیتے نظر نہیں آئے سوائے ان کے جو خطے کے معاملات پر تخصیص رکھتے ہیں۔ ایک اور اہم کام نئی غیر مغربی جدیدیت سے حاصل شدہ بصیرت کی بنیاد پر میکس ویبر سے ٹیلکوٹ پارسنز تک پہنچتے جدید سماج کے تصور میں تبدیلی ہے۔

یہ یقیناًایک بہت ’’عظیم سوال‘‘ ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کے مزاج کے موافق نہیں جن کا تناظر شدید قوم یا نسل پرستانہ ہو اور وہ ایسے ضوابط سے منسلک ہوں جو ’’عظیم سوالات‘‘ سے سروکار نہیں رکھتے۔آج کلاسیکی قسم کے علم سماجیات کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں تاریخ کے علم میں ہوں ، جو اپنے ضابطوں میں لچک رکھتا ہو اور ایک ایسی وسیع المشرب روح رکھتا ہو جو ہمہ وقت انسانی زندگی کے مظاہر کے بارے میں متجسس رہے۔ ظاہر ہے اس قسم کے ماہرین سماجیات تو ذرا مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت اور صلے کا نظام چالاکی سے ( چاہے غیر ارادی ہی سہی) اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اس قسم کے ماہرین نہ ابھر سکیں۔ 

تیسری مثال:

ایک اور تھیوری جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پختہ معلوم ہوتی تھی، سیکولرائزیشن کی تھیوری تھی۔ مختصراً دیکھا جائے، اس کے مطابق جدیدیت اپنے ساتھ انسانی زندگی میں سماجی اداروں اور انفرادی شعور کی دونوں تہوں پر مذہب کا تنزل لاتی ہے۔ مغربی فکر میں اس تصور کی تاریخ طویل ہے جو کم از کم زیادہ دور نہیں تو اٹھارہویں صدی کی تنویری(یا روشن خیالی ) تحریک تک ضرور جاتی ہے۔ لیکن اگر مکمل غیرجانبدار ہو کر دیکھا جائے تو اسے مذہبی سماجیات بالخصوص یورپ کے ماہرین کی تحقیقی کاوشوں سے ہی قوت ملی۔ خام قومی پیداوار میں بڑھوتری اور خداؤں کے تنزل کے درمیان متوقع مطابقتوں کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر تعمیر کی گئی جدیدیت اپنے ساتھ ایک ایسی حددرجے معقولی سوچ لائی جس کے نزدیک دنیا کی غیرمعقولی مذہبی تعبیرات فی زمانہ نامعتبر ٹھہری تھیں۔ 

مذہب کی غیرمعقولیت کے اس قابل اعتراض مفروضے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ذرا آگے بڑھئے جو یقیناًتنویری فلسفے پر قائم ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ تھیوری تجرباتی شواہد پر قائم کی گئی تھی، لہٰذا اس کی تردید بھی تجرباتی بنیادوں پر ممکن تھی۔ سن ستر کے اواخر تک بہت شدت سے اس کی تردید کی جا چکی تھی۔ لیکن پھر یہ معلوم ہوا کہ اس تھیوری میں شروع دن سے ہی کچھ خاص تجرباتی مواد نہیں تھا۔ یہ درست تھی اور آج بھی درست ہے، لیکن دنیا کے صرف ایک خطے یعنی یورپ کے لئے، اس کے علاوہ کچھ بکھرے ہوئے خطے جیسے کیوبک جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سیکولرائزیشن کے ایک حیران کن دور سے گزرا، اور اس کے علاوہ ہر جگہ پھیلا ہوا مغربی تعلیم یافتہ مفکرین کا ایک چھوٹا سا طبقہ۔باقی تمام دنیا اسی جوش و جذبے کے ساتھ مذہبی ہے جیسے کبھی بھی تھی اور غالباً بیسویں صدی کے اوائل سے تو زیادہ ہی ہے۔ 

ستر کی دہائی کے اواخر میں پیش آنے والے دو واقعات اس حقیقت کو عوام کے سامنے لائے۔ امریکہ میں تو پچاس کی دہائی کے الموسوم مذہبی احیاء اور ساٹھ کی دہائی کی برعکس ثقافت (counter culture) نے اس تھیوری پر اعتراضات کھڑے کر دیے،گو مذہبی سماجیات کے ماہرین اول الذکر کو مبہم طور پر مذہبی اور آخر الذکر کو ضمنی طور پر مذہبی گردانتے رہے۔ جس واقعے نے اس تھیوری کو بالکل ناقابل دفاع کر دیا، وہ ا ناجیلی جوش و جذبے کا احیاء تھا جو پہلے پہل جمی کارٹر کی امیدواری اور کچھ عرصہ بعد’’اخلاقی برتری ‘‘ کے غوغے اوراسی قسم کے دوسرے طبقات کے ظہور سے سامنے آیا۔ اچانک یہ ظاہر ہوا کہ فکری ماحول میں نمایاں نہ ہونے کے باوجود امریکی سماج میں لاکھوں حیاتِ نو یافتہ عیسائی ہیں جو خطر انگیز طور پر بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جب کہ کلیسا کے مرکزی دھارے ایک گہرے آبادیاتی تنزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مذہبی جوش و جذبے کے اس مظہر نے ایک مزید بنیادی حقیقت پر روشنی ڈالی: امریکہ اور یورپ مذہبی خدوخال میں ہی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 

امریکہ سے باہر جسے واقعے نے جدیدیت کو سیکولرائزیشن سے جوڑنے والی تھیوری کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ، وہ ایرانی انقلاب تھا۔ ایک بار پھر ایک ایسا عظیم واقعہ رونما ہوا جو نظری طور پر خارج از امکان تھا۔اس وقت سے دنیا میں قسم قسم کے مذہبی احیاء رونما ہو رہے ہیں۔ نوروایتی یا بنیاد پرست اور پروٹسٹنٹ مذہبیت اور اسلام عالمی منظر نامے پر منعقد ہونے والے دو بڑے کھیل ہیں، لیکن دنیا میں تقریباً ہر مذہبی روایت نے کم و بیش اسی قسم کی حیاتِ نو کی تحریکیں برپا کی ہیں۔ اور رنگا رنگ سماجیاتی مفکرین مسلسل ورطہ حیرت میں ہیں۔ 

میرا ایران کا واحد دورہ اس واقعے اسے دو سال قبل تھا۔ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر دانشوروں سے ہی ملاقاتیں رہیں جن میں سے زیادہ تر شاہ کی حکومت سے دل سے نالاں تھے اور اس کے جانے کے منتظر تھے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ سب کچھ اسلامی سرپرستی میں ہو گا۔ نہ ہی کہیں خمینی کا نام تک سنائی دیا۔تقریباً اسی وقت جب میں ایران کے دورے پر تھا، بریجٹ برجر دروس کے سلسلے میں ترکی میں تھیں، ایک ایسی جگہ جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گئی تھیں اور نہ ہی وہاں کی زبان سے واقف تھیں۔ استنبول میں انہیں کئی گاڑیوں اور گلی کی مساجد کی دیواروں پر سبز جھنڈے لگے نظر آئے جو ان کے خیال میں کسی اسلامی تہوار کی مذہبی علامتیں تھی۔ جب انہوں نے اس مشاہدے میں اپنے ترک میزبانوں کو شریک کیا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ یا تو انہوں نے یہی اصرار کیا کہ انہیں کوئی غلطی لگی ہے کہ آج کل کوئی مذہبی تہوار وغیرہ منعقد ہو رہا ہے یا پھر یہ کوئی غیر اہم سا چھوٹا موٹا مظاہرہ ہو گا۔یہ تمام سماجیاتی سائنسدان جو زیادہ تر سیکولر دانشور تھے، ایک بار پھر اپنی آنکھوں کے سامنے موجود حقیقت کو دیکھنے میں ناکام رہے کیوں کہ اس کے ظہور کی کوئی توقع نہیں تھی۔ 

ماہرین سماجیات کو عصر حاضر کی دنیا کے شدید مذہبی رجحان سے مطابقت پیدا کرنے میں کافی مشکل پیش آئی ہے۔ چاہے سیاسی تناظر میں بایاں بازو ہو یا نہیں، مذہب کی مد میں یہ نظریاتی مغالطوں میں گرفتار رہتے ہیں اور پھر یہی رجحان ہوتا ہے کہ ایک ایسے سماجی مظہر کی فوراً کوئی وضاحت پیش کر دی جائے جس کی وضاحت ممکن ہی نہیں۔ لیکن نظریاتی وابستگی کے علاوہ تنگ نظری بھی اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ ماہرین سماجیات حقیقی سیکولر ماحول یعنی علمی درسگاہوں اور پیشہ ورانہ علمی صنعت سے متعلقہ دوسرے اداروں کے باسی ہوتے ہیں ، لہٰذا یوں لگتا ہے کہ وہ سماجی علوم میں غیر تربیت یافتہ لوگوں کی طرح ہی اس عمومی غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ دنیا پر اپنی ننھی سی نکڑ سے نظر ڈال کر ایک عمومی سماجی منظرنامہ تشکیل دیا جائے۔ 

آخر میں چوتھی مثال:

یہ سوویت سلطنت کے ڈھیر ہو جانے کا عظیم واقعہ تھا اور کم از کم فی الحال یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ عالمی منظرنامے پر بطور ایک حقیقت اور بطور ایک تصور بھی اشتراکیت کا ڈھیر ہو جانا ہے۔ اس عظیم تاریخی واقعے کی شروعات تک ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہیں اور نتائج اب تک نہایت سرعت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ لہٰذا کسی کو بھی اس کی وضاحت کے لئے کوئی معقول تھیوری پیش نہ کرنے کا دوش دینا ناانصافی ہو گی۔ ماہرین سماجیات کو علیحدہ کر کے موردِ الزام ٹھہرانا بھی اتنی ہی بڑی ناانصافی ہو گی کیوں کہ تقریباً کسی نے بھی اس کی توقع نہیں کی تھی (بشمول سند یافتہ ماہرین سماجیات کے جتھوں کے) اور ہر کوئی کسی بھی معقول نظری ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے اس کے فہم کی مشکل سے نبرد آزما ہو رہا ہے۔پھر بھی یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ماہرینِ سماجیات ،یہاں تک کہ و ہ بھی جو اس خطے کے معاملات پر متعلقہ مہارت رکھتے ہیں، اس واقعے کی پیشین گوئی میں کسی سے بھی بہتر نہیں تھے اور نہ ہی اب اس کے فہم میں کسی سے افضل ہیں۔ تعجب ہے کہ آنے والے سالوں میں وہ کیا کریں گے۔

بائیں بازو والے بھی اس نظریاتی طبقے میں موجود دوسروں کے ساتھ یقیناًاس عمومی ابہام (اسے ایک ’’گیانی عدم رسمیت ‘‘ کیوں نہ کہہ لیں؟) میں شریک ہیں۔ بائیں بازو سے متعلق ان دانشوروں کو چھوڑ دیجئے جن کے خیال میں سوویت یونین اور اس کے نقال کسی اخلاقی فضیلت کے حامل تجربے میں مشغول تھے۔غلطیاں وغیرہ تو ہوئیں، لیکن یہ مفروضہ تو قائم تھا کہ ایک ناقص اشتراکیت بھی کم از کم سرمایہ دارانہ نظام سے زیادہ امید رکھتی ہے جو ان کے دعوے کے مطابق لاعلاج طور پر گلا سڑا ہواہے۔ لیکن بائیں بازو کے وہ لوگ بھی جو بہت عرصہ قبل سوویت تجربے سے وابستہ تمام امیدیں ترک کر بیٹھے تھے، مسلسل افق پر اس ’’حقیقی اشتراکیت‘‘ کی تلاش کر رہے تھے جو کسی نہ کسی وقت نمودار ہونی ہی تھی کیوں کہ یہ منطقِ تاریخ کی مشیت ہے۔ یہ صرف قلبی جھکاؤ کی بات نہیں تھی بلکہ یہ ذہن تھا جو اپنے بنیادی ادراکی مفروضوں میں بائیں جانب تھا۔ اور سب سے بنیادی تو یہی مفروضہ تھا کہ تاریخ کا سفر سرمایہ دارانہ نظام سے اشتراکیت کی جانب ہوا ہے۔ اب اشتراکیت سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب تبدیلی سے کیسے نمٹا جائے؟آج کل بائیں بازو کے مجلے یورپ اور دوسرے علاقوں میں پچھلے چند سال میں ہونے والی پیش رفت کی درد انگیز تعبیرات سے بھرے پڑے ہیں جن کی کثیر تعداد سامنے موجود منظرنامے کی تردید کی کوششوں سے عبارت ہے۔ مجھے بھرپور توقع ہے کہ ماہرین سماجیات نظریہ انحصاریت کے کہنہ مشق دستوں کی دلیر کمان میں اس سرگرمی میں پورے ذوق و شوق سے شریک ہوں گے۔ کیوں نہ ہم ایسے کسی اور زبردست تصور مثلاً ’’خود مختار پسماندگی‘‘ کی جانب پیش قدمی کریں جو کسی نہ کسی طرح تھیوری کو مشکل سے نکال لے؟

سوویت یونین کا بکھراؤ اور اشتراکیت کا عالمی بحران جدیدیت کے سماجیاتی فہم کے لئے ایک عظیم چیلنج ہے۔ پھر یہ صرف بائیں بازو کے ماہرینِ سماجیات نہیں جو اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ، یعنی وہ جو ان واقعات کی اپنے بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے رفقاء کی بہ نسبت کچھ زیادہ پیشین گوئی نہ کر سکے۔ جس چیز کی ضرور ت ہے، وہ ایک ایسی فکر نو ہے جو جدید سماج میں معاشی، سیاسی اور سماجی اداروں کے بیچ تعلقات کو ازسر نو دریافت کرے۔ مجھے ایک پرانی کہاوت یاد آتی ہے جو آس پاس کی خوش مزاج دکانوں پر آج بھی لکھی نظر آ جاتی ہے، ’’اگر آپ کسی اور چیز کے قابل نہیں تو کم از کم ایک بری مثال کے طور پر تو پھر بھی کارآمد ہیں۔‘‘ سماجیاتی نظریہ بندی کے لئے ’’بری‘‘ مثالیں اتنی ہی مفید ہیں جتنی ’’اچھی‘‘۔ زیادہ دلچسپ سوال یہ نہیں کہ ’’وہ ‘‘ کیوں بکھر گئے بلکہ یہ ہے کہ ’’ہم‘‘ کیوں نہیں بکھرے۔ یہ ایک بنیادی نظری نکتہ ہے جس سے زیادہ تر سماجیاتی نظریہ بندی نے مسلسل صرفِ نظر کیا ہے۔ ’’مسئلہ‘‘ سماجی بدنظمی نہیں بلکہ سماجی نظم ہے، یعنی شادی نہ کہ طلاق، قانون کی پاسداری نہ کہ جرم، نسلی ہم آہنگی نہ کہ نسلی فساد وغیرہ۔ہم کسی شک و شبہ کے بغیر یہ فرض کر سکتے ہیں کہ جان رومین کی کارآمد عبارت ’’مشترکہ انسانی نمونہ‘‘ بے ایمانی ، تشدد اور نفرت ہے۔ انسانی فطرت کے ان مظاہر کو وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں سوائے شاید ماہرین حیوانیات کے۔ وضاحت کی ضرورت ان صورتوں میں ہے جن میں معاشرے حیرت انگیز طور پر ان فطری میلانات پر قابو پاتے ہیں اور انہیں مہذب کرتے ہیں۔ 

یہ مثالیں علم سماجیات کی کن بیماریوں کو ظاہر کرتی ہیں؟ چار علامات کی جانب اشار ہ ممکن ہے: تنگ نظری، فکری ناتوانی، عقلیت پسندی اور نظریاتی وابستگی۔ان میں سے ہر ایک معذور کر دینے والی ہے۔ ان کا مجموعہ ہلاکت خیز ہے۔ اگر عظیم کلاسیکی ماہرین سماجیات کے کام پر نظر ڈالی جائی جن میں میکس ویبر اور ایملی ڈرک ہائیم سرِ فہرست ہیں تو ویزلے کا مقولہ ذہن میں آ جاتا ہے کہ ’’دنیا میر اکلیسائی حلقہ ہے۔‘‘ کم ہی ماہرینِ سماجیات آ ج یہ دعویٰ کر سکتے ہیں اور جو کرتے بھی ہیں، و ہ شرمناک طور پر تاریخی سطحیت سے دوچار نظر آتے ہیں۔ 

زیر نظر معاملہ نفیس قسم کی کسی مخصوص وسیع المشربیت کی حمایت میں جانبداری سے کہیں بڑا ہے۔ اپنے سماج سے باہر ایک قدم نکالے بغیر ایک اعلیٰ ماہر طبیعات بننا ممکن ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ ماہر سماجیات کے لئے ایسا ممکن نہیں۔ اور اس کی وجہ بہت ساد ہ ہے۔ جدیدیت آج دنیا میں ایک عظیم تبدیلی لانے والی قوت ہے، لیکن یہ ہر جگہ جاری و ساری کوئی ایک سا میکانی ضابطہ نہیں۔ یہ مختلف شکلیں بدلتا ہے اور مختلف ردعمل پر اکساتا ہے۔ اسی لیے علم سماجیات یعنی ایک ایسی نوعِ علم جو جدیدیت کے فہم کے لئے بہترین ہے، بہرصورت تقابلی ہونی چاہیے۔ 

یہ یقیناًویبر کی بنیادی بصیرتوں میں سے ایک ہے اور آج بھی ہمیشہ کی طرح اتنی ہی معنی خیز۔ لہٰذا ماہرین سماجیات کو مغرب کو سمجھنے کے لئے جاپان پر نظر ڈالنی چاہئے، سرمایہ داریت کے فہم کے لئے اشتراکیت پر غور کرنا چاہئے، بھارت کو دیکھنا چاہئے اگر برازیل کو سمجھنا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ سماجیات میں تنگ نظری کسی ثقافتی کمزوری سے کہیں زیادہ ہے، یہ تو ادراک کی معذوریوں کا باعث ہے۔ یہ کسی بھی ماہر سماجیات کی تربیت کا لازمی حصہ ہونا چاہئے کہ وہ ایک ایسے سماج کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کرے جو اس سے حد درجہ مختلف ہو، ایک ایسی مہم جوئی جو یقیناًکئی طالبعلموں کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی ہے: یعنی بدیسی زبانوں کا سیکھنا۔ 

فکری ناتوانی بھی تنگ نظر ی ہی کا ایک پھل ہے، لیکن سماجیات کی حد تک زیادہ اہم جڑ علمی ضوابط سے تعلق رکھتی ہے۔اس علمی میدان میں اس عارضے کی جڑیں کم از کم پچاس کی دہائی تک جاتی ہیں۔ طبعی علوم کی نقالی کرنے کی ایک بے کار اور نظری طور پر بے سمت کوشش میں ماہرین سماجیات نے تحقیق کے نت نئے اور پہلے سے زیادہ نفیس مقداری طریقے وضع کیے۔اس میں فی نفسہ تو کچھ غلط نہیں کیوں کہ آخر علمِ سماجیات کئی ایسے سوالوں سے متعلق ہے جن کے لئے سروے قسم کی تحقیق ناگزیر ہے اور مقداری طریقے جتنے بہتر ہوں گے، دریافت شدہ نتائج اتنے ہی معتبر ہوں گے۔ لیکن تمام سماجیاتی سوالات کے لئے یہ طریقہ موزوں نہیں اور کئی مسائل اس سے بہت مختلف تحلیلی تجزیے مانگتے ہیں۔ سائنسی بااصولیت کو مقداریت تک محدود کر کے سماجیات کا دائرہ اکثر بس ان سکڑے ہوئے موضوعات تک محدود کر دیا گیا جو مقداری طریقوں کے لئے موزوں ہیں۔ نتیجے میں پیدا ہونے والی فکری ناتوانی پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ 

ایک سائنس کے طور پر علم سماجیات عقلی استدلال ہی کی ایک کوشش ہے۔ لیکن یہ اس مفروضے سے بہت مختلف ہے کہ سماجی فعالیت عقلی استدلال کی راہنمائی میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ کلاسیکی سماجیات میں یہ بات اچھی طرح سمجھی جا چکی تھی، شاید سب سے زیادہ ڈرامائی انداز سے ول فریڈو پریٹو کے ہاں جو ریاضیاتی رجحان رکھنے والا ایک ایسا ماہر معاشیات تھا جو سماجیات کی جانب اپنی اسی دریافت کے باعث آیا کہ زیادہ تر انسانی افعال اس کے مطابق غیرمنطقی تھے۔ افسوس ہے کہ علم معاشیات نے تو اس بصیرت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور homo oeconomicus کے ایک شدید عقلی ماڈل کے تحت کام کرنے کو ترجیح دی۔ نتیجتاً حرکی پیشین گوئیوں کا تو ذکر ہی کیا، وہ تو بار بار معاشی منڈی کے فہم میں بھی ناکام ہوتی رہی۔ 

ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد معاشیات کی نقالی کرتے ہوئے ’’مبنی بر عقل فعالیت کے منہج‘‘ پر مبنی نظری نمونوں کو اپنی علمیات سے مطابقت دینے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ ہم اعتماد سے پیشین گوئی کر سکتے ہیں کہ اس رجحان کے فکری نتائج کافی حد تک معاشیات ہی سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جی ہاں، سماجیات ایک عقلی علم ہے جس طرح ہر ایک تجرباتی علم ہے۔ لیکن اسے اپنی عقلیت کو دنیا کی عقلیت سمجھ لینے کی ہلاکت خیز غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ 

یہ تنقیدیں کسی حد تک سی رائٹ ملز کی کتاب ’’سماجیاتی تخیل‘‘ سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ملز نے ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں علم سماجیات کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والے نظریاتی طوفان کے بعد لکھا۔ ہم نہیں جان سکتے کہ اگر ملز ہمارے دور میں ہوتا تو کیا کرتا۔ نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کے اتنے سارے قارئین خاص طور پر وہ جو اس کی تنقیدوں سے بہت متاثر ہوئے تھے، کیا کرتے۔ وہ مارکسی اور نیم مارکسی مفروضوں سے تشکیل پاتی ایک ایسی نظریاتی سراسیمگی کے عالم میں تھے جو سماجیات کی تمام بیماریوں کا علاج تجویز کرتی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے ایک ایسا نظری رجحان پیش کیا جو یقیناً’’عظیم سوالوں‘‘ سے متعلق تھا ، یہ سب کچھ ایک بین الاقوامی تناظر (نظامِ عالم سے کم کوئی بات نہیں کی گئی) میں پیش کیا گیا، یہاں مقداری طریقوں کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ نہیں تھا اور آخری بات یہ کہ خود کو پوری طرح سائنسی مانتے ہوئے یہاں یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ اپنے علاوہ تقریباً ہر کوئی ’’شعورِ باطل‘‘ لئے اِدھر اْدھر ڈگمگا رہا ہے۔ 

بدقسمتی سے ’’عظیم سوالوں‘‘ کے جواب غلط ثابت ہوئے اور دنیا نے تھیوری کے مطابق عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ مارکسزم کے خاتمے کا دعویٰ تو خیر قبل از وقت ہو گا ہی، یہاں تو کتنے ہی ایسے نیم مارکسی نظریات ہیں جو کامیابی سے کل مارکسی روایت سے مکمل طور پر کٹ کر ایک علیحدہ دھارا تشکیل دے چکے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں علم سماجیات کو نظریاتی لبادہ اوڑھانے کا بدترین نتیجہ یہ غیرمتزلزل اعتقاد ہے کہ معروضیت اور ’’اقداری آزادی‘‘ ناممکنات میں سے ہیں اور ماہرین سماجیات کو یہ جانتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر کسی نظریے کے وکلا کے طورپر اظہارِ رائے کرنا چاہیے۔

یہ سوچ صرف بائیں بازو تک محدود نہیں۔ علم سماجیات کے کلاسیکی دور کی طریقیاتی جھڑپوں، خاص طو ر پر جرمنی میں یہ دائیں بازو کے مفکرین ہی تھے جو پوری قوت کے ساتھ اس محاذ پر کھڑے تھے۔معروضیت کے ’’باطل آدرش‘‘ کا تریاق ’’جرمن سائنس‘‘ تھی اور سائنس کا سب سے شاندار مقدمہ جس شخصیت نے لڑا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ مرحوم ڈاکٹر گوئبلز تھے :’’حق وہی ہے جو جرمن عوام کا مفاد ہے۔‘‘

جوں جوں امریکی فکر ی منظرنامے پر بایاں بازو تنزل کی جانب گامزن رہے گا، اور بالفرض اگر ایسا ہے تو دوسرے نظریات بھی یہی سوچ اپناتے نظر آئیں گے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو سائنس کو پروپیگنڈے میں بدل دیتی ہے اور جہاں جہاں اسے اپنایا جاتا ہے، وہاں یہ سائنس کے خاتمے کی علامت بن جاتی ہے۔ امریکی سماجی علوم میں تحریکِ نسواں اور تکثیری ثقافت کے علمبردار اس سوچ کے سب سے بڑے نمائندہ ہیں لیکن ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اوروں کا ظہور بھی ہو گا۔ ان میں سے کچھ دائیں بازو کے بھی ہو سکتے ہیں۔ 

علم سماجیات کی حالت کی تشخیص کے لئے اسے علیحدگی میں نہیں دیکھنا چاہئے۔ اس کی علامات وہ ہیں جو عمومی طور پر ہی فکری منظرنامے کا حصہ ہیں۔ دوسرے سماجی علوم بھی کچھ خاص اچھی حالت میں نہیں۔ زیادہ تر معیشت دان اپنے عقلیت پسند مفروضوں کے قیدی ہیں اور ماہرین سیاسیات کا جمِ غفیر بھی جیسے تیسے آخر کار اسی کھائی میں گرتا نظر آتا ہے۔ ماہرین بشریات شاید سماجی علوم کی کسی بھی شاخ سے زیادہ نظریاتی وابستگیاں رکھتے ہیں اور تاریخ اور بقیہ سماجی علوم کسی بھی ایسے نظریاتی فیشن کے آگے ڈھیر ہوتے محسوس ہوتے ہیں جو عام طور پر ائیر فرانس کے ذریعے بحر اوقیانوس پر سے اڑتا ہوا یہاں آن پہنچے، ہر ایک اپنے سے پہلے والے کی نسبت زیادہ ابہام پسند اور فکری سفاک۔

شاید ماہرین سماجیات سے اس سے بہتر کی امید لگانا بہت بڑی توقع باندھنا ہے۔ لیکن ماہرین سماجیات کا ایک مخصوص مسئلہ ایسا ہی ہے جو(ممکنہ طور پرماہرین بشریات کے استثنا کے ساتھ) اور کسی بھی سماجی علم میں نہیں پایا جاتا۔ علم سماجیات ایک نوعِ علم سے کہیں زیادہ ایک زاویہ نگاہ یعنی ایک تناظر ہے اور اگر یہ تناظر ناکام ہو جائے تو کچھ باقی نہیں بچتا۔ لہٰذا معیشت کا مطالعہ ہو یا سیاسی نظام یا ساموئی قوم کے جنسی ملا پ کے میلانات ، ممکنہ تناظر متعدد اور مختلف ہوتے ہیں جن میں سے ایک علم سماجیات ہے۔ زیادہ تر سماجی علوم کے فکری آلات میں سماجیاتی تناظر بہت کامیابی سے داخل ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی تاریخ دان ہوگا جس نے کسی نہ کسی طرح اپنے کام میں سماجیاتی تناظر کو جگہ نہ دی ہو۔ سماجی علوم کے بہت سے دوسرے اہل علم کے برعکس ماہرین سماجیات کسی مخصوص تجرباتی منطقے کو اپنا قرار نہیں دے سکتے۔ زیادہ تر ان کے پاس پیش کرنے کے لئے اپنا تناظر ہی ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا روگ دراصل اسی تناظر کو توڑ پھوڑ کر علمِ سماجیات کو متروک کر دیتا ہے۔ 

یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ یہ منسوخی کوئی بڑا فکری حادثہ نہیں کیوں کہ جو علم سماجیات نے اپنی اصل میں پیش کرنا تھا، اس میں سے بہت کچھ تو دوسرے علوم میں سما چکا ہے۔ لیکن جب ان علوم پر نظر ڈالی جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انہیں اس سماجیاتی دوا کی اچھی خاصی ضرورت ہے جو اس نوعِ علم کی کلاسیکی صورت تھی اور سماجیاتی روایاتِ علم کے وہ بچے کھچے ٹکڑے نہیں جنہیں اب اکٹھا کر لیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سماجیات کے ممکنہ زوال پر خوش نہ ہونے کی اچھی خاصی فکری وجوہات موجود ہیں۔ 

لیکن کیا قسمت کا پانسہ پلٹ سکتا ہے؟ میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بیماری کی جڑیں اب بہت گہری ہو چکی ہیں۔ واپسی کے لئے کچھ شرائط تجویز کی جا سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو اوپر دیے گئے مشاہدات پہلے ہی ضروری خدوخال سامنے رکھ چکے ہیں: ہم ایک ایسے علمِ سماجیات کی بات کر رہے ہیں جو کلاسیکی دور کے عظیم سوالوں کی جانب لوٹ جائے، ایک ایسا علم سماجیات جو وسیع المشرب اور طریقیاتی لچک رکھتا ہو، اور پرزور بلکہ پرتشدد طور پر نظریاتی جبر کے خلاف ہو۔ لیکن ایسی واپسی کے لئے اداراتی مطالبات کیا ہوں گے؟ ظاہر ہے یہ کام کانفرنسوں، منشوروں اور اسی قسم کی دوسری فرار آمادہ سرگرمیوں سے تو نہیں ہو سکتا۔ اس نوعِ علم کا احیاء تو شاید بڑی جامعات میں (چاہے پچھتاتے ہوئے ہی سہی) ایک یا ایک سے زیادہ ایسے درسی منصوبوں سے ہی ممکن ہے جن میں ماہرین سماجیات تربیت یافتہ ہیں۔ مزید برآں یہ سارا کام ایسے نوجوان لوگوں کے ذریعے ہونا چاہیے جن کے آگے دو یا دو سے زیادہ دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی باقی ہو، کیوں کہ اس میں اتنا وقت لگنا تو لازمی ہے۔ کیا اس کا احتمال ہے؟ شاید نہیں۔ لیکن کلاسیکی علم سماجیات کی ایک بنیادی بصیرت یہی ہے کہ انسانی افعال حیران کن ہوتے ہیں۔

آراء و افکار

(اپریل ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter