برصغیر میں اکبری عہد میں ملا فتح اللہ شیرازی کے زیراثر معقولات کی تعلیم کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے مقامی تعلیمی روایت پر گہرا اثر ڈالا، چنانچہ اس کے قریبی زمانے میں ملا قطب الدین اور ملا نظام الدین نے ’’درس نظامی‘‘ مرتب کیا تو اس میں یونانی فلسفہ، یونانی منطق اور علم الکلام کے علاوہ ریاضی اور ہیئت کے مضامین بطور خاص نصاب کا حصہ بنائے گئے۔ پورے نصاب پر معقولی رنگ بے حد غالب تھا اور معقولات کے عنوان سے کم وبیش ہر شعبہ علم میں ایسی اعلیٰ سطحی کتابیں شامل کی گئیں جن پر یونانی منطق کی اصطلاحات میں مباحث کی تنقیح کا رنگ کا غالب تھا۔ اس رجحان کے خلاف، شاہ ولی اللہ کی فکری مساعی کے زیر اثر، اصلاح نصاب کی ایک عمومی لہر پیدا ہوئی جس میں منطق وفلسفہ کے مضامین کی فی نفسہ اہمیت نیز ان کی تدریس کے لیے دقیق اور غامض متون کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے اور نتیجتاً نقلی علوم، بالخصوص ترجمہ وتفسیر، حدیث اور زبان وادب سے متعلق تدریسی مواد کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ نصاب میں مختلف مراحل پر ہونے والی تدریجی اصلاحات کے نتیجے میں موجودہ نصاب تعلیم میں معقولی علوم کا تناسب بہت کم ہو چکا ہے اور منطق، فلسفہ اور کلام کے مضامین سے متعلق نصاب سکڑتا ہوا چند مختصر کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔
اصلاح نصاب کی یہ تحریک اس زاویے سے یقیناًمفید اور ضروری تھی کہ تشحیذ اذہان کے لیے دقیق اور غامض متون کے حل کی لفظی مشقیں دراصل نفس مضمون اور اس کے مباحث کی تفہیم کی قیمت پر ہوتی ہیں اور عبارتوں کو حل کر لینا ہی ساری تدریسی ریاضت کا منتہائے مقصود بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کلی طور پر متن پر مبنی طریقہ تدریس میں پڑھنے والوں کا جو ذہنی سانچہ اور اس ذہنی سانچے میں کسی علم کا جو مجموعی تصور بنتا ہے، وہ بڑی حد تک جامد اور بے لچک ہو جاتا ہے جس میں فکری جدلیات اور کسی بھی علم کے دائرے میں فکر انسانی کے ارتقاء اور تغیرات کو سمجھنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ تاہم ان خامیوں کے تناظر میں اصلاح نصاب کا جو رجحان پیدا ہوا، اس کا نتیجہ سرے سے عقلی علوم اور عقلی مباحث ہی کو نظر انداز کر دینے کی صورت میں نکلا، حالانکہ اصل ضرورت اس چیز کی تھی کہ طریقہ تدریس کو متوازن بنایا جائے اور دور قدیم کے عقلی مباحث کی جگہ ان علوم ومباحث کو شامل نصاب کیا جائے جو آج کی فکری دنیا میں زیر بحث ہیں اور فکر وذہن کے سانچے بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسی طرح کسی خاص علم کے زیر عنوان چند مخصو ص متون یا نظریات پڑھا دینے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ اس علم کے مجموعی ارتقائی سفر اور اس دائرے کے مختلف فکری رجحانات سے طلبہ کو روشناس کرایا جائے۔ مثال کے طور پر درس نظامی میں فلسفہ کے مباحث کی تعلیم وسیع تر تناظر میں دیے جانے کے بجائے ان چند مخصوص کتابوں مثلاً ہدایۃ الحکمۃ، میبذی، الشمس البازغہ اور ملا صدرا وغیرہ کا انتخاب کیا گیا جو اس دور میں مختلف وجوہ سے ایرانی درس گاہوں میں زیادہ مقبول تھیں۔ ان کتابوں کے مضامین یونانی فلسفے کے ان مباحث کے گرد گھومتے ہیں جن سے عباسی دور میں یونانی علوم کے عربی زبان میں ترجمہ کی وساطت سے مسلمان واقف ہوئے۔ ان چند مخصوص کتابوں پر انحصار اور فلسفے کی بنیادی ماہیت اور اس کی عمومی تاریخ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں عموماً فلسفہ کا جو تصور پایا جاتا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ فلاسفہ یا حکماء نام کی کوئی ایک جماعت ہے جس کے کچھ مخصوص ومتعین نظریات ہیں جو ان کے ہاں عقائد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان نظریات کو ’’فلسفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
فلسفہ کا یہ تصور، ظاہر ہے کہ بے حد ناقص ہے، کیونکہ فلسفہ چند متعین اور طے شدہ نظریات کا نہیں، بلکہ عقلی بنیادوں پر غور وفکر کی ایک مسلسل روایت کا نام ہے جس میں بے شمار مختلف ومتنوع بلکہ متضاد رجحانات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ خود مسلمانوں کی فکری روایت اس تنوع اور تغیر وارتقا کی ایک رنگا رنگ داستان ہے۔ عرب ابتداءً ا یقیناًاس طرح کی عقلی بحثوں سے یونانی علوم کے ترجمہ کی وساطت سے واقف ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد ان تصورات ونظریات کی تنقیح، تشریح وتوضیح اور تردید واثبات کی ایک مستقل علمی روایت قائم ہو گئی جس میں اگر ایک طرف یونانی فلسفے کے ان تصورات کو اسلامی عقائد کے مطابق ڈھالنے اور انھیں اسلامی عقائد کی عقلی تفہیم کے لیے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آیا تو دوسری طرف اس کے برعکس فلسفہ یونان کے اساسی تصورات پر نقد ومحاکمہ کا فکری رجحان بھی پیدا ہوا، چنانچہ دور متوسط میں غزالی اور بعد ازاں ابن تیمیہ وغیرہ نے یونانی منطق وفلسفہ پر جان دار تنقیدیں کیں اور ان عقلی معیارات کو چیلنج کیا جن کی بنیاد پر فلاسفہ کے خلافِ اسلام نظریات کی تائید کی کوشش کی جا رہی تھی۔
یونانیوں سے ورثے میں ملنے والے تصورات ومباحث کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے جلیل القدر اہل فکر بھی پیدا ہوئے جنھوں نے نئے اور طبع زاد مباحث پر داد فکر دی اور مابعد الطبیعیات کے علاوہ انسانی نفسیات، علم اخلاق، عمرانیات، سیاسیات اور فلسفہ تاریخ جیسے موضوعات پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ ان میں الکندی، الفارابی، ابن سینا، ابن باجہ، ابن طفیل، ابن رشد، ابن خلدون اور نصیر الدین طوسی وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عقل اور شریعت کے باہمی تعلق جیسے دقیق سوالات پر علم کلام اور اصول فقہ میں معرکہ آرا بحثیں اٹھائی گئیں اور اس حوالے سے مختلف فکری رجحانات معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ مکاتب فکر کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آئے۔ مسلم صوفیہ نے اہم ترین فلسفیانہ مباحث کے حوالے سے ایک مستقل روایت کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی ماخذ کشف وعرفان اور روحانی سیر ومشاہدہ تھے۔
ان معروضات کا حاصل یہ ہے کہ دینی علوم کے نصاب میں عقلیات کو دوبارہ مناسب اہمیت دینے اور منتہی طلبہ کو کلاسیکی عقلی روایت کے ساتھ ساتھ معاصر فکری و فلسفیانہ بحثوں سے متعارف کروانے کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔