(کسی ایک فقہی مذہب کی پابندی اور مختلف مذاہب کے مابین تلفیق کے حوالے سے فیس بک پر ہونے والی بحث کے تناظر میں لکھی گئی توضیحات۔)
پہلی گزارش یہ ہے کہ میرے استاد محترم نیازی صاحب اور مجھے تلفیق پر جو اعتراض ہے، وہ اس بات پر نہیں ہے کہ مختلف مذاہب سے آرا کیوں اکٹھی کی جارہی ہیں؟ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ آرا اکٹھی کی جارہی ہیں یہ فکر کیے بغیر کہ ان آرا کے پیچھے جو اصول کارفرما ہیں، وہ آپس میں ہم آہنگ ہیں بھی یا نہیں؟ اگر اصولی ہم آہنگی یقینی بنائی جائے اور اصولی تضادات دور کیے جائیں ، تو بے شک آرا اکٹھی کرکے نئی رائے قائم کی جائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ فقہائے کرام نے مذاہب کی تشکیل اسی طرح کی ہے۔ امام محمد ، مثال کے طور پر ، امام ابوحنیفہ کے شاگرد رہے ، پھر امام ابویوسف کے شاگرد رہے، پھر امام مالک اور امام اوزاعی سے استفادہ کیا ، اور پھر انھوں نے علیٰ وجہ البصیرت ایک موقف اختیار کیا۔
آرا کے تنوع میں "مذہب" کی حیثیت کسی ایک رائے کو ہی حاصل ہوتی ہے
جو اصول امام محمد نے اپنائے اور ان کی روشنی میں فقہی جزئیات مرتب کیں، وہی بعد کے فقہائے کرام کے لیے فقہ حنفی ہو گئی۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ خود امام محمد کی کتب میں بسا اوقات آپ کو ایک سے زائد آرا مل جاتی ہیں۔ ایسے میں "حنفی مذہب" کیا ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جائے؟ میں یہ بحث نہیں کروں گا کہ کئی آرا میں کسی ایک رائے کا تعین کیوں ضروری ہے؟ ضرورت تو اس لیے مسلم ہے کہ خود امام محمد نے ہی الجامع الصغیر اور السیر الصغیر میں یہی کوشش کی کہ صرف "مذہب" ہی متعین کرکے دکھایا جائے۔ امام محمد کے بعد امام طحاوی اور امام کرخی نے "مختصر" لکھ کر اس کام میں مزید حصہ ڈالا۔ امام جصاص نے مختصر الکرخی کی شرح کرکے توضیح کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ دوسری طرف ان فقہی جزئیات سے اصولوں کی تخریج کا کام بھی ان بزرگوں نے کیا۔ امام سرخسی کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا کہ انھوں نے اصولوں کی تدوین کا کام بھی پورا کیا اور فقہی جزئیات کی شرح بھی اس انداز سے کی کہ ان کی المبسوط ہی مذہب کی نمائندہ کتاب بن گئی۔ یہاں تک کہ فقہائے کرام نے تصریح کی کہ مذہب کے تعین کے لیے لا یعول الا علیہ ؛ بلکہ یہاں تک کہا کہ لا یعمل بما یخالفہ۔ (دیکھیے علامہ شامی کی شرح عقود رسم المفتی۔ )
بعد میں خواہ امام کاسانی ہوں یا امام مرغینانی ، دونوں نے المبسوط پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ امام مرغینانی نے مختصر القدوری اور الجامع الصغیر کو اکٹھا کرکے بدایۃ المبتدی کا متن تشکیل دیا اور یہی متن آئندہ کے تمام فقہائے کرام کے لیے حنفی مذہب کا مستند ترین متن بن گیا۔ خود امام مرغینانی نے اس متن کی جو مختصر تشریح کی اور اسے ہدایہ کا نام دیا ، وہ شرح حنفی مذہب کا بنیادی ماخذ بن گیا۔بعد کی تمام شروح ، حواشی بلکہ متون بھی اسی ہدایہ سے ماخوذ اور ان پر تکیہ کیے ہوئے ہیں بلکہ ان کے رطب و یابس کی تمییز کے لیے بھی ہدایہ ہی معیار قرار پائی۔
عصر حاضر میں مسئلہ یہ ہوا کہ ہدایہ پڑھتے پڑھاتے ہوئے متن اور شرح میں فرق کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہدایہ میں بھی تو دو دو ، تین تین اور بعض اوقات زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پائی جاتی ہیں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے؟ لیکن جسے "حنفی مذہب" کہا جاتا ہے، وہ ان کئی آرا میں صرف ایک رائے ہی ہے 150 وہی جو بدایۃ المبتدی کے متن میں ہے۔
یہاں میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ بعض اوقات حالات کے تبدیل ہونے سے فتویٰ تبدیل بھی ہوسکتا ہے اور مذہب کے مشائخ مذہب کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فتوی تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔البتہ یہ ضرور یاد دلاؤں گا کہ جب حالات کی تبدیلی کے بعد فتوی تبدیل ہوجائے تو ہی تبدیل شدہ فتوی ہی اب "مذہب" بن جاتا ہے اور وہ پہلے سے موجود کئی آرا میں کوئی "ایک رائے "ہوتی ہے۔ مزارعت و مساقات ، وقف، زنا میں سلطان کے بجائے کسی اور شخص کی جانب سے اکراہ، تعلیم قرآن پر اجرت ، یہ اور اس طرح کے اور کئی مسائل یہاں مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں میرے جیسے کسی ناپختہ فکر والے شخص کی رائے یہ ہوسکتی ہے کہ مزارعت و مساقات اور وقف کے باب میں امام ابوحنیفہ کی رائے لی جائے لیکن جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو ان مسائل میں وہ صاحبین ہی کی رائے ہے اور یہ رائے تب تک مذہب کی حیثیت سے رائج رہے گی جب تک مذہب کے مشائخ اسے ترک کرکے امام کی رائے پر فتوی دینا شروع نہ کردیں۔ یہ ایک لمبا پروسس ہے اور ایک دو دن یا چند سالوں میں نہیں ہونے والا۔ مذہب کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ فتوی تبدیل ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے اور کسی اور رائے کو مذہب بننے میں کتنی محنت لگتی ہے۔
تنقید کا شوق رکھنے والے احباب فوراً ہی لپک کر ، یا شاید لہک کر ، کہہ دیں گے کہ یہ جمود کی علامت ہے ! یہ تقلید جامد ہے ! وغیرہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہے، حضور! کسی نے بھی مذہب کے خلاف رائے کے حق میں دلیل دینے سے نہیں روکا ، نہ ہی مذہب کے خلاف رائے کو دبانے کی کسی نے کوشش کی ہے۔ یہ ایک شورائی اور 'لبرل' قسم کی مشق ہے۔ آپ کو جو رائے مناسب لگتی ہے اس کے حق میں دلائل اکٹھے کیجیے ؛ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کیجیے ؛ لیکن دوسروں پر اپنی رائے مسلط نہ کریں ؛ دوسروں کے لیے بھی یہ حق مانیے کہ وہ جس رائے کو مناسب سمجھتے ہیں اس کے حق میں دلائل دیں اور آپ کو اور دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کریں ؛ اس طریقے سے بالآخر ہوسکتا ہے کہ جس رائے کو آپ بہتر سمجھتے ہیں اسی کو قبولیت عامہ حاصل ہوجائے اور اسی پر مذہب کا فتوی ہوجائے۔ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے مشائخ جب مذہب کے اندر موجود کئی آرا میں کسی ایک رائے کو مذہب قرار دیتے ہیں تو یہ کوئی الل ٹپ بات نہیں ہوتی ؛ بلکہ مذہب کے تمام اصولوں اور ان کی آپس میں ہم آہنگی اور تعامل کو دیکھ کر ہی وہ ایسا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ عملی حالات کے تقاضوں کو بھی لازماً مد نظر رکھتے ہیں۔ یہاں سے ہم واپس اصولی مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔
مسئلہ اصولی ہے
جی ہاں۔ مسئلہ اصولی ہے ، نہ کہ فقہی۔ اس لیے قواعد فقہیہ کی طرف جانے کے بجائے قواعد اصولیہ کی طرف رجوع ضروری ہے۔ پہلے تو ذرا امام شاطبی کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ "اصول فقہ قطعی ہیں۔"وہ یہ کیوں کہتے ہیں؟ میں وضاحت کرنے کے بجائے مثال کے ذریعے سوال "داغنے" کو ترجیح دیتا ہوں۔ چنانچہ ایک سوال ملاحظہ کیجیے۔ ایک فقیہ نے جب مان لیا کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا تو کیا وہ اس اصول کو کسی وقت چھوڑ سکتا ہے؟ امام شاطبی نے جو کچھ کہا ہے اس کی روشنی میں تو یہ ناجائز ہوگا۔ اگر مثال کے طور پر جناب غامدی صاحب ایک جگہ یہ کہیں کہ سنت صرف عملی شے کو کہتے ہیں اور دوسری جگہ کہیں کسی قول کو بھی سنت کہہ دیں ، تو ان کے ناقدین کیا کہیں گے؟ گویا امام شاطبی کی بات کہ اصول قطعی ہیں ، ہر شخص نے مانی ہے۔
چلیں آپ نے ایک اصول اپنا لیا تو اب اس کی پابندی آپ پر لازم ہوگئی ، الا یہ کہ آپ وہ اصول ترک کردیں۔ لیکن جب ترک کردیں تو اس صورت میں کسی جگہ بھی آپ اس اصول کا اطلاق نہیں کرسکیں گے۔ ہاں، ایک گنجایش ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ایک جگہ آپ ایک اصول مان رہے ہیں اور دوسری جگہ اسے ترک کررہے ہیں تو دونوں مسائل میں فارق واضح کریں۔ (اسے اصول قانون کی اصطلاح میں distinguishing کہتے ہیں۔ ) گویا یہاں بھی اطلاق یا ترک کا فیصلہ کسی اصول پر ہی ہوتا ہے۔
آگے بڑھیں اور اب مختلف اصولوں کے تعلق پر غور کریں۔ حنفی اصول یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا (جب تک چند مخصوص شرائط پوری نہ ہوں)؛ شافعیہ کا موقف اس کے برعکس ہے۔ اسی طرح حنفی اصول یہ کہ عام کی دلالت قطعی ہے ؛ شافعیہ اسے ظنی مانتے ہیں۔ اب کیا یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ایک اصول حنفی لے ( کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا) اور دوسرا شافعی ( کہ عام کی دلالت ظنی ہے)؟ اس سوال کا جواب اثبات میں تبھی ہوسکتا ہے جب دونوں اصولوں کے درمیان ہم آہنگی ہو ، ورنہ نہیں۔ اس کی وضاحت نیچے دی جارہی ہے۔
کیا تلفیق کبھی صحیح بھی ہوسکتی ہے؟
اب ہم ا س مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔
ایک فقہی مذہب دراصل اسلامی قانون کے متعلق ایک مخصوص تصور رکھتا ہے ؛ اس کے نزدیک اس مخصوص تصورِ قانون کے مطابق قانون اخذ کرنے کے لیے کچھ مخصوص مصادر اور کچھ مخصوص طرقِ استدلال و استنباط ہوتے ہیں ؛ اور اس مقصد کے لیے اس کے وضع کردہ یا قبول کردہ تمام اصول باہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اس پورے "فکری نظام" میں اچانک ہی باہر سے کوئی اصول کیسے داخل کیا جاسکتا ہے جب تک پہلے سے موجود اصولوں کے ساتھ اس "اجنبی" اصول کی ہم آہنگی یقینی نہ بنائی جائے؟ فقیہ کا کام ہی یہی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ یہ اصول اس نظام میں چل سکتا ہے یا نہیں؟ یا اگر اسے قبول کرنا ہے تو کن شرائط کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے؟ یا اس میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں جن کے بعد یہ قابلِ قبول ہوسکے گا؟
امام غزالی نے جب "مصلحت مرسلہ" کو ، یعنی اس مصلحت کو جس کے شرعاً قابلِ قبول ہونے کے لیے کوئی مخصوص دلیل جزئی نہ ملے ، قبول کرنے کے لیے درج ذیل تین شرائط لگائیں تو یہی ان کا مقصود تھا :
1۔ یہ کہ وہ کسی نص کے خلاف نہ ہو (جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص فقہی مذہب کے اصولِ تعبیر کی رو سے نص کا جو مفہوم بنتا ہو اس کے خلاف نہ ہو ) ؛
2۔ یہ کہ وہ "تصرفاتِ شرع" کے خلاف نہ ہو (جس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص فقہی مذہب نے اسلامی شریعت کے جو قواعد عامہ متعین کیے ہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو ) ؛ اور
3۔ یہ کہ وہ "غریب" نہ ہو ( یعنی اس مخصوص فقہی مذہب کے تصورِ قانون میں وہ بالکل ہی اجنبی نہ ہو بلکہ اس سے ملتا جلتا کوئی تصور ، کوئی قاعدہ ، کوئی ضابطہ ملتا ہو )۔
یہ تین شرائط اسی compatibility کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔
تلفیق کے جواز و عدم جواز پر معاصراہل علم کی بحث میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس بحث میں ہم آہنگی یقینی بنانے والی یہ بات بالکل ہی نظرانداز کردی گئی ہے۔ ہمارا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ تلفیق اگر یہ ہم آہنگی یقینی بنانے کے بعد کی جائے تو صحیح ہے ، ورنہ غلط ہے۔
قرآن وسنت کی نصوص سے اسلامی قانون کے استنباط و استخراج کے لحاظ سے فقہی احکام کو ہم تین مراتب میں تقسیم کرتے ہیں :
1۔ وہ احکام جو نصوص کی تعبیر و تشریح ، اصول فقہ کی اصطلاح میں "بیان"، کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں؛
2۔ وہ احکام جو اس پہلے مرتبے میں موجود احکام کی علت پر غور کرکے "قیاس" کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں؛ اور
3۔ وہ احکام جو پہلے دو مراتب میں موجود احکام کے مقاصد اور حکمتوں پر غور کرنے کے بعد ، یعنی "مقاصدِ شریعت" پر غور کرنے کے بعد ، اخذ کیے گئے ہیں۔
پہلے مرتبے میں موجود احکام میں تلفیق کی گنجایش کم سے کم ہے اور تیسرے مرتبے کے احکام میں تلفیق کی گنجایش زیادہ سے زیادہ ہے لیکن کسی بھی جگہ تلفیق صرف اسی صورت میں صحیح قرار پائے گی جب پہلے ان اصولوں کے درمیان ہم آہنگی یقینی بنائی جائے جن پر ان احکام کا دارومدار ہے۔
فقہی احکام کا جو یہ تیسرا مرتبہ ہے ، یعنی جہاں مقاصدِ شریعت پر غور کرکے احکام اخذ کیے جاتے ہیں ، یہاں مختلف مذاہب فقہ کے درمیان بہت حد تک پہلے ہی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جسے فقہائے کرام "سیاسہ شرعیہ" کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔ سیاسہ شرعیہ اور مقاصد شریعت کے باہمی تعلق پر بعد کے فقہائے کرام کے کام کو اگر چھوڑ بھی دیں اور صرف امام دبوسی کی "تقویم الادلہ "میں متعلقہ مباحث دیکھ لیے جائیں تو اس بات کی پوری وضاحت مل جائے گی۔
امام محمد نے دوسرے مذاہب کے اصول کیسے استعمال کیے؟
اب ان مسائل پر غور کریں جہاں امام محمد نے محدود پیمانے پر دیگر مذاہب کے اصول استعمال کیے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ سیر کے بیش تر احکام ، اور بالخصوص وہ احکام جو "السیر الکبیر" میں مذکور ہیں ، سیاسہ شرعیہ کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے وہاں پہلے ہی تلفیق کی گنجایش تھی۔
دوسری بات جو زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ امام محمد نے جو دوسرے اصول یہاں قبول کیے ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جو پہلے بھی حنفی مذہب کی رو سے مقبول ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں نے کسی کو امان دی ، یا کسی سے امان لی ، تو امان کے الفاظ میں وہ مفہوم مخالفہ کو معتبر قرار دیتے ہیں تو یہ حنفی مذہب کی رو سے بھی صحیح ہے کیونکہ مفہوم مخالفہ کو وہ صرف شرعی نصوص کی تعبیر میں معتبر نہیں مانتے اور وہاں بھی چند شرائط پوری ہوں تو اس کے بعد معتبر مانتے ہیں۔ دیگر اصول جو انھوں نے استعمال کیے ہیں وہاں امام سرخسی نے ہر جگہ واضح کیا ہے کہ حنفی مذہب کی رو سے وہ کیسے قابل قبول "بنائے گئے "ہیں۔ اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ہم آہنگی یقینی بنائی۔
تیسری بات ان دونوں سے زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ ایسے مسائل میں امام محمد کی رائے اور حنفی "مذہب" ہمیشہ ایک نہیں ہیں اگرچہ السیر الکبیر کا شمار "ظاہر الروایہ" میں ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ذرا ان مسائل پر امام سرخسی کی شرح ، امام کاسانی کا موقف اور بدای? المبتدی کا متن دیکھ لیجیے۔
کیا یہ Positivism ہے؟
میرے لیے عمار بھائی کا یہ کمنٹ نہایت حیران کن تھا کہ جو موقف ہم پیش کررہے ہیں وہ positivism سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ موقف positivism سے ایک سو اسی درجے مختلف ہے۔
ایک تو positivism کا تو یہ کہنا ہے کہ قانون بس وہی ہے جو ریاست نے ، یا کسی انسانی نظام نے ، باقاعدہ طور پر وضع کرکے دیا اور اس کا اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کم از کم اس لحاظ سے تو عمار بھائی ہمارے موقف کو positivism قرار نہیں دے رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مقننہ /شارع کی جانب سے دیے گئے قانون میں جہاں خلا پایا جائے ، جس معاملے میں "حکم" نہ ملے، وہاں positivism جج کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنی قانونی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حکم "وضع" کردے جو اسے اس مسئلے میں مناسب محسوس ہوتا ہو۔ میں نے کئی دفعہ وضاحت کی ہے اور آج پھر تصریح کرتا ہوں کہ ہم جج کے لیے ایسے کسی اختیار کے قائل نہیں ہیں۔ یہی تو ہمارے موقف اور جناب غامدی صاحب کے موقف میں بنیادی فرق ہے۔
غامدی صاحب اس کے قائل ہیں کہ "جہاں شریعت خاموش ہو "وہاں انسانوں کو "عقل و فطرت" کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ براہ کرم اس موقف کو فوراً ہی positivism نہ قرار دیں۔ درحقیقت یہ naturalism ہے کیونکہ naturalists کا یہی موقف ہے کہ قانونِ فطرت میں تمام مسائل کے لیے حکم موجود ہے اور انسان اسے عقل کے ذریعے معلوم کرسکتے ہیں ، اگر وہ معلوم کرنا چاہیں۔ اس موقف اور positivism میں بظاہر یکسانیت ہے لیکن دراصل دونوں میں جوہری فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ positivism کی رو سے ایسے مقام پر جج قانون "وضع" کرتا ہے جبکہ naturalism کی رو سے وہ قانون "دریافت" کرتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں موقف صحیح نہیں ہیں۔ ہمارے موقف کی رو سے حنفی اصول سے قریب ترین موقف مغربی فلاسفہ قانون میں کسی کا اگر ہے تو وہ رونالڈ ڈوورکن ( Ronald Dworkin) کا ہے جس نے تفصیل سے دکھایا ہے کہ جہاں آپ قرار دیتے ہیں کہ قانون خاموش ہے ، وہاں بھی قانون خاموش نہیں ہوتا ؛ نہ ہی جج وہاں قانون وضع کرتا ہے ، نہ ہی وہ "قانونِ فطرت" اپنی "عقل" کے ذریعے "دریافت" کرکے اس پر فیصلہ سناتا ہے ؛بلکہ ایسے مواقع پر جج قانون کے قواعدِ عامہ general principles of law) کی روشنی میں فیصلہ سناتا ہے۔ ان قواعدِ عامہ کے لیے جج کو دکھانا پڑتا ہے کہ قانون کی مختلف جزئیات کے پیچھے کون سا قاعدہ کارفرما ہے جس کا اطلاق یہاں بھی ہوتا ہے جہاں بظاہر آپ کو کوئی دلیل جزئی نہیں مل رہی۔
کیا ہم کسی ایک منہج کو لے کر باقی مناہج کی نفی کرتے ہیں؟
کہنے دیجیے کہ ہمارے موقف کے متعلق یہ اعتراض بھی قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ ہم بالکل بھی اس کے قائل نہیں ہیں کہ اسلامی قانون کے اصول اور قواعد کا ارتقا امام سرخسی پر آکر رک گیا ہے ؛ نہ ہی ہم وقت کا پہیہ واپس گھمانا چاہتے ہیں۔
اس کے برعکس ہم اس کے قائل ہیں کہ ظاہر الروایہ پر مستند ترین شرح امام سرخسی کی ہے اور حنفی فقہائے کرام کے اصولوں کی بہترین وضاحت امام سرخسی نے کی ہے۔ امام سرخسی کے بیان کردہ کسی اصول کی مزید بہتر تہذیب ، تعبیر یا توضیح اگر کی جاسکتی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ امام سرخسی سے قبل کے فقہائے احناف کے کام ، بالخصوص امام محمد کی کتب ، سے جزئیات بیان کرکے بتایا جائے کہ کون سا جزئیہ امام سرخسی کے بیان کردہ اصول کے خلاف جاتا ہے اور اس اصول میں کیا تبدیلی کی جائے کہ وہ اس جزئیے پر بھی محیط ہوجائے اور باقی جزئیات بھی اس کے اطلاق سے نہ نکلیں؟ یہ بالکل وہی طریقہ ہے جس پر امام سرخسی مثال کے طور پر امام کرخی یا امام عیسی بن ابان یا متقدمین فقہائے کرام میں کسی اور کے بیان کردہ اصول کی تصحیح کرتے ہیں۔
جیسا کہ اس مضمون کی ابتدا میں ذکر کیا گیا ، امام سرخسی کے لیے یہ مقام ہم نے "تخلیق" نہیں کیا بلکہ حنفی مذہب کے مشائخ نے ان کے لیے بالاتفاق یہ حیثیت تسلیم کی ہے۔
مزید برآں ، ہم اس کے بھی قائل ہیں کہ جدید مسائل کے حل کے لیے حنفی مذہب کے ان اصولوں کی روشنی میں نئے اصول بھی وضع کیے جاسکتے ہیں؛ دیگر مذاہبِ فقہ سے بھی اصول لیے جاسکتے ہیں ، بالخصوص سیاسہ شرعیہ کے میدان میں ؛ اور دیگر نظام ہائے قوانین سے بھی اصول لیے جاسکتے ہیں ؛ لیکن اس سب کچھ میں بس یہ لحاظ رکھنا لازمی ہوگا کہ وہ نیا اصول جو آپ وضع کریں ، کسی اور فقہی مذہب سے لیں ، یا کسی اور نظامِ قانون سے لیں، وہ اصول پہلے سے موجود اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو ؛ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس اصول میں کچھ ایسی تبدیلیاں کرنی ہوں گی جن کے بعد وہ ان اصولوں سے ہم آہنگ ہوجائے ؛ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر وہ اصول قبول نہیں کیا جاسکتا۔
ہذا ما عندی ، و العلم عند اللہ۔