جوابی بیانیہ اور قومی بیانیہ ۔ ایک تقابلی جائزہ

عدنان اعجاز

حال ہی میں وزیر اعظم کی جانب سے 'جوابی بیانیے' کے تجدید مطالبہ کے نتیجے میں چھڑنے والی بحث کے استقصا سے پتہ چلا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب کی جانب سے ایک 'قومی بیانیہ' 2015 میں ہی تیار ہو چکا تھا۔ بنیادی ڈھانچہ اگرچہ مفتی صاحب ہی کا تھا تاہم ان کی روداد کے مطابق تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علما کی جانب سے حذف و اضافے کی تضمیم و توثیق کے بعد متفقہ مسودہ متعلقہ وفاقی اداروں کو ارسال بھی کر دیا گیا تھا۔ ہماری بدقسمتی کہ یہ اہم ترین پیشرفت شاید گمنامی اور شاید کوتاہ بینی سے اب تک علم میں نہ آسکی تھی۔ خیر اب چونکہ یہ مسودہ جس کا بے چینی سے انتظار تھا، جسے مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کو درپیش مہلک عالمگیر نظریاتی وباؤں کے لیے نسخہ کیمیا بننا تھا، جب نمودار ہو چکا تو اب یہ ایک دیانتدارانہ علمی تجزیے کا متقاضی ہے۔

2015 ہی کے آغاز میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا مسودہ ’’اسلام اور ریاست۔ ایک جوابی بیانیہ‘‘ اس سے پہلے ہی شائع ہو چکا تھا۔ چنانچہ اب جبکہ یہ دونوں بیانیے 150 یعنی علما کا قومی بیانیہ اور غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ150منظر عام پرآ چکے، ان دونوں کا تقابل و تجزیہ آسان بھی ہو گیا ہے اور ضروری بھی، تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ کون سے وہ نظریات ہیں جو اب اس منتشر قافلے کی شیرازہ بندی کے لیے بانگ درا بننے کے اہل ہیں۔ 

یہ بات محتاجِ بیان نہیں کہ حکومت یا اہل علم و دانش جس بیانیے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس کے موضوعات و مندرجات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ تو آپ سے ہویدا ہے کہ ان کی مراد ان بنیادی مذہبی نظریات 150 جن کا پرچار دہشتگرد اور انتہا پسند کرتے ہیں 150 کے جواب میں ایسے نئے یا درست دینی نظریات ہیں جو قوم اور امت کی سمت و احوال میں بہتری کی طرف گامزن کرنے کا موجب بنیں۔ بہر حال اس بات کا بیان یہاں کر دینا مناسب معلوم پڑا۔

تجزیے کے لیے آئیے پہلے مفتی منیب صاحب کے قومی بیانیے کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں، کہ غامدی صاحب کے جوابی بیانے پر تو بعض پہلوؤں سے بہت کلام (ہرچند ناکافی) اب تک ہو چکا ہے، اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ جس تناظر میں اور جن امراض کے علاج کے لیے یہ لکھے گئے ہیں، یہ دونوں بیانیے کس حد تک ان کی رگِ معدن معین اور ان کی تشخیص کر پائے ہیں، اور کس تشخیص کے نتیجے میں قافلے کے رخ میں درستگی کے لیے کس قدر راہنمائی مل پائے گی۔

خلاصہ قومی بیانیہ 

مفتی صاحب نے مملکت پاکستان کی اسلامی اساسوں کی نشاندہی کے بعد موجودہ ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا مطالبہ دہرایا اور نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہونے کی یاددہانی بھی کرائی۔ تاہم انہوں نے یہ واضح فرمایا کہ نفاذِ شریعت کی یہ جدوجہد پرامن ہونی چاہیے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، حرامِ قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ریاست ان متشدد تحریکوں کو کچلنے کے لیے جو فوجی آپریشن کر رہی ہے، علما ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ علما کو اکیسویں آئینی ترمیم پر جس میں دہشت گردی کو ’’مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘ کے ساتھ خاص کر دیا، تحفظات تھے۔ انہوں نے خودکش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا اعادہ بھی فرمایا اورضربِ عضب کا دائرہ لسانی، علاقائی اور قومیت کے نام پر مصروفِ عمل مسلح گروہوں تک وسیع کرنے کا مطالبہ کیا۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت انگیزی اور مسلح تصادم کو ناجائز و جرم قرار دیتے ہوئے انہیں مسالک و مکاتبِ فکر سے ممیز کیا،اور مؤخرالذکر کو تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہونے کی وجہ سے اسلامی علمی سرمائے کا حصہ بتلایا۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ میڈیا کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بنا کر انہیں ان موضوعات پر گفتگو کے لیے قانونی حدود کا پابند کیا جائے تا کہ انتشار نہ پھیلے۔

پھر مفتی صاحب نے بالعموم درسگاہوں کے حوالے سے حکومت کو ذمہ داری کا احساس دلایا کہ اگر کہیں بھی عسکریت یا نفرت انگیزی کی تعلیم دی جارہی ہو تو اس کے خلاف اقدام کیا جائے۔ جہاں تک مدرسوں کا معاملہ ہے، مفتی صاحب نے اْن کا دفاع کیا، ہر قسم کی حکومتی آڈٹ کی پیشکش کی اور شکوہ کیا کہ ان پر بے جا الزامات بند ہونے چاہییں۔ انہوں نے دعوت و تبلیغ اور اظہارِ رائے کی آزادی کی توثیق کرتے ہوئے آرٹیکل 295 کا حوالہ دے کر اس آزادی کو قانون کے دائرے میں رکھنے کی تاکید فرمائی۔ مفتی صاحب نے صریح الفاظ میں واضح کیا کہ مفتیان اور علما کا اختیار کفر کو کفر کہنے اور سائل کو شرعی حکم بتانے تک محدود ہے۔ کسی شخص پر اس کے اطلاق اور اس کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف حکومت و عدالت کو ہے۔ پھر دنیاوی تعلیم کے پرائیویٹ اداروں کے لیے کچھ اصلاحات تجویز فرمائیں۔ مفتی صاحب نے یہ نکتہ بھی واضح فرمایا کہ علما غیر مسلم شہریوں کے انسانی، شہری اور مذہبی حقوق کی توثیق اور ان کے تحفظ کی پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ آخری نکتے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اْن کی وراثت، تعلیم، شادی اور حق رائے دہی جیسے حقوق کی پاسداری کی تاکید کی اور حکومت کو قانون کی طاقت سے ان کی رکھوالی کی نصیحت فرمائی۔

قومی بیانیے کا طائرانہ جائزہ

سب سے پہلے مفتی منیب الرحمن صاحب مع مساعد علما شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حکومت و عوام کی معاونت کی خاطر یہ مفصل بیانیہ مرحمت فرمایا۔ اْن کی یہ کاوش قابلِ ستائش و توصیف ہے۔ پھر جس دو ٹوک، بلااستثنا اور بے لاگ انداز میں محارب گروہوں کی قتل و غارت گری کو حرام لکھا ہے، یہ بھی لائق تحسین ہے۔

اب آئیے اس کے تجزیے کی طرف۔

اس بیانیے کا سب سے پہلا اور اہم ترین پہلویہ سامنے آتا ہے کہ علما کی رائے میں روایتی مذہبی فکر یا اس پر مبنی مروّجہ مذہبی بیانیہ اور اس دور کے مفسدین کے نظریات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یعنی وہ اس کے قائل ہیں کہ مروّجہ مذہبی بیانیے میں کوئی شے ایسی نہیں جو اِنتہاپسندی یا دہشتگردی کا باعث بن رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایسے مذہبی نظریے یا استدلال سے تعارض جو متشدد تحریکیں اپنی تائید میں اکثر پیش کرتی رہتی ہیں، اس بیانیے میں سرے سے جگہ ہی نہ بنا سکا۔ ہاں، مفسدین کے اعمال کی مذمت انہوں نے دہرائی ہے،تاہم شاید ہی کوئی حلقہ دانش یا مکتب فکر ایسا ہو جس نے اس کی مذمت بارہا نہ دہرائی ہو؛ الغرض تحصیل حاصل۔ شاید اسی لیے انہوں نے اس کا نام مذہبی بیانیہ کے بجائے قومی بیانیہ رکھا ہے۔ چنانچہ یہ واضح ہوا کہ علما کے نزدیک محارب گروہوں کے مذہبی بیانیے کا کوئی پہلو لائقِ تنقیح نہیں۔ اہل علم و دانش کے لیے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں پھر کچھ مانع نہیں کہ اِن محارب گروہوں کے نظریات و اہداف کی تو علما توثیق کرتے ہیں، فقط طریقہ کار سے اختلاف ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنیادی نظریات پر بحث یا ان کی وضاحت کے بجائے یہ بیانیہ مختلف شعبہ ہائے ریاست و حکومت سے متعلق مجوزہ اصلاحات پر مرتکز نظر آتا ہے۔ پس اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ بیانیہ کم اور مسودۂ انتظامی اصلاحات زیادہ معلوم پڑتا ہے۔ باوجود اس کے، حکومت کو تجویز کردہ اِن گراں قدر اصلاحات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ یہ خیر کا باعث بہر حال بن سکتی ہیں۔ جیسے مثلاً فتووں کے لزومی و التزامی تخصیص کے باب میں کسی مفتی کی حدود کا تعین اور حکومت و عدالت کے اختیارات کی توضیح موجب اصلاح تجویز ہے۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ بیانیہ بین السّطور اور مبہم الفاظ میں اِن باغی گروہوں کے تولد و وجود کی اصل ذمہ داری حکومت پر ڈالتا ہے، اور اس کا سبب شریعت کے نفاذ سےْ وگردانی یا کوتاہی کو قرار دیتا ہے۔ اسی لیے اس بیانیے کی مجوزہ اصلاحِ اقدامات کابشکل کبیر رخ حکومت کی طرف ہے اور متشدد گروہوں کی جانب نسبتاً کہیں کم۔

چوتھا پہلو یہ ہے کہ یہ بیانیہ باغی گروہوں کے ظالمانہ اعمال کی مذمت و تحریم تو کرتا ہے، پر اس کے لیے بھی کوئی دینی استدلال فراہم نہیں کرتا۔ بیانیے کا مقصد ہر کوئی جانتا ہے کہ فقط یہ تو نہیں تھا کہ مفسدین کی لفظاً مذمت کر دی جائے، یا حرام کو حرام اور حلال کو محض حلال کہہ دیا جائے، بلکہ یہ تھا کہ ایسے مذہبی استدلال، خواہ اجمال سے ہی سہی، پیش کیے جائیں جن سے ان کے فاسد نظریات 150 جو ان کے مہلک افعال کا سر چشمہ ہیں 150 کی تصحیح اور سادہ لوح عوام اور مخلص مسلمانوں کی رہنمائی ممکن ہو سکے۔ جیسے مثلاً پہلے ہی نکتے میں قرآن و سنت کے مطابق قوانین بنانے میں 'کوتاہی' کے نتیجے میں حکومت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کی ممانعت تو لکھی، پر اِس کے لیے کوئی شرعی جواز فراہم نہیں کیا؛ باوجود اس کے کہ یہ 'کوتاہی' کا دعوی سراسر ایک موضوعی رائے ہے جسے کوئی دوسرا 'سرکشی' پر محمول کر کے ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون کے زمرے میں لے آسکتا ہے، اور جبکہ باغی گروہ اس استدلال کا سہارا ہر حملے کے فوراً بعد نشر کیے جانے والے بیانات میں بہ تکرار لیتے بھی نظر آتے ہیں۔ پس کسی قسم کے دینی استدلال سے خالی یہ بیانیہ علمی طور سے کمزوری کا مظہر نظر آتا ہے۔

پانچواں اور آخری اہم پہلو یہ ہے کہ بیانیہ تحریر و پیش کرنے والے قابل صد احترام مفتی صاحب کا تعلق جس مسلک سے ہے، سب اہلِ علم جانتے ہیں کہ اِس مسلک کے عقائد و نظریات اور پیروکار 150 ایک تحفظ ناموسِ رسالت کے زمرے کے کچھ متجاوز اقدامات کے ماسوا 150کبھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث و منسوب نہیں پائے گئے۔ یہ تو چند اور مسالک ہیں جس کے کچھ متبعین اس ناسور سے گھائل ہوئے اور ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ اِن کے قلم سے تسوید خیالات سے مخاصمین کی اصلاح کی امید کچھ اتنی ہی ہے جتنی اس خط سے ہونی چاہیے جو پوپ (pope) نے تعددِ ازواج کی مذمت پر مبنی مورمنوں (Mormons) کے نام ارسال کیا ہو۔ اگرچہ مفتی صاحب نے دوسرے مسالک کے پیشواؤں اور ان کے نمائندوں کے موثق و ہم نوا ہونے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم فدوی کو یہ خوف ہے کہ کہیں غائبانہ توثیق اس اہم معاملے میں ناکافی نہ سمجھی جائے۔ پس انہیں ببانگ دہل اس کی تائید میں سامنے آنا ہو گا۔

اب آئیے، ان نکات کے ذیل میں دونوں بیانیوں کی تشخیص کی موزونیت ماپتے ہیں جن کو مخاصمین مذہبی بیانیے کی حیثیت سے اپنائے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً پوری قوت و چیلنج کے ساتھ ان کی نمائش بھی کرتے رہتے ہیں۔ نظریات کی یہ تالیف ظاہر ہے کہ میرا انتخاب ہے اور اس میں حذف و اضافہ ممکن، تاہم مجھے اپنی تحقیق کے جامع ہونے پر اعتماد ہے۔

دہشت گردوں کا بیانیہ

نکتہ 1: اسلام کا نظام فقط خلافت ہے جو یہ تقاضاکرتا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی سلطنت اور ان کا ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے۔ ہر مسلمان پر اس کے قیام کی جدوجہد کرنا واجب ہے۔ موجودہ دَور کی متفرق ریاستوں کے عوام اور اِن کے حکمران اس حکم کی صریح خلاف ورزی کر کے، اور خلافت کے مقابل میں جمہوریت جیسے کفریہ نظام کو اپنا کے، شدید گنہگار ہو رہے ہیں۔ پس جو کوئی اس ’’ایک اسلامی خلافت‘‘ کے قیام میں حائل ہو رہا ہو یا اس گناہ پر مطمئن ہو، وہ گمراہ، بعض صورتوں میں فاسق اور بعض میں کافر اور حلال الدم بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے سب جارحانہ اقدامات اسی تناظر میں ہیں۔

نکتہ 2: تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔ اسلام میں قومیت کی بنیاد صرف ہمارا مذہب ہی ہو سکتا ہے۔ موجودہ دَور کی ریاستیں چونکہ مذہب کے علاوہ دوسرے مشترکات 150 جیسے زبان، رنگ، نسل، علاقہ وغیرہ 150 کی بنیاد پر بنی ہیں، اس لیے حرام ہیں، اور اِن سرحدوں کا مٹا دینا دین کا تقاضا۔ویسے بھی سرحدوں کی یہ لکیریں کافروں کی کھینچی ہوئی ہیں، اس لیے باطل منذ البدایۃ (void ab initio) اور ناقابل قبول ہیں۔ لہٰذا اللہ کی زمین کو اِن ناجائز و بدعی سرحدوں سے پاک کر دینا یا کم از کم اس کی جدو جہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے۔جو مسلمان یہ نہیں کر رہے، وہ شدید گنہگار ہیں۔

نکتہ 3: کفر و شرک کو دنیا میں رہنے کی اجازت تو دی جا سکتی ہے، پر کسی خطہ ارض پر حکومت کرنے کی نہیں۔ یہ زمین جس طرح صرف خدائے واحد کی ملک ہے، اسی طرح یہاں امر (حکومت) کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے۔ پس مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ پوری زمین کو خدائے واحد کی حکمرانی میں لانے کے لیے ہر لمحہ کافر و مشرک اقوام سے برسرِ پیکار رہیں، اور اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے مثال پکڑتے ہوئے دعوت، تبلیغ، مجادلہ اور جارحانہ اقدامات سب اپنائے جا سکتے ہیں۔ ایک دِن تو ایسا آنے ہی والا ہے جب پوری زمین پر صرف اسلام کا بول بالا ہو گا، پر اِس دن کو لانے کی جدو جہد کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔

نکتہ 4: اسلام کی رو سے کافر کی جان کو فی الحقیقۃ کوئی حرمت حاصل نہیں۔ ہاں، اگر انہیں کسی مسلمان یا معاہد قوم یا ان کے اربابِ اقتدار نے امان دے رکھی ہو تو ایک طرح کی عارضی حرمت اِن کے باب میں بھی قائم ہو جاتی ہے۔ تاہم، چونکہ کوئی ایسی اسلامی حکومت نہ تو پاکستان میں اور نہ ہی دوسرے اسلامی ممالک میں قائم ہے جو اسلامی حکومت کہلانے کی لائق یا اہل ہو تو اس سبب سے اِن کی دی ہوئی امان بھی باطل و ناکارہ ہے۔ پس کہیں بھی غیر مسلموں کی بے دریغ گردن زنی کرنا دینی اعتبار سے بالفعل جائز ہے۔

نکتہ 5: ارتداد کی سزا اسلام میں موت ہے۔ یہ سزا دینے کا اصل اختیار اور ذمہ داری حکومت ہی کے پاس ہے۔ پر جب نہ تو حکومت خود ہی اسلامی کہلانے کی اہل ہو اور/یا اس سزا کے اطلاق میں ناکامی یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہو، تو مخلص مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اللہ کی اس حد کی پاسداری و نفاذ کریں۔ اس سبب سے وہ فرقے جو اپنے بعض عقائد (جیسے اسلاف سے شرکیہ عقیدت، تحقیر صحابہ وغیرہ)، یا افعال (جیسے ہجو رسول، مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی اعانت وغیرہ)کے باعث مرتد ہو چکے ہیں، اْن کی گردن زنی جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہو جاتی ہے۔

نکتہ 6: نفاذِشریعت کی جدوجہد ہر مسلمان پر دینی فریضہ ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا۔ پس جو حکمران اور معاون حکومتی ادارے، یہاں تک کہ ان کی معاونت کرنے یا ان کے ساتھ اس انحراف میں تسامح برتنے والے علما، جو کوئی بھی پاکستان یا دنیا کے کسی اور مسلم ملک میں نفاذِ شریعت (جس میں نماز، زکوٰۃ، حدود، داڑھی، پردہ، آلاتِ موسیقی کی ممانعت، غیر مسلموں کی اذلّ شہریت اور ان سے جزیہ کی وصولی جیسے اسلامی قوانین اور شعائر کی پابندی شامل ہے) سے انحراف یا پس وپیشی سے کام لے رہا ہے وہ اللہ کا مجرم ہے اور سورہ مائدہ کی آیات 44، 45 اور 47 کے تحت سرکش و کافر ہو چکا ہے۔

نکتہ 7: جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ اصلاً دین اسلام کو تمام دنیا پر نافذ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے (کلمۃ اللہ ھی العلیا)۔ پھر مزید اِس وقت جو صورتحال مسلم ممالک پر غیر مسلم عالمی قوتوں کے ہاتھوں حملوں اور قبضوں کے باعث درپیش ہے، یہ بھی اِن حربیوں کے خلاف قتال اور 'ہلکے ہو یا بوجھل، اللہ کی راہ میں نکلو' کا تقاضا کرتی ہے۔پس ہر سالم عقل و بدن مسلمان کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف غیر مسلم قوتوں کے ہر ہر معاون (فوجی، حکمران، ریاستی اداروں، جنگ پر گرمانے والے لکھاریوں حتی کہ ٹیکس کے ذریعے بالواسطہ معاونت کرنے والے عوام) کے خلاف ہر جلی و خفی طریقے سے جنگ کریں بلکہ جو مسلمان افراد یا ممالک بھی معاونت علی الاثم کے اس جرم میں ان کے شریک کار ہیں، اِن سب کو بھی غیر مسلموں میں سے ہی شمار کر تے ہوئے اِن کی بھی بیخ کنی سر انجام دیں، اور فقط نام کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان سے کوئیْ و رعایت نہ برتیں۔ یہی آیت ومن یتولھم منکم فانہ منھم کا تقاضا ہے۔

یہ ہے وہ بیانیہ اور بالعموم وہ بنیادی نظریات جن کے دہشت گرد قائل ہیں اور جن کی اشاعت و تبلیغ ان کی جانب سے بارہا ہو چکی ہے۔ اور کوئی محقق بھی بشکل مستقل ذاتی طور پر یہ باور کر سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے ہر ظالمانہ فعل کا اصولی کھرا انہی نکات میں سے کسی ایک تک پہنچتا ہے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ علماء اور غامدی صاحب کے پیش کردہ بیانیے اِن سے کس طور پر تعارض کرتے ہیں۔

تعارض

نکتہ 1: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 2 خلافت کے نظریے کو اپنی بنیاد سے ہدف بنا کر یہ واضح کرتا ہے کہ نہ تو خلافت دین اسلام کی کوئی اصطلاح ہے اور نہ ہی اس کا کسی عالمگیر سطح پر قیام مسلمانوں سے کوئی دینی تقاضا۔ خلافت کا اصطلاح بننا اور اس کے لوازمات کا شمار بعد کے ادوار میں ہوا۔ اوّلین ماخذوں میں حکم تھا تو فقط اتنا کہ اگر کسی قطعہ ارض میں حکومت مسلمانوں کے پاس آ جائے تو ان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے احکامات کی پاسداری کریں، انصاف سے معاملات چلائیں، اور اپنے پورے نظام کو باہمی مشاورت پر استوار کریں۔ اسی طرح نکتہ نمبر 8 جمہوریت کو گناہ تو کجا باہمی مشاورت اور منشائے الٰہی کی ایک مجسم اور قابل عمل موجودہ صورت بتاتا ہے اور اس کے لیے دلائل بھی فراہم کرتا ہے۔ پھر اِن دونوں نکات کی مزید وضاحت اور علما کے اعتراضات کے جوابات کے لیے دو پورے مضامین بھی اس جوابی بیانیے کے ضمیمہ کے طور پر فراہم کرتا ہے۔ الغرض یہ بیانیہ دہشت گردوں کے نظریے کی بنیاد ہی کا استیصال کر دیتا ہے۔ پس مسلمانوں کا مجرم یا گنہگار ہونا تو درکنار، ان کے دورِ حاضر کی ریاست و جمہوریت کا وفادار بن کے رہنے کو ہی عین مطلوبِ اسلام ثابت کرتا ہے۔

قومی بیانیہ: قومی بیانیہ اس نکتے سے تعرض ہی نہیں کرتا۔

نکتہ 2: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 3 پورے ارتکاز سے اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ مسلمانوں کا متفرق اقوام میں بٹ جانا دین کے کسی حکم یا ہدایت کی خلاف ورزی ہے۔ اسلام کی تعلیم فقط یہ ہے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں، ایک دوسرے کے ہمدرد اور مددگار ہیں، ایک جسم کی مانند ہیں۔ چنانچہ چاہے وہ ایک سلطنت کے باسی ہوں اور چاہے سینکڑوں، چاہے مشرق میں رہتے ہوں اور چاہے مغرب میں، ان کا ایک دوسرے کو بھائی سمجھنے میں اور دکھ درد میں شریک ہونے میں کوئی شے مانع نہیں۔ اسی طرح وطن اور ملک کا قیام جس طرح مذہب کے اشتراک کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے، اسی طرح دوسرے مشترک خصائص جیسے رنگ، نسل، زبان، جغرافیہ کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر قرآن و حدیث میں اس کے بر عکس کوئی حکم ہے تو پیش کیا جائے۔

قومی بیانیہ: اس اہم نظریے پر بھی یہ بیانیہ سکوت اختیار کیے ہوئے ہے۔

نکتہ 3: جوابی بیانیے کا کوئی نکتہ براہِ راست اس نظریے کو موضوع نہیں بناتا۔ تاہم، اس سے تعارض کے لیے اصل بنیادی مقدمہ وہی ہے جسے جوابی بیانیے کے نکتہ نمبر 5 اور 6 پیش کرتے ہیں۔ یعنی اسلام کی رو سے یہ باور کرایا جائے کہ اگرچہ کفر و شرک ابدی جرائم ہیں مگر اِن جرائم کو اختیار کرنے کی اللہ نے اس زندگی میں ہر کسی کو کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ اس دنیا کی حد تک یہ قابل دست اندازی جرائم سرے سے ہیں ہی نہیں۔ کافر و مشرک یہاں فقط مخاطب دعوت ہیں۔ ان جرائم پر محاسبہ صرف آخرت میں اللہ خود کرے گا۔ اور اگر دنیا میں مثال بنانے کے لیے اللہ نے اس پر محاسبہ کیا بھی ہے تو ایک پورا نظام اس کے لیے وضع فرما کر قرآن میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے، جس کے تحت یہ دروازہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔پس جس طرح ان کفار و مشرکین کو دنیا میں اپنے مذاہب پر قائم رہنے کی پوری آزادی ہے، اسی طرح حکومت بنانے کی بھی پوری اجازت ہے۔ اور رہی بات اسلام ان تک پہنچانے کی تو اس مقصد کے لیے صرف دعوت و تبلیغ کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے۔ جہاد و قتال دینی اعتبار سے صرف اور صرف ظلم و عدوان، جسے شرعی اصطلاح میں فتنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کے خلاف جائز و روا ہے۔تاہم، یہ تبصرہ ضروری ہے کہ جوابی بیانیہ اس نظریے سے پورے ارتکاز اور شد و مد سے تعارض کرنے اور استدلال کو سینگوں سے پکڑنے میں کچھ ناقص دِکھتا ہے۔

قومی بیانیہ: اس نظریے سے تعارض بھی قومی بیانیے میں جگہ نہ بنا سکا۔

نکتہ 4: جوابی بیانیے کا نکتہ نمبر 5 اس نظریے سے بھی مماسی تعارض اس طرح کرتا ہے کہ جب کفر و شرک وغیرہ ایسے جرائم ہی نہیں جو اس دنیا میں قابل دست اندازی و سزا ہوں تو پھر کفارو مشرکین کی جان کی حرمت اس طرح کے اٹکل پچوؤں سے حلال کرنا سراسر زیادتی اور اللہ کے دین کے ساتھ مذاق ہے۔ تاہم یہاں بھی جوابی بیانیہ انسانی جان کی مطلق حرمت پر مبنی کسی دلیل کے ذریعے جو اس فاسد نظریے کا استیصال کر دیتی، براہِ راست تعارض میں کمزور ہے۔

قومی بیانیہ: قومی بیانیے نے اس نکتے کو کسی حد تک براہِ راست اور کسی حد تک مماسی موضوع بنایا ہے، اور نکتہ نمبر 1 میں بتا یا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اگر اسلام کے نفاذ میں ان سے کوتاہی ہو رہی ہے تو یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی وجہ سے سے ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومت وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اِن کی دی ہوئی امان پوری طرح سالم اور قائم ہے۔ پھر نکتہ 14 میں غیر مسلموں کے کچھ حقوق کے تحفظ اور مذہب پر عمل کرنے کے پورے حق کی توثیق فرمائی۔ تاہم کافر کی جان کو فی الحقیقت حرمت حاصل نہ ہونے جیسے سنگین نظریے سے کسی قسم کا کوئی تعارض یہاں بھی مفقود ہے۔

نکتہ 5: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 4 اور 5 اس نظریے کو مرکز پارہ بنا کر پوری طرح نابود کر دیتے ہیں۔ یہ نکات یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اوّل تو کفر و شرک کی طرح ارتداد بھی اس دنیا کی حد تک قابل سزا جرم ہی نہیں۔ اِس کا محاسبہ بھی موضوعِ آخرت ہے۔ اور دوم، یہ حق اللہ نے کسی انسان کو دیا ہی نہیں کہ وہ دوسروں کے کفر و اسلام کا فیصلہ کر سکیں، کجا کہ اس پر سزا کا موقع آئے۔ جو مسلمان اپنے اقرار سے مسلمان ہوں مگر کچھ گمراہ عقائد یا اعمال اپنائے ہوئے ہوں تو ان کے متعلق علما کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ ان کو علمی انداز میں ان کی غلطی کا احساس دلایا جائے اور بس۔ اور رہا اللہ کے حدود کا نفاذ تو نکتہ نمبر 9 اور 10 یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ اجتماعی احکامات اربابِ حل و عقد ہی سے متعلق اور وہی ان کے مخاطب ہیں۔ اسی لیے اگر وہ کسی ثابت شدہ حد (نہ کہ ارتداد کی سزا جس کا حد ہونا ہی ان کے مطابق بے بنیاد ہے) کے نفاذ میں بھی کوتاہی یا سرکشی کریں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ جتھہ بندی کر کے خود حدود کا نفاذ شروع کر دیں۔

قومی بیانیہ: ارتداد جیسے اہم موضوع سے بھی کوئی اصولی تعارض نہیں کیا گیا۔ ہاں ارتداد کے اطلاق میں نکتہ نمبر 1 اور 12 کے ذیل میں یہ بات البتہ واضح کی گئی ہے کہ نہ تو حکومت پاکستان کو مرتد کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی فرد یا ادارے پر اس کا اطلاق عدالت کے سوا کوئی کر سکتا ہے۔ تاہم، اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی شرعی دلیل مرحمت نہیں فرمائی۔ بایں ہمہ، اس طرزِ گفتگو سے انہوں نے اس تاثر کو قوت بخشی ہے کہ کسی کو مرتد قرار دینا مذہبی اعتبار سے بر حق ہے اور اس کی سزا موت ہی ہے، مگر اس کا طریقہ کار وہ نہیں ہے جو مفسدین اپنائے ہوئے ہیں۔

نکتہ 6: جوابی بیانیہ شاید اس نفاذِ شریعت کے نظریے پر سب سے زیادہ تفصیل سے کلام کرتا ہے اور اس کے نکات9 اور 10 مختلف جہتوں سے اس کی مفصل وضاحت کرتے ہیں۔ یہ نکات بتاتے ہیں کہ نفاذِ شریعت کی اصطلاح ہی مغالطہ انگیز ہے، اِس لیے کہ اِس سے یہ تاثر پیدا ا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے، دراں حالیکہ قرآن و حدیث میںیہ حق کسی حکومت کے لیے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس لیے اسے شریعت پر عمل کی دعوت کہنا چاہیے۔پھر مزید یہ بیانیہ تفصیل کے طور پر پورے تعین اور تحدید کے ساتھ ایک فہرست بنا کر بتا تا ہے کہ وہ کون سے انفرادی اور اجتماعی دینی احکامات ہیں جن کے نفاذ کا اختیار اسلام کی رو سے حکومت کو حاصل ہے اور جن کے نفاذ کا مطالبہ وعظ، نصیحت اور انذار کے ذریعے حکمرانوں سے عوام کر سکتے ہیں۔ پھر اس پر ایک مزید توضیحی مضمون 'قانون کی بنیاد'کے عنوان سے بھی مرحمت فرمایا جو اس سلسلے میں اساسی اشکالات رفع کرتا ہے۔ میری رائے میں اس نظریے سے تعارض جوابی بیانیے کا ذروۂ سنام ہے۔

قومی بیانیہ نفاذِ شریعت کی تعبیر یا تفصیل کے متعلق خاموش ہے، البتہ علما کی جانب سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ حکومت سے اس بیانیے میں بھی دہرایا گیا ہے، اس تخصیص کے ساتھ کہ اس نفاذ کی جدوجہد صرف پر امن طریقوں ہی سے ممکن ہے۔ اور جو طاقت کا استعمال وہ کر رہے ہیں اور اس کے نام پر قتل و غارت گری مفسدین نے مچا رکھی ہے، وہ قطعی حرام ہے۔تاہم، حسب معمول کوئی شرعی دلیل اس حرمت پر بھی غیر مذکور ہے۔

نکتہ 7: جوابی بیانیہ کے نکات 6 اور 7 جہاد کے اس طرح کے نظریات کے تفصیلی ردّ پر مشتمل ہیں اور باحسن و خوبی اس کی انجام دہی کرتے ہیں۔ یہ بیانیہ بتاتا ہے کہ جہاد فقط ظلم و عدوان کے خلاف ممکن ہے۔ یہ صرف مقاتلین (combatants) کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس کے دوران اخلاقیات ہمیشہ مقدم ہیں۔ اور جہاں تک اختیار کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث میں جہاد کا اختیار صرف نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ وہی اِن احکامات کے مخاطب ہیں۔ اس لیے کوئی فرد یا گروہ جہاد کے فیصلے کا ذاتی اختیار رکھتاہی نہیں۔ البتہ مسلمانوں کا غیر مسلم اقوام کو مسلمان اقوام کے خلاف معاونت مہیا کرنے کی صورت میں یہ بیانیہ امکان، جواز، عدم جوازوغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کے معاملے میں کچھ تشنہ رہ گیا ہے۔میرے نزدیک یہ ایک بڑی تشنگی ہے۔

قومی بیانیہ: جہاد کے موضوع سے بھی کوئی قابل ذکر تعارض اس بیانیے میں نہیں۔ نکتہ نمبر 4 اور 6 میں خود کش حملوں کی حرمت کی تکرار اور فرقہ وارانہ مسلح تصادم کو ناجائز و جرم لکھا ہے۔ پر یہ اس نظریہ جہاد کے چند اطلاقات سے تعارض سے زیادہ کچھ نہیں۔

اختتامیہ

دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے جو بیانیہ نظریات ہر غیر جانبدار محقق کے مطابق مولد فساد ہیں، ان کے مقابل میں ایک ایسے بیانیے کی ضرورت تھی جو ان فاسد نظریات کے متعلق دین اسلام کے صحیح نظریات مدلل انداز میں پیش کر کے مفسدین، امت مسلمہ اور غیر مسلم اقوام کے سامنے اسلام کے بے داغ نظریات پیش کر دیں، اور امت مسلمہ کو وہ فکری ہتھیار مہیا کریں جن کی ترویج و اشاعت سے مفسدین کو متواتر بہم پہنچنے والی انسانی کمک تھم سکے اور اس جاری و صاری مذہب کے نام پر فساد کا خاتمہ ممکن ہو۔ 

غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ تقریباً ان سارے ہی نظریات سے تعارض کرتا اور بڑے پر مغز انداز میں ان کی غلطی واضح کرتا اور ان کی فری بنیادیں منہدم کرتا ہے۔ اور امت مسلمہ اور ان کی حکومتوں کو وہ دلائل فراہم کرتا ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنے قافلے کو دشت ہلاکت سے شاہراہِ ہدایت پر لا سکتے ہیں۔ اس میں اگرچہ بہتری کی گنجائش موجود ہے، پر بنیادی مسودے کی حیثیت سے یہ پوری طرح جامع ہے۔

اس کے مقابل میں قومی بیانیے کے متعلق حیرانی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس نے تقریباً ان سارے ہی نظریات کو نظرانداز کر دیا ہے جو صرف یہی نہیں کہ محققین فساد کی رگِ معدن بتا رہے ہیں، بلکہ مفسدین خود بھی پورے خلوص و یقین سے اس کا اقرار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اِن نظریات سے دامن بچا کر علما نے 'تقوٰی' کا مظاہرہ کیا ہے یا 'تقیہ' کا، پر یہ معلوم ہے کہ یہ موقع اِن دونوں کا نہیں تھا۔ اس سے تو یہ تاثر ناقابل تجاہل ہو جائے گا کہ علما چاہے طریقہ کار کی درستگی پر کچھ نصیحتیں کررہے ہیں، پر مفسدین کے بنیادی نظریات کی خاموش توثیق کرتے ہیں۔

بہر حال اب یہ دو بیانیے عیاں ہو چکے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ اپنی سرپرستی اور حفاظت میں بحث و مباحثہ کا ماحول اور فورم مہیا کرے، تاکہ ان بیانیوں کی بحث کے نتائج سے وہ اپنے لیے ایک حتمی بیانیہ تسوید کر سکے۔ یہ صرف چند لفظوں کی جنگ نہیں، مسلمانوں کے بقا کی جنگ ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں اضمحلال، عدم دلچسپی یا تاخیر سے حکومت اللہ کے سامنے مجرم قرار پا رہی ہے۔

یہ یاد رہے کہ مذہب اس فساد کے سکے کا مگر ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ سیاست ہے۔ ہمیں اپنی داخلی و خارجہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کرنی ہے اور اس کے لیے بھی ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو ہمیں عالمی قوتوں کی طاقت سے مجبور ہو کر بھی اندرونی یا بیرونی کسی ایسی پالیسی کا حصہ نہ بننے دے جو پاکستان کے شہریوں کو مذہب سے لاتعلق ہونے یا اس کا غلط استعمال کرنے یا اخلاقی ضوابط کو طاقِ نسیاں کے سپرد کرنے پر مجبور کرے۔ کسی اصولی اخلاقی وجہ سے نہیں تو کم از کم اس کے مہلک نتائج سے ہی کچھ سبق سیکھ کر ہمیں اپنی پیمانہ بندی کرنی ہے۔

حالات و واقعات

(اپریل ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter