اس وقت زمینی، فضائی یا بحری طور پر انڈیا اور پاکستان کے مابین عملاً جنگ شروع ہو نہ ہو، مگر دو طرح کے مائنڈ سیٹ کے مابین یہ جنگ عملاً شروع ہو چکی ہے بلکہ عروج پر ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک طرف جنگ پسند طبے آپس میں ذرائع ابلاغ، نجی محفلوں، خوابوں اور آپس کی بحثوں میں فتح و شکست کے حساب کتاب میں لگے ہیں۔ یہ طبقہ ردعمل، غلبہ، احساس کمتری و برتری کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر جنگ کو اس وقت کی اہم ترین اور واحد ضرورت اور ذمہ داری سمجھ رہا ہے۔ دوسری طرف دونوں ملکوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو فتح و شکست کے خول سے نکل کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ فتح و شکست اور جنگی لسانیات کا آسرا لیے بغیر سرے سے جنگ کی نفی اور امن کی تلقین کررہا ہے۔
جنگ میں کسی کی شکست کا معنی بھی تباہی ہے اور فتح کا مطلب بھی تباہی ہے۔ جنگ میں ہار ہمیشہ غریب، نادار، نہتے عوام کی ہوتی ہے اور فتح ہمیشہ انا، ضد، ہٹ دھرمی، مفاد پرست اشرافیہ، مقتدر جنگجوؤں اور اسلحہ بیچنے والوں کی۔ جنگ پیش خیمہ ہے تباہی کا، علامت ہے بربادی کی، آہ و فغان کی، آگ و خون کی، چیخ پکار کی، چھلنی جسموں کی، زخمی بدنوں کی، بے غسل و کفن لاشوں کی، مفلوج کر دینے والے لاعلاج امراض کی، بے پناہ بیماریوں کی، مرداروں کے تعفن کی، یتیم بچوں کی، بے آسرا عورتوں کی، سسکیوں اور آہوں کی، ظلم و بربریت کی، اندھے قتل و غارت کی، خوف کی، شک کی، مارنے اور مرنے کی، آبادیوں کے کھنڈرات میں بدلنے کی، سرسبز و شاداب وادیوں کے جھلسے ہوئے اور راکھ بنے بنجر ٹکڑوں میں بدلنے کی۔ جنگ نام ہی فنا کا ہے، لیکن معلوم نہیں لوگ کیوں اس میں بقاء تلاش کرتے ہیں۔ ہاں، یہ بقاء ضرور ہے ان انسانی اوصاف سے عاری انسان نما درندوں کے لیے جو ہمیشہ خون کے پیاسے ہوتے ہیں، جن کی معیشت، اقتدار اور قوت لوگوں کے خون سے سیراب ہوتی ہے۔
یہ تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ اپنے ناکام طرز حکمرانی، بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام، نسلی و مذہبی تعصبات و منافرت پر قابو نہ پا سکے جس کے باعث وہ بدترین سطح پر داخلی شکست و ریخت، خانہ جنگیوں، قتل و غارت اور اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ وہ اپنے داخلی مسائل کو مل جل کر حل کرنے کے لیے آگے کی طرف بڑھنے کے بجائے ایک دوسرے کے لیے مزید مشکلات اور مسائل پیدا کرنے میں باہمی رقابت و مخاصمت سے کام لے رہے ہیں۔ وہ اپنا سرمایہ اور وسائل تعمیر و ترقی، استحکام و خوشحالی پر لگنے کے بجائے دفاع اور قومی سلامتی کے نام سے فسادات اور جنگ کی آگ بھڑکانے میں لگاتے ہیں۔ اس صورت حال میں مفاد پرستوں کا ایسا طبقہ بھی وجود میں آ چکا ہے جن کا مفاد اندرون ملک یا بیرون ملک فساد سے وابستہ ہے۔ اس طبقے کے نزدیک جنگ ان کی معاشی استحکام اور ترقی کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔
اس گلوبل ویلیج اور اقتصادی دوڑ کے اس دور میں یہ امر قابل غور ہے کہ مختلف عالمی اور علاقائی جنگوں سے فراغت پانے والے ممالک، خاص طور پر حالیہ برسوں میں امریکہ، روس، فرانس، چین وغیرہ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے بنا کر ایک طرف اپنے دفاع کو تو مضبوط کیا ہے، لیکن قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ ان ممالک نے اسی سلحے کو اب اپنی معاشی ترقی کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے اور وہ دنیا میں نئے نئے خریدار تلاش کرنے اور اپنے اسلحے کی کھپت کے لیے مختلف ممالک کو اپنی مارکیٹ بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ وہ امن کے قیام سے زیادہ اسلحہ کی مارکیٹ بنانے اور کہیں نہ کہیں میدان جنگ سجائے رکھنے پر توجہ دیتے ہیں۔اسی لیے و ہ خارجہ پالیسی، تزویراتی مقاصد، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت کرنے کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک اپنے ہاں داخلی مخاصمت پر مبنی ماحول میں بیرونی مداخلت اور اسلحے کے فروخت کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے والے سوداگروں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔
تیسری دنیا کی سوچ کی سطحیت کا عالم یہ ہے کہ یہاں جنگ کی بات کرنا وفادادری، بہادری اور غیرت و حمیت کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے جبکہ امن ، باہمی محبت و احترام، سماجی ہم آہنگی ، مکالمہ کی بات کرنا غداری قرار دی جاتی ہے۔ جس چیز میں سب کی بقاء ہے، وہ سازش سمجھی جاتی ہے اور جس میں سب کی فنا مضمر ہے، اس میں بقاء، حمیت، غیرت، بہادری تلاش کی جاتی ہے۔ لوگ قلم کی بجائے اسلحے میں قوت ڈھونڈتے ہیں۔ صحیح و غلط کا معیار طاقت و اقتدار طے کرتا ہے۔ دھوکہ دہی کو زیرکی، پروٹوکول کو عزت، خوش اخلاقی کو کمزوری، سوچنے کو بے وقوفی، تحقیق و تخلیق کو وقت کا ضیاع، اور سب کا احترام کرنے کو چاپلوسی گردانا جاتا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ مختلف نفسیاتی و سماجی امراض میں مبتلا اس قوم کے ہاں پورے نظامِ اقدار کو دوبارہ سے منقح (redefine) کرنے کی ضرورت ہے۔