جسمانی ساخت میں تبدیلی ۔ قرآن وحدیث اور اقوالِ فقہاء کی روشنی میں (۲)

مولانا محمد اشفاق

مذکورہ بالا افعال  سے ممانعت کی علتیں  فقہاء کی نظر میں :

معروف مالکی فقیہ ''القرافی'' ابن رشد کی المقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

وسبب المنع في وصل الشعر وما معہ التدليس والغرور قال صاحب المقدمات: تنبيہ لم أر للفقھاء المالكيۃ والشافعيۃ وغيرھم في تعليل ھذا الحديث إلا أنہ تدليس علی الأزواج ليكثر الصداق، ويشكل ذلك إذا كانوا عالمين بہ ، وبالوشم فإنہ ليس فيہ تدليس ، وما في الحديث من تغيير خلق اللہ لم أفھم معناہ فإن التغيير للجمال غير منكر في الشرع كالختان وقص الظفر والشعر وصبغ الحناء وصبغ الشعر وغير ذلك۔1

 اور بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے اور اس سے ملتے جلتے دوسرے افعال سے منع کرنے کا سبب اپنی اصلی حالت کا چھپانا اور دھوکا دینا ہے ۔صاحب المقدمات کہتےہیں :  میری نظرمیں جن مالکی اور شافعی فقہا  نےاس حدیث کی علت بیان کی ہے انھوں نے صرف یہ علت یہ بیان کی ہے کہ ان افعال میں ہونے والے شوہروں کو دھوکا ہے کہ ان سے شوہر پر بیوی کی اصلی حالت چھپ جاتی ہے  ، اور عورت یہ کام اس لیے کرتی ہے تاکہ اس کے ذریعے سے مہر میں زیادتی کی جا سکے ، لیکن شوہر کو پہلے سے معلوم ہونے کی صورت میں اور جسم گدوانے میں تو ایسی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی ، اس سے منع کرنے کی وجہ میں نہیں سمجھا ہوں ۔کیوں کہ خوب صورتی کے حصول کےلیے تبدیلی کرنے پرشریعت میں تو  انکار نہیں پایا جاتاجیسے ختنہ کرنا، ناخن تراشنا،بال کاٹنا،مہندی سے ہاتھوں اور بالوں کا رنگنا اور اس کے علاوہ ۔

اس عبارت میں علامہ قرافی ؒ  عورتوں کے خوب صورتی کے لیے کیے جانے والے امور کے بارے ممانعت کی احادیث کی علت بتا رہے ہیں ، چنانچہ فرماتےہیں کہ عورتوں کو اِ ن امور ( بال اکھڑوانا، دانتوں کے درمیان فاصلہ کروانا ، جدید دور کی اصطلاح میں سرجری کروانے وغیرہ ) سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں اس کے ذریعے سے اپنی اصلی حالت کو چھپاتی ہیں ، اور بناوٹی خوب صورتی اختیار کرکے شوہر سے زیادہ مہر وصول کرتی ہیں ، یعنی یہاں اصل ممانعت کی وجہ دھوکا دہی ہے ، کہ اس خوب صورتی کی وجہ سے وہ شوہروں کو دھوکا میں مبتلا کر کے زیادہ مہر بٹورتی ہیں  ، اس لیے رسول اللہﷺ نے ان افعال سے منع فرمایا ہے ۔البتہ انہوں نے ایک اور بات فرمائی کہ وشم یعنی جسم گدوانے میں اور اس پر کوئی نقش وغیرہ کروانے میں تو دھوکانہیں ہے ، اس سے شریعت میں منع کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔تاہم آنے والی سطور میں وشم کی علت پر بھی بات کی جائے گی ۔

فقہ شافعی کی معروف کتاب" الحاوی الکبیر" میں ہے :

فأما الواصلۃ والمستوصلۃ ففيہ تأويلان:أحدھما: أنھا التي تصل بين الرجال والنساء بالفاحشۃ والثاني: أنھا التي تصل شعرھا بشعر نجس فأما التي تصل شعرھا بشعر طاھر فعلی ضربين:
أحدھما: أن تكون أمۃ مبيعۃ تقصد بہ غرور المشتري أو حرۃ تخطب الأزواج تقصد بہ تدليس نفسھا عليھم، فھذا حرام لعموم النھي، ولقولہ - صلی اللہ عليہ وسلم  -: " ليس منا من غش والضرب الثاني: أن تكون ذات زوج تفعل ذلك للزينۃ عند زوجھا أو أمۃ تفعل ذلك لسيدھا، فھذا غير حرام لأن المرأۃ مأمورۃ بأخذ الزينۃ لزوجھا من الكحل والخضاب..... وأما الواشرۃ، والمستوشرۃ: ھي التي تبرد الأسنان بحديدۃ لتجديدھا وزينتھاوأما الواشمۃ: وھي التي تنقش بدنھا وتشمہ بما كانت العرب تفعلہ من الخضرۃ في غرز الإبر فيبقی لونہ علی الإبروأما الوشم بالحناء والخضاب فمباح، وليس مما تناولہ النھي فأما النامصۃ، والمتنمصۃ: فھي التي تأخذ الشعر من حول الحاجبين وأعالي الجبھۃ، والنھي في ھذا كلہ علی معنی النھي في الواصلۃ، والمستوصلۃ2

بالوں میں وصل کرنے والی اور کروانے والی عورت کے بارے میں دو تاویلیں کی گئی ہیں : پہلی یہ ہے کہ وصل کرنا بدکاری کےلیے ہو ، اور دوسرا یہ ہے کہ نجس بال ملائے جائیں ، اور اگر پاک بالوں کے ساتھ وصل کیا جائے تو اس کی دو قسمیں ہیں : ایسی باندی جو فروخت کرنے کے لیے ہے اس کے بالوں میں وصل کیا جائے تاکہ خریدنے والے کو دھوکا میں ڈالا جا سکے ، یا ایسی آزاد عورت کےبالوں میں وصل کیا جائے جس کے پاس نکاح کا پیغام آنا ہے تاکہ اس کی اصلی حالت کو چھپایا جا سکے ، ان دونوں صورتوں میں وصل کرنا حرام ہوگا ، اس لیے آپ ﷺ کا ارشاد ہے : جس نے دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں،دوسری صورت یہ ہے کہ شادی شدہ عورت شوہر کے لیے یہ زینت اختیار کرتی ہے تو اس صورت میں حرام نہیں ہوگا ،اس لیے کہ اپنے شوہر کےلیے  مہندی اور کحل وغیرہ سے زینت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے(گویا وصل بھی مہندی وغیرہ کے حکم میں داخل ہے ) ۔

اور دانتوں کو ترشوانے والی اور تراشنے والی تاکہ اس کے ذریعے دانت نئے اور خوب صورت ہو جائیں ، اور جسم گدوانے والی عورت کہ جس میں سوئی کے ذریعے جسم گودا جاتاہے اور اس میں رنگ بھرا جاتاہے ( یہ حرام ہے ) البتہ خضاب اور مہندی کے ساتھ جسم گدوانا یہ مباح ہے ۔ نہی کے تحت داخل نہیں ہے ۔اور ابروؤں کو باریک کرنے والی اور کروانے والی ، ان سب سے  نہی اسی معنیٰ میں ہے جو وصل کرنے کے بارے میں ذکر ہوا ہے ۔

ماوردی نے اپنی اس عبارت میں نہایت تفصیل کے ساتھ ان تمام افعال کے حکم کے بارے میں بحث کی ہے جو مختلف احادیث میں آئے ہیں ، ان کی بات کا خلاصہ  یہ ہے کہ مردو عورت میں سے کوئی بھی اس لیے وصل کرواتا ہے تاکہ اس کے ذریعے کسی بدکاری کے کام مبتلا ہو یا وصل اس لیے کروایا جا رہاہے کہ  کسی کو دھوکا میں ڈالا جا سکے تو ان دونوں صورتوں میں وصل کرنا حرام ہوگا ۔

اور اگر محض زینت کے حصول کےلیے ایسا کیا جا رہاہے تو نہ صرف یہ کہ یہ فعل جائز ہے بلکہ عورت کو اس چیز کا حکم ہے کہ وہ اپنے شوہر کےلیے زینت اختیار کرے ۔  آگے پھر باقی افعال کی تعریف کے بعد لکھتے ہیں کہ ان تمام افعال میں بھی یہ دیکھا جائے گا کہ ان کے کرنے سے مقصود کیا ہے اگر محض زینت کےلیے ہے تو جائز ہوگا ، اور اگر زینت کے ساتھ کسی کو دھوکا دینا ہے یا بدکاری کے کاموں میں پڑنے کےلیے ایسا کیا جارہاہے تو حرام ہوگا ۔

فقہ حنفی کی معروف کتاب رد المحتار میں علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں :

(قولہ سواء كان شعرھا أو شعر غيرھا) لما فيہ من التزوير كما يظھر مما يأتي وفي شعر غيرھا انتفاع بجزء الآدمي أيضا: لكن في التتارخانيۃ، وإذا وصلت المرأۃ شعر غيرھا بشعرھا فھو مكروہ،3

اس کاقول ( وصل کرنا حرام ہے) چاہے اپنے بالوں سے ہو یا  کسی اورکے بالوں سے۔ اس لیے کہ اس میں دھوکا دہی ہے ، جیسا کہ آگے واضح ہوگا  ۔ نیز اس میں  دوسرے کے بال لگانے سے کسی انسان کے جزء سے نفع اٹھانا بھی لازم آ رہاہے ۔لیکن تاتارخانیہ میں ہے : اور جب کوئی عورت اپنے بالوں سے کسی اور کے بال ملائے تو وہ مکروہ ہے ۔

علامہ شامی ؒ کی اس عبار ت سے بھی واضح ہے کہ وصل وغیرہ سے ممانعت دھوکا دہی کی وجہ سے ہے ۔ عورتیں اس کے ذریعے سے اپنے آپ کو جوان اور خوبرو دکھا کر مہر زیادہ کرواتی ہیں  وغیرہ وغیرہ ۔ مندرجہ بالا عبارت میں وصل کے بارے میں ان کا موقف سامنے آیاہے ، عورت کے اپنے چہرے سے بال اکھڑوانا جس کا ذکر حدیث میں " وَالمُتَنَمِّصَاتِ"کے الفاظ سے آیاہے اس کے بارے میں علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں:

النمص: نتف الشعر ومنہ المنماص المنقاش ولعلہ محمول علی ما إذا فعلتہ لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجھھا شعر ينفر زوجھا عنھا بسببہ، ففي تحريم إزالتہ بعد، لأن الزينۃ للنساء مطلوبۃ للتحسين4

نمص: بالوں کا اکھاڑنا ہے ،اور اسی سے ہے المنماص المنقاش اور شاید کہ (اس سے منع کرنا) محمول ہے کہ جب اجنبیوں کے لیے  خوب صورتی اختیار کی جائے وگرنہ عورت کے چہرے پر بال آجائیں جن  کی وجہ سے شوہر اپنی بیوی سے کراہت محسوس کرے تو اس کے حرام ہونا بعیدہے ،اس لیے کہ زینت عورتوں کے لیے  مطلوب ہے ۔

مجموعی طور پر علامہ شامی ؒ کی عبارات سے معلوم ہورہاہے کہ عورت جب یہ اوپر ذکر کردہ افعال کرے تو اس میں دو  چیزیں ملحوظ خاطر ہوں  ، ایک یہ کہ اس میں دھوکا دہی مقصود نہ ہو ، اگر کسی کو دھوکا دینا مقصود ہے تو یہ امور حرام ہوں گے ، اور دوسرے یہ  کہ زینت اجنبی مردوں کو مائل کرنے  کے لیے اختیار نہ کی جائے ، اگر یہ دونوں شرطیں پائی جائیں گی تو شرعاً ان  افعال کے کرنے  میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔

اسی طرح حافظ ابن حجر نے امام نووی سے نمص سے متعلق جو رائے ذکر کی ہے وہ بھی علامہ شامی کی رائے سے ملتی جلتی ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں :

قال النووي: یستثنی من النماص ما  اذا نبت للمرأۃ لحيۃ أو شارب أو  عنفقۃ فلایحرم عليھا ازالتھا،بل یستحب ۔ قلت: واطلاقہ مقید باذن الزوج و علمہ ، والافمتی خلا عن ذلک منع للتدلیس 5

نووی نے کہا: بالوں کے اکھاڑنے ( کے حرام ہونے والے حکم) سے استثنا حاصل ہوگا جب  عورت کی ڈاڑھی،مونچھیں یا ڈاڑھی کا بچہ اگ آئے ، پس ان کا ختم کرنا اس عورت  کےلیے حرام نہیں ہوگا ۔ میں کہتا ہوں : اور اس ( بالوں کے اکھاڑنے کے جواز ) کا اطلاق مقید ہوگا شوہر کی اجازت اور اس کے علم کے ساتھ ۔ وگرنہ پس کب خالی ہوگا  یہ حکم اس( حرام )سے ۔ اس سے منع کیا گیا اصلی حالت کے چھپ جانے کی وجہ سے ۔

اوپر ذکر کردہ عبارت سے نووی کی رائے یہ سمجھ  آر ہی ہے کہ ان کے ہاں بہت محدود دائرے میں بالوں کے اکھاڑنے کی اجازت ہے ، یعنی انتہائی ناگزیر صورتِ حال میں کہ جب عورت کی ڈاڑھی یا مونچھیں وغیرہ نکل آئیں تو اس صورت میں اس کےلیے ان کو ختم کرنے کی اجازت حاصل ہوگی ۔ جبکہ حافظ کی رائے یہ ہے کہ  جب شوہر اجازت دے دے ، یا شوہر کے علم میں ہو تو مطلقاً بالوں کا اکھاڑنا جائز ہوگا ، گویا ان کے ہاں اصل مدار تدلیس والی علت پر ہے ۔

معروف مالکی فقیہ شہاب الدین نفراوی اپنی تصنیف " الفواکہ الدوانی " میں رقم طراز ہیں :

(وينھی النساء عن وصل الشعر) والنھي للحرمۃ عند مالك لخبر: «لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ» وحرمۃ الوصل لا تتقيد بالنساء لما فيہ من تغيير خلق اللہ، وإنما خص النساء لأنھن اللاتي يغلب منھن ذلك عند قصر أو عدم شعرھن يصلن شعر غيرھن بشعرھن، أو عند شيب شعرھن يصلن الشعر الأسود بالأبيض ليظھر الأسود لتغريہ الزوج....
والوشر نشر الأسنان أي بردھا حتی يحصل الفلج وتحسن الأسنان بذلك، ومثلہ لو كانت طويلۃ فتنشر حتی يحصل لھا القصر، والتنميص ھو نتف شعر الحاجب حتی يصير دقيقا حسنا، ولكن روي عن عائشۃ - رضي اللہ عنھا - جواز إزالۃ الشعر من الحاجب والوجہ وھو الموافق لما مر من أن المعتمد جواز حلق جميع شعر المرأۃ ما عدا شعر رأسھا، وعليہ فيحمل ما في الحديث علی المرأۃ المنھيۃ عن استعمال ما ھو زينۃ لھا كالمتوفی عنھا والمفقود زوجھا.6

اور منع کیا گیا عورتوں کو بالوں میں دوسرے بال ملانے سے ، اور اس سے نہی امام مالک کے ہاں اس خبر کی وجہ سے ہے:  لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ اور بالوں میں وصل کی حرمت صرف عورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہے ، اس لیے کہ  اس میں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی ہے ، اس کو عورتوں کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر بالوں کے چھوٹا ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں عورتیں ہی دوسرے بال اپنے بالوں میں ملاتی ہیں ، یا بڑھاپے میں اپنے بالوں کے سفید ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ دوسرے بال ملاتی ہیں  تاکہ اس کے ذریعے سے اپنے شوہر کو دھوکا میں مبتلا کریں ۔ اور وشر دانتوں کے ترشوانے کو کہتے ہیں ، اس کے ذریعے دانتوں کے درمیان خلا پیدا ہوتاہے اور اس سے دانت خوب صورت لگتے ہیں اور اسی طرح اگر دانت لمبے ہوں اور ان کو ترشوایا جائے تو وہ چھوٹے ہو جاتے ہیں ، اور نمص ابرو کے بالوں کا اکھاڑنا ہے تاکہ خوب صورت باریک ہو جائیں ،  لیکن حضرت عائشہ سے ابروؤں اور چہرے سے بالوں کے ختم کرنے پر جواز وارد ہے ۔

اور یہ موافق ہے اس  بات کے جو پیچھے گزر چکی ہے کہ  معتمد قول یہ ہے کہ عورت کے سر کے علاوہ تمام بالوں کا حلق جائز ہے ، اور اسی پر محمول کیا جائے گا اس ممانعت کو جو حدیث میں مذکور ہے  کہ عورت کےلیے زینت اختیار کرنا ممنوع ہے ، اس سے مراد وہ عورت ہے  جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو،اور وہ عورت جس کا شوہر گم ہو چکا ہو ۔ 

اسی طرح ایک اور شافعی فقیہ سلیمان بن عمر الجمل اپنی معروف کتاب "حاشیۃ الجمل علی شرح المنهج" میں تحریر فرماتے ہیں :

ويحرم أيضا تجعيد شعرھا ونشر أسنانھا وھو تحديدھا وترقيقھا والخضاب بالسواد وتحمير الوجنۃ بالحناء ونحوہ وتطريف الأصابع مع السواد والتنميص وھو الأخذ من شعر الوجہ والحاجب المحسن فإن أذن لھا زوجھا أو سيدھا في ذلك جاز لھا؛ لأن لہ غرضا في تزينھا لہ كما في الروضۃ وأصلھا وھو الأوجہ7

اسی طرح حرام ہے بالوں کا گھنگھریالا بنانا، اور دانتوں کا نشر کروانا اور وہ ان کا باندھنا ہے ، اور باریک کرنا ہے ۔ اور کالی مہندی اور رخساروں کی ابھری ہوئی جگہ کو مہندی سے رنگنااور اس جیسے دوسرے افعال۔اور انگلیوں کے پوروں کا کالا کرنا، اور نمص کرنا ،وہ چہرے اور ابرؤوں کے بالوں کا اکھاڑنا ہے  خوب صورتی  کےلیے ، پس اگر اس کےلیے شوہر  یا آقا اجازت دے تو یہ جائز ہے ، اس لیے کہ اس( شوہر یا آقا) کے لیے زینت اختیار کرنا مقصد ہے ،جیسا کہ روضہ میں ہے ، اور یہی بہتر توجیہ ہے ۔

یہ عبارت بھی یہ اصول بیان کررہی ہے کہ اگر ان کاموں کے پیچھے کوئی جائز مقصد ہوتو ممانعت باقی نہیں رہے گی۔

اسی طرح علامہ طاہر ابن عاشورؒ اپنی تفسیر " التحریر والتنویر " میں لکھتے ہیں :

وأما ما ورد في السنۃ من لعن الواصلات والمتنمصات والمتفلجات للحسن فمما أشكل تأويلہ. وأحسب تأويلہ أن الغرض منہ النھي عن سمات كانت تعد من سمات العواھر في ذلك العھد، أو من سمات المشركات، وإلا فلو فرضنا ھذہ منھيا عنھا لما بلغ النھي إلی حد لعن فاعلات ذلك. وملاك الأمر أن تغييرخلق اللہ إنما يكون إنما إذا كان فيہ حظ من طاعۃ الشيطان، بأن يجعل علامۃ لنحلۃ شيطانيۃ، كما ھو سياق الآيۃ واتصال الحديث بھا.8

اور حدیث میں  بال جوڑنے  والی عورتوں ، بال اکھڑوانے والی عورتوں اور دانتوں کے درمیان  خوبصورتی کے لیے فاصلہ کروانے والی عورتوں کے لیے جو حکم آیاہے ، اس سے   منع کرنے کی جو علت میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل میں ان علامات سے روکنا  مقصود ہے جو اُس زمانے کی بدکار عورتوں کی علامات تھیں یا مشرکات عورتوں کی علامات تھیں ، اور اگر اصلاً  منع کرنا فرض کر لیا جائے تو  یہ افعال اتنے شنیع نہیں ہیں کہ ان افعال کا ارتکاب کرنے والی عورتوں پر لعنت کی جائے ، بہرحال  خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی خلقت میں تبدیلی اس وقت گناہ ہوگی  جب اس میں شیطان کی اطاعت کا پہلو پایا جا ئے گا بایں طور کہ  ان کاموں کو شیطان کو شیطان کو خوش کرنے کےلیے کیا جائے جیسا کہ آیت کا سیاق ہے اور اس کے ساتھ حدیث کو ملایا جائے

علامہ  ابن عاشور ؒ کی اس عبارت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ وہ ان افعال سے روکنے کو کس علت پر محمو ل کر رہے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ عورتوں کو ان افعال سے اس لیے منع کیا گیا کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زانیہ اور فاحشہ عورتوں کا یہ شعار اور علامت ہوتی تھی کہ وہ اپنے جسم پر نشانات لگوایا کرتی تھیں ،ابرووں کو ترشواتی تھیں ،  اور اس طرح کے دوسرے افعال کرتی تھیں ۔ جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے مسلمان عورتوں کو ان افعال سے سختی سے منع کردیا تاکہ  ان پاک دامن عورتوں کی معاشرے کی بری اور غلیظ عورتوں سے کسی قسم کی مشابہت نہ ہو۔اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن عاشور فرماتے ہیں کہ اگر یہ افعال اُ ن بری عورتوں کے نہ ہوتے تو بظاہر  اِن میں اتنی برائی نہیں ہے کہ ایسی عورتوں پر لعنت کی جائے ،کیوں کہ لعنت تو کسی ایسے فعل پر کی جاتی ہے جو انتہائی براہو۔ ابن عاشور کی اس علت اور وجہ کو امام رازی ؒ کی اس عبارت سے بھی تائید حاصل ہو رہی ہے ،امام رازی  سورۃ النساء کی آیت  وَلَأُضِلَّنَّھُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ الخ کے ذیل  میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : قَالَ وَذَلِكَ لِأَنَّ الْمَرْأَۃَ تَتَوَصَّلُ بِھَذِہِ الْأَفْعَالِ إِلَی الزِّنَا9. کہ رسول اللہ ﷺ کے ان افعال سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اِن افعال کے کرنے سے عورت زنا کی طرف راغبضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا قول نقل  ہوتی ہے اس لیے ان سے منع کردیاگیا ۔

اس کے ساتھ اگر اوپر  ذکر گئی عبارتوں کو ملایا جائے تو بات ذرا اور واضح ہو جاتی ہے کہ دو وجہ سے رسول اللہ ﷺنے اِ ن افعال  سے  سختی کے ساتھ  منع فرمایا : ایک تو اس وجہ سے  کہ  اس طرح کے افعال کرنے سے عورت کی اصلی ہیئت اور حالت چھپ جاتی ہے اور جعلی حسن سامنے آ جاتاہے ، جس کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ دھوکا ہو تاہے ، اور دھوکا دینے والا اللہ کو سخت ناپسند ہے ۔ دوسرا اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یہ افعال معاشرے کی گندی عورتوں کا شعار بن چکے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرما دیا ۔

علامہ قرافی کی عبارت کی وضاحت

علامہ ابن  عاشور کی مذکورہ عبارت سے علامہ قرافی کی بات کا جواب بھی سامنے آگیا کہ وشم یعنی جسم کو گدوانے سے تو کسی قسم کا دھوکا اور تلبیس نہیں ہو رہی اس سے رسول اللہ ﷺ نے منع کیوں فرمایا تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ چونکہ دورِ رسالت مآب ﷺ میں یہ کام سماج کی بے راہ رو عورتوں کا شعار بن چکا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ۔

اسی طرح ابن عاشور  اپنی ایک اور تالیف " مقاصد الشریعۃ " میں لکھتے ہیں :

"ووجھہ عندي الذي لم أر من أفصح عنہ أن تلك الأحوال كانت في العرب أمارات علی ضعف حصانۃ المرأۃ. فالنھي عنھا نھي عن الباعث عليھا أو عن التعرض لھتك العرض بسببھا 10"

"اور میرے نزدیک ان افعال سے روکنے کی وجہ جو میری نظر کے مطابق کسی اور  نے صراحتاً بیان نہیں کی یہ ہے   کہ اس طرح کے احوال  کی وجہ سے عورت کی پاک دامنی کو (قدیم زمانے میں )کمزور (مشکوک)سمجھا جاتاتھا، پس ان سے منع کرنا ان ( افعال) کے خلاف ابھارنا ہے یا ان سے اعراض کروانا ہے تاکہ یہ بے آبروئی کا سبب نہ بنیں"

علامہ ابن عاشور کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ عرب کے معاشرے میں یہ افعال بدکار اور مشرکہ عورتو ں کی علامت سمجھے جاتے تھے ، اور ایسی عورتیں ہی  یہ افعال کیاکرتی تھیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان افعال سے منع کردیا تاکہ پاک دامن اور اللہ کی مقرب بندیوں کی اُن بدکار عورتوں سےکسی قسم کی مشابہت لازم نہ آئے ۔تو ان افعال  سے سختی کے ساتھ منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان عورتیں ان افعال قبیحہ سے حد درجہ احتراز برتیں ۔ جیسا کہ ابھی اوپر گزرا امام رازی نے بھی اسی وجہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کاموں کو زنا کا ذریعہ بنایا جاتا تھا۔

فقہاء  کی ان مذکورہ بالا تصریحات سے  سے میں  یہ واضح ہوتاہے کہ  جن وجوہات  کی بنا پر  رسول اللہ ﷺ  نے عورتوں  کو ان افعال سے منع فرمایا اور  کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی، وہ وجوہات کل تین ہیں :

  • عورتیں ان افعال کے ذریعے سے  اپنی اصلی عمر   یا حالت کو چھپا کرکم عمر ظاہر کرتی ہیں ، جس سے لوگوں کو دھوکا دینا مقصود ہوتاہے جس کو شرعی اصطلاح میں تدلیس اور تزویر سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ۔
  • عام طور پر اس طرح کے افعال  کے ذریعے  سے اجنبی مردوں   کو زینت دکھانا مقصود ہوتاہے ، گویا یہ تبرج بالزینہ ہی کی ایک شکل ہے، اس لیے منع فرمایا گیا ۔
  • چونکہ رسول اللہ ﷺ  کے زمانہ میں یہ افعال  بدکار ،فاحشہ اور مشرکین کی عورتوں  کا شعار اور علامت سمجھے جاتے تھے کہ وہ اس طرح کے افعال کیا کرتی تھیں ، اس لیے مسلمان عورتوں کو اس سے منع کردیا گیا تاکہ اُن عورتوں سے ظاہری مشابہت بھی نہ ہو ۔

ان مذکورہ علتوں کی بنیاد پر  یہ کہا جاسکتاہے کہ ان افعال  میں اگر دو چیزوں کی رعایت  رکھ لی جائے تو بظاہر ان افعال میں کوئی قباحت نہیں :

  • زینت کا حصول کسی غیر کےلیے نہ ہو ( غیر سے مراد اجنبی  ہے) اگر اپنی ذات کےلیے ہو یعنی کسی کو مائل کرنے کی بھی بجائے خوب صورت دِکھنا پیشِ نظر ہو یا شوہر کو راضی کرنے کےلیے ہو تو بظاہر ان میں قباحت نہیں ۔
  • ان افعال کے ذریعے سے کسی کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو ۔ اگر  دھوکا دینا مقصود ہوگا تو پھر ان افعال  کا کرنا جائز نہیں ہوگا ۔

"المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ تَعَالَی" کو علت نہ بنانے کی وجہ

بعض حضرات نے  تغییر خلق اللہ کو بطور ِ علت کے بیان کیا ہے،  ان کا کہنا یہ ہے کہ   رسول اللہ ﷺ کے ان افعال سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ  یہ افعال اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں ، چونکہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی درست نہیں لہذا یہ افعال بھی درست نہیں ہیں ۔ مولانا محمد زاہد  کا یہاں کہنا یہ ہے کہ  "المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ تَعَالَی" کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے، ان کے خیال میں اہلِ علم کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا  ہے تغییر خلق اللہ کو قابلِ لعنت کاموں کی علت تب بنایا جا سکتا ہے جبکہ وہ عمومی نوعیت کی برائی ہو اور اپنی ذات میں برائی ہو۔جبکہ ہم دیکھتے ہیں  اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی ایسا معاملہ ہے جس میں ہر جگہ کے لحاظ سے حکم مختلف ہے ،بعض جگہوں پر تبدیلی جائز ، بعض جگہوں پر ناجائز اور کچھ ایسے مقامات ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی کرنا مستحب اور افضل عمل ہے ، اور علت ایسی چیز کو بنایا جا سکتاہے جس میں ہر جگہ حکم یکساں ہو ۔ چونکہ تغییر خلق اللہ ایسا عمل نہیں ہے کہ ہر جگہ حکم ایک ہی ہو، اس لیے اسے لعنت کی علت کی بنانے پر غور ضرور ہوسکتا  ہے ۔11

پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حدیث ِ ابن مسعود میں تغییر کو علت کے طور پر نہ لیا جائے تو اس کے لانے کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا محمد زاہد کہتے ہیں :

یہاں تغییر خلقِ اللہ کا ذکر بطورِ علت کے نہیں بلکہ حدیث میں بیان کیے گئے حکم کا دائرہ وسیع کرنے کےلیے ہے۔ وہ یوں کہ اس حدیثِ  شریف میں رسول اللہ ﷺ نے بعض جسمانی تبدیلیوں کا ذکر فرمایا ، ظاہر ہے کہ سب تبدیلیوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتاتھا ، تو اس لیے اس طرح کی تمام تبدیلیوں کو شامل کرنے کےلیے تغییر خلق اللہ کا عنوان قائم فرمایا کہ جن تبدیلیوں میں بھی معنی پایا جائے وہ اسی حکم میں داخل ہیں ۔12

بہر حال حدیث کی تشریح کا یہ پہلو بھی قابلِ غور ہوسکتا ہےلیکن بعض افعال کے لیے تغییر خلق اللہ ہی کو علت قرار دیا جائے تو بھی خاص قسم کی تغییر کو علت قرار دیا جائے گا، یعنی جس میں مذکورہ بالا مفاسد پائے جائیں۔

حدیث ِ ابن مسعودؓ  کی وضاحت

عورتوں کو ان افعال سے روکنے اور منع کرنے کی اصل علتیں تو وہی ہیں جن کا اوپر کی چند عبارتوں میں ذکر موجودہے کہ چونکہ ان افعال میں تدلیس و تزویر ہے نیز بدکار اور فاحشہ عورتوں کا شعار ہے اس لیے منع کر دیاگیا ۔ ان عبارتوں کی روشنی میں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی  تھی کہ کہ اگر ان افعال سے تدلیس و تزویر یعنی کسی کو دھوکا دینا مقصود نہیں ہے اور چونکہ آج کے زمانہ میں یہ افعال بدکار عورتوں کا شعار بھی نہیں کہ ان سے  مشابہت کی بنا پر منع کیا جائے ،لہذا ان افعال کے کرنے میں اباحت ہے ۔

لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث کی بنا پر  اس اباحت میں وہ تعمیم نہیں رہے گی جو اوپر ذکر کی گئی علتوں سے مترشح ہو رہی تھی ۔ اس روایت نے  ان افعال کی اباحت  کو تو اگرچہ برقرار رکھا ہے لیکن اس کا دائرہ محدود کر دیاہے ۔ وہ یوں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ  کی روایت کے الفاظ ہیں " وَالمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ" کہ  جن عورتوں پر لعنت کی گئی ہے ان میں  وہ عورتیں بھی ہیں جو دانتوں کے درمیان خوبصورتی کےلیے فاصلہ کرواتی ہیں ، لِلْحُسْنِ  کی قید سے دیکھنے میں لگتاہے کہ  ممانعت ان تمام صورتوں میں ہے جب خوبصورتی کے لیے یہ افعال کیے جائیں 13۔

لیکن ذرا گہرائی کے ساتھ دیکھیں تو ایسا نہیں ہے ، اس لیے کہ حُسن و جمال کوئی ایسی برائی کی  چیز نہیں ہے کہ محض اس کے حصول پر لعنت کی جائے۔ اس لیے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرت حسن و خوب صورتی کو پسند کرتی ہے۔ اسلام نے خوب صورت نظر آنے کی تعلیم دی ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :  إِنَّ اللَّہَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ  14 کہ اللہ تعالیٰ خود بھی جمال والے ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں ۔ نیز عورتو ں کے بارے میں تاکید کے ساتھ آیا ہے کہ وہ زینت اختیار کیا کریں ،چنانچہ امام نسائی اپنی سنن میں ایک  کتاب الزینۃ کے تحت ایک روایت  نقل کرتے ہیں :

عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ امْرَأَۃً، مَدَّتْ يَدَھَا إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ فَقَبَضَ يَدَہُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّہِ، مَدَدْتُ يَدِي إِلَيْكَ بِكِتَابٍ فَلَمْ تَأْخُذْہُ، فَقَالَ: «إِنِّي لَمْ أَدْرِ أَيَدُ امْرَأَۃٍ ھِيَ أَوْ رَجُلٍ» قَالَتْ: بَلْ يَدُ امْرَأَۃٍ، قَالَ: «لَوْ كُنْتِ امْرَأَۃً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ بِالْحِنَّاءِ»15

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے ایک کاغذ نبی ﷺ کی طرف بڑھایا  ، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ روک لیا، تو اس نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! میں نے آپ کی طرف کا غذ بڑھایا ہے ،آپ نے وہ نہیں لیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پتا نہیں کہ یہ ہاتھ عورت کا ہے یا مرد کا ، تو اس نے کہا :  یہ عورت کا ہاتھ ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کو مہندی کا رنگ لگاتی۔

چونکہ حسن بذاتِ خود کوئی قابلِ لعنت کام نہیں ہے اس لیے حضرت ابن مسعود کی روایت میں حُسن سے مراد وہ حُسن ہے جس کے ذریعے دھوکا دہی مقصود ہو یا اجنبی مردوں کو مائل کرکے آوارہ عورتوں کی صف میں شامل ہونا مقصود ہو۔


خلاصۂ کلام

اب تک کی ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ :

  • قرآن کریم میں اگرچہ "تغییر خلق اللہ" کے لفظ آئے ہیں ، لیکن راجح تفسیر کے مطابق اس کا وصل ، وشم اور اس جیسے دوسرے افعال سے ممانعت کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں  ہے ۔
  • انسانی جسم میں متعدد تبدیلیوں پر لعنت یا ان سے ممانعت کے حوالے سے متعدد صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے جن کے متون گزر چکے ہیں ۔
  • ان میں سے صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث " الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ "کے الفاظ ہیں ۔ چونکہ مدارِ اسناد سے نیچے تمام راوی یہ لفظ نقل کر  رہے ہیں اس لیے اس میں ادراجِ راوی کا احتمال بہت کم ہو جاتاہے۔
  • اس بات پر تقریباً اتفاق نظر آتاہے کہ ان جسمانی تصرفات سے ممانعت امرِ تعبدی نہیں ہے ، امرِ تعبدی اس حکم کو کہا جاتاہے  جس کامدار کسی علت پر نہیں ہوتابلکہ محض اللہ کا حکم سمجھ کر اس حکم کو اسی طرح بجا لانا ہوتاہے ۔ ان جسمانی تصرفات سے ممانعت امرِ تعبدی نہیں بلکہ معلول بالعلہ ہے ۔ یعنی اس میں ممانعت کا دارومدار کسی علت پر ہے ، وہ علت ہوگی تو حکم بھی لگے گا اور وہ علت نہیں ہوگی تو حکم بھی نہیں ہوگا۔ یعنی شریعت کااصل مقصود اِ ن کاموں سے منع کرنا نہیں بلکہ ان کے پیچھے چھپی کسی برائی سے منع کرنا ہے ۔
  • چونکہ ان کا موں کےلیے لعنت جیسے سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ،اس لیے علت اور ان کاموں کے پیچھے چھپی برائی بھی ایسی ہونی چاہیے جو شریعت کی نظر میں بہت سنگین ہو ، اور اسے کسی بھی حالت میں گوارا نہیں کیا جا سکتاہو ،ایسی بات علت نہیں بن سکتی جسے شریعت گوارا بھی کرتی ہو یا کسی درجہ میں مستحسن قرار دیتی ہو ۔ مثلاً :حسن بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں، بلکہ ایک درجے میں مطلوب ہے ، خصوصاً عورتوں کےلیے ۔ اسی طرح خلقت میں تبدیلی کو بعض جگہوں پر شریعت نے گوارا کیا ہے اور بعض جگہ اس کا حکم دیا گیا ہے ۔
  • مالکیہ اور حنفیہ میں سے متعدد حضرات کی عبارات سے معلوم ہوا کہ ان کاموں کی شناعت کی اصل وجہ تین باتیں ہیں :
    1. دھوکا دہی ،چاہے عمر چھپا کر ہو یا یہ ظاہر کرکے کہ پیدائشی طور پر میں ہوں ہی ایسی ۔
    2. اجنبی مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہو ۔
    3. وہ بدکار عورتوں کا شعار بن چکا ہو ۔
      آخری دو علتوں کو یک جا بھی کیا جا سکتاہے کہ مقصد بدکار عورتوں کا شعار اختیار کرکے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہو۔
  • لہذا  جس روایت میں " الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ" کا ذکر ہے، وہاں ہر قسم کی تغییر مراد نہیں ہے ،بلکہ وہ تبدیلی مراد ہے جس سے مذکو رہ بالا برے مقاصد میں سے کسی مقصد کا حصول پیشِ نظر ہو یا کم از کم یہ مفسدہ مرتب ہو رہا ہو ۔
  • جہاں " لِلْحُسْنِ" کی قید ہے وہاں بھی وہ حُسن مراد ہے جس میں مذکورہ تین خرابیوں میں کوئی خرابی پائی جائے ۔


حواشی

  1. القرافی ،ابوالعباس، شہاب الدین ،احمد بن ادریس بن عبدالرحمان المالکی ، الذخیرۃ للقرافی،ج ۱۳،ص ۳۱۵مکتبہ دارالغرب الاسلامی  ،بیروت،ط:اول ۱۹۹۴
  2. الماوردی ، ابوالحسن علی بن محمد البصری ، البغدادی ،الحاوی الکبیر  ج۲،ص۲۵۷،دارالکتب العلمیہ ،بیروت،لبنان، ۱۴۱۹ھ
  3. ابن عابدین ، محمد امین بن عمر بن عبدالعزیزالدمشقی الحنفی، ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج ۳،ص ۳۷۳،دارالفکر،بیروت ،ط:  الثانیۃ، ۱۴۱۲ھ
  4. محولہ بالا
  5. العسقلانی، ابن حجر، حافظ، احمد بن علی ، ج۱۰، ص۳۷۸،دارنشرالکتب الاسلامیۃ ، ۱۴۰۱ھ
  6. نفراوی، احمد بن غانم ، شہاب الدین ، الازہری، المالکی، الفواکہ الدوانی علی رسالۃ ابن ابی زید القیراوانی، ج ۲، ص ۳۱۴،دارالفکر، ۱۹۹۵ء
  7. الجمل ، سلیمان بن عمر، الشافعی، حاشیۃ الجمل   علی شرح المنہج  ج ۱ ، ص۴۱۸،دارالفکر،س ن
  8. ابن عاشور ، محمد طاہر بن محمد بن محمد طاہر ،التحریر والتنویر ، ج۵،ص ۲۰۶، دارالتونسیۃ ، تونس،۱۹۸۴ء
  9. رازی ، فخرالدین ، مفاتیح الغیب ، ج ۱۱،ص۲۲۳
  10. ابن عاشور ، محمد طاہر بن محمد ، المقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ، المحقق: محمد حبیب ابن الخوجۃ ،ج۱،ص ۴۹۱،وزارت الاوقاف والشئون الاسلامیۃ،قطر،۲۰۰۴ء
  11. زاہد، محمد، مولانا ، شیخ الحدیث، جامعہ اسلامیہ امدادیہ ، فیصل آباد، بالمشافہ گفتگو میں انہوں نے اپنی مندرجہ بالا رائے کا اظہار کیا
  12. محولہ بالا
  13. لِلْحُسْنِ: اس قید کا تعلق کون سے الفاظ کے ساتھ ہے ، اس بارے  علا مہ عینی نے دو احتمال نقل کیے ہیں  ایک یہ کہ اس کا تعلق پچھلے تمام افعال سے ہے ، دوسرا یہ کہ اس کا تعلق صرف آخری لفظ سے ہے (  عمدۃ القاری، ج۲۲،ص ۶۳)
  14. ابن حبان ،محمد بن حبان بن احمد بن حبان ،ابوحاتم الدارمی ، البستی ، صحیح ابن حبان ،ج ۱۲، ص ۲۸۰، رقم الحدیث: ۵۴۶۶،موسسۃ الرسالۃ ،بیروت ، الطبعۃ الثانیۃ ، ۱۹۹۳ء
  15. النسائی، ابو عبدالرحمان ، احمد بن شعیب ، سنن ، ج۸،ص ۱۴۲، رقم الحدیث: ۵۰۸۹،مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، الطبعۃ الثانیۃ ، ۱۹۸۶ء


فقہ / اصول فقہ

(جولائی ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter