حدیث کی مقبول و مردود اقسام کے اعتبار سے اہل سنت کے مصطلح الحدیث اور اہل تشیع کے علم الدرایہ کا تقابلی مطالعہ پچھلی دو اقساط میں بالتفصیل بیان ہوا ،اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اہلسنت کے ہاں مقبول حدیث کے معیارات میں کڑی شرائط بیان کی گئی ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں اس حوالے سے کافی تساہل سے کام لیا گیا ہے ، اسی طرح مردود حدیث کے سلسلے میں اہل سنت نے جن اقسام کو بیان کیا ہے ،ان کی تطبیق حدیثی ذخیرہ پر بھر پور انداز میں عمل میں لائی گئی ،یہاں تک کہ مردود حدیث کی مختلف اقسام کے مصادر تک کی تعیین کی گئی ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں اہل سنت کی اتباع میں وہی اقسام تو بیان کی گئی ہیں ،لیکن ان اقسام کی شرائط ،مصادر ،رواۃ اور خصوصا حدیثی ذخیرے پر تطبیق کے حوالے سے کسی قسم کی ابحاث نہیں کی گئی ہیں ،،جس سے متنوع الجھنیں پیدا ہوئی ہیں ،جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا ،اب ہم سنی مصطلح الحدیث اور شیعہ علم الدرایہ کا دیگر مباحث میں ایک تقابلی مطالعہ نکات کی شکل میں پیش کریں گے :
1۔اہل سنت محدثین نے حدیثی ذخیرے میں موجود ظاہری تعارض و اختلاف کو حل کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے ،چنانچہ اس کے لئے مصطلح الحدیث میں ایک مستقل علم و فن علم مختلف الحدیث و مشکل الحدیث وضع ہوا ہے ،اس فن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امام نووی لکھتے ہیں :
"ھذا فن من اہم الانواع ،و یضطر الی معرفتہ جمیع العلماء من الطوائف"1
یعنی یہ فن انواع مصطلح الحدیث میں سے اہم ترین فن ہے ،اہل علم کے جملہ گروہوں کو اس فن کے جاننے کی اشد ضرورت ہے ۔
اس موضوع پر مصطلح الحدیث کی کتب میں موجود مواد کے علاوہ اہل سنت محدثین نے درجہ ذیل مستقل کتب لکھی ہیں :
1۔اختلاف الحدیث ،امام محمد بن ادریس الشافعی
2۔تاویل مختلف الحدیث ،ابو محمد عبد اللہ بن مسلم قتیبہ دینوری
3۔ مشکل الاثار ،امام ابو جعفر الطحاوی
4۔مشکل الحدیث و بیانہ ،ابو بکر ابن فورک
5۔التحقیق فی اختلاف الحدیث ،ابو الفرج ابن الجوزی
6۔تاویل الاحادیث الموہمہ للتشبیہ ،جلا ل الدین السیوطی
7۔مشکلات الاحادیث النبویہ و بیانہا ،شیخ عبد اللہ النجدی
8۔دفع التعارض عن مختلف الحدیث ،حسن مظفر الزور
9۔مختلف الحدیث بین الفقہاء و المحدثین ،نافذ حسین حماد
10۔مختلف الحدیث و موقف النقاد المحدثین منہ ،شیخ اسامہ عبد اللہ خیاط 2
ان کتب میں متعارض احادیث کے حل و تطبیق کے قواعد پر تفصیلی کلام کے ساتھ حدیثی ذخیرے میں موجود متعارض احادیث میں تطبیق ،ترجیح پر مفصل کام ہوا ہے ،یوں نظری و عملی ہر دو اعتبار سے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں موجود ظاہری تعارض کے حل پر مکمل کام ہوا ہے ،جبکہ اس کے برخلاف اہل تشیع محدثین کے ہاں اس موضوع پر مواد نہ ہونے کے برابر ہے ،چنانچہ شیخ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ " میں حدیث کی اقسام میں مختلف الحدیث کی تعریف امام نووی سے نقل کی ،اور اس موضوع پر موجود کتب میں ابن قتیبہ کی تاویل مختلف الحدیث کا ذکر کیا 3،اگر شیعہ اہل علم کا کوئی قابل ِ ذکر کام اس موضوع پر ہوتا ،تو ضرور کچھ ذکر کرتے ،شاید اسی وجہ سے شیعہ محقق علی خضیر حجی نے اپنی مفصل کتاب "المبادی العامہ لعلم مصطلح الحدیث المقارن " میں مختلف الحدیث کا ذکر ہی نہیں کیا ،کیونکہ اس کتاب میں مصنف نے حدیث کی مختلف اقسام میں سے ہر دو فریقوں کی کتب سے امثلہ و مواد لانے کا التزام کیا ہے ،چونکہ اس موضوع پر اہل تشیع محدثین کا قابلِ ذکر کام نہیں ہے ،اس لئے مصنف نے اپنی کتاب میں اس اہم ترین قسم کے ذکر سے پہلو تہی اختیار کی ۔
2۔اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں چونکہ بکثرت تکرار موجود ہے ،جیسا کہ اس سلسلے کی تعداد ِ روایات والے عنوان میں ہم وضاحت کر چکے ہیں ،اس لئے مصطلح الحدیث میں مکرر احادیث و تعدد طرق کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے اعتبار ،متابعت اور شاہد کی اقسام وضع ہوئی ہیں ،جن میں دو یا زیادہ روایات کے لفظی یا معنوی اشتراک یا ایک ہی حدیث کے مختلف شیوخ و صحابہ سے روایت پر بحث ہوتی ہے ، صحاح ستہ میں امام بخاری نے متعدد مقامات پر متابعت کو بیان کیا ہے ،جبکہ امام ترمذی نے وفی الباب کے تحت شواہد کی طرف اشارہ کیا ہے اور امام مسلم نے شواہد کو بیان کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے ،مصطلح الحدیث کا یہ فن انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،اس سے ایک حدیث کے لفظی و معنوی مکررات اور سند و شیوخ کے تکرار و طرق کا علم ہوتا ہے ،اس کے برخلاف یہ فن شیعہ علم الدرایہ سے سرے سے مفقود ہے ،چنانچہ متقدمین شیعہ اہل علم میں سے شہید ثانی کی البدایہ فی علم الدرایہ ہو یا متاخرین و معاصرین شیعہ اہل علم میں سے جعفر سبحانی کی اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ہو ،یا محقق خضیر کی المبادی العامہ لعلم مصطلح الحدیث المقارن ہو ،ان میں سے کسی بھی کتاب میں اعتبار،متابعت اور شاہد کی تعریفات و ابحاث مذکور نہیں ہیں ،یہاں تک کہ شیعہ علم الدرایہ کی سب سے مفصل کتاب علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ بھی اس کے ذکرسے خالی ہے ،جب اصول حدیث میں متابعات و شواہد اور اس کے اصول و قواعد کا ذکر ہی مفقود ہے ،تو عملا شواہد و اعتبارات کو جمع کرنے پر کام کیونکر ہوگا؟یوں شیعہ ذخیرہ حدیث میں ایک روایت کے مختلف طرق ،مکررات ،شیوخ واسناد میں مشترکات پر نظری و عملی ہر دو پہلووں سے کام نہیں ہوا ہے ،چنانچہ آج اگر اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں سے کسی بھی حدیث کے مختلف طرق و مکررات تلاش کرنے ہوں ،تو آسانی سے مل جاتے ہیں ،کس حدیث کے کتنے شواہد ہیں ؟سند میں کتنے مقامات پر متابعات ہیں ؟اور کتنے اعتبارات ہیں ؟سہولت کے ساتھ دستیاب ہیں ،جبکہ شیعہ ذخیرہ حدیث میں اولا تو تکرار انتہائی کمیاب ہے ،جیسا کہ ہم اس پر بحث کر چکے ہیں ،ثانیا جن روایات میں تکرار ہیں ،ان میں شواہد ومتابعات کی کیا تفصیل ہیں ؟ نظری و عملی ہر دو اعتبار سے یہ پہلو مفقود ہے۔
3۔اہل سنت محدثین نے مصطلح الحدیث میں ایک دلچسپ فن علم اسباب ورود الحدیث وضع کیا ہے ،یہ فن قرآنی آیات کے شانِ نزول کی طرح احادیثِ نبویہ کے شان ورود ،موقع محل اور پس منظر کو بیان کرتا ہے ،اس سے حدیث میں بیان کردہ حکم کے اسرار و حکم ،اس کے دائمی و وقتی ،عمومیت و خصوصیت ،تقیید و اطلاق ،تفصیل و اجمال اور تشریعی و ارشادی سمیت دیگر اہم امور کا علم ہوتا ہے ،مصطلح الحدیث کے ضمن میں بیان کرنے کے ساتھ اہل سنت محدثین نے اس پر مستقل کتب تحریر کیں ہیں ،چند اہم کتب یہ ہیں :
1۔محاسن الاصطلاح و تضمین کتاب ابن الصلاح ،سراج الدین بلقینی
2۔اللمع فی سبب الحدیث ،جلا ل الدین السیوطی
3۔البیان و التعریف فی اسباب ورود الحدیث الشریف ،ابراہیم بن محمد المعروف ابن حمزہ الدمشقی
4۔علم اسباب ورود الحدیث ،طارق اسعد حلمی
5۔اسباب ورود الحدیث ،ضوابط و معالم ،محمد عصری زین العابدین
اس کے برخلاف جب شیعہ علم الدرایہ کو دیکھتے ہیں ،تو علم الاعتبار و الشاہد کی طرح یہ فن بھی سرے سے موجود ہی نہیں ہے ،ہم نے شہید ثانی کی البدایہ سے لیکر علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ تک اور معاصرین میں سے جعفر سبحانی کی اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ کی ورق گردانی کی ،تو ہمیں ان کتب میں علم اسباب ورود الحدیث پر کسی قسم کا مواد نہیں ملا ،نہ ہی ہمارے علم کی حد تک اہل تشیع محدثین نے اس فن پر کوئی قابل ِ ذکر مستقل کتاب تحریر کی ہے ،یہ فن کتنا اہم ہے ،اور اس فن کی مدد سے اہل سنت اہل علم نے احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ احکامات کی کیسے درجہ بندی کی ہے ،اس کا نمونہ دیکھنا ہو تو محقق عبد الماجد غوری کی کتاب المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث (ص979 تا 997) کا مطالعہ کافی ہوگا ،طوالت کے پیشِ نظر ہم اس بحث کو نقل نہیں کر سکتے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل تشیع کے علم الدرایہ اور حدیثی ذخیرے میں ان مباحث کی عدم موجودگی کی وجہ سے کتنا بڑا خلا موجود ہے۔
4۔اہل سنت محدثین نے حدیثی ذخیرے میں موجود منسوخ روایات کی چھان بین پر مفصل کام کیا ہے ،تاکہ قرآنی آیات کی طرح منسوخ احادیث کا بھی علم ہوسکے اور احکام کے اخذ و استنباط میں ان کو پیشِ نظر رکھا جا سکے ،چنانچہ اس سلسلے میں علم مصطلح الحدیث میں نسخ فی الحدیث کے قواعد کے ساتھ منسوخ روایات کی تنقیح و تہذیب پر مستقل کام ہوا ہے ، اس موضوع کی چند اہم کتب یہ ہیں :
1۔ناسخ الحدیث و منسوخہ ،ابو حفص ابن شاہین
2۔اعلام العالم بعد رسوخہ بحقائق ناسخ الحدیث و منسوخہ ،ابو الفرج ابن الجوزی
3۔الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الاثار (دو جلد)،ابوبکر الحازمی
4۔الناسخ و المنسوخ فی الاحادیث ،احمد بن محمد المختار الرازی
اس حوالے سے جب اہل تشیع محدثین کا کام دیکھا جاتا ہے ،تو یہاں بھی ہمیں خلا نظر آتا ہے ،علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ ہو ،شہید ثانی کی البدایہ ہو یا جعفر سبحانی کی اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،اہل سنت کی کتب جیسے مقدمہ ابن الصلاح ،امام نووی کی التقریب وغیرہ سے بالصراحت (یعنی خود ان مصنفین نے نسخ کی بحث میں اہل سنت اہل علم کا حوالہ دیا ہے ،خصوصا علامہ مامقانی و جعفر سبحانی نے )تعریفات و اقسام نقل کی گئی ہیں ،اس کے علاوہ شیعی حدیثی ذخیرے میں منسوخ روایات کی چھان بین پر کوئی قابلِ ذکر مستقل کام نہیں ہوا ہے ۔
5۔اہل تشیع محدثین نے چونکہ علم الدرایہ بنیادی طور پر اہل سنت کی کتب خصوصا مقدمہ ابن الصلاح سے نقل کیا ہے ،جیسا کہ ماقبل میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ،تو اس نقل میں شیعہ اہل علم نے وہ مباحث بھی نقل کئے ہیں ،جو شیعہ حدیثی ذخیرے پر منطبق نہیں ہوسکتے ،مثلا ،اہل سنت کے ہاں ایک اہم بحث طرقِ تحمل حدیث کی کی جاتی ہے کہ حدیث کو شیخ سے لینے کے کتنے طرق ہیں ،اس بارے میں آٹھ مشہور طرق کا ذکر کیا جاتا ہے ،پھر ان کی ذیلی اقسام اور ان میں درجہ بندی کی جاتی ہے ،مقدمہ ابن الصلاح میں یہ بحث النوع الرابع و العشرون کے تحت مفصلا بیان کی گئی ہے ،مقدمہ ابن الصلاح کی یہ بحث الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ شہید ثانی نے البدایہ میں اور علامہ مامقانی نے مقباس الہدایہ میں ہو بہو کاپی کی ہے ،اس سے قطع نظر کہ ہر دو حضرات نے امثلہ تک مقدمہ سے لی ہیں ،یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحملِ حدیث والی یہ تقسیمات شیعہ حدیثی ذخیرے میں نہیں چل سکتیں ،کیونکہ اس تقسیم کا تعلق دورِ رسالت کے بعداور کتبِ حدیث کی تدوین سے پہلے مجالس ِ حدیث کے حلقہ جات کے ساتھ ہے کہ اہل سنت میں وسیع پیمانوں پر تعلیمِ حدیث کے حلقہ جات قائم ہوچکے تھے ،ان حلقہ جات میں سینکڑوں شاگرد ہوتے تھے ،کبھی استاد حدیث پڑھتا تھا ،شاگرد سنتے تھے ،کبھی شاگردوں میں سے کوئی ایک شاگرد حدیث پڑھتا ،جبکہ استاد و باقی شاگرد سماع کرتے ،کبھی استاد اپنی مرویات لکھی ہوئی بغیر پڑھے ہوئے شاگردوں میں بانٹ دیتا تھا ،کبھی استاد کسی خاص شاگرد کو خط یا پیغام کے ذریعے اپنی مرویات کی اجازت دیتا ،الغرض متنوع قسم کے طرز رائج تھے ، جس سے تحملِ حدیث کے طر قِ ثمانیہ وجود میں آئے ،جبکہ شیعہ علم حدیث میں یہ طرق متصور نہیں ہوسکتے ،کیونکہ شیعہ علم حدیث کے دو مراحل ہیں :
پہلا مرحلہ زمانہ ائمہ کرام (معصومین ) کا تھا ،جس میں براہ ِ راست ائمہ سے ان کے مخصوص تلامذہ نے علمِ حدیث حاصل کیا ،اس تعلیم و تعلم میں ائمہ کی حیثیت شارع کی جبکہ تلامذہ کی حیثیت امتی کی تھی اور ائمہ کے یہ ارشادات وحی پر مبنی ہو تے تھے ، تو جس طرح نبی پاک ﷺ سے صحابہ کرام وقتا فوقتا وحی متلو و غیر متلو سن کر محفوظ کرتے تھے ،(بقول اہل تشیع) اسی طرح ائمہ کرام سے ان کے تلامذہ نے ائمہ کے ارشاداتِ وحی محفوظ کئے ہیں ،تو اس میں تو صرف ایک ہی صورت تھی کہ ائمہ تلامذہ کو وحی کی تعلیم دیتے تھے ،تلامذہ اسے نقل کر کے محفوظ کر کے یاد رکھتے تھے ،جیسا کہ زمانہ نبوت میں آپ ﷺ ارشادات فرماتے ،صحابہ کرام زبانی یا تحریر ی یاد کرتے ،لھذا اس میں تحمل کے دیگر طرق کیسے چل سکتے ہیں ؟ کیونکہ ائمہ کے پاس باقی شیوخ ِ حدیث کی طرح روایات کا ایک متعین و محدود ذخیرہ نہیں تھا ،جو وہ انہی الفاظ کے ساتھ اسی سند کے ساتھ اپنے تلامذہ کوسناتے ،بلکہ روایات خود ان کے اقوال و ارشادات تھے ،جو وہ کسی نبی کی طرح موقع بموقع اور ضرورت کے وقت ارشاد فرماتے تھے ۔
دوسرا مرحلہ مابعد ائمہ کا تھا ،اس میں محدثین ِ اہل تشیع نے ائمہ کے براہ راست تلامذہ سے منقول تحریری سرمایے ،جنہیں وہ اصول اربعمائہ کہتے ہیں ،ان سے اپنی کتبِ حدیث مرتب کیں ،ائمہ کے براہ راست تلامذہ نے ائمہ سے سنی مرویات کی کھلم کھلا درس و تدریس اور تعلیم نہیں کی ،کیونکہ بقول ِ محققین اہل تشیع ،کہ وہ زمانہ تقیہ کا زمانہ تھا ،اس میں مجالس حدیث نہیں لگ سکتے تھے ،اس کی تفصیل ہم اس سلسلے کی پہلی قسط میں "حدیثی سرمایہ قبل از تدوین " کے عنوان کے تحت بیان کر چکے ہیں ، جب کتب ِ حدیث مدون ہوگئیں ،تو بعد از تدوین ِ کتب ِ حدیث ان طرقِ ثمانیہ کی ضرورت سنی حلقوں میں بھی ختم ہوگئی ، لھذا جب اہل تشیع کے حدیثی سرمایے پر ایسا زمانہ ہی نہیں آیا ،جن میں ائمہ کرام کی مرویات کو قبل از تدوین ِ کتب ِ حدیث تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے مرحلے سے گزارا گیا ہو تو تحملِ حدیث کے ان طرقِ ثمانیہ کا موقع بھی نہیں آیا ،اس لئے اہل تشیع محدثین کا ان طرق کو اہل سنت کی اتباع میں علم الدرایہ میں ذکر شیعہ حدیثی ذخیرے کے اعتبار سے درست نہیں ہے ۔
خلاصہ یہ کہ ان طرق کا تعلق بعد از زمانہ تشریع و قبل از تدوینِ کتب کے ساتھ ہے ، جس میں حدیثی ذخیرے کی شیوخ حدیث تعلیم و تدریس دیتے تھے ،اور شیعہ علم ِ حدیث پر یہ زمانہ بوجوہ نہیں آسکا ،تو ان طرق کا ذکر بے محل ہے ۔یہی وجہ ہے متقدمین اہل تشیع کے ہاں ان طرق کے جواز و عدم جواز پر کسی قسم کی بحث نہیں ملتی ،علامہ مامقانی نے بھی زیادہ تر حوالے علمائے اہل سنت کے دئیے ہیں ،جبکہ علمائے اہل تشیع میں حوالہ شہید ثانی کا دیتے ہیں ،شہید ثانی سے پہلے قدمائے شیعہ کے حوالے نہیں دیتے ،کیونکہ اس وقت ان طرقِ ثمانیہ کا وجود نہیں تھا ،تو ان کے احکام پر بحث بھی نہیں تھی ،چنانچہ اجازت لغیر المعین کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ مامقانی رقم طراز ہیں :
"وفیہ ایضا خلاف مرتب فی القوۃ بحسب المرتبتین ،فجوزہ علی التقدیرین جمع من الفقہاء و المحدثین کالقاضی ابی الطیب الطبری ،وا لخطیب البغدادی و ابی عبد اللہ بن مندہ و ابن عتاب و ابی العلاء الحسن بن احمد العطار الھمدانی من العامہ و الشہید من اصحابنا ۔۔۔و منعہ اخرون 4
اس عبارت میں علمائے اہل سنت کے قدماء کی ایک لمبی فہرست ذکر کر دی ،لیکن علمائے شیعہ میں سے صرف شہید ثانی مصنف البدایہ کا ذکر کیا ۔
6۔اہل تشیع کے علم الدرایہ کے تراث میں سب سے اہم ترین اور مفصل کتاب علامہ مامقانی کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب "مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ " ہے ،اس کتاب کی قدر و قیمت اہل تشیع محققین کے ہاں کتنی ہے ؟اس کا اندازہ کتاب کےمحقق محمد رضا مامقانی کے درجہ ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے ،محقق محمد رضا مامقانی کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
"و لعل من اجل ما کتب فی ھذ الفن و انفع فیما نعلم کتابنا الحاضر مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ لشیخنا المعظم الایۃ العظمی الشیخ عبد اللہ المامقانی طاب رمسہ ،و اقولہا لا حرصا و لا تعنتا بل شہادۃ للتاریخ انی مع کل مراجعاتی للمخطوط من ھذا الفن و المطبوع من الفریقین ندر ان وجدت من اوفی الموضوع حقہ و اعطاہ جدہ او استوفی البحث استیعابا کمصنفنا فی مصنفہ ھذا "5
یعنی اس فن کی سب سے اجل وانفع کتاب ہمارے علم کی حد تک مقباس الہدایہ ہے ،اور میں بلا تعصب کے تاریخی شہادت کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اہل سنت و اہل تشیع کے جملہ مخطوطات و مطبوعات میں ہمیں اس کتاب کے سوا کوئی ایسی کتاب نہ ملی ،،جس نے اس کتاب کی طرح موضوع کا حق ادا کیا ہو ،اور تفصیلی بحث کی ہو ۔
ہمارے اس سلسلے کا مقصد چونکہ فریقین کے حدیثی علوم و کتب کا تقابلی جائزہ ہے ،اس لئے محقق مذکور کے اقتباس کے بعد ہم نے اہل سنت میں سے مقدمہ ابن صلاح اور علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ کے مباحث کا تقابل کیا اور اہم مباحث کا بالاستیعاب مقارن مطالعہ کیا ،تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ مذکورہ کتاب کے بہت سے اہم مباحث الفاظ و عبارات کے معمولی اختلاف کے ساتھ مقدمہ ابن صلاح سے ماخوذ ہے ،قارئین اس کی تصدیق کے لئے مذکورہ کتاب کے درجہ ذیل دو مباحث مقدمہ ابن صلاح کے ساتھ مقارن مطالعہ فرمائیں :
1۔ مقباس الہدایہ سے فی طرق تحمل الحدیث (ج2،ص 182 تا 251 ) کا تقابلی مطالعہ مقدمہ ابن صلاح کے النوع الرابع و العشرون کے ساتھ کریں ۔
2۔ مقباس الہدایہ سے فی کتابۃ الحدیث و ضبطہ (ج2،ص 255 تا 273 ) کا تقابلی مطالعہ مقدمہ ابن صلاح کے النوع الخامس والعشرون کے ساتھ کریں ۔
مذکورہ دو مباحث چونکہ تفصیلی ہیں ،بوجہ طوالت نقل نہیں کرسکتے ،البتہ قارئین کے لیے بطورِ نمونہ ایک بحث نقل کرنا مناسب ہوگا ،تاکہ اندازہ ہوسکے کہ علامہ مامقانی نے کس حد تک مقدمہ ابن صلاح سے اپنی کتاب اخذ کی ہے ،رواۃ کی ایک قسم معرفۃ الوحدان یعنی جس سے صرف ایک راوی نے روایت کی ہو ،اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مصنف مقدمہ ابن صلاح لکھتے ہیں :
"معرفۃ من لم یرو عنہ الا راو واحد من الصحابۃ و التابعین فمن بعدھم رضی اللہ عنھم ،ولمسلم فیہ کتاب لم ارہ و مثالہ من الصحابۃ وہب بن خنبش وھو فی کتابی الحاکم و ابی نعیم الاصبھانی فی معرفۃ علوم الحدیث ہرم بن خنبش وھو روایۃ داود الاودی عن الشعبی و ذالک خطا،صحابی لم یرو عنہ غیر الشعبی ،وکذلک عامر بن شہر ،وعروۃ بن مضرس ،ومحمد بن صفوان الانصاری ،ومحمد بن صیفی الانصاری ،ولیسا بواحد و ان قالہ بعضہم ،صحابیون لم یرو عنہم غیر الشعبی و انفرد قیس بن ابی حازم بالروایۃ عن ابیہ و عن دکین بن سعید المزنی و الصنابح بن الاعسر و مرداس بن مالک الاسلمی و کلہم صحابۃ6
اب یہی بحث مقباس الہدایہ سے ملاحظہ فرمائیں ،علامہ مامقانی لکھتے ہیں :
"معرفۃ الوحدان و ھو من لم یرو عنہ الاواحد ،و فائدۃ معرفتہ عدم قبول روایۃ غیر ذالک الواحد عنہ ،ومثال ذلک فی الصحابۃ وھب بن خنبش بفتح الخاء المعجمہ و الموحدۃ بینہما نون ساکنۃ الطائی والکوفی، وعروۃ بن مضرس، محمد بن صفوان الانصاری و محمد بن صیفی الانصاری ،صحابیون لم یرو عنھم غیر الشعبی ،وفی التابعین ابو العشراء الدارمی لم یرو عنہ غیر حماد بن سلمۃ ،وتفرد الزہری علی ما قیل عن نیف وعشرین من التابعین لم یرو عنہم غیرہ منہم" 7
اب قارئین ہر دو عبارات کا تقابل کریں کہ کیا علامہ مامقانی نے مقدمہ ابن صلاح کی تحقیق پر کچھ اضافہ کیا ہے یا مقدمہ کی بحث الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کر دی ؟آخر میں ابو العشراء الدارمی ،حماد بن سلمہ اور امام زہری کا جو ذکر ہے ،ان کا ذکر بھی مقدمہ میں کچھ سطروں کے بعد مصنف نے کیا ہے ،نیز مقدمہ سے اس بحث کو بعینہ اٹھانے میں ایک فنی غلطی یہ ہے کہ صاحبِ مقدمہ ابن صلاح تو اہل سنت رواۃ میں سے وحدان کو بیان کر رہے ہیں، علامہ مامقانی کو اہل تشیع رواۃ میں سے وحدان کی مثالیں لانی چاہئے تھیں ، لیکن علامہ مامقانی نے اہل تشیع کے وحدان کی بحث میں اہل سنت کے وحدان رواۃ ذکر کردئیے ،یا للعجب
اس کے ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ علامہ مامقانی نے وحدان رواۃ کے بارے میں اتنا ہی لکھا ہے ،جتنی اوپر عبارت نقل ہوئی ہے ،لیکن مقدمہ ابن صلاح میں وحدان رواۃ کے بارے میں آٹھ صفحات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ، اس سے قارئین مقدمہ ابن صلاح اور علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ کے استیعابِ مباحث کا موازنہ کر سکتے ہیں ،اس تفصیل کے بعد محقق رضا مامقانی کے دعوے پر ایک نظر دوبارہ ڈالئے اور فیصلہ کیجیے کہ ان کا دعوی حقائق کے اعتبار سے کتنا وزنی ہے؟بے جا طوالت کی فکر دامن گیر نہ ہوتی تو اس موقع پر مقدمہ ابن صلاح کے ستر انواع کی فہرست اور علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ کی فہرست ذکر کرتا ،تاکہ قارئین اندازہ لگا سکیں کہ استیعاب،جامعیت اور ترتیب میں کونسی کتاب فائق ہے،قارئین ہر دو کتب کی فہرست دیکھ کر خود بھی یہ موازنہ کر سکتے ہیں ۔
7۔ اہل تشیع کے علم الدرایہ کی سب سے تفصیلی اور شیعہ محققین کے بقول سب سے اعلی کتاب کا مقدمہ ابن صلاح کے ساتھ تقابل کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل تشیع کے علم الدرایہ کے بقیہ کتب کے مباحث کی کیا کیفیت ہوگی؟ہر دو مکاتب کے اصولِ حدیث کا یہ تقابلی مطالعہ بحمدہ تعالی اپنے اختتام کو پہنچا ،اس تقابلی مطالعے میں علم جرح و تعدیل اور علم الرجال کا تقابل شامل نہیں ہے ،ان کی اہمیت کی وجہ سے اسے ان شا اللہ اگلی قسط میں مستقل بیان کیا جائے گا ۔
حواشی
1. التقریب و التیسیر ،ص90
2. دیکھیے :المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،1030تا 1034
3. دیکھیے :اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص85
4. مقباس الہدایہ ،ج2،ص212
5. مقباس الہدایہ ،ج1،ص10
6. مقدمہ ابن صلاح ،النوع السابع و الاربعون ،ص552
7. مقباس الہدایہ ،ج2،ص346
(جاری)