ادارہ برائے تعلیم و تحقیق کے زیر اہتمام سیمینار

ادارہ

17 مارچ کو فیصل آباد کے ہوٹل ون میں خورشید احمد ندیم صاحب کے قائم کردہ فکری فورم ادارہ برائے تحقیق وتعلیم (ORE) کے زیر اہتمام ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس میں مولانا مجاہد الحسینی مہمان خصوصی تھے۔ مولانا مفتی محمد زاہد نے اسٹیج سیکرٹری کے طور پر اس کا نظم کیا۔ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کو مذہبی رواداری اور علماء کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے گفتگو کی دعوت دی گئی، جبکہ خورشید احمد ندیم نے اپنے فورم کے مقاصد اور پروگرام کی وضاحت کی کہ علماء کرام اور اہل دانش کا ملی و قومی مسائل کے لیے مل بیٹھنا اور ان کے درمیان باہمی تبادلۂ خیالات کا اہتمام ضروری ہے اور یہ فورم اسی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ 

مولانا زاہد الراشدی نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ اختلافات تو علمی، فکری اور فقہی دنیا میں چلتے ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف مزاجوں، ذہنی سطحوں اور فکری دائروں سے نوازا ہے، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ سب ایک ہی طرح سوچیں اور کسی مسئلہ پر سب کی سوچ اور فکر کے نتائج یکساں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے تو اس نعمت کا استعمال بھی ہوگا اور جب عقل کا استعمال ہوگا تو نتائج فکر میں تفاوت اور اختلاف لازمی بات ہے۔ اس لیے اختلاف سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اختلاف کے اظہار کے طریقوں پر ضرور توجہ دینی چاہیے کہ بات اختلاف سے نہیں بگڑتی بلکہ اظہار کے انداز اور رویے سے خراب ہوتی ہے۔ بڑے سے بڑے اختلاف کو اگر نرمی کے ساتھ افہام و تفہیم کے لہجے میں بیان کیا جائے تو اس سے کوئی الجھن جنم نہیں لیتی۔ لیکن اگر معمولی سے اختلاف کو الفاظ کی تندی اور لہجے کی درشتگی کے حوالہ کر دیا جائے تو تنازعات جنم لیتے ہیں اور جھگڑے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ انھوں نے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا حوالہ دیا جو وہ اپنے شاگردوں کے سامنے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ موقف مضبوط رکھیں لیکن اظہار کے انداز میں لچک پیدا کریں۔ الفاظ نرم ہوں اور لہجہ مفاہمانہ ہو تو بات بگڑتی نہیں بلکہ فائدہ مند ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کا مخاطب یہ محسوس کر رہا ہو کہ آپ اسے سمجھانے کی فکر میں ہیں تو وہ مشکل سے مشکل بات پر بھی غور کرے گا۔ لیکن اگر اس کا احساس یہ بن جائے کہ آپ اس سے لڑ رہے ہیں یا اس کی تحقیر کر رہے ہیں تو وہ معمولی سی بات سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوگا۔ اس لیے اصل ضرورت رویوں کی اصلاح کی ہے اور مکالمہ کا ایسا ماحول پیدا کرنے کی ہے کہ ایک دوسرے کی بات دلیل کے ساتھ سمجھی جائے اور دلیل کے ساتھ ہی سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ 

مولانا زاہد الراشدی کے لیے ’’تمغہ امتیاز‘‘

صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین نے تعلیم کے شعبہ میں نمایاں خدمات سرانجام دینے پر مولانا زاہد الراشدی کو صدارتی ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا ہے جو ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۵ء کو گورنر ہاؤس لاہور میں منعقدہ ایک باوقار تقریب میں گورنر پنجاب جناب رانا محمد اقبال خان نے انھیں عطا کیا۔ تمغہ امتیاز کا مضمون یہ ہے:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں بحیثیت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب محمد عبد المتین خان زاہد (زاہد الراشدی) کو تعلیم کے شعبہ میں امتیازی مرتبہ حاصل کرنے پر ’’تمغہ امتیاز‘‘ کا اعزاز عطا کرتا ہوں۔
دستخط 
(ممنون حسین)
صدر‘‘

مولانا شبیر احمد کاکاخیل کی الشریعہ اکادمی میں تشریف آوری

معروف دانش ور، ماہر فلکیات اور روحانی پیشوا مولانا شبیر احمد کاکاخیل ۲۵؍ مارچ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لائے اور اساتذہ کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا۔ انھوں نے مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہونے والی ایک فکری نشست سے بھی خطاب کیا جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ دینی مدارس کے نصاب ونظام میں بنیادی مقاصد واہداف اور علوم مقصودہ کے دائرے اور معیار کو پوری طرح قائم رکھتے ہوئے ذرائع کے حوالے سے نظر ثانی ضروری ہے، اس لیے حالات وضروریات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ عصری ذرائع کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مثال کے طو رپر فرائض ومیراث کے احکام ومسائل کو سمجھانے کے لیے ریاضی کے پرانے قواعد کی بجائے جدید ریاضی کے اصول وقواعد استعمال کیے جائیں تو مشکل مسائل کو بھی آسانی کے ساتھ سمجھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح باقی شعبوں میں بھی ذرائع کے حوالے سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

مولانا شبیر احمد کاکاخیل نے اس نشست میں الشریعہ اکادمی کے درس نظامی کے شعبہ کے شش ماہی امتحان میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ میں انعامات تقسیم کیے۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ اکادمی کے زیر اہتمام مدرسۃ الشریعہ میں درس نظامی کے ابتدائی دو درجات (مساوی ثانویہ عامہ) کے ساتھ میٹرک کی تعلیم دی جاتی ہے اور میٹرک کا امتحان گوجرانوالہ بورڈ سے دلوایا جاتا ہے۔

اخبار و آثار

(اپریل ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter