غامدی صاحب کا حال ہی میں چھپنے والا "متبادل بیانیہ" زیر بحث ہے۔ اس میں بہت سی باتوں کا ذکر ہے؛ سردست صرف اسکی دو شقوں پر گفتگو کرنا مقصود ہے؛ ایک یہ پاکستانی ریاست کو مسلمان بنانا نہ صرف ازروئے شرع مطلوب و مقصود نہیں بلکہ یہ خلاف عقل بھی ہے۔ دوسری یہ کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نیز اسکا قیام کوئی دینی تقاضا نہیں۔
ریاست اور مذہب
اس پر گفتگو کے تین پہلو ہیں، ایک کلامی، دوسرا قومی، تیسرا حاضر و موجود وسیع تر تناظر میں اس کے متوقع نتائج۔ تینوں پر ترتیب وار گفتگو کی جاتی ہے۔
1) متبادل بیانئے کا کلامی سیاسی پہلو
شق نمبر ایک کے مطابق (جہاں تک میں سمجھا ہوں) غامدی صاحب مسلمانوں کو یونانی طرز کی "براہ راست جمہوریت" اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یعنی جب وہ کہتے ہیں کہ "ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اسے مسلمان بنانے کا تصور ہی لغو ہے" تو انکا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا کوئی بھی موقف (سیکولر، سوشلسٹ، ہندومت، اسلام وغیرہم) نہیں ہونا چاہیے، اسے "نیوٹرل" (معلوم نہیں یہ کس بلا کا نام ہے) ہونا چاہیے؛ لوگوں کی "جو بھی" اجتماعی رائے ہو، وہ اسے اختیار کرنے میں آزاد ہوں۔ فلسفہ سیاست کی زبان میں دراصل وہ یہ بات کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ معاشرے کے اندر کوئی بھی "جنرل ول" (General Will ) نہیں ہونی چاہئے کہ جسکی پابندی بطور قانون لازم سمجھی جائے۔ نیز ول آف آل (Will of all ) بھی جس کی پابند ہو، بلکہ معاشرے میں جو بھی ہو وہ "ول آف آل" (will of will ) کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔
اس پہلو کے چند مضمرات و سوالات
اگر اس بارے میں غامدی صاحب کا مؤقف صحیح سمجھا گیا ہے تو اس پر چند سوالات پیداہوتے ہیں۔
غامدی صاحب آئین میں چند اسلامی شقیں شامل کردینے میں اگر یہ مسئلہ دیکھتے ہیں کہ "چاہے پاکستان کے لوگوں کا اجتماعی ارادہ کچھ بھی کیوں نہ ہو، اس طرح تو گویا ریاست ابدالاباد تک کے لیے مسلمان ہو جائے گی" (اور انہیں دراصل یہی علمی خدشہ لاحق ہے)، تو انکا یہ استدلال خود انکی اپنی منطق پر پورا نہیں اترتا۔ اگر کل کو پاکستان کی غالب اکثریت غیر مسلم ہوجائے تو وہ آئین میں تبدیلی کرکے ان شقوں کو نکال باہر کرے (اور ہمارے لبرل طبقے کیا اس کوششوں میں مصروف نہیں؟) اس سب میں انکے اپنے اصول کے مطابق مسئلہ کیا اور کہاں ہے؟ آخر یہ کہاں لکھا ہے کہ آئین میں کہ تبدیلی نہیں ہوسکتی؟ اگر آج پاکستان کے مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت نے "امرھم شوری بینھم" کے تحت یہ طے کرنا ضروری سمجھا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جانا چاہیے تو کل کو اگر کسی کی تبلیغ سے مسلمانوں کا ارادہ بدل جائے تو وہ آئین میں اسی "امرھم شوری بینھم" کے راہنما اصول کے تحت تبدیلی کرلیں اور بس۔ آخر اس سب میں ایسا کیا ہے جسے وہ غیر عقلی و غیر منطقی بات سمجھتے ہیں؟ آخر اس ول آف آل کو قرآن کے اس اصول کا پابند کیوں بنایا جائے کہ وہ "امرھم شوری بینھم" کی بنیاد پر ریاستی امور طے کرے؟ یہ اصول بھی تو بذات خود ایک "فکسڈ سٹرکچر" ہی ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ اصول ازروئے قرآن مسلمانوں پر لازم ہے، تو یہ کہنا تو خود ریاست کو ایک مذہبی بنیاد پر ہی استوار کرنا ہوا۔ آخر ایک "اصولاً نیوٹرل" سٹیٹ سٹرکچر کو ایک مذہبی استدلال کا پابند کیونکر بنانا درست ہے؟ اس نیوٹرل سٹیٹ سے قرآن کی آیت کی بنیاد پر یہ مطالبہ چہ معنی دارد؟
پھر موجودہ جمہوری ریاستیں تو دوحصوں میں تقسیم ہوتی ہیں؛ ایک جسے "مستقل اسٹیٹ سٹرکچر" کہتے ہیں (یعنی عدلیہ، انتظامیہ، فوج وغیرہم) جبکہ دوسرے کو "غیر مستقل" (یعنی مقننہ) کہتے ہیں۔ یہ تقسیم اسی اصول پر مبنی ہے کہ ایک مخصوص جنرل ول کی بالادستی بہرحال قائم رہے (کیونکہ ریاست کے مستقل حصے میں لوگ مخصوص علمیت کی بنیاد پر آتے ہیں نہ کہ ول آف آل کی بنیاد پر)۔ اب انکی تجویز کردہ ریاست کی تعمیر کے لئے لازم ہے کہ ریاست کے یہ سٹرکچرز بھی تحلیل کردیے جائیں اور ریاست کا ہر فرد ہر مرتبہ نمائندگی کے اصول پرہی ہونا چاہئے۔ کیا وہ اسکے لیے تیار ہیں؟
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس شق میں بیان ہونے والا مطالبہ آخر وہ "کس سے" کر رہے ہیں؟ کیا دنیا بھر میں موجود یہ ریاستیں ول آف آل کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہیں یا ایک مخصوص جنرل ول کی بنیاد پر؟ کیا دنیا بھر کی یہ سٹرکچرڈ ریاستیں انکی بات ماننے کے لئے تیار بیٹھی ہیں کہ ہاں ول آف آل (اگر یہ کچھ ہوتی ہے) جو چاہے اسے وہ کرنے کی اجازت دے دی جائیگی؟" کیا دنیا میں قائم شدہ جنرل ول پر مبنی یہ سٹیٹ سٹرکچرہر جگہ مسلمانوں نے کھڑا کیا ہے کہ مسلمانوں سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ وہ انکا بیان کردہ متبادل بیانیہ قبول کرلیں؟ اگر غامدی صاحب واقعی یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں انکی مجوزہ "یونانی طرز کی براہ راست جمہوریت" قائم ہوجائے تو مسلمانوں کے بجائے اہل مغرب کو یہ سبق دیں کہ دنیا بھر میں انسانیت سے اپنی "مخصوص جنرل ول" (آزادی/ہیومن رائٹس/سرمائے) کے شکنجوں کو اٹھا لو۔ مسلمانوں سے تو جنرل ول رفع کرنے کا یہ مطالبہ یوں کیا جا رہا ہے گویا اس "جدید و گلوبل نظام عالم" کے بانی و کرتا دھرتا مسلمان ہی ہوں۔ مسلمان تو خود اس مخصوص جنرل ول کے سب سے بڑے شکار بنے رہے ہیں کہ پورے خلوص و محنت کے بعد بھی اگر کسی مذہب پسند جماعت نے کہیں "ول آف آل" کے اس پلڑے کو اپنے حق میں جھکا ہی لیا تو بھی ان مخصوص جنرل ول والوں نے ان ملکوں میں انکی ایک نہ چلنے دی۔ پھر بھی شکوہ ہے تو صرف پیچارے مسلمان سے کہ یہ "دنیا بھر میں شدت پسندی" کو فروغ دیتا ہے۔ کیا پچھلے سو سال میں کوئی ایسی مثال بھی ملتی ہے کہ مسلمانوں کے کسی ملک نے کسی غیر مسلم اکثریتی ملک کی عوام کی ول آف آل کو فسخ قرار دے کر ان پر اپنی شرع نافذ کردی ہو؟ یہ پیچارہ اگر اپنی جنرل ول کو صرف اپنے ہی اوپر لازم ٹھہرا لے تو بھی شدت پسند!
جب غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو یونانی طرز کی براہ راست جمہوریت (کہ ول آف آل کسی جنرل ول کی راہنمائی کے بغیر جو کرنا چاہے، وہ کرسکے) اختیار کرلینی چاہیے تو یہ بات جہاں ناممکن العمل ہے (کیونکہ ول آف آل بالذات کچھ نہیں ہوتی، یہ تو ایک مخصوص جنرل ول کے تحت زندگی بسر کرنے سے بس تعمیر ہوجاتی ہے) وہیں اس کا سیدھا سیدھا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان اجتماعی زندگی میں اس ’’آفاقی اخلاقی اصول‘‘ کی بالادستی کو قبول کرلیں کہ اجتماعی نظم درحقیقت اس چیز کو تحفظ فراہم کرے گا کہ ’’لوگ جو چاہنا چاہیں انکی وہ چاہت چاہنے کی صلاحیت محفوظ ہوتی و فروغ پاتی رہے‘‘ نہ کہ شرع چاہنے اور اس پر عمل کرنے کی مخصوص چاہت محفوظ و عام ہو (کیونکہ اس اصول کے تحت ریاست کی اصل کمٹمنٹ ول آف آل کی کچھ بھی چاہنے کی بالادستی کو ممکن بناتے رہنا ہوگا)۔ ایسا اگر آزادی بطور قدر میں لامحدود اضافے کا دلدادہ کوئی پوسٹ ماڈرن فلسفی چاہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ایک ٹھیٹھ مذہبی ذہن رکھنے والا انسان جو یہ چاہتا ہے کہ لوگ مرنے کے بعد جنت میں جائیں نیز دنیا میں خدا کی اطاعت عام ہو، وہ یہ سب کیسے چاہ سکتا ہے؟ آخر ’’ول آف آل‘‘ کی بالادستی کو فروغ دے کر شرع کا فروغ ہوسکنا بھلا کیسے ممکن ہے؟
اس پہلو پر چند اصولی باتیں
الف) مسلمانوں کی ول آف آل کے لئے "قرآن و سنت کی بالادستی کا اقرار" لازم ہے۔
کیا کلمہ پڑھنے کا عمل "بذات خود" ایک فرد کے لئے یہ لازم نہیں کرتا کہ وہ "اصولا" (عملی کوتاہیاں ایک طرف) یہ اقرار کرنے کا پابند ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت اس پر لازم ہے، (یہ الگ گفتگو ہے کہ عملاً ایسا کر رہا ہے یا نہیں)؟ اگر کلمہ پڑھنے کے بعد وہ یہ "اصولی" رائے رکہے کہ خدا کی بات ماننا مجھ پر تب لازم ہے جب میرا دل کرے گا ورنہ نہیں، تو کیا وہ "واقعی" مسلمان ہے؟ تو اگر ایک کلمہ گو فرد کے لئے اس اصولی اقرار کا اظہار لازم ہے تو آخر ان کروڑوں کلمہ گو مسلمانوں کی "مجموعی رائے" کے لیے یہ اقرار کیوں لازم نہیں؟ یعنی جو بات (کہ خدا کی اطاعت کا لازم ہونا میری ول پر نہیں بلکہ بذات خود میرے کلمہ پڑھنے کا منطقی نتیجہ ہے) ایک فرد کے لئے لازم ہے آخر انکے مجموعے کو اس سے رخصت کس منطق سے ملی؟ گویا کروڑوں کلمہ گو مسلمانوں کی "اصولی" اجتماعی رائے اگر یہ ہو کہ خدا کا حکم ہم پر تب لازم ہوگا جب ہمارا دل چاہے گا تو یہ سب مسلمان ہوئے مگر اسی بات کا دعویٰ اگر یہ انفرادی حیثیت میں کریں تو کافر! آخر کلمہ پڑھنے کا مطلب اسکے سوا اور ہے ہی کیا کہ خدا و رسول کی چاہت کلمہ پڑھنے والوں کی چاہت (چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی) پر لازماً فوقیت رکھتی ہے؟ تو ان کلمہ گو انسانوں نے جس خطے میں اپنی اجتماعی رائے کا اظہار کرنا ہو اگر وہاں وہ اپنے لئے اس لازمی اصولی اقرار کا اقرار کریں تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ کیا اس معاملے میں وہ کوئی دوسری چوائس بھی محفوظ رکھتے ہیں؟
ب) "قرآن و سنت کی بالادستی" کا قانون "امرھم شوری بینھم" کے حوالے سے مقدم ہے
اگر "امرھم شوری بینھم" کے تحت مسلمانوں کی "ول آف آل کی پابندی" کا اصول "ول آف آل کی تصدیق" کا محتاج نہیں (کہ یہ ول آف آل کے اظہار سے ماقبل لازم ہے*) مگر اسکے برخلاف "قرآن و سنت کی بالادستی" نیز "انکے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا" کا قضیہ ول آف آل کی تصدیق کا محتاج ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ول آف آل کے اظہار سے ماقبل "قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے" کے اسی طرح "قانونی طور" پر پابند نہیں (جیسے "امرھم شوری بینھم" کے تحت ول آف آل کی پابندی کے پابند ہیں) تو پھر وہ "امرھم شوری بینھم" کے خلاف کیوں نہیں جاسکتے؟ آخر کس دلیل کی بنیاد پر انکی ول آف آل کو "امرھم شوری بینھم" کا پابند بنانے کی بات جاسکتی ہے ؟ یہ تو بالکل بدیہی بات ہے کہ "قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے" کا قانون دراصل "امرھم شوری بینھم" کے استدلال سے مقدم ہے ؛ جس "ول آف آل" کے اظہار سے ماقبل اور اسکے پیچہے "قرآن و سنت کی بالادستی" ماننے کا اقرار موجود نہ ہو، اس ول آف آل کو "امرھم شوری بینھم" کی بنیاد پر خطاب کرنا ہی کلام لاحاصل ہے ۔ آخر مسلمانوں کی ول آف آل کو "امرھم شوری بینھم" کا یہ قضیہ اسی بنیاد پر منوانے کی کوشش کی جارہی ہے نا کہ "قرآن و سنت کے مطابق قانون بنانا لازم ہے"۔ تو پھر اس سب پر اعتراض کیوں؟ یعنی "بنیاد" کے لکھے جانے پر تو اعتراض (کہ اس سے تو ریاست مسلمان ہوگئی) مگر اس بنیاد سے نکلنے والے جزئیے پر خود ہی اصرار! آخر یہ اصرار کس "بنیاد" پر؟ الغرض مسلمان اصلاً امرھم شوری بینھم کی نہیں بلکہ "قرآن و سنت کی اصولی بالادستی" ماننے کے پابند ہیں۔
ج) جانشین رسول کا طرز عمل
پھر دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ خود اللہ کے رسول? نیز انکے جانشینوں نے بھی کیا یونانی طرز کی براہ راست جمہوریت قائم کی تھی؟ وہ جو اس رسول کے پہلے جانشین بنے کیا انکا پہلا خطبہ اسی قسم کی جمہوریت کا پالیسی ڈاکومنٹ ہے؟ سنئے وہ کیا کہتے ہیں: "لوگو میری اطاعت کرو، جب تک کہ میں اللہ اور اسکے رسول کے حکم کی اطاعت کروں۔" یہ کیا یونانی جمہوریت کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا؟ کیا انہوں نے یہ کہا کہ "لوگو میں تو بس ازروئے قرآن کرنے کا پابند ہوں جو تم سب کی "اجتماعی خواہش" ہوگی، چاہے وہ جو بھی ہو؟"
2) متبادل بیانئے کا قومی سیاسی پہلو
بیانئے کے استدلال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئین پاکستان کی اسلامی شقوں نیز قراد داد مقاصد کو حاضر و موجود دنیا کے قوانین و عرف کی روشنی میں دیکھ کر انکے خلاف استدلال قائم کیا گیا ہے؛ یہ استدلال چند مقدموں پر کھڑا کیا گیا ہے۔ چونکہ دنیا کے قوانین کے مطابق قومی ریاستیں سب کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہیں، اور پاکستان بھی انھی قوانین کے تحت قائم ہوا؛ لہٰذا ان ریاستوں میں مذہب کی بنیاد پر کسی مذہبی شناخت کو اقلیت قرار دینا جہاں ان عالمی معاہدات کی خلاف ورزی ہے، وہیں ان مذہبی اقلیتوں کے ساتھ دھوکہ دہی بھی ہے کہ ہم نے قومی ریاست کو مذہبی بنا کر انہیں مساوی حقوق سے محروم کردیا۔ مزید یہ کہ قائد اعظم نے بھی دستور ساز اسمبلی کی اپنی تقریر میں یہی کہا تھا کہ پاکستان میں سب مذاہب کے لوگ سیاسی طور پر مساوی ہونگے۔
اقلیتوں کے ساتھ دھوکہ کی دلیل:
یہاں اقلیتوں کے ساتھ دھوکے کا استدلال سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا ہم نے بارہا اپنے جلسوں اور نعروں میں یہ بات بالکل واضح نہ کردی تھی کہ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ؟ کیا اقلیتوں کو اس سے معلوم نہ ہوا تھا کہ پاکستان میں کیا ہوگا؟ تو ان سے دھوکہ کس بات کا؟
عالمی معاہدوں کا حوالہ:
عالمی معاہدوں کی دلیل پر قرارداد مقاصد کو معاہدہ شکنی پر محمول کرکے اسے خلاف اسلام قرار دینا (کہ اسلام معاہدہ شکنی کی ممانعت کرتا ہے) بھی ایک کمزور استدلال ہے۔ ان حضرات سے سوال ہے کہ اس عالمی معاہدے کی وہ کونسی "قطعی الدلالت" شق ہے جسکی صریح دلالت کے مطابق پاکستانیوں کو قرار داد مقاصد پاس کرنے کا حق نہیں تھا؛ یہاں عمومی بات نہیں چاہئے، "صریح نص" دکھائی جانی چاہیے، ایسی نص جو انکا مقدمہ ثابت کرنے میں ناقابل تاویل ہو۔ نیز اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان "یو این "والوں نے پاکستان کو اس قرار داد مقاصد کے "ہوتے ہوئے" بھی اپنا رکن بنا رکھا ہے اور کبھی وہاں اس بنا پر کوئی پاکستان کو معاہدہ شکنی کا طعنہ نہیں دیتا۔ تو یہ بات بذات خود بتا رہی ہے کہ اس معاملے میں کسی "عالمی قانون" کی ایسی کوئی خلاف ورزی نہیں کرلی گئی جس پر شرع نے وعید سنا رکھی ہو۔ یہ قانون تو بس عرف ہیں؛ تو جنھوں نے عرف بنایا ہے جب انہیں کوئی اعتراض نہیں تو ہمارے ان محترم مفکرین کو کیوں اعتراض ہے؟
قائد کا خطاب:
رہ گئی بات قائد کے خطاب کی، تو اسکی بہت سی توجیہات کی جاتی ہیں، مگر سیدھی بات یہ کہ اس خطاب کی کوئی ’’آئینی و قانونی حیثیت‘‘ نہیں، یہ صرف قائد کے ذاتی خیالات تھے جسکا اظہار انھوں نے دستور ساز اسمبلی کے سامنے بطور سفارشات کیا۔ بعد میں اسی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد اور پھر بعد میں دساتیر پاس کرکے گویا انکی اس رائے کو مسترد کردیا۔ نیز بانیان پاکستان کے اقوال یا کسی معاہدے سے صرف اتنی بات دکھا دینا کہ ’’یہاں اقلیتوں کو حقوق میسر ہونگے‘‘ ہمارے ان حضرات کی بات ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کیونکہ یہ بات بالکل معلوم ہے کہ ہر شخص حقوق کی تفصیلات اپنے نظریے کے مطابق ہی طے کیا کرتا ہے۔ ہمارا آئین بھی اقلیتوں کو بے شمار حقوق دیتا ہے۔ ان بانیان پاکستان نے تو درجن سے زیادہ مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت ہوگا۔ تو کیا اب یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جب یہ بانیان اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے تھے تو انھی حقوق کی بات کیا کرتے تھے جو قرآن و سنت انہیں عطا کرتا ہے؟ اس ضمن میں بعض احباب یہ عجیب و غریب استدلال بھی کرتے ہیں کہ ’’پاکستان بنانے والوں کا مؤقف تو کچھ اور تھا البتہ قرار داد مقاصد جیسی چیزیں ملائیت کے جبر کے تحت نافذ ہوئیں، یعنی پاکستان کی "تمام اسمبلیوں" نے "پورے اتفاق و تسلسل" کے ساتھ جس بات کو انڈورس کیا وہ تو ٹھہرا "مولویوں کا جبر" اور یہ حضرات جو تاریخ و تشریح بتلائیں، وہ ٹھہرے "جمہوریت"۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان مولویوں کو ایک دن کے لئے بھی ان اسمبلیوں میں اکثریت نہیں ملی۔ اور تو اور خود قائد نے جو اپنی پہلی کیبنٹ بنائی، اس میں بھی مولویوں کی اکثریت نہ تھی۔
ان حضرات کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس قسم کی آئینی شقوں سے مذہبی اقلیتوں پر ظلم کا معاشرتی دروازہ کھلتا ہے۔ مگر یہ سمجھنا درست نہیں کہ ہمارے ملک میں اگر کسی مذہبی اقلیت کے ساتھ کہیں کوئی ناروا سلوک روا رکھ لیا جاتا ہے تو اسکی وجہ آئین میں انہیں اقلیت ڈکلیئر قرار دیا جانا ہے (آئین نے تو انہیں بہتیرے حقوق دے رکھے ہیں)۔ کیا ہمارے یہاں چند گھروں میں خواتین کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے تو کیا یہ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ایسا کیا جانا چاہئے؟ لکھا تو امریکہ و یورپی ممالک کے آئین میں بھی نہیں کہ مسلمان برا ہے، مگر نائن الیون کے بعد ان علاقوں میں مسلمانوں نے کئی قسم کے معاشرتی، سیاسی و نفسیاتی مسائل جھیلے۔ یہ معاشرتی رویوں کی چیزیں ہیں، انکی آڑ میں آئین کی اسلامی شقوں پر واردات کا جواز نکالنا علماء کی طویل جدوجہد پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے (جسکی کچھ تفصیل آگے آرہی ہے)۔ اس آئین کی رو سے زیادہ سے زیادہ ان مذہبی اقلیتوں کو صدر یا وزیر اعظم بن سکنے کا حق نہیں، مگر پاکستان کی آبادی میں ان مذہبی اقلیتوں کا تناسب سامنے رکھتے ہوئے یہ بات باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ انہیں یہ حق نہ دیا جانا کوئی ایسا حق نہیں ہے جو عملاً ممکن تو ہے، مگر صرف آئین میں اجازت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی غیر مسلم صدر یا وزیر اعظم نہیں بن پارہا۔
چند دیگردلائل
الف) میثاق مدینہ سے استدلال کا جائزہ
متبادل بیانئے کو سپورٹ کرنے والے بعض اہل علم کا ایک استدلال یہ بھی ہے کہ میثاق مدینہ میں شامل مسلمانوں سمیت تمام گروہوں کو "ایک امت یا قوم" قرار دیکر مساوی حقوق عطا کئے گئے تھے؛ جبکہ آئین پاکستان میں اسلامی شقوں کی رو سے غیرمسلمین منطقی طور پر اقلیت قرار پاتے ہیں جو کہ میثاق مدینہ کی حکمت کے خلاف ہے۔
استدلال کرنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ یہ اس دور کا معاہدہ ہے کہ جب ریاست سے متعلق احکامات ابھی نازل ہی نہ ہوئے تھے؛ نیز یہ بھی غور نہ کیا کہ اس معاہدے کا مقصد اسلامی ریاست کے لئے قانون سازی کے عمل میں ہر گروہ کی شمولیت کا حق متعین کرنا بھی نہیں تھا، پھر یہ بھی غور نہ کیا کہ ابھی تو وہ آیات نازل ہی نہ ہوئی تھیں جنکی روشنی میں فقہائے اسلام نے اہل الذمہ، اہل الجزیہ، اہل المعاہد وغیرہ جیسی کیٹیگریز ڈیفائن کی تھیں۔ مگر اس سب سے سہو نظر کرکے مان لیتے ہیں کہ یہ ایسا ہی کوئی معاہدہ تھا جسے آج کے معنوں میں "آئین" کہا جاتا ہے۔ پھر بھی ہمارے ان احباب کی نظریں معاہدے کی صرف پہلی شق کے الفاظ "امۃ واحدۃ" پر ہی جاکر رک گئیں۔ مگر خود اس معاہدے میں ہی ایسا بہت کچھ ہے جو انکے نکتہ نظر کی نفی کے لئے بہت کافی ہے۔ چنانچہ معاہدہ یوں شروع ہوتا ہے:
ھذا کتاب من محمد النبی، کہ یہ معاہدہ ہے محمد "نبی کی طرف سے۔ صاف طور پر کہا جارہا ہے کہ یہ معاہدہ محمد بطور ابن عبداللہ نہیں بلکہ رسول اللہ کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ تو کیا کسی کا خیال ہے کہ محمد معاہدہ تو نبی کی حیثیت سے کریں گے مگر بعد میں نازل ہونے والے احکامات کے معاملے میں مشورے شروع کردیں گے؟
آگے چل کر یہ اصولی بات بیان ہوتی ہے: "وانّ ما کان بین اھل ھذہ الصحیفۃ مِن حَدث و اشتجار یخاف فسادہ، فانّ مَرَدَہ الی اللہ والی محمد رسول اللہ"۔ یعنی اہل معاہدہ کے درمیان اگر کوئی فساد برپا کرنے والا نزاع ہوجائے تو اسکے حل کے لئے اسے اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اور سنئے؛ طے پاتا ہے کہ "وانکم مھما اختلفتم فی من شیء فانّ مردَّہ الی اللہ والی محمد" یعنی معاہدے میں شامل سب فریقوں کے اختلافات اللہ اور اسکے رسول کے حکم کے پابند ہوں گے۔
آخر "اللہ اور اسکے رسول کی سیاسی حاکمیت" کا اعلان اسکے سوا اور کس چیز کا نام ہے کہ فصل نزاع اللہ اور اسکے رسول کے حکم کے تابع ہوگا؟ آخر آئین پاکستان میں اسکے سوا اور کیا اعلان کیا گیا ہے؟ جب فصل نزاع جیسے اہم معاملے میں تمام معاہدین کی رائے کو مساوی اہمیت ہی نہیں دی گئی تو آخر سب کے مساوی حقوق کا کیا معنی؟ اب یہ تاویل قابل قبول نہیں کہ یہاں نزاع کو اللہ و رسول کی طرف پلٹانے کا معنی محمد بحیثیت حکمران ہے۔ کیا اللہ بھی اس معاہدے میں ایک فریق کے طور پر شامل تھا کہ اسکی طرف پلٹانے کی بات ہوئی؟ پس یہاں اللہ اور اسکا رسول انھی معنی میں لایا گیا ہے جن میں یہ قرآن میں آتا ہے۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ ریاستی امور سمیت ہر قسم کے نزاعات میں اللہ و رسول کی بالادستی کا اعلان کرنے والی سورۂ نساء کی آیت ’’ان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول‘‘ ابھی نازل بھی نہیں ہوئی مگر حکمت نبوی اس کے نزول سے قبل ہی ’’عین یہی فیصلہ‘‘ صادر فرمارہی ہے کہ ’’فصل نزاع کے لئے اللہ اور اسکے رسول کی طرف ہی مراجعت کی جائے گی‘‘۔ کیا یہاں کسی پارلیمنٹ یا مجلس شوری کا ذکر ہوا؟ کیا صحابہ میں سے کسی کو یہ نکتہ سوجھا کہ ’’امرھم شوری بینھم‘‘ کے سنہری قرآنی اصول کے تحت فصل نزاع تو پارلیمنٹ (’’اس میثاق مدینہ سے بننے والی قوم‘‘) یا اسکی مجلس شوری کا حق ہے؟ ذرا غور تو کیجیے کہ اجتماعی زندگی کو ریگولیٹ کرنے والے احکامات کی تفصیل ابھی نازل ہی نہیں ہوئی مگر رسول خدا معاہدین کو اسکی پابندی کا پابند کرلیتے ہیں۔ حکمت نبوی تو دراصل اس میں پنہاں ہے۔ اگر اس معاہدے کی حکمتیں کسی کو اتنی ہی عزیز ہیں تو خدارا مسلمان حکمرانوں سے کہیے کہ یو این کے فورم پر یہ بات منوا لیں کہ ’’اس گلوبل ویلیج میں ہم سب ایک قوم ہیں مگر فصل نزاع اللہ اور اسکے رسول کے حکم سے ہوگا‘‘؛ ہم انکے ہاتھ چوم لیں گے۔
پھر سوچئے کہ کیا رسول اللہ کے براہ راست جانشینوں نے فتح ہونے والے علاقوں میں کہیں کسی قوم سے ایسا "مساوی حقوق" کا کوئی معاہدہ کیا؟ پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا میثاق مدینہ کی اس پہلی شق سے اسلامی تاریخ میں گزر جانے والے ہزارہا فقہاء میں سے کسی نے "مساوی حقوق" والا یہ قیمتی نکتہ مستنبط کیا؟ گویا اس شق سے اخذ کیا جانے والا یہ استدلال منتظر تھا کہ کب دنیا پر ہیومن رائٹس سے نکلنے والا تصور مساوات غالب آئے اور کب مسلمان اسکی رو سے پوری اسلامی تاریخ میثاق مدینہ سے ازسر نوع مرتب کرنا شروع کردیں۔
ب) "اگر وہ بھی ایسا کرلیں تو؟" کے اصول کا جائزہ
اس ضمن میں بعض احباب نے ایک استدلال یہ بھی وضع کیا کہ "اگر ہندوستان بھی اپنے ملک کو ہندو سٹیٹ ڈکلیئر کردے یا امریکہ عیسائی سٹیٹ ڈکلیئر کردے تو آپ مسلمانوں کو کیسا لگے گا؟ تو اگر آپ ان سے انکے ملکوں میں برابری کے حقوق طلب کرتے ہیں تو اپنے ملک میں یہ حقوق کیوں نہیں دیتے؟'
’’ریسیپروسیٹی‘‘ (Reciprocity) کی عقلیت پر مبنی یہ نہایت عجیب و غریب استدلال ہے۔ ہم انکے ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے سیکولرازم کی بنیاد پر حقوق اس لئے نہیں مانگتے کہ ہم سیکولرازم کو حق سمجھتے ہیں بلکہ اس لئے مانگتے ہیں کہ وہ ’’خود اس کا اقرار کرتے ہیں‘‘۔ اگر ہمیں قوت حاصل ہو تو ہم کب اس سیکولرازم کی دہائی دینے والے ہیں؟
پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو لوگ "خود" سیکولرازم کو پروموٹ کرتے ہیں ہم انکے منہ میں یہ بات کیوں ڈال کر استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ "اگر وہ یوں کرلیں یا ووں کرلیں تو؟" ہم تو ان سے انکی پوزیشن پر بات کریں گے، نہ کہ کسی مفروضہ پوزیشن پر، جب وہ ایسا کریں گے تو اس وقت "بطور حکمت عملی" ہمیں حسب استطاعت کیا کرنا ہے ہم دیکھ لیں گے؛ مگر اس بنا پر ہم سے یہ مطالبہ ہرگز جائز نہیں کہ ہم بھی اپنے یہاں اسی اصول پرحقوق دینے کے پابند ہونگے۔ آخر کیوں فرض کیا جائے کہ ایک ہی اصول ہر جگہ لاگو ہونا چاہئے؟ دیکھئے جب آپ امریکہ جاتے ہیں تو امریکی آپ کو "زنا کا حق" دیتے ہیں، تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جب امریکی ہمارے یہاں آئے تو ہم بھی اسے یہ حق عطا کریں؟
کسی نظریے کے خلاف یہ سرے سے کوئی علمی استدلال ہی نہیں ہوتا کہ آیا اس سے وہ نتائج پیدا ہورہے یا ہوسکتے ہیں یا نہیں جو دوسرے نظریے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں دراصل آپ اس پہلے نظریے کو خود اس کی اپنی اساس پر نہیں بلکہ اس دوسرے نظریے کی بنیاد (یعنی اس سے ہم آہنگی) پر جانچنے لگتے ہیں۔ مارکسسٹ حضرات سے یہ کہنا کہ 'چونکہ تمہارا سسٹم نجی ملکیت کا حق نہیں دیتا لہٰذا تمہارا نظریہ درست نہیں' یا یہ مطالبہ کرنا کہ 'تم لوگ روس میں تو نجی ملکیت کا حق نہیں دیتے تو اگر امریکہ بھی اپنے ملک میں تمہارے لوگوں کو نجی ملکیت کا حق نہ دے تو تمہیں کیسا لگے گا؟' بتائیے کیا دنیا کا کوئی مارکسسٹ اس قسم کی باتوں کو اپنے خلاف سرے سے کوئی علمی استدلال بھی تصور کرے گا، چہ جائیکہ ہم انکی بنیاد پر اسے اپنے یہاں نجی ملکیت کے اجرا پر راضی کرلیں؟ تو کیا مسلمانوں کو ہی ایسا بے عقل تصور کرلیا گیا ہے؟
پھر اس استدلال کی نوعیت سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ اسلام کو معاملے میں "ایک فریق" بنا کر خود اس سے "باہر کھڑے" ہوکر گویا فریقین کے درمیان منصفی کرانا چاہتے ہیں۔ یہ عین سیکولرانہ طرز استدلال ہے، پھر آپ کہتے ہیں کہ "ہمیں سیکولر مت کہو۔"
حواشی
* یعنی اس سے انحراف کا تو انہیں حق ہی نہیں کہ یہ تو "بائے ڈیفالٹ" قانون ہے، یہ تو کسی بھی آئین کے لکھے جانے کا "مقدمہ و بنیاد" ہے، آئین لکھا ہو ا ہو یا نہ لکھا ہو ا، "ول آف آل" چاہے کچھ بھی ہو اس قضیے کی مخالفت ازروئے شرع وہ کسی صورت نہیں کرسکتی۔
(جاری)