اہل علم کی نظر میں
لیث بن سعد اپنی فطری صلاحیت اور غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے آغازِ شباب میں ہی تابعین اور تبع تابعین دونوں کے علوم کے جامع بن گئے اور ہرطرف ان کے علم وفضل کا چرچا ہوگیا۔ خود ان کے شیوخ ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے تھے۔ شرجیل بن یزید کا بیان ہے کہ میں نے ممتاز اور معمرائمہ حدیث کودیکھا ہے کہ وہ لیث کے علم وفضل کا اعتراف کرتے تھے اور اْن کوآگے بڑھاتے تھے، حالانکہ وہ ابھی بالکل نوجوان تھے۔ یحییٰ بن سعید ان کے شیوخ میں سے ہیں۔ انہوں نے کسی بات پر ان کوٹوکا اور پھرفرمایا کہ تم امام وقت ہو جس کی طرف نظریں اْٹھتی ہیں۔
عبداللہ بن وہب ایک عظیم محدث تھے۔ فرماتے ہیں کہ اگر لیث اور امام مالک رحمہما اللہ نہ ہوتے تومیں گمراہ ہو جاتا۔ ابواسحاق شیرازی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مصر میں تابعین کا علم لیث پرختم ہوگیا۔ امام ابن حبان کا قول ہے کہ علم وفضل، تفقہ اور قوتِ حافظہ میں اپنے زمانہ کے ممتاز لوگوں میں تھے۔
امام نووی نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ حضرت لیث بن سعد کی امامت وجلالت شان اور حدیث وفقہ میں ان کے بلند مرتبہ ہونے پرسب کا اتفاق ہے اور درحقیقت وہ اپنے زمانہ کے عظیم فقیہ تھے اور عالم اسلام اور مصر کے امام تھے۔
یعقوب بن داود عباسی خلیفہ مہدی کا وزیر تھا۔ اس کا بیان ہے کہ جب لیث بن سعد عراق آئے تومہدی نے کہا کہ اس شیخ وقت کی صحبت اختیار کرو، اس وقت ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔
علم حدیث میں مقام
ائمہ جرح وتعدیل جب کسی محدث یاامام کی توثیق یاتجریح کرتے ہیں تواس وقت عموماً ان کے پیش نظر نہ ان کی امامت وجلالت ہوتی ہے اور نہ کوئی اور جذبہ، بلکہ ان کے سامنے روایت ودرایت کے وہ اصول ہوتے ہیں جن کوانہوں نے کتاب وسنت سے اخذ کرکے تحدیث وروایت کی اساس قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بسااوقات بڑے بڑے ائمہ کی مرویات پران کوجرح کرنا اور ان کورد کردینا پڑتا ہے اور بہت سے کم درجہ محدثین کی روایتوں کوقبول کرلینا اور ان کی توثیق کرنی پڑتی ہے، اس لیے علم حدیث میں کسی امام ومحدث کے درجہ کی تعیین کرنے میں ان کے اقوال وآراء سے بڑی مدد ملتی ہے اور اْن کی روشنی میں ان کے علم وفضل کے خط وخال بھی بخوبی نمایاں ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے جن ائمہ نے حدیث کی تدوین وترتیب اور اس کی حفاظت میں حصہ لیا ہے، ان کے سوانح حیات میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔
علم حدیث میں امام لیث بن سعد کی حیثیت مسلم ہے۔ حدیث کی کوئی متداول کتاب نہیں ملے گی جس میں لیث بن سعد کی مرویات نہ موجود ہوں۔ ان سے سماع حدیث کوبڑے بڑے ائمہ اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ امام لیث بن سعد روایت حدیث میں حددرجہ محتاط تھے۔ ابوالزبیر ان کے مشائخ حدیث میں تھے، مگروہ جن روایتوں میں تدلیس کرتے تھے، اْن روایتوں کی تحدیث کولیث ترک کردیتے تھے۔ اس وجہ سے محدثین نے لکھا ہے کہ ابوالزبیر کی وہ مرویات جولیث سے مروی ہیں، بہت زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ غیرمعمولی ذہانت اور قوتِ حافظہ کے باوجود وہ تحدیث روایت میں کسی پراعتماد نہیں کرتے تھے، حتیٰ کہ جوروایتیں ان کے یہاں لکھی ہوتی تھیں، انہیں بھی خود اپنی زبان سے روایت کرتے تھے۔ بہت سے محدثین کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی مرویات کی دوسروں کے ذریعے تحدیث کراتے تھے۔ ان کے صاحبزادے شعیب کا بیان ہے کہ ایک بارتلامذہ نے ان سے پوچھا کہ آپ بسااوقات ایسی روایتیں بھی بیان کردیتے ہیں جوآپ کے مرتب کردہ مجموعوں میں نہیں ہیں۔ فرمایا کہ جوکچھ میرے سینے میں محفوظ ہے، وہ سب اگرسفینوں میں منتقل کردیا جاتا تو ایک سواری کا بوجھ ہوجاتا۔
حدیث کی روایت اور اس کی حفاظت میں جومقام ان کوحاصل تھا، اس کا اعتراف تمام ممتاز اہل علم اور ائمہ جرح وتعدیل نے کیا ہے۔ امام احمد ابن حنبل فرماتے تھے کہ لیث کثیرالعلم اور صحیح الحدیث تھے۔ امام ابوداود کا بیان ہے کہ میں نے امام احمد سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ مصر میں صحیح احادیث کی روایت اور ان کے حفظ واتقان میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ اس مرتبہ میں عمروبن حارث ان سے کچھ قریب تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ فلاں نے ان کی تضعیف کی ہے۔ فرمایا کہ میں نہیں جانتا، جرح وتعدیل کے امام یحییٰ بن معین ان کوثقہ کہتے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ لیث اور ابن ابی ذہب میں کس کوحدیث کا محافظ پاتے ہیں؟ فرمایا: دونوں کو۔ پھر کہا کہ یزید بن حبیب کی مرویات میں ان کا درجہ محمد بن اسحاق سے بلند ہے۔ ایک شخص نے ابن معین سے پوچھا کہ حضرت نافع سے جواحادیث انہوں نے روایت کی ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا نہایت ہی صالح اور قابل وثوق ہیں۔ امام علی ابن المدینی کا قول ہے کہ لیث ثقہ اور قابل اعتماد تھے۔ اسی طرح عجلی، نسائی، ابوزرعہ، یعقوب بن ابی شیبہ جیسے ائمہ حدیث نے ان کی توثیق کی ہے۔
فقہ میں مقام و مرتبہ
علم فقہ اب ایک مخصوص فن بن گیا ہے، مگر دوسری صدی کے نصف تک یہ کوئی مرتب ومدون فن نہیں تھا اور نہ حلقے اور مدارسِ فقہ قائم ہوئے تھے، بلکہ جن ارباب علم میں ملکہ اجتہاد تھا، وہ ضرورت کے مطابق کتاب وسنت سے اجتہاد کیا کرتے تھے۔ قریب قریب ہراسلامی ملک میں دوچار ایسے ائمہ مجتہدین موجود تھے جوحالات وضرورت کے مطابق پیش آمدہ مسائل کا جواب دیا کرتے تھے۔ جس شخص کوجس امام پراعتماد ہوتا تھا، وہ اس کے مجتہدات پرعمل کر لیتا تھا۔
لیث بن سعد کے زمانہ میں ایک طرف عراق اور شام میں امام اوزاعی اور امام ابوحنیفہ کے مجتہدات کا چرچا تھا تودوسری طرف حجاز میں امام مالک کے تفقہ واجتہاد کا غلغلہ تھا۔ ابھی مصر کی سرزمین میں کوئی ممتاز مجتہد نہیں پیدا ہوا تھا۔ لیث بن سعد کے وجود سے یہ کمی پوری ہوگئی۔ ان میں پورا ملکہ اجتہاد موجود تھا اور انہوں نے بے شمار مسائل قرآن وسنت سے مستنبط کیے، مگرافسوس کہ دوسرے ائمہ کی طرح ان کے استنباطات اور مجتہدات مدون ومرتب نہیں ہوسکے جس کی وجہ سے نہ توان کوشہرت ہی ہوسکی اور نہ ان کے فقہ واجتہاد کا عام چرچا ہی ہوسکا۔ تفقہ واجتہاد میں ان کا جومرتبہ تھا، اس کا اندازہ ائمہ محدثین ومجتہدین کے اقوال سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ لیث بن سعد آثار واحادیث کے لیے تفقہ کے اعتبار سے امام مالک سے زیادہ نافع تھے۔ ان ہی کا قول ہے کہ لیث امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے، لیکن ان کے تلامذہ نے ان کوضائع کردیا۔ اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح امام مالک کی فقہ کی تدوین کی گئی، اس طرح لیث کے شاگردوں نے ان کی فقہ کی نہیں کی۔
یحییٰ بن بکیر کہا کرتے تھے کہ لیث امام مالک سے افقہ تھے (مگرشہرت وعظمت) ان کے حصہ میں آئی۔ مشہور محدث ابن وہب کی مجلس میں لیث بن سعد کے مستنبط مسائل پیش کیے گئے توایک دن ایک مسئلہ پرحاضرین نے بڑی تحسین کی اور کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لیث، امام مالک سے سن کرجواب دیتے ہیں۔ اس پرابن وہب بولے یہ نہ کہو، بلکہ یہ کہو کہ امام مالک، لیث سے سن کرجواب دیتے ہیں۔ میں بخدا کہتا ہوں کہ میں نے لیث سے زیادہ فقیہ نہیں دیکھا۔ یہ ذہن میں رہے کہ ابن وہب امام مالک کے خاص تلامذہ میں ہیں، اس لیے ان کا بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
اسی تفقہ واجتہاد کی وجہ سے عباسی خلیفہ منصور ان کا بڑا احترام کرتا تھا۔ مصر میں قضاہ کا تقرر بغیر ان کی مرضی کے نہیں ہوتا تھا۔ منصور نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ مصر کی امارت قبول کرلیں، مگرانہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ بعض تذکروں میں ہے کہ یہ مصر کے قاضی بنادیے گئے تھے، مگر بعض قرائن کی بناپریہ بیان صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کمالِ تفقہ کے باوجود جب اْن کوکوئی مسئلہ نہیں معلوم ہوتا تھا تو وہ دوسرے اہل علم سے دریافت کرنے میں تکلف محسوس نہیں کرتے تھے۔ ایک بار آپ ایک مسجد سے نکلے تویحییٰ بن ایوب ادھر سے گزررہے تھے۔ ان کوروکا اور کسی مسئلہ کے بارے میں ان سے دریافت کیا۔ وہ جواب دے کرواپس چلے گئے۔ گھرپہنچ کرانہوں نے اس احسان کابدلہ یہ چکایا کہ ایک ہزار دینار ان کوہدیۃً بھیج دیے۔
امام لیث بن سعد کا منہج استنباط
امام لیث بن سعد کے منہجِ استنباط کے بارے میں جناب ڈاکٹر رواس قلعہ جی ’’موسوعہ فقہ اللیث بن سعد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مدینہ میں اصحاب الحدیث تھے اور عراق میں اصحاب الرائے۔ امام لیث بن سعد کا تعلق فقہائے اہل الرائے سے تھا جو نصوص کے الفاظ اور ظاہر پر اصرار کرنے کے بجائے شارع کے مقاصد پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں کہ امام لیث نے علم فقہ امام مالک سے سیکھا تھا اور ابتدا میں انھی کے مذہب پر عمل کرتے تھے، تاہم بہت جلد انھوں نے اجتہادی شان پیدا کر لی اور خود اپنے فہم سے مسائل میں رائے قائم کرنے لگے، یہاں تک کہ بعض مسائل میں ان کی رائے دیگر تمام ائمہ فقہ کی رائے سے مختلف ہوتی تھی۔
امام ابن رشد نے بدایۃ المجتہد میں مختلف مقامات پر امام لیث بن سعد کے جو استنباطات نقل کیے ہیں، ان میں سے بعض کا یہاں بطور نمونہ ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔امام اللیث بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے 40 یا 45 سال سے قنوت نہیں پڑھی ہے سوائے ت?ایک امام کے پیچھے جو قنوت پڑھا کرتے تھے۔ امام لیث فرماتے ہیں کہ میں نے وہ حدیث مضبوطی سے پکڑ لی جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے ایک ماہ یا چالیس دن ایک قوم کے حق میں اورکسی دوسری قوم کے خلاف دعا فرمائی یہاں تک کہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ عتاب نازل ہو ا:
لیس لک من الامر شیء او یتوب علیھم او یعذبھم فانھم ظالمون
ترجمہ ؛ اے پیغمبر! فیصلے کے اختیارات میں آپ کا کوئی حصہ نہیں ہے، اللہ کو اختیار ہے چاہے ان کو معاف کردے یا چاہے ان کو سزا دے اس لیے کہ بلاشبہ وہ ظالم ہیں۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد قنوت کو چھوڑ دیا تھا۔پھر اس کے بعد دنیا سے چلے جانے تک آپ نے قنوت نہیں پڑھی۔ امام لیث کہتے ہیں کہ جب سے مجھے یہ حدیث ملی ہے، میں نے قنوت نہیں پڑھی ہے اور یحییٰ بن یحییٰ کا یہی مذہب ہے۔
۲۔ نماز استسقاء میں خطبہ، نماز سے پہلے ہے یا نماز کے بعد؟ اما م مالک اور امام شافعی اسے عیدین پر قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خطبہ نماز کے بعد ہے مگر امام لیث کے نزدیک خطبہ نماز سے پہلے ہوگا۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی دعا کی اور نماز سے پہلے خطبہ دیا اور حضرت عمر سے بھی اسی طرح منقول ہے اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں۔ اسی طرح دعا کے دوران چادر پلٹنے کے بارے میں بھی ان کا اختلاف ہے کہ مقتدی اپنی چادر نہیں پلٹیں گے کیونکہ یہ منقول نہیں ہے۔ یہ قول محمد بن الحسن ، امام لیث اور اصحابِ مالک کا ہے۔
۳۔ علماء کا اتفاق ہے کہ مرد مردوں کو غسل دیں گے اور عورتیں عورتوں کو غسل دیں گی۔ تاہم اگر کوئی عورت مر جائے اور غسل دینے کے لیے کوئی عورت موجود نہ ہو یا کوئی مرد مر جائے اور غسل دینے کے لیے کوئی مرد موجود نہ اس میں تین اقوال ہیں۔ فقہائے ایک گروہ نے کہا ہے کہ ایسے مرد یا عورت کو کپڑے کے اوپر سے غسل دے دیا جائے۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ایسے مرد یا عورت کو صرف تیمم کروا دیا جائے۔ یہ قول جمہور علماء اور امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کاہے۔ جبکہ امام لیث بن سعد کا کہنا ہے کہ نہ غسل دیا جائے اور نہ تیمم کرایا جائے، بلکہ بغیر غسل کے ان کو دفن کر دیا جائے۔
۴۔ شک کے دن میں روزہ رکھنے کے بارے میں امام لیث بن سعد کا انفراد یہ ہے کہ اگر آدمی اس نیت سے روزہ رکھ لے کہ آج رمضان ہے اور بعد میں ثابت ہو جائے کہ واقعی رمضان شروع ہو گیا ہے تو یہ روزہ اسے کفایت کرے گا۔
۵۔ سمندری جانورں کے حلال ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، سوائے ان جانورں کے جو خشکی کے حرام جانورں کے مشابہ ہیں۔ اما م مالک کا قول ہے کہ سمندر کے تمام جانورں کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ انہوں نے سمندر میں پائے جانے والے سور کو مکروہ کہا ہے۔ یہی ابن ابی لیلیٰ، مجاہد، اوزاعی اور جمہور علماء کا مسلک ہے، البتہ بعض علما مچھلی کے علاوہ باقی جانورں کو ذبح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ امام لیث بن سعد کہتے ہیں کہ سمندر کے آدمی اور خنزیر کو کھانا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ لغت اور شریعت کی رو سے خنزیر اور انسان کا پانی کے خنزیر اور پانی کے انسان پر اطلاق ہوتا ہے کہ نہیں؟ اس بحث کا اطلاق ہر اس بحری جانور پر ہوگا جو لغوی اور عرفی طور پر اس بری جانور سے مشابہ ہو جسے حرام کیا گیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ میں نے اختلاف ائمہ پرنظرڈالی تو سوائے ایک مسئلہ کے، لیث بن سعد کوکسی دوسرے مسئلہ میں صحابہ وتابعین سے الگ نہیں پایا۔ وہ مسئلہ جس میں وہ منفرد تھے، یہ ہے کہ وہ مری ہوئی ٹڈی کے کھانے کو حلال نہیں سمجھتے، حالانکہ اس کی تحریم کا کوئی قائل نہیں ہے۔
دیگر علوم و فنون
حدیث وفقہ کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی انہیں دستگاہ حاصل تھی۔ یحییٰ بن بکیر کا قول ہے کہ میں نے لیث سے زیادہ جامع آدمی نہیں دیکھا۔ وہ مجسم فقیہ تھے، ان کی زبان خالص عربی تھی، قرآن نہایت ہی اچھا پڑھتے تھے، نحو میں بھی درک تھا اور اشعار عرب اور حدیث کے حافظ تھے، بات چیت بھی بہت عمدہ کرتے تھے۔
یہی قول امام نووی نے امام احمد بن حنبل کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔
تصانیف
افسوس ہے کہ امام لیث بن سعد کی مرویات اور ان کے فتاویٰ ومجتہدات باقاعدہ مدون نہیں کیے گئے؛ ورنہ ان کے علم وفضل کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ہمارے سامنے موجود ہوتا۔ اب بھی اگراحادیث وفقہ کی کتابوں سے ان کی مرویات اور ان کے اقوال وفتاویٰ کو الگ کرلیا جائے تو حدیث وفقہ کا ایک اچھا خاصا گل دستہ اس سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ کثیر التصانیف تھے۔ تذکروں میں ان کی جن تحریری یادگاروں کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہیں:
۱۔ کتاب التاریخ
۲۔ کتاب المسائل فی الفقہ
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب میں توان کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں کیا، مگرالرحمۃ الغیثیۃ میں لکھا ہے کہ میں نے ان کی مرویات کا وہ مجموعہ دیکھا ہے جوحضرت نافع کے واسطہ سے مروی ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں لیث بن سعد کی روایات کردہ چالیس ایسی احادیث بھی نقل کی ہیں جوان تک صرف آٹھ واسطوں سے پہنچی ہیں۔ ایسی روایات جوکم سے کم راویوں کے ذریعے مروی ہوں، ان کومحدثین کی اصطلاح میں عوالی حدیث کہا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی تک ان کی مرویات کے بعض مجموعے متداول تھے۔
دارِ فانی کی طرف روانگی
اس مجسمہ حسن وخوبی اور مجموعہ فضل وکمال نے نصف شعبان بروز جمعہ سنہ ۱۷۵ھ کوفات پائی اور جمعہ کی نماز کے بعد مصر کے ممتاز قبرستان قرافہ صغریٰ میں، جس میں نہ جانے کتنے گنج ہائے گراں مایہ مدفون ہیں، سپردِخاک کیے گئے۔ موسیٰ بن عیسیٰ ہاشمی نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ جنازہ میں بے شمار مجمع تھا؛ مگرپورا مجمع اس طرح پیکرغم بناہوا تھا کہ گویا یہ ہرشخص کے گھر کی میت ہے۔ خالد بن عبدالسلام صدقی کا بیان ہے کہ میں اپنے والد عبدالسلام کے ساتھ جنازہ میں شریک تھا۔ میں نے ایسا عظیم الشان جنازہ نہیں دیکھا۔ پورا مجمع پیکرغم بنا ہوا تھا۔ ہرایک دوسرے سے اظہارِ تعزیت کررہا تھا۔ غم کا یہ عالم دیکھ کر میں نے اپنے والد سے کہا کہ مجمع کا ہرشخص ایسا غم زدہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ جنازہ اسی کے گھر کا ہے۔ والد نے کہا کہ بیٹا! یہ ایسے جامع فضل وکمال عالم تھے کہ شاید تمہاری آنکھیں پھرایسا عالم نہ دیکھیں۔
امام لیث جیسی جلیل القدر شخصیت تاریخ کے گوشہ گمنامی کا حصہ بن چکی ہے۔ اس مضمون میں ان کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ تاریخ وسیرت کی کتابوں سے مواد جمع کر کے ان کی سیرت وحالات کا جامع مرقع مرتب کیا جائے اور علم حدیث وعلم فقہ میں ان کی خدمات کا تفصیلی احاطہ کیا جائے۔