(دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام شاہ فیصل مسجد اسلام آباد میں میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے منعقدہ ورکشاپ میں 12 مارچ کو ایک نشست میں کی گئی گفتگو کاخلاصہ۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ ! مجھے خوشی ہے کہ آج صحافی برادری کے کچھ دوستوں سے گفتگو کی سعادت حاصل ہو رہی ہے اور اس پر دعوہ اکیڈمی اور جناب مصباح الرحمن یوسفی کا شکر گزار ہوں۔ میرا خود بھی صحافی برادری سے تعلق ہے۔ میں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران روزنامہ وفاق لاہور کے نامہ نگار کے طور پر صحافتی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ تب سے مسلسل صحافت سے وابستہ ہوں۔ نامہ نگاری، کالم نگاری اور رپورٹنگ کے علاوہ مختلف جرائد و رسائل کا ایڈیٹر رہا ہوں۔ اب بھی ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کا چیف ایڈیٹر ہوں اور متعدد اخبارات میں میرے کالم شائع ہو رہے ہیں۔
آج کی گفتگو کے لیے مجھے ’’مذہبی ہم آہنگی اور باہمی رواداری کے تقاضے‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے اور اس کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور غور و فکر کی صلاحیت سے نوازا ہے، اس لیے اختلاف کا ہونا ایک فطری بات ہے۔ عقل و دانش کا معیار ایک نہیں ہے، درجات مختلف ہیں، اور دائرے بھی متنوع ہیں۔ اس لیے زندگی کے ہر شعبہ میں اختلافات موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ آراء و افکار کا تنوع اور خیالات و تاثرات کا اختلاف سیاست میں بھی ہے، تہذیب و ثقافت میں بھی ہے، معیشت و تجارت میں بھی ہے، طب و حکمت میں بھی ہے، اور مذہب میں بھی ہے۔ اس لیے اختلافات کا موجود ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے بلکہ انسانی عقل و دانش کے مسلسل استعمال کی علامت ہے۔ البتہ اختلاف کا اظہار جب اپنی جائز حدود کو کراس کرنے لگتا ہے تو وہ تنازعہ اور جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ رواداری اور ہم آہنگی کے باب میں یہی نکتہ سب سے زیادہ قابل توجہ ہے۔
مذہبی رواداری کی ضرورت اور تقاضوں کی ایک سطح عالمی ہے اور ایک سطح ہماری داخلی اور قومی صورت حال ہے۔ میں آج قومی اور ملکی حالات کے تناظر میں معروضی حالات اور ان کے تقاضوں کے چند پہلوؤں کا ذکر کروں گا۔ پاکستان کے داخلی ماحول کے حوالہ سے مذہبی کشمکش کا ایک دائرہ ملک میں رہنے والی غیر مسلم اقلیتوں کے حوالہ سے ہے۔ ملک میں ہندو، سکھ، مسیحی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ وہ اس خطے کے باشندے ہیں، ملک کے شہری ہیں اور سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارے معاملات دستور کی صورت میں طے ہیں جس کا سب احترام کرتے ہیں اور اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ وقتاً فوقتاً تنازعات سر اٹھاتے ہیں اور باہمی تعلقات منفی صورت اختیار کر جاتے ہیں تو ان کے حل کے لیے دستور و قانون موجود ہے اور کسی نہ کسی طرح ان پر قابو پا لیا جاتا ہے۔ مگر قادیانیوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے، اس لیے کہ انہوں نے دستور پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ اور وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہر فورم میں دستور پاکستان اور منتخب پارلیمنٹ کے جمہوری فیصلوں کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کر رہے ہیں بلکہ مختلف عالمی اداروں میں ملک کے دستور و قانون کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر ان کے بارے میں یک زبان ہیں کہ جب تک وہ عالم اسلام کے اجتماعی فیصلوں اور دستور پاکستان کی جمہوری شقوں کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کرتے ہیں ان کے بارے میں کوئی لچک پیدا نہیں کی جا سکتی۔ قادیانی گروہ اس وقت درمیان میں لٹکا ہوا ہے۔ امت مسلمہ اسے اپنے وجود کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ اپنے بارے میں غیر مسلم اقلیت کی معاشرتی حیثیت قبول نہیں کر رہے۔ اس وجہ سے یہ جھگڑا نہ صرف ملک کے اندر بدستور موجود ہے بلکہ عالمی اداروں میں بھی اس کے حوالہ سے سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔
مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی اہمیت و ضرورت کا دوسرا دائرہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندی ہے۔ اس کی معروضی صورت حال یہ ہے کہ باہمی اختلافات و تنازعات بھی چلتے رہتے ہیں، جھگڑے اور تصادم کے واقعات بھی ہوتے ہیں، باہمی خونریزی کی نوبت بھی آجاتی ہے، لیکن مشترکہ قومی و دینی مسائل پر آپس میں اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں، اور جب بھی کوئی مشترکہ قومی یا دینی مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا ہے تو سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر مکاتب فکر مل بیٹھتے ہیں اور مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ اور یہ تجربہ و مشاہدہ کی بات ہے کہ جس مسئلہ پر بھی یہ مکاتب فکر جمع ہو جاتے ہیں اس میں انہیں ہمیشہ پیش قدمی کا موقع ملتا ہے اور وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ کشمکش اور تنازعات کی فضا بھی قائم رہتی ہے اور میرے خیال میں سب سے زیادہ اسی پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میں اس سلسلہ میں اپنے نصف صدی کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر تین چار باتیں عرض کرتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہر اختلاف کو اسی سطح پر رکھا جائے جس سطح کا وہ اختلاف ہے۔ اس لیے کہ اختلافات کے دائرے اور سطحیں الگ الگ ہیں اور سب اختلافات ایک درجہ کے نہیں ہوتے۔ مثلاً ہمارے ہاں فقہی اختلافات کا درجہ حق و باطل کا نہیں بلکہ خطا و صواب کا ہوتا ہے۔ جبکہ بہت سے اختلافات خطا و صواب کے بھی نہیں ہوتے بلکہ صرف اولیٰ و غیر اولیٰ کا فرق ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ہر اختلاف کو حق و باطل اور کفر و اسلام کے لہجے میں بیان کرنے کا مزاج بن گیا ہے جو درست نہیں ہے۔ یہ ہمارا کلچرل معاملہ ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جس طرح سماجی طور پر ہمارا مزاج یہ بن گیا ہے کہ کہیں معمولی سا جھگڑا بھی ہو جائے تو ہم اسے کم از کم 307 کا کیس بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ جھوٹی گواہیاں اور جھوٹے میڈیکل سرٹیفکیٹ لاتے ہیں تاکہ معمولی تنازعہ کو بڑے جھگڑے میں تبدیل کیا جا سکے۔ اسی طرح مذہبی ماحول میں بھی معمولی اختلاف کو حق و باطل اور کفر و اسلام کا رنگ دیے بغیر ہماری تسلی نہیں ہوتی۔ اس حوالہ سے سنجیدہ محنت کی ضرورت ہے کہ ہر اختلاف کو اس کی اصل سطح اور درجے میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہم اس کا اہتمام کر لیں تو بہت سے جھگڑے سرے سے وجود میں ہی نہیں آئیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اختلاف کا اظہار مناسب زبان، موزوں الفاظ اور معقول لہجے میں کیا جائے تو اس کے تنازعہ کی صورت اختیار کرنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ علماء کے حلقہ میں میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ اختلاف کا اظہار اچھے الفاظ اور مناسب لہجے میں کرنا چاہیے۔ جبکہ صحافیوں کے ماحول میں یہ گزارش اس طرح کر رہا ہوں کہ اختلاف کی رپورٹنگ کے لیے بھی اچھے الفاظ اور مناسب لہجے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بہت سے جھگڑے مبالغہ آمیز رپورٹنگ کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہیں اور خبر کا ااشتعال انگیز لہجہ بات کو سنوارنے کی بجائے بگاڑنے کا باعث بنتا ہے۔ کسی عقیدہ، موقف اور اختلاف کے اظہار کا صحیح طریقہ کیا ہے اس حوالہ سے صرف ایک بات پر غور کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو نبی بنا کر فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ قولا لہ قولاً لینا کہ فرعون کے ساتھ نرمی سے بات کرنا۔ اختلاف کے اظہار میں شدت اور غلو کا یہ ماحول صرف مذہبی دنیا میں نہیں ہے بلکہ ہمارا سیاسی ماحول بھی یہی منظر پیش کر رہا ہے اور زندگی کے دیگر شعبوں کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ اس لیے ہم اگر اختلاف کے اظہار میں اپنی زبان، الفاظ، لہجے اور رویے کو کنٹرول کر سکیں تو بہت سے اختلاف صرف اس تبدیلی کے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے درمیان اختلافات موجود ہیں اور رہیں گے، ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن قومی اور ملی حوالہ سے ہمارے درمیان مشترکات بھی موجود ہیں اور مشترکات کی فہرست اختلافات سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ اگر ہم عوامی محاذ پر ملی اور قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکات پر زیادہ گفتگو کریں تو ہم آہنگی اور رواداری کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔ ہمارے بہت سے قومی، دینی اور معاشرتی مسائل حل طلب ہیں اور ہماری مشترکہ محنت ان کے حل میں مفید ثابت ہو سکتی ہے بلکہ ہماری عدم توجہ کی وجہ سے وہ مسلسل حل طلب چلے آرہے ہیں۔ اس لیے مذہبی راہ نماؤں کو اختلافات کا اپنے دائرہ میں ضرور اظہار کرنا چاہیے، مگر مشترکات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ مذہبی کشیدگی کم ہوگی بلکہ مسائل کے حل کی راہ بھی ہموار ہوگی اور قوم کو بہت سی مشکلات سے نجات ملے گی۔
جبکہ چوتھی بات یہ ہے کہ ہم نے مذہبی اختلافات کے باعث ایک دوسرے کے معاشرتی بائیکاٹ کا جو ماحول پیدا کر رکھا ہے، وہ محل نظر ہے۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں یہودیوں اور منافقوں میں سے کسی کے ساتھ معاشرتی بائیکاٹ نہیں کیا تھا۔ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا ، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا اور معاشرتی معاملات میں مشترکہ طور پر شامل ہونا مدینہ منورہ کا عمومی ماحول تھا۔ اس لیے مختلف مکاتب فکر کے مذہبی راہ نماؤں کو آپس میں معاشرتی بائیکاٹ کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے باہمی ملاقاتوں اور معاشرتی معاملات میں شرکت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بہت سی غلط فہمیاں آپس کی ملاقات سے دور ہو جاتی ہیں اور مشترکہ قومی و ملی معاملات میں مل جل کر کام کرنے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جو ہماری آج کی ایک اہم معاشرتی ضرورت ہے۔