’’باقیاتِ فتاویٰ رشیدیہ‘‘
نادر و نایاب چیزوں کے حصول پربے پناہ خوش ہونا ایک فطری بات ہے،پھراگر وہ نایاب خزانے علم کی دولت سے مالامال ہوں اوراُن کی نسبت ایسے اہل علم کی طرف ہوجن سے وابستگی کو انسان اپنے لیے باعث فخر اور آخرت کاسرمایہ شمار کرتا ہوتو خود اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ایسے نایاب خزانے کے حصول پر ہم جیسے اکابر کی نسبتوں کواپنے لیے سرمایہ سمجھنے والے کس قدر خوش ہوئے ہوں گے!
ایسی ہی ایک خوشی کی بات خاص اُس وقت حاصل ہوئی جب ابوحنیفۂ عصر، قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانارشیداحمد محدث گنگوہی قدس سرہ کے اب تک نادرونایاب اورغیرمطبوعہ، گوشہ گمنامی میں دبے رہنے والے فتاویٰ پر مشتمل تازہ علمی سوغات میرے ہاتھوں میں آئی اور میں کبھی اُس کے سرورق کو بغور دیکھتا تو کبھی اندرونی صفحات الٹتا پلٹتا ہوااُس میں کھوجاتا۔ ایسا کیوں نہ ؟ کیوں کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ وہ عظیم شخصیت ہیں جن سے ہماری تمام نسبتیں خواہ وہ علمی ہوں یاجہادی، فقہی ہوں یاصوفیانہ ، سب انہیں سے جڑی ہوئی ہیں، ان کی ذات ہماری محبتوں اورعقیدتوں کامحور، ان کی فکرونظر ہمارے لیے بدعات کی تاریک اندھیروں میں رہنماقندیل، ان کی مخلصانہ، زاہدانہ اور بے لوث دینی خدمات میں ہمارے لیے آگے بڑھنے کے لیے مفیدسبق آموز باتیں، ان کی اصلاحی اورجہادی خدمات میں دینی غیرت وحمیت کی روشن کرنیں آج بھی ایسی تاثیررکھتی ہیں جن کے پڑھنے اورسننے سے ذوقِ علم کو آبیاری اور شوقِ عمل کومہمیز ملتی ہے۔
عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اُس وقت منظر عام پر آئی جب کہ حضرت کی وفات پر ایک صدی پوری ہورہی ہے، گویا نئی صدی کے آغاز پر دوبارہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کے فیض کاآفتاب طلوع ہواہے۔ حضرت گنگوہی قدس سرہ کی خدمات کے حوالے سے یہ بات بلاتردید کہی جاسکتی ہے کہ برصغیرہندوپاکستان میں حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید کے بعد اِتباع سنت اور رسوم وبدعات کی تردید میں کوئی اورآواز اس قدر طاقتوراور بلند بانگ نہیں تھی، جیسی حضرت مولانا گنگوہی کی تھی، حضرت مولانا نے اسی اندازو آہنگ میں ،اس پیام کی تجدید کی اور اس پیغام کو، جس پر زمانہ گزرنے کے ساتھ، کچھ میل ساآنے لگا تھا، اس شان سے زندہ کیا، کہ وہ پھر ایک نئی قوت، نئی طاقت اور مسلسل تحریک بن کر، متحرک اور رواں ہو گیا۔
حضرت مولانا گنگوہی اپنے وقت کے عظیم محدث بھی تھے اور بلند پایہ شیخ طریقت بھی، اسی لیے آپ کے حلقہ تربیت سے جو اَفراد اُٹھے، ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے علماء اور اَصحابِ معرفت کی تھی، جنہوں نے اس دعوت و پیام کو اپنا نصب العین بنا کر، اپنی زندگیاں اس کی جدوجہد اور اس کی تبلیغ و ترویج کے لئے وقف کردی تھیں اور اپنی سادگی، بے نفسی اور بے غرض کوشش سے، اسکی جڑیں بہت دورتک اور اس طرح گہرائی تک پہنچا دی تھیں، کہ ان سے خودبخود نئی نئی کو نپلیں،نئے نئے پودے، پھوٹتے اور پروان چڑھتے رہتے ہیں، فکرو عمل کے نئے گلستان آباد ہوتے رہتے ہیں، جس میں ایسی شادابی تازگی اور مہک ہوتی ہے، کہ اُمت کا ایک بڑا طبقہ اس کے فیض سے آراستہ ہوکر، ان خوشبوؤں سے اپنا دامن بھر لینا چاہتا ہے اور اس چمنستان سے ملتے تحفوں کو دوسروں تک پہنچانا، اپنی سعادت و خوش بختی خیال فرماتا ہے، یہ نئے افراد اس تحریک کے ایسے ہی پر جوش خادم بنتے ہیں اور راہ شریعت و سنت پراسی طرح قدم بہ قدم چلنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح ان کے بزرگوں اور اس خانوادہ کے اکابر علماء نے چلنے کی کوشش کی تھی۔
حضرت مولانا نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ، دین کی خدمت، تعلیم و تدریس،اصلاح و ارشاد اور معاشرہ کی برائیوں کو ختم کرنے میں گزارا،عقائد اور معالات کے بگاڑ کو دور کرنے کی کوشش کی، فقہی مسائل و مباحث میں عوام و خواص کی رہنمائی، ان کے سوالات کے جوابات لکھنا، ان کے علمی و قلبی سوالات ومشکلات کے حل کی جستجو اور بھٹکے ہوئے آہوکو بہتر سے بہتر طریقے اور عمدہ سے عمدہ ترین تدبیر کے ذریعہ سے، صحیح راستہ پر لانے کی دن رات بلکہ تمام عمر متواتر جدوجہدکی، جوحضرت مولانا کا طغرائے امتیاز ہے۔دارالعلوم دیوبند اور مدارس اِسلامیہ کی تاسیس کی جو روایت، قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی مبارک شخصیت سے شروع ہوئی تھی، اُس کی سب سے زیادہ آبیاری اور سرپرستی حضرت مولانا گنگوہی سے ہوئی، ان مدارس کے ذریعہ سے علم وکمال اور خدمت قرآن و حدیث اور فقہ و شریعت کا جودریا جاری ہوا اور اتباع دین و شریعت کی جو فضا قائم ہوئی اور جو بادِ بہاری چلی، اس میں بھی حضرت والا کے رسوخ فی العلم اور دعوت واتباع سنت کے گہرے اثرات میں بہت بڑا بلکہ غیر معمولی حصہ ہے۔
حضرت مولانا کی ذات گرامی سے، جو بے شمار دینی منافع امت کو حاصل ہوئے، خصوصاً برصغیر پاک وہند بلکہ افغانستان وماوراء النہرکی ملت اسلامیہ کو جو رہنمائی ملی اور فکرو بصیرت کا جو خزانہ ہاتھ آیا، اس میں حضرت کی تصانیف و مؤ لفات اور تحریرات وفتاویٰ کے ساتھ، حضرت مولانا کے عالی مرتبت شاگردوں کا بھی، بہت بڑا حصہ ہے، یہ شاگرد اور تربیت یافتہ اصحاب کئی قسم کے تھے۔ بعض اصحاب حدیث شریف کی گرہ کشائی میں ماہرتھے ،تو بہت سے حضرات سلوک و طریقت میں کامل اوردینی شرعی مسائل کی واقفیت اور جواب دہی میں منفرد، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک فن میں یگانہ روزگار تھے، کچھ ایسے جن کو دو چیزوں میں کمال اور بصیرت حاصل تھی اور بیشتر ایسے جواِن میں سے ہر ایک منزل کے رہ نورد، ہر ایک دریا کے غوّاص اور حدیث و فقہ، یا سلوک و معرفت،ہر ایک کی ،اعلیٰ درجہ کی بصیرت و نظر سے سر فراز اور ہر ایک کی گرہ کشائی میں ،اپنے عصر کے لئے نشانِ راہ اور مینارۂ نور تھے۔
یوں تو حضرت مولانا کے شاگردوں اور مستفیدین کی ایک بڑی تعداد ہے مگر یہاں صرف اُن حضرات کے نام ذکر کئے جاتے ہیں ،جنہوں نے حضرت مولانا کی خدمت میں قیام کرکے یا ان سے استفادہ کرکے ایک مدت تک فقہ و فتاویٰ کی تعلیم حاصل کی،فتاویٰ نویسی کے اصول جانے، اسکی عملی مشق کی، اور بعد میں خود ایسے ثابت ہوئے، کہ ان اب کے نام اور ان کے کام (عظیم الشان خدمات کے علاوہ) اور فقہ و فتاویٰ کی دنیا میں ان کا ایسا بلند مرتبہ ہے کہ ان میں سے بعض کے فتاویٰ اور فقہی ہدایات کاایک پورا دبستان قائم ہوچکاہے۔ان شاگردوں کے کارناموں سے ہی حضرت گنگوہی قدس سرہ کے علوم وفیوض کاادراک ہوجاتاہے:
۱:مولانا حافظ احمد( خلف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی)
۲:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی:
۳: حضرت علامہ محدث العصر محمد انورشاہ کشمیری:
۴:حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی دیوبندیؒ
۵: حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری،مہاجر مدنیؒ
۶: حضرت مولانا صدیق احمد کاندھلویؒ
۷:حضرت مولانا عبدالغفار صاحب اعظمیؒ
۸:حضرت مولانا مفتی عبدالکریم پنجابیؒ
۹:حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندیؒ
۱۰:حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلویؒ (حوالہ: مقدمہ متذکرۂ بالاکتاب)
الغرض حضرت گنگوہی قدس سرہ نے تقریباً پینتالیس سال تک تحریرفتاویٰ میں بسر کئے اور آپ کے فتاوی اپنے زمانے میں نمایاں استنادی حیثیت رکھتے تھے مگر چونکہ اس وقت ان فتاوی کوجمع رکھنے کاکوئی انتظام نہ تھا اس لیے بلاشبہ ایک بہت بڑاذخیرہ زمانے کی دست برد کاشکار ہوکرضائع ہوگیا۔
مگر اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے کاندھلہ کے علمی خانوادے کے عالم باعمل صاحبِ تحقیق عالم دین حضرت مولانا نورالحسن راشدکاندھلوی صاحب کو جنہوں نے ہندوستان کے اجڑتے علمی خزانوں کوجمع کیا، انہوں نے اپنی زندگی اکابردیوبند اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علمی خانوادے کی نادرونایاب اورغیرمطبوعہ تحریرات جمع کرنے کے لیے وقف کررکھی ہے۔ اس وقت پورے ہندوپاک میں اکابر کی نادرونایاب علمی تحقیقات کاجس قدر ضخیم ذخیرہ مولانا کے پاس جمع ہے شاید ہی کسی اور شخص کے پاس ہو،پھر مولانا نے ان خزائن علمیہ کو صرف تلاش کرنے اورجمع کرنے پراکتفاء نہیں کیا بلکہ ان پردن رات کی محنت صرف کرکے ان پرتحقیقی کام کیا، ان پرمفید توضیحی حواشی لکھے ،اور انہیں مختلف اہل علم کی نظروں سے گزار کرافادہ عام کے لیے ان کی اشاعت کاانتظام کیا۔
زیرتذکرہ کتاب جس کانام’’باقیات فتاویٰ رشیدیہ‘‘ ہے ایک ایسی ہی علمی اور تاریخی سوغات ہے جو ہندوستان میں چھپنے کے بعد اب پاکستان میں شائع ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اکابردیوبند سے وابستگی رکھنے والے تمام اہل علم عموماً اور اصحاب فقہ وفتاویٰ کے لیے خصوصاً ایک بڑی خوش خبری اور نادرتحفہ ہے۔ اس میں حضرت گنگوہی قدس سرہ کے تقریباً ایک ہزار کے قریب ایسے فتاویٰ جمع کیے گئے ہیں جوپہلے سے موجود فتاویٰ رشیدیہ میں شامل نہیں تھے اور اب تک غیرمطبوعہ یاناپیدتھے۔ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین مفتی سعیداحمد پالن پوری مدظلہ نے ان تمام فتاویٰ کولفظ بلفظ ملاحظہ فرمایاہے اور ان پر توضیحی حواشی بھی تحریرفرمائے ہیں اور بہت سے مقامات پر اصل تحریروں سے ان کاتقابل بھی کیاہے اوراستاذ محترم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی کی تقریظ نے اس کتاب کو مزیدقابل اعتناء اور لائق استنادبنادیاہے۔ہمارے ماحول میں عمومی طور پراکابر سے وابستگی کے بلندبانگ نعروں کے باوجود ان کے خزائن علمیہ سے بے رخی اوربے اعتنائی کی فضاطاری ہے اور تحقیق طلب کاموں کی طرف رغبت کاجوفقدان ہے، اس ماحول میں ایسی کاوش یقیناًنئے فضلاء اور علمی لگن رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین نشان منزل ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کی تیاری اور منظر عام پر لانے میں کاوش کرنے والے تمام اصحاب علم وفضل کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کی اس کاوش کواپنی بارگاہ میں مقبول ومنظور اور حضرت گنگوہی قدس سرہ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
(تبصرہ نگار: مدثرجمال تونسوی۔ بشکریہ ہفت روزہ ’’القلم‘‘)
’’قرآن پاک کے منظوم تراجم یا کلام اللہ کے ساتھ کھلواڑ‘‘
نام مصنف: ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی
ناشر: گوشۂ مطالعات فارسی علی گڑھ (ہند)
ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی کا تعلق علی گڑھ (ہندوستان) سے ہے، مگر پاک وہند اور ایران کے علمی وادبی حلقے نہ صرف یہ کہ آپ کے نام سے شناسا ہیں بلکہ آپ کے علمی وتخلیقی شہ پاروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُردو اور فارسی میں درجن سے زائد نثری وشعری تخلیقات زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر نذرِ قارئین ہوچکی ہیں۔ اس وقت راقمِ سطور کے پیشِ نظر ۲۴ صفحات پر مشتمل کتابچہ بہ عنوان ’’قرآن پاک کے منظوم تراجم یا کلام اللہ کے ساتھ کھلواڑ‘‘ ہے۔ جیساکہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ کتابچہ قرآن مجید کے منظوم اُردو تراجم پر نقد ہے۔ ڈاکٹر رئیس نعمانی جہاں کہیں دینی حوالے سے کوئی منفی قلمی سرگرمی دیکھتے ہیں تو آپ کی دینی حمیت بے دار ہوجاتی ہے اور ہر قسم کی روادری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس کے خلاف قلمی جہاد کو اپنے اوپر فرض قرار دیتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند کے علمی وتحقیقی مجلات کے ان گنت صفحات پر آپ کے تنقیدی مضامین و مکاتیب اِس بات کا بین ثبوت ہیں۔ راقم الحروف کے پیشِ نظر کتابچہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس مختصر مضمون میں آپ نے مولانا محمد حسن کے منظوم ترجمہ بہ عنوان ’’اُردو منظوم ترجمۂ قرآن مجید‘‘، عطا قاضی کے منظوم ترجمہ ’’مفہوم القرآن‘‘ پروفیسر سمیع اللہ اسد کے ’’قرآن منظوم‘‘ اور جناب انجم عرفانی کے ’’منظوم القرآن‘‘ پر نقد کیا ہے۔ اوّل الذکر کے ماسوا بقیہ تینوں تراجم راقمِ سطور کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں۔
جناب رئیس نعمانی نے اپنے کتابچہ میں اِن چاروں تراجم کے صرف سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کے اوّل رکوع کے منظوم ترجمے کا تجزیہ پیش کیا ہے اور بقیہ ترجمۂ قرآن کو اسی پر قیاس کرنے کا کہا ہے۔ منظوم ترجمے کا تجزیہ کرتے ہوئے جناب نعمانی نے تین چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھا ہے:
نمبر۱۔ کیا منظوم ترجمہ متن قرآن کی ترجمانی کرتا ہے یا نہیں؟
نمبر۲۔ ترجمہ زبان وبیان کے اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟
نمبر۳۔ ترجمہ اوازن وبحور کے میزان پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟
اس تجزیے کے بعد مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرآن پاک کو نظم کرنا اور ذہنی ورزش کے لیے سامانِ مشق بنانا قرآن پاک کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔فاضل مصنف سے بعض مقامات پر اختلافی رائے کے باوجود یہ کتابچہ تنقیدی ادب میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
نثر میں ترجمۂ قرآن بہت احتیاط کا متقاضی ہے، نظم میں تو احتیاط کی اور زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ ایک طرف متن قرآن کے مفہوم کی پاسداری تو دوسری طرف وزن وبحر اور ردیف وقافیہ کی کڑی پابندی۔ ذرا سی لغزش بہ جائے اجر وثواب کے ضلالت وگمراہی اور ذلت وذلالت کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے منظوم تراجم کی وادی میں صرف اُن صاحبانِ علم ودانش کو قدم رکھنا چاہیے جو ایک طرف تو علوم قرآنیہ پر مہارت تامہ رکھتے ہوں تو دوسری طرف فن شاعری پر کامل دستگاہ رکھتے ہوں؛ جہاں وہ اُردو زبان وبیان سے مکمل آگاہ ہوں وہاں عربیت سے بھی مکمل شناسائی رکھتے ہوں۔ بہ صورتِ دیگر انہیں قرآن مجید کے منظوم ترجمے کی جسارت سے گریز کرنا چاہیے۔
(تبصرہ نگار: محمد سعید شیخ۔ شعبہ اسلامیات
گونمنٹ شالیمار کالج، باغبان پورہ، لاہور)