مطالعہ جامع ترمذی (۱)

سوالات: ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

(جامع ترمذی کے اسلوب تصنیف اور مختلف احادیث کے مضمون کے حوالے سے سوالات و جوابات)

مطیع سید: صحاح ستہ امت میں بڑی مشہور ہوئیں،ان کو پہلے پڑھا جاتا ہے اور ان پر فوکس بھی کیا جاتا ہے ،حالانکہ ان سے پہلے بھی حدیث کی کتب لکھی گئیں۔ غالبا مسند احمد اور موطا امام محمد ان سے پہلے کی ہیں ۔ کیااہم خصوصیات تھی یا کیا ایسا معیار تھا  جس کی وجہ سے ان کو قبول عام  حاصل ہوا؟

عمار ناصر: صحاح ستہ کی دو چیزیں اہم  ہیں ۔ایک تو یقینی طور پر ان کا   معیار ِ صحت ہے، کیوں کہ ان تک آتے آتے تنقیح کا  کام کافی  ہو چکا تھا ۔پھر ان مصنفین نے کچھ اپنے بھی معیار ات وضع کیے  اور اس میں مہارت پیداکی۔ دوسرا پہلو حسن ِترتیب  ہے ۔اس میں ہر کتاب کی اپنی خصوصیات ہیں جس کی وجہ انہیں وہ قبول ِعام حاصل ہوا  جو باقی کو نہیں ہوا۔

مطیع سید: امام مالک کی موطا کو بہت شہرت ملی، لیکن موطا امام محمد کو وہ شہرت نہ مل سکی؟

عمار ناصر: اصل مو طا تو امام مالک ہی کی ہے ۔امام محمد کی موطا کو آپ دیکھ لیں ،اس کے بارےمیں بحث بھی ہے کہ  کیا یہ ان کی اپنی موطا ہے یا امام مالک کی موطا کا ایک نسخہ یا ایک روایت  ہے ۔اس میں بہت زیادہ روایتیں انہوں نے امام مالک سے لی ہیں۔کچھ روایتیں اپنی سند  سے بھی لی ہیں ۔ اس میں اصل حیثیت کی  بحث چلتی ہے ۔کچھ تو یہ کہتے  ہیں کہ یہ امام مالک کی موطاکی ہی ایک روایت ہے۔تاہم اس کے اندرونی جو شواہد ہیں، ان سے یہ لگتا ہے کہ انہوں نے اسے نسخے کی روایت کے طورپر مرتب نہیں کیا، بلکہ ایک مستقل تصنیف لکھی ہے۔جو روایتیں انھوں نے امام مالک  سے لی ہیں، وہ بھی اس میں شامل کی ہیں ،اپنی روایتیں بھی شامل کی ہیں اور اپنی فقہی آراء کے حوالے سے اس سارے مواد کو مرتب کیا ہے۔ بہرحال مدینہ میں مقیم ہونے اور ایک محدث کی حیثیت سے امام مالک کا جو مقام اور تعارف ہے، وہ ظاہر ہے امام محمد کا نہیں ہے،  اسی لیے  محدثین کی روایت میں موطا امام مالک ہی  توجہ کا مرکز رہی ہے۔

مطیع سید: جو روایات انھوں نے امام مالک سے لی ہیں، کیا وہ ان کو بعینہ لے لیتے ہیں یا پھر اس پر کوئی حکم  بھی لگا تے ہیں ؟

عمار ناصر: اگر  ان کا موقف  اس کے مطابق ہے تو ظاہر ہے، وہ اس کو لے لیتے ہیں۔کہیں وہ اس پر  تبصرہ بھی کرتے ہیں ،کہیں تعارض ہو تو اپنی ترجیح بیان کر دیتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں، بلکہ  اس روایت کو لیتے ہیں۔

مطیع سید: اسی طرح کتاب الآثار ہے ؟

عمار ناصر:  کتاب الآثار  کے نام سے امام ابویوسف نے بھی  اپنی مرویات مرتب کی ہیں اور امام محمد نے بھی۔  دونوں مجموعوں  میں  وہ مرویات ہیں جو ان حضرات نے کوفہ میں اپنے شیوخ سے نقل کی ہیں۔

مطیع سید: یعنی یہ امام ابو حنیفہ کی نہیں ہے ؟

عمار ناصر: زیادہ تر سند وں میں ان کا ذکر آتا ہے ۔اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ان کی مرویات ہیں ، لیکن تصنیف بہرحال امام ابوحنیفہ کی نہیں ہے۔

مطیع سید: مسند امام اعظم  کے بارے میں کیارائے ہےکہ یہ ان کی ہے یا ان کی طرف صرف منسوب ہے ؟

عمار ناصر: ان کی اپنی مرتب کردہ تصنیف تو ظاہر ہے کہ نہیں ہے ۔ان کی مرویات ہیں جو مختلف لوگوں نے مختلف عنوان سے جمع  کی ہیں ۔ بعد میں خوارزمی نے ان سب کو جمع کر کے جامع المسانید بنادیا ۔ حال میں   امام ابوحنیفہ کی مرویات کو کتب حدیث سے جمع کر کے مرتب کرنے کے حوالے سے مزید بھی کئی علمی کوششیں کی گئی ہیں۔

مطیع سید: جامع الترمذی  میں ایک چیز بڑی خاص  ہے ،یعنی جو وہ حدیث پر حکم لگاتے ہیں حسن یا غریب ہونے کا۔ پھر اس کے    Combinations  تبدیل ہوتے رہتے  ہیں۔مثلا یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ  حسن ہے، یہ غریب ہے۔

عمار ناصر: یہ باقاعدہ ان کی اصطلاحات ہیں اور بعض اصطلاحات کا مفہوم متعین کرنے میں کافی اختلاف بھی ہے کہ ان سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے۔یہ ایک مستقل بحث ہے ۔ ان میں سے بعض اصطلاحات کی انہوں نے کتاب العلل میں وضاحت کی ہے ۔

مطیع سید: کتاب العلل میں  انہوں نے صرف حسن اور  غریب کا ذکر کیا ہے ۔اس Combination کا ذکر نہیں کیا ۔

عمار ناصر: ترمذی  کے شارحین  مقدمے میں ان چیزوں  کی وضاحت کرتے ہیں۔ کسی حد تک ابن حجر نے شرح نخبۃ الفکر میں بھی وضاحت کی ہے ۔حسن امام ترمذی  کے ہاں خاص چیز ہے ۔حسن سے کیا مراد ہے، وہ کس کے ساتھ جمع ہوتی ہے، کس کے ساتھ  نہیں ،اس میں کچھ بحثیں بھی ہیں ۔ بہتر ہے کہ کسی اچھی شرح کو دیکھ لیا جائے،اس کے مقدمے میں انہوں نے اس پر بحث کی ہوتی ہے ۔

مطیع سید: جو غریب حدیث لاتے ہیں، تو کیا اس سے استدلال کیا جاسکتاہے ؟

عمار ناصر: ان کی اصطلاح کے لحاظ سے غریب، ضعف کے در جے میں نہیں ۔ غریب  وہ روایت ہے جو ایک ہی سند سے مروی ہو، کسی اور سند سے  مروی نہ ہو۔تو غریب صحت کے منافی نہیں ہے ۔

مطیع سید: کچھ روایات ہیں، کافی کم، جن کے آگے انہوں نے منکر بھی لکھا ہے ۔

عمار ناصر: وہ صحت کے منافی ہیں ۔

مطیع سید: تو پھر کیوں ایک محدث ایک روایت  نقل کر دیتاہے جبکہ اسے پتہ بھی ہے کہ یہ منکر ہے ؟

عمار ناصر: روایت نقل کرکے ساتھ اس کا حکم بیان کر دینا بھی تو ایک کام ہے ،یعنی اس موضوع سے متعلق یہ روایت موجود ہے، لیکن اس کا درجہ یہ ہے ۔

مطیع سید: کیا یہ بھی ان کے ذہن میں ہو سکتا ہے کہ ہم تک تو یہ ضعیف پہنچی ہے ،شاید اس کا کوئی اور طریق بھی موجود ہو؟

عمار ناصر: ظاہر ہے ۔یہی تو ہمارے محدثین کی خوبی ہے  کہ انہوں نے جو بھی مواد ہم تک پہنچا یا ہے، وہ چھانٹ کر  اور باقی کو دریا بر د کر کے آپ کو صرف نتیجہ نہیں دے دیا بلکہ مواد کو بھی محفوظ کیا ہے ۔

مطیع سید: جس روایت کے بارے میں انہوں نے کوئی حکم نہیں لگایا، اس کو کیا سمجھیں گے؟

عمار ناصر: اس پر بھی بحث آپ کو کسی شرح کے مقدمے میں مل جائے گی کہ ما سکت عنہ الترمذی، اس کا حکم  کیا ہے ۔مجھے اس وقت بحث مستحضر نہیں ہے ۔

مطیع سید: امام ابو حنیفہ کا نام پوری کتاب (جامع ترمذی) میں کہیں نظر نہیں آیا ۔

عمار ناصر: کہیں کہیں انہوں نے قسم توڑ ی ہے  (مثلا کتاب الطہارۃ میں جرابوں پر مسح کی بحث میں)۔ امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کی رائے  اچھی نہیں ہے۔

مطیع سید: امام اوزاعی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے وقت کے بہت بڑے امام تھے، لیکن ان کو ان شاگردوں نے ضائع کر دیا ۔اس سے کیا مراد ہے؟ کیا ان کو اچھے شاگرد نہیں مل سکے؟

عمار ناصر: ہمارے جو معروف ائمہ فقہاء ہیں، ان میں امام شافعی خود مصنف ہیں ۔امام احمد نے حدیثیں جمع کر دیں، لیکن اپنی علمی و فقہی آراء انہوں نے خود نہیں لکھیں ،ان کے شاگر دوں نے لکھیں ۔  امام مالک نے خود بھی کتاب لکھی ہے اور ان کے شاگردوں نے بھی مسائل جمع کیے ہیں۔امام اوزاعی خود مصنف نہیں ہیں۔ بظاہر ان کے کسی شاگرد نےبھی ان کی آراء کو محفو ظ نہیں کیا۔جیسے امام محمد کو دیکھیں کہ انہوں نے بڑا کا م کیا ،امام ابو حنیفہ کا سارا علم محفو ظ کر دیا۔ تو اس جملے کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسے شاگر د جو امام اوزاعی کے علم کو محفوظ کرتے ، وہ میسر نہیں آسکے۔

مطیع سید: حدیث مرسل سےاستنباط کیا جا سکتاہے؟

عمار ناصر: امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے ہاں ذرا توسع ہے ، وہ استنباط کر لیتے ہیں ۔امام شافعی وغیرہ کے ہاں کچھ مزید شرائط لگائی جاتی ہیں، مثلا یہ کہ دو تین طرق سے وہ روایت ہو یا بعض ایسے تابعین راوی ہوں جن کی ثقاہت ثابت ہے، ورنہ نہیں ۔

مطیع سید: آپ اپنی کتاب براہین میں ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ مر سل ہے، اس لیے اس سے استنباط نہیں کیا جا سکتا۔

عمار ناصر: نہیں، وہ محض مر سل ہونے کی وجہ سے نہیں ہوگا۔ دیکھنا پڑے گا کہ اس کی مزید کیا وجہ ہے ۔

مطیع سید: عموما یہی کہا جاتا ہے کہ مر سل سے لو گ استنباط کر تے تھے ،امام شافعی نے آکر کہا کہ اسے ہم ایسے ہی  قبول نہیں کریں گے ۔

عمار ناصر: یہ صحیح ہے ۔طبر ی نے لکھا ہے کہ دو سو سال تک علما مر سل روایت کر تے رہے۔ امام شافعی نے آکر پہلی دفعہ یہ بحث اٹھائی۔لیکن امام شافعی کی بات غلط نہیں ہے ۔دیکھیں، پہلے دور میں لوگ بعض دفعہ سند نہیں پوچھتے تھے، ایک اعتماد کا ماحول تھا ۔پھر جب  بداعتمادی ہونے لگی تو زیادہ اہتمام سے سند کی تحقیق کی ضرورت پیش آئی ۔تو اس اعتماد کے دور میں تابعی نے اگر بات کی ہے اور راوی  قابل اعتماد ہے تو روایت قبول کی جا رہی ہے۔امام شافعی نے دیکھا کہ اعتماد کے ماحول میں کئی ایسی چیزیں بھی نقل ہو  رہی ہیں جو تحقیق کر کے دیکھیں تو اوپر تک نہیں پہنچتیں۔ تب انہوں  نے یہ مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ نہیں، اتصال سند کی ہمیں تحقیق کرنی چاہیے ۔

مطیع سید: امام شافعی کی فقہ کو دیکھیں تو محدثین انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ جتنے بڑے محدث کو دیکھیں گے تو وہ شافعی ہوگا ۔

عمار ناصر: اس پر بعض محدثین کا بڑا دلچسپ تبصرہ ہے کہ امام شافعی نے آکر محدثین کی پوزیشن کو ذرا مضبو ط کیا۔ محدثین کو تو سند یں اور روایتیں آتی تھیں ،لیکن جو علمِ مجادلہ تھا وہ ان میں نہیں تھا ۔اہل کوفہ اس میں تیز تھے اور بحث مباحثہ میں بازی  لےجاتے تھے۔امام شافعی نے آکر توازن قائم کیا  اور انہیں سکھایا کہ  اس طرح علمی مجادلہ کیا جاتا ہے۔

مطیع سید:  یہاں پر ایک اور چیز میر ے ذہن میں پیداہوتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحاح ستہ  کی کافی احادیث احناف کے موقف کے خلاف ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ حدیثیں بعد میں مدون ہوئیں،اس سے پہلے جو روایتیں فقہاء تک پہنچی  تھیں، انھوں نے اسی کے مطابق رائے قائم کی ۔ لیکن امام شافعی کے پاس احادیث کہاں سے آگئیں ؟ امام شافعی 150 ھ میں پیداہوتے ہیں، امام شافعی کا محدثین کے ساتھ اختلاف بہت کم ہےحالانکہ دور کا اتنا اختلاف بھی نہیں ۔

عمار ناصر: امام ابو حنیفہ  کا اعتنا بنیادی طور پر علمِ حدیث کےجمع اور استقصا سے نہیں تھا۔وہ کوفہ میں تھے  اور وہیں رہے اور اپنے اساتذہ کے توسط سے کو فے میں جو ذخیرہ پہنچا ہوا تھا، بنیادی  طور پر ان کا انحصار اس پر ہے  ۔اس لیے آپ دیکھیں گے کہ جب امام محمد سفر کرکے مدینہ جاتے ہیں تو بہت  سے معاملات میں اپنی رائے بدل لیتے ہیں۔امام شافعی نے تو باقاعدہ سارے مراکزِ علم گھومے ہیں۔امام محمد سے استفادہ کیا ،امام مالک سے استفادہ کیا اور انہوں نے بڑی محنت سےان دونوں علموں کو جمع کیا ۔اُدھر سے فقہ سیکھی، اِدھر سے روایتیں لیں اور اس طرح حدیث اور رائے کا امتزاج تیار کیا۔اس لیے ان کے ہاں اس کی مثالیں نسبتا بہت کم ہیں کہ ان تک روایت نہ پہنچی  ہو۔

مطیع سید: کیا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ احناف کی فقہ کا انداز ہی یہی ہے کہ وہ ہر صحیح حدیث کو  لازما قبول نہیں کرتے، جیسا کہ امام مالک بھی اہل مدینہ کے عمل کو احادیث پر ترجیح دیتے ہیں ؟

عمار ناصر: احناف کے ہاں یقینا یہ عنصرہے، لیکن  غور کرنے سے یہ  اتنا زیادہ فیصلہ کن نہیں لگتا ۔یہ جو منہج کا اختلاف ہے  یا جو  فقہی نتائج کا اختلاف ہے، اس میں یہ عنصر مجھے کم لگتا ہے ۔ محدثین کے ہاں  جو اصولی موقف ہے، وہ بڑے مضبوط طریقے سے احناف کے ہاں بھی موجود ہے کہ اثر آگیا ہے یا حدیث آگئی ہے تو قیاس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔یہ اصولا بھی ان کے ہاں واضح ہے اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔اصل میں جہاں فرق پڑتا ہے، وہ یہی ہے کہ ذخیرہ روایت اس طرح سے  پوری تنقیح کے ساتھ ان کے ہاں نہیں پہنچا ۔ جب نہیں پہنچا تو پھر جتنا ذخیرہ پہنچا،  اس میں انھوں نے تعامل، قیاس اور آثار صحابہ وغیرہ کی روشنی میں  ایک معیار بنایا کہ ہم اس  طر ح کی روایت لیں گے اور اس طر ح کی  نہیں لیں گے ۔یہ ظاہر ہے کہ ان کا حق ہے۔جس  صورت حال میں وہ کھڑے ہیں، اس میں انہوں نے اپنے لیے  احتیاط  پر مبنی ایک طریقہ اختیار کیا ہے ۔ورنہ میرے خیال میں  جس طرح ساری روایتیں بعد کے ادوار میں اہل علم تک زیادہ منقح ہو کر  پہنچی ہیں ،ان تک بھی پہنچ جاتیں تو اختلاف بہت کم  رہ جاتا ۔

مطیع سید: امام شافعی 150 ھ میں پیدا ہوئے  اور 200 ھ تک ان کی ایک فقہ ہے ۔پھر 200 ھ سے 204 ھ تک ان کی ایک نئی فقہ مرتب ہوئی ۔ ان کے قولِ جدید اور قولِ قدیم پر مبنی بہت سے اختلافات ہیں۔اس کا سبب کیا تھا ؟

عمار ناصر: بنیادی سبب تو یہی ہے کہ انہوں نے پہلے اپنے علاقے میں بیٹھ کر آرا ء قائم کیں۔ اس کے بعد ان کے علمی اسفار شروع ہو تے ہیں ۔پھر جب آخری عمر میں وہ مصر پہنچتے ہیں تو اس سارے غور وفکر پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ اپنے علمی سفر میں انہوں نے بہت سی چیزیں سیکھی ہیں ۔

مطیع سید: یہاں ایک بڑا اہم سوال پیداہوتا ہے کہ فقہ کی جہاں بحثیں ہوتی ہیں، وہاں اما م ترمذی اپنی جامع میں ائمہ کا ذکرکرتے ہیں،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سب کا ذکر کرتے ہیں لیکن امام جعفرکا کہیں بھی ذکر نہیں کرتے۔فقہ جعفری پوری مدون ہمارے سامنے موجود ہے۔اور امام جعفر امام ترمذی سے پہلے گزر چکے ہیں بلکہ امام ابو حنیفہ کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتاہے۔ان کا کہیں کوئی قول درج نہیں اور اہل بیت کی روایات بہت ہی کم ہیں ۔

عمار ناصر: اس کے اسباب سیاسی ہیں ۔اصل میں ائمہ اہل بیت کو شروع سے ہی جس گروہ نے گھیر لیا، اس نے انہیں  اہل سنت کے مرکزی دھارےسے ہٹا دیا ۔ اس سے رویہ بدل جاتا ہے ۔آپ دیکھیں گے کہ اس گروہ نے ملاوٹ بھی بڑی کی ہے لیکن ان ائمہ کے اقوال کو بنیادی طور پر محفوظ بھی انہوں نے ہی کیا ہے ۔

مطیع سید: جی انہوں نے ہی محفوظ کیا اور پوری فقہ مدون کی ۔ آپ نے اپنی کتاب " حدودوتعزیرات " میں اس کا ذکر بھی کیاہے ۔

عمار ناصر: اس لیے ان کا شروع سے ہی ایک الگ سیاسی تشخص بھی بن گیا اور الگ علمی تشخص بھی بن گیا ۔

مطیع سید: ائمہ اہل بیت کو اس بات کا احسا س تھا ؟

عمار ناصر: ظاہرہے، ائمہ اہلِ بیت کو احسا س تو تھا ،لیکن اس وقت بنیادی طورپر کشمکش سیاسی تھی جس میں تھوڑا سا مذہبی  عنصر شامل ہونا شروع ہوگیا تھا ۔شاید اس طرح علمی طور پر الگ مکتبہ فکر  امام جعفر تک نہیں بناتھا ۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے تو امام ترمذی روایت لیتے ہیں تو کیا اس گروہ نے حضرت علی کو نہیں گھیرا تھا؟

عمار ناصر: حضرت علی تک یہ صورتحال نہیں تھی ۔حضرت حسن اور حضرت حسین تک بھی نہیں تھی۔لیکن مثلا امام زید بن علی بہت بڑے امام ہیں ۔ان کے ساتھ بھی جو گروہ وابستہ ہوا، اس نے ان کا الگ تشخص بنا دیا ۔

مطیع سید: تو اس وجہ سے امام ترمذی نے ان سے کوئی چیز نہیں لی ۔

عمار ناصر: بظاہر، ایسے ہی لگتا ہے ۔

مطیع سید: یہ صورتحال تو اب بھی ایسی ہے کہ ہم ان کے ایک الگ گروہ ہونے کی وجہ سے ان کی بہت سی چیزوں سے استفادہ نہیں کرتے۔

عمار ناصر: جی بالکل ۔

مطیع سید: منی کو خشک ہو جانے کے بعد کپڑے سے کھر چ دینے سے متعلق جو روایت آتی ہے  (جامع الترمذی،  کتاب الطہارۃ، باب فی المنی یصب الثوب، حدیث نمبر ۱۱۶) میرے خیال سے تو اس طر ح کپڑا صاف نہیں ہوتا ،کیوں کہ وہ اس میں جذب ہوئی ہوتی ہے، لیکن روایت میں ہے  کہ کھر چ لی جائے تو ٹھیک ہے۔

عمار ناصر: بس ٹھیک ہے، یہی  کفایت کرے گا ۔خشک ہو گئی تو جب اسے کھرچ دیں گے تو اس کے اوپر جو تہہ ہے، وہ اتر جائے گی اور جو اندر جذب ہو گئی تھی، وہ بھی کسی حد تک  زائل ہو جائے گی،تو اس کو کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ طہارت کے باب میں آپ کو احادیث  میں جو  عمومی رویہ نظر آئے گا ،وہ یسر اور آسانی کا ہے ۔

مطیع سید: میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس دور میں یہ گاڑھی ہوا کرتی تھی اور اب چونکہ پتلی ہوتی ہے ، اس لیے  اسے دھونا ضروری ہے ۔

عمار ناصر: یہ بعد میں جو ایک تکنیکی فقہی ذہن بنا ہے، وہ اس طرح کی تاویل کرتا ہے۔ ہمارے ایک استاذ بھی یہی کہا کرتے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ  گاڑھی ہو یا پتلی، جو کپڑے کے اندر جذب ہو گئی ہے، وہ تو وہیں ہے۔ اسی سے پھر وہ بحث بھی پیداہوجاتی ہے کہ کیا منی نجس ہے؟ کیوں کہ بہت سے صحابہ اور امام شافعی کہتے ہیں کہ نجس نہیں ہے ، صرف نظافت کے پہلو سے اس کو  زائل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

مطیع سید: جرابو ں پر مسح کے حوالے سے فقہا نے جو شرائط عائد کی ہیں، وہ کس بنیاد پر عا ئد کی ہیں ؟

عمار ناصر: جرابوں پر مسح کے بارے میں بظاہر فقہا کے دور میں آکر ہی بحث پیداہوئی ہے۔ صحابہ کے ہاں تو آپ کو روایتیں مل جائیں گی۔نبی ﷺ کے متعلق جو جرابوں پر مسح کی روایت امام ترمذی نے نقل کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے (کتاب الطہارۃ، باب فی المسح علی الجوربین والنعلین، حدیث نمبر ۹۹) اس پر کافی بحث ہے۔ وہ روایت شاید اتنی معیاری نہیں ہے ۔البتہ صحابہ کے ہاں آثار مل جاتے ہیں ۔فقہا نے بعد میں احتیاط کے پہلو سے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ ہم نے پاؤں دھونے کے بجائے موزوں  پر  مسح کی ایک رخصت پہلے ہی لے لی ہے، اس لیے اب موزوں سے آگے اس رخصت کو جرابوں تک وسیع نہیں کرنا چاہیے۔

مطیع سید: یہ جو ہمارے ہاں جرابیں ہیں ،ان پر مسح ٹھیک ہے ؟

عمار ناصر: میں ذاتی طور پر تو کر لیتا ہوں ۔

مطیع سید: ایک صحابی نے ایک موقع پر یہ کلمات کہے: حمدًا کثیرًا طیبًا مبارکًا فیہ۔آپ ﷺ نے بڑے پسند فرمائے ۔(کتاب مواقیت الصلاۃ،  باب ما جاء فی الرجل یعطس فی الصلاۃ، حدیث نمبر  ۴٠۴) یہ ایک وقتی سی بات تھی، لیکن اب ہم نے اسے نماز میں شامل ہی کر لیا ہے۔

عمار ناصر:  ترمذی کی روایت میں  یہ واقعہ اس طرح آیا ہے کہ اس صحابی کو چھینک آئی تھی جس پر انھوں نے یہ کلمات کہے۔ البتہ حدیث کی دیگر کتابوں میں     ہے کہ صحابی نے رکوع سے اٹھنے پر  سمع اللہ لمن حمدہ کے جواب میں یہ کلمات کہے تھے۔ بہرحال، رسول اللہ ﷺ نے یہ کلمات اگرچہ مقرر نہیں فرمائے لیکن پسند تو کیے ہیں۔ تو آپﷺ کی پسند سے  اگر ہم اسے اپنے معمول کا حصہ بنا لیں تو یہ صحیح  ہے ۔

مطیع سید: سورۃ النجم میں سجدے کا جو واقعہ پیش آیا ، وہ مکی دور کا ہے ۔  جن و انس  اور مسلمانوں اور مشرکوں، سب نے سجدہ کیا ۔ (ابواب السفر، باب ما جاء فی السجدۃ فی النجم، حدیث نمبر ۵۷۵) کیا کیفیت تھی، یہ کس موقع پر ہوا ؟  پھر یہ بھی ملتا ہے کہ  ایک بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا اور اس نے مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی پر لگا دی کہ یہی کافی ہے۔کیا وجہ تھی، کیا یہ منافق تھا؟منافقین تو مکی دور  میں نظر نہیں آتے ۔

عمار ناصر: تفصیل تو ظاہر ہے ،اس میں بیان نہیں ہوئی ۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ کسی مشترک مجلس میں یہ آیت پڑھی گئی اور سب لوگ سجدے میں شریک ہو گئے ۔   اس موقع پر جو  وہاں جنات ہوں گے، انہوں نے بھی سجدہ کردیا اور جو مشرک وہاں موجود تھے ،ظاہر ہے اللہ کو تو وہ مانتے تھے ،تو یہ سوچ کر  کہ اللہ کو سجدہ کرنے کی بات ہو رہی ہے ، انہوں نے بھی کردیا  مگر ایک بوڑھے نے نہ کیا ۔ اصل میں اس وقت ایک مخلوط ماحول تھا ۔ مکے میں مخلوط ماحول تھا، مدینے میں بھی مخلوط ماحول تھا ۔ آج شاید اس طرح کے ماحول کا تصور کرنا ذرا مشکل ہے ۔

مطیع سید: لیکن منافقت کے آثار ہمیں مکے میں نہیں ملتے ۔

عمار ناصر: مکے میں منافقت کے آثار موجود تھے۔قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ نفاق ایک رویے کا نام ہے، وہ مکے میں بھی تھا ، مکی سورتوں میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ سورۃ العنکبوت آپ پڑھیں ۔ سورۃ عنکبوت کا پہلا رکوع سارا اسی کا بیان ہے۔ کچھ لوگ ایمان تو لے آئے ہیں اور سمجھ تو گئے ہیں کہ یہ حق ہے، لیکن اس میں جو آزمائش کے لئے  تیار ہونا ہے، وہ نہیں کر پا رہے،فورا گھبرا جاتے ہیں ۔ ان کو بھی قرآن نے منافقین ہی قرار دیا ہے ۔

مطیع سید: ایک اعرابی کی چاند دیکھنے کی گواہی پر آپ ﷺ نے رمضان کے روزے شروع فر مادیے ۔ (کتاب الصوم، باب ما جاء فی الصوم بالشہادۃ، حدیث نمبر ۶۹۱) فقہاء تو ایک شخص کی گواہی کو  نہیں مانتے ۔

عمار ناصر: وہ بعض حالتوں میں مانتے ہیں ، لیکن عام حالات میں نہیں مانتے۔ فقہا کا موقف بھی ٹھیک ہے ۔اصل میں  جواس طرح کا اکیلاواقعہ ہوتا ہے، اس سے کوئی کلی قاعدہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ۔فقہائے احناف کے ہاں قبول شہادت کی مختلف شکلیں ہیں اور وہ  Common Sense( فہم عامہ)پر پورا اترتی ہیں ۔ مثلا اگر تو ایسا ہے کہ مطلع صاف ہے اور سب لوگ دیکھ سکتے ہیں ،پھر تو زیادہ لوگوں کی گواہی ہونی چا ہیے ۔ہاں اگر مطلع ابر آلود ہے یا اس طرح کی کوئی صور تحال ہے تو پھر ایک آدمی بھی اگر دیکھ  لے اور وہ قا بل اعتماد ہو اور قرائن بھی ہو ں کہ ہاں یہ ہو سکتا ہے تو اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے ۔

مطیع سید: یہ جوشعبان کی  پند رھویں شب  کی فضیلت کی روایت ہے،امام بخاری نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (کتاب الصوم،  باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان، حدیث نمبر ۷۳۹)

عمار ناصر: پندھوریں شب کی  فضیلت سے متعلق مختلف روایتیں ہیں اور  انفرادا َ ان میں ضعف ہے ۔بعض میں زیادہ ہے، بعض میں  کچھ کم ہے ۔اس صورت میں  پھر ظاہر  ہے، محدث کے لیے گنجائش پیدا ہو جاتی ہے ۔مجھے ایسے یاد پڑتا ہے کہ شاید  علامہ البانی وغیرہ  نے مجموعے کے لحاظ سے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔

مطیع سید: انفرادی سطح پہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ جو اجتماع کی شکل میں عبادات کی جاتی ہیں؟

عمار ناصر: وہ تو ایک فقہی مسئلہ  ہو گیا کہ نوافل کے لیے اس  طرح کا اگر اہتمام کیا جائے تو  اس کا کیا حکم ہے۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے ہجرت سے پہلے بھی حج  کیا تھا ؟

عمار ناصر:کیے ہوں گے، لیکن ان کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا ۔آپ جب ہر سال حج کے موسم میں قبائل کے پاس جاتے تھے تو  حج بھی کرتے ہو ں گے ۔

مطیع سید: حضرت عمر حج تمتع سے کیوں منع فرماتے تھے ؟(کتاب الحج، باب ما جاء فی التمتع، حدیث نمبر  ۸۲۳، ۸۲۴) آپ ﷺ نے تو حجۃ الوداع کے سفر میں واضح طور پر اس کا حکم دیا تھا۔ پھر حضرت عمر کیوں منع فرماتے تھے ، کیا  وجہ تھی ؟

عمار ناصر: اصل میں آپﷺ نے حجۃ الوداع میں ایک خاص مصلحت کےتحت یا خاص ضرورت کے تحت لوگوں کو  ہدایت فرمائی کہ وہ  عمرے کی نیت کر لیں اور عمرہ کر کے احرام کھول لیں۔ مقصد اس تصور کی اصلاح کرنا تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کیا جا سکتا۔  لوگوں کے ہاں یہ  تصور تھا کہ حج میں آپ آئے ہیں تو عبادت  مکمل کر نے  تک آپ احرام کی پابندیوں پر قائم رہیں، یہ تقویٰ اور نیکی کے زیادہ قریب ہے۔ اگر آپ تمتع کر لیتے ہیں اور احرام سے نکل آتے ہیں تو اس دوران آپ ظاہر ہے کہ پابندیوں سے نکل جائیں گے اور مباحات سے فائدہ بھی اٹھا سکیں گے۔ حضرت عمر  کا اس سے منع کرنا کچھ دوسرے پہلووں سے ہو سکتا ہے۔ مثلا ایک پہلو تو ان کے ذہن میں یہ ہو سکتا ہے کہ  ایک عبادت کے لیے ایک ہی سفر ہو نا چاہیے  اور دوسری عبادت کے لیے الگ سفر کیا جائے ۔ اگر تفصیلا روایتوں کو دیکھا جائے تو شاید بات  زیادہ واضح ہو سکے  گی۔

مطیع سید: بجو تو بظا ہر درندوں میں لگتا ہے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک شکار ہے، یعنی اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔(کتاب الحج،  باب ما جاء فی الضبع یصیبہ المحرم، حدیث نمبر ۸۵۱) احناف اس کو حرام  کہتے ہیں ۔

عمار ناصر: اصل میں یہ جو جانور ہیں، ان میں حلال اور حرام کے درمیان ایک کیٹگری ہے جس  میں اشتباہ رہتا ہے۔ اگر درندہ  آپ ان  معنوں میں لیں کہ وہ باقاعدہ کسی پر حملہ کرےتو بجو یہ نہیں کرتا ۔اور اگر آپ اس  کی گوشت خوری کو دیکھیں تو  درندہ لگتا ہے ۔اس لحاظ سے وہ ایک مشتبہ زمرےمیں آجاتا ہے ۔اس پہلو سے احناف نے شاید اس کی ظاہری ہیئت  کو دیکھ کر حرام قرار دیا ہے اور وہ ایک اور حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں جو سند کے لحاظ سے نسبتا کمزور ہے۔

مطیع سید: لیکن یہاں وہی اعتراض بن رہا ہےکہ احناف صحیح حدیث کو چھوڑ رہے ہیں ۔

عمار ناصر: ظاہر ہے، وہ اس حدیث  کی کوئی توجیہ کرتے ہوں گے ۔ اجتہادی مسائل میں تحقیق و  تاویل کی بڑی گنجائش ہو تی ہے ۔

مطیع سید: ٹڈیوں کے بارے میں صحابہ نے کہا کہ ہم نے لاٹھیوں سے ما را تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھاؤ ، یہ سمندر کا شکار ہے ، (کتاب الحج، باب ما جاء فی صید البحر للمحرم، حدیث نمبر  ۸۵٠) حالانکہ ٹڈی تو سمندر کا شکار نہیں ہے ۔ کیا مراد تھی رسول اللہ ﷺ کی؟

عمار ناصر: صید البحر کہہ کر  اصل میں اشارہ اس طرف ہے کہ اس کا حکم وہی ہے جو دریا کے شکار کا ہے۔ یعنی جس طرح  پانی کے جانور کو ذبح کر کے ان کا خون نہیں نکالنا پڑتا، اسی طرح ٹڈی کو بھی ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ویسے ہی حلال ہے۔

مطیع سید: حدیث میں نماز کے مکروہ اوقات کا بڑے اہتمام سے ذکر آیا ہے۔ (کتاب مواقیت الصلاۃ،  باب ما جاء فی کراہیۃ الصلاۃ بعد العصر  وبعد الفجر، حدیث نمبر ۱۸۳) کہا جاتا ہے کہ ان اوقات سے اس لیے منع کیا گیا کہ ان میں سورج کی پوجا ہوتی ہے،حالانکہ جزیرہ عرب میں عام طور پر سورج کی پوجا نہیں ہوتی تھی ۔

عمار ناصر: ذکر تو نہیں ملتا لیکن مجوسیوں کے ہاں ممکن ہے، سورج پرستی بھی ہو۔اسی طرح صابیوں کا ذکر ملتا ہے کہ وہ کواکب پرست تھے۔ روایات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور کا ایک واقعہ ملتا ہے کہ  کچھ ایسے لوگ پکڑے گئے تھے جو سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ بعض دفعہ اگرچہ ایسا کوئی گروہ بالفعل موجود نہیں ہوتا، لیکن ایک تصور لوگوں کے سامنے ہوتا ہے کہ سورج کے ساتھ  بھی  عبادت کا تصور وابستہ  ہے ۔وہ تصور بھی بعض دفعہ بنیاد بن جاتا ہے کہ اس سے منع کر دیاجائے ۔

مطیع سید: یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیوں کہ یہ عالمی دین تھا اور اسے دیگر تہذیبو ں سے بھی واسطہ پڑناتھا، اس لیے بھی اس تصور کی نفی کردی گئی ؟

عمار ناصر: کہہ سکتے ہیں، اگر چہ زیادہ تر احادیث میں جو فوری تناظر  ہوتا ہے، اسی میں بات کہی جا رہی ہوتی ہے ۔ تاہم شارحین بعض اوقات انہیں ذرا وسیع تناظر میں بھی دیکھ لیتے ہیں۔

مطیع سید: حجۃ الوداع کے سفر میں آپ ﷺ اپنے ٹھکانے سے تشریف لے گئے تو خوش تھے، واپس آئے تو غمگین تھے ۔حضرت عائشہ نے وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ کاش میں کعبے میں داخل نہ ہوتا ،میں نے امت کو تکلیف میں ڈال دیا ۔ (کتاب الحج، باب ما جاء فی دخول الکعبۃ، حدیث نمبر ۸۷۳)

عمار ناصر: اس لیے کہ اب لوگ بھی یہ اہتمام کر یں گے کہ وہ کعبے کے اندر جائیں اور ظاہر ہے کہ ایسا ہر ایک کے لیے ممکن  نہیں ۔

مطیع سید: قربانی کا جانور ہدی جو حاجی ساتھ لے کر جاتے تھے، وہ اگر راستے میں مرنے کے قریب ہو تو اس کے متعلق کہا گیا کہ اسے ذبح کر دیں اور لوگوں کے لیے چھوڑ دیں، خود اس میں سے نہ کھائیں ۔(کتاب الحج، باب ما جاء اذا عطب الہدی ما یصنع بہ، حدیث نمبر ۹۱٠)کیا وجہ ہے ؟ قربانی ہے تو پھر آدمی خود کیوں نہیں کھا سکتا ؟

عمار ناصر: اس کیفیت میں تو وہ صدقہ بن گئی  اور صدقہ آدمی کو خود نہیں کھانا چاہیے۔اگر آپ وہاں جا کر  جانور کوذبح کریں، پھر تو  وہ قربانی ہے ۔لیکن راستے میں اگر جانور کو ذبح کرنا پڑے تو گویا آپ نے اسے صدقے کی حیثیت سے چھوڑ دیا ہے ۔

مطیع سید: حج کے اعمال میں جو تقدیم و تاخیر ہو جاتی ہے، اس پر فقہا دم کو واجب کہتے ہیں، لیکن آپﷺ تو حجۃ الوداع میں ہر ایک کو لاحرج لاحرج فرماتےجا رہے ہیں ۔(کتاب الحج، باب ما جاء فی من حلق قبل ان یذبح، حدیث نمبر ۹۱۶)پھر فقہا نے دم کا وجوب کہاں سے اخذکیاہے  ؟

عمار ناصر: احناف کے ہاں اس معاملے میں زیادہ سختی ہے ۔ ایک تو وہ بعض دوسرے قرائن سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ ترتیب مقصود ہے اور اہم ہے ، اس کو ملحوظ رکھنالازم ہے ۔جب لازم ہے تو اس کو خراب کرنے  پر دم آنا چاہیے۔ دوسرے یہ  کہ چونکہ تعلیم کا موقع تھا اور آپ ﷺ لوگوں کو حج کے مسائل واحکام سکھا رہےتھے ،اس لیے اس ابتدائی مرحلے پر آپﷺ لوگوں  کو تھوڑی رعایت دے رہے تھے تاکہ لوگ تنگی میں نہ پڑیں ۔

مطیع سید: النعی  یعنی موت کا اعلان کر نے سے آپﷺ نے منع کیا ہے ۔ (کتاب الجنائز، باب ما جاء فی کراہیۃ النعی، حدیث نمبر ۹۸۴)مجھے لگ رہا ہے کہ اس کا کوئی خاص پس منظرتھا ،ورنہ کسی کی موت کا اعلان کرنے میں کیا حرج ہے ؟

عمار ناصر: ہاں، وہ ایک خاص طریقہ تھا جس میں واویلا کرنا ،گریبان پھاڑنا ، سر پیٹنا شامل تھا اور خاص طریقے سے بین کرکے لوگوں کو کسی کی موت کی اطلاع دی جاتی تھی ۔ اس سے منع کیا کیا گیا ہے۔   عام طریقے سے موت کی اطلاع دینا، ظاہر ہے منع نہیں ہے۔

مطیع سید: آج کے ہمارے اعلان سے تو اس سے بالکل مختلف ہیں ۔

عمار ناصر: ہاں یہ تو اطلاع ہیں ۔اطلاع دینا منع نہیں ہے۔ اس کو ایک ڈرامہ بنانا ،یہ منع ہے ۔

مطیع سید: یہ جو حدیث  بڑی مشہور ہے کہ جس نے لا الہ کہہ دیا، وہ جنت میں جائے گا ،اس کے کیامعنی ہیں ؟

عمار ناصر: یہ ایک عمومی بات نہیں ہے ۔یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ اس سےمقصود  یہ کہنا  نہیں ہے  کہ عمل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، صرف  کلمہ پڑھ لینا کافی ہے۔ مختلف شارحین اپنے اپنے انداز میں اس کی تاویل کر تے ہیں ۔مجھے زیادہ مناسب بات یہ لگتی ہے کہ جو آپﷺ کے ارد گرد سچے اور مخلص لوگ ہیں ، جو بہت زیادہ خوف خدا بھی رکھتے ہیں، ڈرتے بھی ہیں ،فکر مند بھی ہیں ،آپ مختلف مواقع پر کوشش کرتے  ہیں کہ ایسے لوگوں کی فکرمندی کم ہو،اور ان کو تھوڑا حوصلہ ہو ۔اگر آپ ان لوگوں کے بارےمیں کہہ رہے ہیں جن کے بارے میں آپ ﷺ کو پتہ ہے کہ یہ محض لا الہ کہہ کر رکنے والے نہیں ہیں ،اپنی حد تک عمل کی بھی کو شش کررہے ہیں  تو اس بات کا ایک محل سمجھ میں آتا ہے۔گویا اس حدیث کا مدعا کسی الہیاتی مسئلے کا بیان نہیں، بلکہ  مخلص اور فکر منداہل ایمان کو   ان کی نجات کے متعلق تسلی دینا ہے۔

مطیع سید: اور کسی صحابی نے ایسا کیا بھی نہیں کہ محض اسی پر تکیہ کر لے،نہ اس حدیث سے یہ مطلب لیا ہے ۔

عمار ناصر: بالکل۔ وہ تو بعد میں  مرجئہ نے اس طرح کی روایتوں سے فائدہ اٹھایا  اور ا س کو ایک  کلامی اور الہیاتی  مسئلے کی نوعیت دے دی۔

مطیع سید: حدیث میں قبروں پر لکھنے کی کی ممانعت کی گئی ہے۔ (کتاب الجنائز، باب ما جاء فی کراہیۃ تجصیص القبور والکتابۃ علیہا، حدیث نمبر ۱٠۵۲) آج کل ہم جو کتبے لگارہے ہیں، کیا یہ درست ہے؟

عمار ناصر: میرے خیال میں وہ ممانعت بھی سد ذریعہ کے پہلو سے ہے۔   اگر قبر کی شناخت  محفوظ رکھنے کے لیے سادگی سے  نام وغیرہ لکھ دیا جائے تو اس میں کوئی  بنیادی خرابی معلوم نہیں ہوتی۔

مطیع سید: جو پیٹ کی بیماری میں مر ا، اسے عذاب قبر نہیں ہوگا ۔(کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الشہداء من ہم، حدیث نمبر ۱٠۶۴) حدیث غریب ہے ۔کیا مراد ہے ؟

عمارصاحب: اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیٹ کی بیماری بھی گناہوں کا کفارہ بنتی ہے، جس  طرح شہادت کی موت کی دوسری شکلیں کفارہ بنتی ہیں۔اس کا صلہ اللہ تعالیٰ یہ دیتے ہیں کہ قبر کے عذاب سے محفو ظ رکھتے ہیں ۔لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کی ہر بشارت کے ساتھ دیگر کئی شرائط لگی ہوتی ہیں کہ اگر ایسا ہوتو ایسا ہوگا۔    

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(مئی ۲۰۲۱ء)

مئی ۲۰۲۱ء

جلد ۳۲ ۔ شمارہ ۵

عقل اور مذہب کی بحث: چند مزید معروضات
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

مطالعہ جامع ترمذی (۱)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

آئین، اسلام اور بنیادی حقوق
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

معاہدات: ذمہ داری یا ہتھیار؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قائد اعظم کا اسلام
خورشید احمد ندیم

مولانا وحید الدین خانؒ کا انتقال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الشریعہ اکادمی کی تعلیمی سرگرمیاں
ادارہ

تلاش

Flag Counter