پاک بھارت تعلقات اور ہمارے ریاستی بیانیے

محمد عمار خان ناصر

گزشتہ دنوں ایک  ٹاک شو میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے معروف کرکٹر شاہد آفریدی کے بعض تبصروں پر  سوشل میڈیا میں بحث ومباحثہ کا بازار گرم رہا۔  شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ کشمیر  کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی کا بھی حصہ بنانےکے بجائے خود کشمیریوں کے حوالے کر دینا چاہیے۔  انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے  اپنے موجودہ صوبے نہیں سنبھالے جا رہے تو ایک اور صوبے کے انتظام وانصرام سے وہ کیسے عہدہ برآ ہوگا۔ 

شاہد آفریدی پر تنقید  کرنے والوں کی طرف سے مختلف نکتے پیش کیے گئے۔ مثلا یہ کہ یہ ایک بڑا حساس اور ٹیکنیکل مہارت کا متقاضی موضوع تھا جس کا وہ اہل نہیں تھا۔ مزید یہ کہ ایک عوامی شخصیت ہونے کی وجہ سے اس کی گفتگو سے کشمیر کے حوالے سے  ہمارے ریاستی موقف پر زد پڑی ہے  اور بھارت میں  اس کا حوالہ دے کر  اس سے بھارتی موقف   کی تائید اخذ کی گئی ہے۔  ان میں سے پہلا اعتراض تو  بظاہر  زیادہ وزن نہیں رکھتا، کیونکہ شاہد آفریدی کسی سفارتی یا آئینی فورم پر بات نہیں کر رہے تھے اور نہ ریاست کے سرکاری  ترجمان کی حیثیت سے اظہار خیال کر رہے تھے۔ ٹی  وی ٹاک شو  ایک طرح کی چوپال ہی ہوتی ہے جس میں لوگ اپنے اپنے انفرادی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔   جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ اس گفتگو سے ہمارا قومی  یا ریاستی موقف کمزور ہوا ہے تو یہ ایک قابل توجہ بات ہے۔  البتہ ہمارے نزدیک اسے منفی انداز میں لینے کے بجائے  ریاستی اداروں کو ان تضادات کی طرف متوجہ ہونا  چاہیے جن کی وجہ سے ہمارے ریاستی  سیاسی بیانیے غیر مقبول ہو رہے ہیں اور ایک محب وطن عام آدمی میں ان کے متعلق اس طرح کے تاثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ 

مثال کے طور پر  کشمیر کے، پاکستان کی شہ رگ ہونے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان” کو ہمارے قومی بیانیے کی حیثیت حاصل ہے، لیکن بین الاقوامی سطح پر ہمارا موقف یہ ہوتا ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ حق خود ارادیت کا تصور اپنے حقیقی مفہوم میں تینوں آپشنز کو متضمن ہے، یعنی  کشمیری چاہیں تو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں اور چاہیں تو خود مختار ریاست کی حیثیت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پاکستان  کو یہ حق کیسے حاصل ہو جاتا  ہے کہ وہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے دے؟  فرض کریں، آج کشمیریوں کی سیاسی لیڈر شپ کا عمومی اتفاق رائے اس پر ہو جائے کہ وہ حق خود ارادیت ملنے پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت کو ترجیح دیں گے تو کیا ہماری طرف سے ان کی سیاسی واخلاقی حمایت اسی سرگرمی سے جاری رہے گی جتنی کہ اب تک رہی ہے؟ سادہ لفظوں میں سوال یہ ہے کہ ہم قومی طور پر کشمیریوں کے غم میں گھل رہے ہیں یا اسے  بھارت کے ساتھ سیاسی مخاصمت میں بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں؟

اس طرح کے سوالات صرف کشمیر کے حوالے سے نہیں ہیں، بلکہ فاٹا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی ریاستی پالیسیاں سخت تنقید کی زد میں ہیں اور اس  طرز فکر کو قومی مفاد یا سیکیورٹی خدشات کے مصنوعی سہاروں کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں وفاق گریز سیاسی رجحانات کے حوالے سے اسٹیلبشمنٹ کی حکمت عملی ، سیاسی دانش سے بالکل عاری رہی ہے۔ اس کو ایک ہی سادہ حل نظر آتا ہے کہ ایسی آوازوں کو اٹھنے ہی نہ دیا جائے تاکہ یہ لگے کہ ایسی کوئی آواز موجود ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کا سیاسی نظام بنانے والوں کی بصیرت کو دیکھیے جنھوں نے پچاس سے زیادہ ریاستوں کو پوری داخلی آزادی، حتی کہ فیڈریشن سے الگ ہونے تک کا آئینی اختیار دیتے ہوئے اس طرح وفاقی نظام کے ساتھ جوڑا ہوا ہے کہ کوئی ریاست جبر کے تحت نہیں بلکہ خود اپنے سیاسی واقتصادی مفاد کی وجہ سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ وہاں مختلف ریاستوں میں فیڈریشن سے الگ ہونے کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، ریاست کی خارجہ پالیسی پر زوردار تنقیدیں ہوتی رہتی ہیں، طاقت پر قابض مافیاز کے گٹھ جوڑ کو منکشف کیا جاتا رہتا ہے، لیکن سسٹم کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا، کیونکہ وہ حب الوطنی جیسی مصنوعی اور فرضی بنیادوں پر کھڑا نہیں کیا گیا۔ فیڈریشن کودیرپا بنیادوں پر مستحکم رکھنے کا ایک ہی اصول ہے کہ اکائیوں کو فیصلہ سازی میں پوری طرح شریک کیا جائے، وسائل میں انھیں ان کا پورا حصہ دیا جائے اور جبر اور دھونس سے ان پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر اس کے لیے مشرقی پاکستان جیسے طور طریقے اختیار کیے گئے تو نتائج بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔ مشرقی اور مغربی، دونوں سرحدوں پر مخالف قوتوں کے اتحاد نے، جس کے لیے زمین ہموار کرنے میں خود ہماری ریاستی پالیسیوں کا بنیادی دخل ہے، پاکستان کے لیے بے حد نازک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے شکایات اور تنقیدات کا منہ بند کرنے کی نہیں، انھیں ہمیشہ سے زیادہ توجہ سے سننے اور ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔

اس صورت حال میں سرحد کے دونوں طرف کے اہل دانش  کو ایک سخت اخلاقی آزمائش کا سامنا ہے۔  چند ماہ قبل الجزیرہ کے ٹاک شو اپ فرنٹ میں بھارت کے معروف دانش ور اور مورخ ششی تھرور اور پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے مابین ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔  ششی تھرور کی گفتگو کا وہ حصہ انتہائی تکلیف دہ تھا جس میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو رد عمل کے اصول پر جواز مہیا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ششی تھرور کی شہرت برصغیر میں استعماری دور کے مطالعات کے ایک ماہر کی ہے اور یقینا انھوں نے اپنی تصانیف میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد باغیوں کے خلاف انگریزی حکومت کے ظالمانہ اقدامات پر بھی گفتگو کی ہوگی۔ معلوم نہیں کہ آیا رد عمل کے اصول پر انھوں نے وہاں بھی استعماری جبر کو جواز فراہم کیا ہے یا نہیں۔ 

اسی نوعیت کی اخلاقی آزمائش کا سامنا سرحد کے اس پار کے اہل دانش کو بھی ہے۔ ہماری قطعی رائے ہے کہ فلسطین، کشمیر، اراکان، بلوچستان، گلگت بلتستان اور فاٹا جیسے مسائل، درجے کے فرق کے ساتھ، جدید سیاسی وریاستی نظام سے پیدا ہونے والی ایک ہی صورت حال کے مظاہر ہیں اور ان سب کے متعلق ایک ہی بنیادی اخلاقی موقف اختیار کرنا باضمیر اہل دانش کی ذمہ داری ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حدود میں واقع مذکورہ خطوں کے سیاسی حقوق کی آواز بھی اٹھائی جائے۔ ہماری وابستگی حق اور انصاف  کے ساتھ ہونی چاہیے، نہ کہ کسی نام نہاد ’’قومی مفاد” کے ساتھ۔ اس وقت دونوں اطراف کے باضمیر اہل دانش کا امتحان یہی ہے کہ وہ ریاستی بیانیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اخلاق اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں۔ انسانیت اور اخلاقیات، ریاستوں اور ان کے مفادات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔


ابن خلدون نے سائنس (یعنی طبیعی مظاہر کے قوانین کی دریافت) میں کسی ذہن کے بڑے یا چھوٹے ہونے کو شطرنج کی مثال سے واضح کیا ہے۔ شطرنج کے ایک کھلاڑی کا دوسرے کھلاڑی سے فرق اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک کسی بھی چال کے ان نتائج کو دیکھ پاتا ہے جو تین یا چار قدم تک ہو سکتے ہیں، جبکہ دوسرے کا ذہن ان نتائج کا تصور آٹھ یا دس قدم تک کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جس آدمی کا ذہن کسی بھی عمل کےزیادہ دور رس نتائج کو سمجھ سکتا ہے، اس کا فیصلہ اسباب کی دنیا میں اس سے بہتر ہوگا جو بس قریبی نتائج تک محدود رہتا ہے۔

یہ بات سیاست کے دائرے میں بھی درست ہے۔ ایک سیاسی لیڈر اور ایک سیاسی مدبر میں یہی فرق ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈر فوری نوعیت کے معاملات کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اقدامات کے قریبی نتائج واثرات پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھتا ہے، جبکہ سیاسی مدبر ایک بڑے کینوس پر صورت حال کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اپنے فیصلوں اور پالیسیوں کا تعین دور رس اثرات اور مضمرات کی روشنی میں کرتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کی بدقسمتی ہے کہ ہندوستان میں گاندھی اور نہرو جبکہ قائد اعظم اور پھر ایک حد تک بھٹو کے بعد بڑا سیاسی ذہن رکھنے والی قیادت ہمیں نہیں ملی، لیکن مآل کار خطے کو ان الجھنوں سے نکالنا شطرنج کے بڑے اور زیادہ ذہین کھلاڑیوں ہی کے لیے ممکن ہوگا جو دو چار چالوں میں مات کھانے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور یہ سمجھ سکتے ہوں کہ اس طرح کی مات کھانا، کھیل کو جیتنے کے لیے ضروری ہے۔

برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے لے کر پاکستان کے قیام تک کے طویل تاریخی سفر میں مسلم ہندو تعلقات کے کئی اہم مرحلے طے ہوئے۔ عہد عثمانی سے لے کر محمد بن قاسم تک،یہاں آنے والے عرب حملہ آور عموماً‌ یہیں آباد ہو گئے اور مقامی آبادی کے ساتھ مخلوط ہو گئے۔ کافی عرصے کے بعد غوری اور غزنوی وغیرہ نے اپنی طاقت کے مراکز ہندوستان سے باہر رکھ کر یہاں حملے کرنے اور مال غنیمت جمع کرنے کی اسٹریٹجی اپنائی اور یوں اول وآخر اس خطے کی تاریخ کے لیے ’’اجنبی’’ بن گئے۔ سلطنت دہلی کے قیام کے بعد یہ اجنبیت تو دور ہوئی، لیکن مسلمان حکمرانوں نے حکمران اقلیت اور محکوم اکثریت کے مابین فاصلے قائم رکھے۔ مغلوں نے، خاص طور پر اکبر نے، ان فاصلوں کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھایا، لیکن بحیثیت مجموعی، مسلمان مقتدر اقلیت کی نفسیات سے پوری طرح جان نہ چھڑا سکے۔ انگریزی دور اقتدار میں شاید پہلی مرتبہ مسلم راہ نماوں نے تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے محسوس کیا کہ اس خطے کی تقدیر ان دونوں قوموں کے باہمی تعلقات کو  ایک نئی بنیاد پر استوار کرنے سے وابستہ ہے، لیکن ظاہر ہے، وہ تاریخ کی تلخیوں کو محو نہیں کر سکتے تھے۔ قائد اعظم نے اس کا حل یہ سوچا (جو معروضی حالات کے علاوہ تاریخی تناظر میں مسلم نفسیات کے تقاضوں کا بھی ایک گہرا ادراک تھا) کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں خود مختار مسلم ریاستوں یا ریاست کا قیام تعلقات کو مثبت سیاسی رخ دینے  کے عمل کی ایک دیرپا اور مضبوط اساس فراہم کرے گا، جبکہ قوم پرست مسلمانوں  کا نقطہ نظر یہ تھا کہ تقسیم کے سنگین مضمرات ونتائج کا یہ خطہ متحمل نہیں اور متحدہ قومیت کی بنیاد پر ہندوستان کی ساری قوموں کا سیاسی لحاظ سے متحد رہنا نہ صرف ممکن بلکہ بہتر ہے۔  

اس استدلال کے اصولی وزن کو  مسلم لیگ کی قیادت بھی سمجھتی تھی، چنانچہ قائد اعظم کے سیاسی موقف میں لچک کے بہت نمایاں شواہد شروع سے آخر تک ملتے ہیں۔ ۱۹۲۷ء میں کانگریس کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں انھوں نے ’’تجاویز دہلی‘‘ پیش کیں جس میں اب تک کے اپنے بنیادی مطالبے یعنی جداگانہ انتخابات سے دست برداری اختیار کر لی۔ پھر نہرو رپورٹ سامنے آنے کے بعد ابتداء اً تین ترامیم پیش کر کے مفاہمت چاہی تو اس میں بھی جداگانہ انتخابات کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔ الگ وطن کا تصور اور مطالبہ سامنے آنے کے بعد سالہا سال تک قائد اعظم نے خود کو اس موقف سے بالکل الگ رکھا، حتی کہ ۱۹۴۰ء سے غالباً ایک آدھ سال قبل اقبال کے اس خیال کو ’’غیر عملی‘‘قرار دیا کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں  ایک مسلم ریاست قائم ہونی چاہیے، اور سب سے آخر میں کابینہ مشن پلان سے اتفاق کر کے تو لچک اور مفاہمت کی آخری انتہا تک چلے گئے۔ تاہم مسلم لیگ کی سیاسی پوزیشن کے تعین میں یہ نکتہ زیادہ فیصلہ کن ثابت ہوا  کہ کانگریسی لیڈروں کا رویہ مدبرانہ اور صلح جویانہ نہیں، بلکہ مسلم لیگی قیادت کو نیچا دکھانے کا تھا۔ خود کانگریس میں شریک علماء اس پالیسی کو بحیثیت مجموعی خطے کے مفاد میں سمجھتے ہوئے بھی کانگریسی قیادت کے رویے سے شاکی تھے، جیسا کہ گاندھی وغیرہ کے نام رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے غیر مطبوعہ خطوط سے واضح ہے۔   

اس سب کے باوجود قائد اعظم کا سیاسی  ویژن یہ تھا کہ تقسیم صرف ہندو مسلم نزاعات کے ایک عملی حل کے لیے ہوگی، جبکہ ریاستی سطح پر دونوں ملک مشترک دفاع وغیرہ کے معاہدے کر کے سیاسی اعتبار سے متحد اوریک جان ہو سکیں گے اور یہ وہ نکتہ ہے جس میں ایک بڑے کینوس پر  ان کی سوچ اور قوم پرست مسلمان لیڈر شپ کی سیاسی فکر میں ایک  اشتراک پیدا ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قوم پرست قیادت نے اس خطے کی قوموں کے درمیان تعلقات کا جو نقشہ پیش کیا تھا، ’’متحدہ ہندوستان‘‘ اس کا صرف ایک جزو تھا جو ایک وقتی اور ہنگامی سیاسی سوال کا جواب تھا۔ اس محاذ پر اس تجویز کو قومی سطح پر پذیرائی نہیں ملی، لیکن اس محدود سوال سے ہٹ کر، تاریخی وتہذیبی تناظر میں قوم پرست قائدین نے  خطے کی تقدیر کے حوالے سے جو  سیاسی تصورات پیش کیے، وہ حقیقت پسندانہ تھے اور  وہی اس خطے کی ایک مثبت تقدیر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ۴۰ء کی دہائی میں وقتی سیاسی صورت حال سے متعلق عناصر کو الگ کر دیا جائے تو ابو الکلام، مولانا سندھی اور مولانا مدنی کی تحریریں آج بھی دونوں ملکوں کے سیاسی پالیسی سازوں کے لیے راہ نمائی کا ماخذ ہیں اور  موجودہ تناظر میں  ان کا ازسرنو سنجیدہ مطالعہ کیا جانا چاہیے۔

علاقائی امن اور ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات، اس خطے کی ضرورت ہیں۔ سیاست دانوں اور افواج اور انتہا پسند پریشر گروپس کی نہ سہی، عوام کی بہرحال ضرورت ہیں۔ انسانی قدریں بھی اسی کا تقاضا کرتی ہیں اور مسلمانوں کی مذہبی ودعوتی ذمہ داریاں بھی۔ تنازعات پرامن تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں، تاہم پر امن تعلقات کی طرف بڑھنے کو تنازعات کے پیشگی حل سے مشروط کرنا ایک غیر عملی سوچ ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت سے تنازع کو حل کرنے کا آپشن موجود نہیں تو پھر پہلے وہ سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں فریقین کے پاس سیاسی لین دین کی گنجائش اور لچک موجود ہو۔ پاکستان اور بھارت، طاقت کے راستے سے تنازعات کے حل کا آپشن بار بار آزما چکے ہیں اور اب یہ طریقہ واضح طور پر ’’نو آپشن” کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ مذاکرات اور سیاسی مکالمہ کے ذریعے سے حل تلاش کرنے کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے موجودہ صورت حال میں وہ میسر نہیں۔ سو اس کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں کہ تنازعات کو اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے وہ ماحول بنانے کی کوشش کی جائے جس میں خطے کی عمومی ذہنی فضا خود یہ تقاضا کرے کہ تنازعات کا تصفیہ کیا جائے (اور تقاضا نہ بھی کرے تو کم سے کم اس کی راہ میں حائل نہ ہو)۔ سازگار ماحول بنانے کے لیے ان دائروں میں باہمی تعلقات کو آگے بڑھانا ہوگا جس میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہیں۔ پون صدی سے جاری دائرے کے سفر سے اگر باہر نکلنا ہے تو یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی امید افزا پیش رفت کا خیر مقدم کرنا ہمارے نزدیک سیاسی فکر کی پختگی کی علامت ہے۔ 

حالات و واقعات

(دسمبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter