(میاں انعام الرحمٰن کی کتاب ’’سفر ِجمال‘‘ پر ایک تبصرہ)
کیا اسلام کا ایک خالص معروضی مطالعہ ممکن ہے1؟ یعنی ویسی ہی معروضیت جو مغربی درس گاہی نظام یعنی ’اکیڈمی‘ میں یہودیت اور عیسائیت کا وہ مطالعہ ممکن بناتی ہے جس کی رو سے ان دونوں کی تعریف ایسے ’مذاہب‘ کے طور پر کی جاتی ہے جن کے ماننے والے خود کو یہودی یا عیسائی کہتے ہیں۔درس گاہی تناظر کی اس تنصیب کے بعد مذہب اور کلچر ایک ہی سکّے کے دو رخ بن جاتے ہیں۔ یہودیت یا عیسائیت کے معنی کم وبیش یہودی اور عیسائی ثقافت واقدار اور عقائد و اعمال کا مجموعہ ٹھہرتے ہیں۔ دوسری طرف روایتی مطالعۂ اسلام تاحال ’ریلیجن‘ اور’ کلچر‘ کی لاینحل دبدھا کا شکار ہے۔ غیرمقامی روایتِ علم سے وارد ہونے والی ان دونوں اصطلاحات کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے انہیں سماجی محاورے میں خاطرخواہ جگہ تودی جا چکی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ دینِ اسلام اور مسلم ثقافت کے درمیان صحت و استناد کے سوال پرمسلسل کھینچا تانی جاری ہے۔ کھینچا تانی کا اوّل میدان روایتی اسلام اور غیرمقلد اور آزاد منش مصلح و متجددین کے درمیان تعبیراتی کشمکش اور زمانی ومکانی استناد پر اجارہ داری کی خواہش ہے۔دوم، متقابل روایتی مظاہر کے درمیان وہ تعبیراتی کشمکش ہے جس میں اپنے تئیں ماضی کے ایک’ مستند‘ دور سے سند لانا لازم مانا جاتا ہے۔یہ دونوں میدان مل کر عصری روایتی تناظر کی تشکیل کرتے ہیں۔ روایتی تناظر کے برعکس بشریاتی تناظر اس سوال کو منفی کشمکش نہیں بلکہ ایک ایسی اضافیت پسند تکثیریت کے طور پر دیکھتا ہے جو مطالعہ ٔ اسلام کی نئی خاکہ بندیوں کے ذریعے مکالمے اورفہم کے امکانات میں بڑھوتی کا باعث بنتی ہے۔
مطالعۂ اسلام کی مغربی علمی روایت میں پچھلی نصف صدی کے دوران اٹھایا جانے والا سب سے اہم سوال یہی ہے کہ ’اسلام‘ نامی اصطلاح کو بشریاتی تناظر میں پرکھنے کے کیا امکانات ہیں2؟یہ سوال یوں پیدا ہوا کہ’ مذہب‘اور’ ثقافت‘ جیسی سماجیاتی اصطلاحات کے برعکس ’اسلام‘ کی اصطلاح بشریاتی تناظر کے قیام سے قبل نہ صرف اپنا ایک محکم وجود رکھتی ہے بلکہ نوعِ انسانی کی کئی معاشروں کو ان کی یکساں شناخت بھی عطا کرتی ہے۔اسلامی عقیدے کے مشمولات کا تعین کرنے والی اہم ترین دستاویز یعنی قرآن کریم نے نہ صرف اس اصطلاح کا من وعن استعمال کیا بلکہ اسے ایک نیم بشریاتی تناظر میں نوعِ انسانی کی اس معنویت پسندفطری حالت سے بھی تعبیر کیا جس کی رُو سے انفس و آفاق ، انسان کے اندر اور باہر موجود دونوں جہان ایک ہی واحد و یکتا ، اول و آخر، حیّ و قیوم ذاتِ مطلق کے آگے ہمہ دم سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ سوال کہ’ کیا اسلام ایک مذہب ہے؟‘ ایک نہایت پیچیدہ بلکہ شاید تاحال قریب قریب ناممکن خاکہ بندی کو دعوت دیتا ہے۔ایک طرف تو قرآن کریم اسلام کو توحید پرست ابراہیمی روایت کے تسلسل کے طور پر متعارف کرواتا ہے لیکن دوسری طرف اسی ابراہیمی روایت کی دوسری ممیز شاخوں یعنی یہودیت اور عیسائیت سے ایک امتیازی شناخت پر بھی اصرار کرتا ہے3۔جب تک ہم بشریاتی تناظر قائم نہیں کرتے یہ الجھن کچھ خاص نمایاں نہیں ہوتی لیکن سماجیاتی میدان میں اترتے ہی ہمارے سامنے باربار آن کھڑی ہوتی ہے۔
فی الحال مسئلہ درست سوالوں کی خاکہ بندی یعنی تصورِ اسلام کی بشریاتی وضاحت کا ہے۔ کلاسیکی اسلامی روایت سے جڑا ادب اس خاکہ بندی سے دامن بچا کر گزرتا ہے تو اسلام کو ’مذہب‘ کی بجائے ایک اور قرآنی اصطلاح ’دین‘ کی صورت میں متعارف کروا دیتا ہے جو رائج بشریاتی تناظر کے لیے اتنی معنی خیز نہیں بلکہ کافی حد تک اجنبی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علم و ادب میں رائج لاطینی الاصل انگریزی اصطلاح ’ریلیجن‘یعنی ’مذہب‘ سے قبل بھی ابراہیمی روایتوں سے منسلک انسان مختلف آفاقی نظام ہائے اعتقادات سے خود کو منسلک کرتے اور ایک دوسرے کو اہلِ یہود، یسوع مسیح کے پیروکار،نصرانی وغیرہ کی شناختوں سے جانتے تھے۔اسی طرح ’کلچر‘ یعنی ’ثقافت‘ اور’سویلائزیشن‘یعنی’تہذیب‘ کی اصطلاحوں سے قبل بھی انسان کئی ثقافتی مظاہر سے منسلک تھا اور خود کو تہذیب یافتہ مہذب مخلوق مانتا تھا۔ لیکن دراصل ان دونوں اور اس قسم کی کچھ دوسری اصطلاحات نے علم و ادب کا وہ مخصوص تناظر قائم کیا جس میں ’مذہب‘ یا’ثقافت‘نامی مقولات کے تحت نوعِ انسانی کی وہ تغیراتی خاکہ بندی ممکن ہو سکی جس نے انسانی سماج کو اس کی کلیت میں سمجھنے اور اس پرنفسیاتی، سیاسی اور معاشی اعتبارات سے بامعنی تبصرہ کرنے کے کئی منفرد امکانات پیدا کیے۔اسی مخصوص تناظر اور اس سے متعلقہ مقولات کو عرفِ خاص میں بشریاتی ڈھانچہ کہا جاتا ہے جوعلمِ بشریات کے اصولوں کے مطابق فرد اور معاشرے کی خاکہ بندی ممکن بناتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ نوعِ انسانی کے ایک چنیدہ بشرِ واحد کے شعورو لاشعور پر منطبق ہونے والی ملفوظ ابراہیمی روایت اور اس سے جڑی نفسیاتی واردات کے طور پر اسلام کا کوئی بھی تعریفی خاکہ دراصل ایک خالص بشریاتی واقعہ بن کر ابھرتا ہے۔ لفظ ’اسلام‘ کے تمام متنوع اور متقابل و متطابق معنویاتی گروہ اپنی تعریفات کے لیے محمد رسول اللہ ﷺ کی قلبی واردات، ان کی ثقافت و تہذیب سے جڑے تاریخی واقعات اور ان واقعات سے منسلک تعبیری و تشریحی مفروضوں کے محتاج ہیں جواسلامی روایت کے اساسی متون یعنی قرآن و حدیث اور اولین معاشرتی مظاہر کو محفوظ کرنے والے آثارواخبارکے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چاہے روایتی ہوں یا تجدید پسند، اسلام کی تمام تر تعریفات خود کو اضافی نہیں بلکہ معیاری گردانتی ہیں۔ یہ تعریفات جہاں خود ایک آفاقی کسوٹی پر پورا اترنے کا دعویٰ کرتی ہیں وہیں کچھ دوسری متقابل تعریفات اور ان سے جڑے اعمال کے مجموعوں کو غیرمعیاری بھی مانتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کیا ہے کا سوال خود بخود ایک معکوس سوال یعنی’ کیا اسلام نہیں ہے؟‘ کو بھی ابھارتا ہے۔چونکہ یہ تمام متقابل روایات انسانی لاشعور وشعور میں اپنی محکم جگہ بنا کر مختلف ثقافتی مظاہر کے ذریعے مسلسل ترویج پاتی ہیں لہٰذا ان دونوں سوالوں پر جوابی ردّعمل اور پیش مفروضے خود بخود بشریاتی تناظر میں نئی خاکہ بندیوں کو دعوت دیتے ہیں۔
یہ وہ ناگزیر خاکہ ہے جسے توشہ دان میں رکھے بغیر’’سفرِ جمال‘‘4 پر کمر نہیں باندھی جا سکتی ۔’’سفرِ جمال‘‘ایک ایسی منفرد ترین بشریاتی خاکہ بندی ہے جو روایتی اسلوبِ سیرت نگاری سے علیحدہ ایک راہ نکالنے کے باعث اہلِ علم کے علاوہ عام قارئین کو بھی بالعموم مذہبِ اسلام کے الہامی متون اور بالخصوص سیرت النبیﷺ کے بشریاتی مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔مطالعے کے غالب معنوی متغیرات دو مختلف لیکن ساتھ ہی ساتھ باہم گنجلک دھاروں میں تقسیم ہیں ۔ سفروہجرت اور عزم ومزاحمت کے یہ دونوں دھارے یوں تو سیرتِ طیبہ کی ایک ہی لڑی میں پروئے ہیں لیکن تجزیے کی خاطر انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ضروری ہے۔پہلا دھارا واقعاتی ہے، دوسرا نفسیاتی، دونوں کے ملاپ سے ایک اساطیری جہت تشکیل پاتی ہے۔میاں انعام الرحمٰن کا مرکزِموضوع ہجرت ہے۔لیکن ان کا حتمی پڑاؤ واقعۂ ہجرت کی تاریخی نہیں بلکہ اس کی وہ اساطیری اہمیت ہے جو اسلامی تہذیب کے ہر گزرتے لمحۂ موجود کو مسلسل معنویت عطا کرتی ہے۔ پھریہ معنویت بھی عمومی سیرت نگاری کی طرح حضورﷺ کی ذات طیبہ کی تمام تاریخی جہات سے ایک نفسیاتی تسکین یا سیاسی و سماجی عملی جدوجہد کے لیے واقعاتی مال مسالے کے حصول تک محدود نہیں بلکہ ایک ناگزیر اصولی خاکہ فراہم کرنے سے عبارت ہے جو اپنے آخری درجے میں اوجِ ارتقائے حیات یعنی اولین بشرِ کامل آدم علیہ السلام سے لے کرآخری انسانِ کامل یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کو ایک ہی تہذیبی کڑی میں پرو دیتی ہے۔
’’سفرِ جمال‘‘ کے علمی پس منظر اور تحقیقی مفروضوں کی خاطرخواہ دریافت کی خاطراس موقع پر قارئین کے سامنے بشریاتی تناظر میں اسلام کی تعریف کا ایک نہایت مختصر ساعمومی خاکہ رکھ دینا مناسب ہو گا۔اوپر ذکر کردہ پس منظر سے اتنا تو واضح ہے کہ روایتی تناظر کے برعکس بشریاتی تناظر آفاق سے نفسِ انسانی اور عملِ انسانی کی جانب عمودی اتار کی بجائے انسانی نفسیاتی و اعمال کے افقی پھیلاؤ کو اپنی بحث کا موضوع بناتا ہے۔ نظامِ عقائد اور مبادیات دین کے الہامی مباحث انسانی ترجیحات کو متعین کرنے والے متغیرات کے طور پر بحث میں لائے جاتے ہیں۔ یہاں الٰہیات و فقہ کے عظیم علمی مسائل، نصوص پر بحث ، سند اور اس کے اطلاق میں علتی نسبتیں نہیں بلکہ کسی بیمار شخص پر دم درود پڑھنے، شادی بیاہ یا قربانی کی اسلامی ثقافتی رسومات اور آفاقی استناد و صحت کے حصول کی خاطر فرد اور معاشرے کی نفسیات بحث کا مرکز ہیں۔ساٹھ کی دہائی سے قبل روایتی تناظر کو قبول کرتے ہوئے مغرب میں استشراقی علمی روایت کے تحت ہی اسلام کا تجزیہ مروج رہا ۔ تجزیاتی ڈھانچہ ایسا تھا کہ ایک جانب تو تاریخیت5 اور دوسری جانب بائبل کے ضمن میں وضع کیے جانے والے تاریخی انتقاد6 کے اصول و مبادیات کا اطلاق قرآن و حدیث پر بھی ہوتا رہا۔اوّل الذکر کو مقامی ثقافت سے جنم لینے والے نفسیاتی یا شعری الہام اور آخر الذکر کو تاریخی دستاویز کے طورپر تجزیے کے سپرد کیا جاتا رہا۔اس تجزیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی ساٹھ کی دہائی میں آئی جب بین الثقافتی مثلاً جاوا اور مراکش کی مسلم ثقافتوں کے درمیان موازنے اور تقابل کے ذریعے ایک نئی روایت آغاز ہوا7۔تجزیے کے میدان میں یہ ایک لمبی جست تھی کیوں کہ روایتی تناظر کے برعکس اسلام اب معاشرتی رجحانات کا وہ نتھرا ہوا مجموعہ نہیں تھا جو کل مظاہر کے مجموعے میں سے ثقافت کو منفی کر دینے کے بعد بقیہ بچتا ہے بلکہ ثقافت سے گنجلک کوئی پیچیدہ مظہری ملغوبہ تھا۔کم و بیش ڈیڑھ دہائی اسی سمت میں سفر جاری رہا۔ پھر اسّی کی دہائی کے وسط میں ایک نئے بشریاتی تناظر کے تصور پر بحث کا آغاز ہوا جہاں کسی بھی معاشرے میں مطالعۂ اسلام کو ثقافت سے نمودار ہوتے ہوئے دیکھنے کی بجائے ان طاقت ور شخصیتوں اور اداروں کو تجزیے کا بنیادی موضوع بنانے کی ترغیب دی گئی جو اسلام کے سوال پر حتمی اختیار کا منبع ہیں8۔اس حقیقت کو بشریاتی تناظر میں زیادہ دلچسپ مان لیاگیا کہ اختیارات کے یہ شخصی یا غیرشخصی مراکز ہی دراصل فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا اسلام ہے اور کیا نہیں اور نتیجتاً ایک ایسی استدلالی روایت کی تشکیل کرتے ہیں جسے معاشرے کی غالب اکثریت کا اعتماد حاصل ہو جاتا ہے۔نوّے کی دہائی میں گلوبلازیشن اور بین الاقوامی مواصلاتی انقلاب کے بعد ان دونوں بظاہر متضاد تجزیاتی ڈھانچوں نے مل کر ایک تیسرے بشریاتی پیراڈائم9 کو جنم دیا جس میں سیاسی رجحانات اور طاقت واختیار کی کشمکش کو فیصلہ کن تجزیاتی اساس مانا گیا۔اب اولین ڈھانچے سے توتاریخی یاداشت کا اصول لیا گیا اور دوسرے متبادل ڈھانچے سے سیاسی و ثقافتی قوت کے رجحانات کو اصولی تسلیم کیا گیا۔تیسری دنیا یعنی جنوبی ایشیا اور افریقہ کے مسلمانوں کے یوروپی اسلام کے علمبرداروں سے علمی مراسم قائم ہوئے تو اسلام کے پسِ استعمار اور نوآبادیاتی تنقید پر مبنی مطالعے بھی سامنے آئے۔اگلی تین دہائیاں انہی رجحانات کا تسلسل ہیں جو مطالعۂ اسلام کی خاطر قائم کیے گئے مفروضوں کو بشریاتی میدان میں ثقافتی تجربہ گاہوں میں جانچنے کے بعد مختلف نتائج پر پہنچتی ہیں10۔
بغور دیکھیے تو یہ لازماً ایک ایسا استخراجی ڈھانچہ ہے جہاں مطالعۂ اسلام کا نظریاتی تناظر پیش قیاس کرنے کے بعد ہی تھیوری سے عملی تجزیے کی جانب پیش قدمی ممکن ہوتی ہے۔اس طرح مطالعۂ اسلام لازماً دو خانوں میں بٹ جاتا ہے جن میں سے ایک اسلام تو خالص نظری جب کہ دوسرا اسلام عملی یا تجزیاتی بن کر ابھرتا ہے۔اسلام کے ان دونوں مطالعات کو ایک جوڑ کر ایک ساتھ پیچیدگی سے نمٹنا وہ چیلنج ہے جو اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا تیزی سے رائج ہوتا بشریاتی تناظر 11 ہے۔
اس پس منظر میں انعام الرحمٰن میاں کی کاوش کو غالب مسلم ثقافت سے جنم لینے والی ایک ایسی جدید کاوش کہا جا سکتا ہے جو اختیاراتی قوت کے مراکز یعنی تعبیرات و تفاسیرِ قرآن اور’مستند‘ اخبار وآثار سے کسی نہ کسی درجے میں جڑے رہنے کے باوجود ایک یکسر تازہ منہجِ تحقیق کے ساتھ مطالعۂ نو کی دعوت ہے۔ غالب مغربی بشریاتی تناظر کی روایت سے یکسر باہر، یہ ایک ایسی تجدیدی کوشش ہے جو استدلالی روایت کی بازیافت پر کمر کستے ہوئے تجزیے کی خاطر کُل کو اجزاء میں تقسیم بھی کرتی ہے اور اجزاء کو واپس کُل میں ڈھالنے کی پیچیدگیوں سے تھک کر کارتیزی جزئیت کے آگے ہتھیار بھی نہیں ڈالتی ۔اگر بشریاتی تناظر میں ثقافت و استناد کے کسی نظریاتی کُل کو میاں انعام الرحمٰن کا پیش قیاسی بدیہی مسلمہ مان لیا جائے تو اس تھیوری کی جانچ پڑتال کے لیے ان کا ’فیلڈ ورک‘ ہجرتِ رسولﷺ کا میدان اور اولین نبوی معاشرے کی نفسیات میں عزم و مزاحمت کے رجحانات ہیں۔
یہ سمجھوتہ ضرور ہے کہ پابندیٔ اختصار اور اسلوبی تقاضوں کے باعث ’’سفرِجمال‘‘ کا یکسر تازہ منہجِ تحقیق بدقسمتی سے پس منظر میں رہتا ہے لیکن بہت سے تازہ سوالات ضرور سامنے آتے ہیں۔شوقین محقق قاری کے لیے سیرتِ طیبہ سے متعلق یہ نئے سوالات پیاس کا شدید احساس ابھارتے ہیں۔غارحرا میں نفسی ہجرت، صبر، عزم و استقلال اور پھر اس عزم کےشخصی اظہار کا ماضی کے جانب سفر کرتے ہوئے آدمؑ کے گم گشتہ عزم کی بازیافت بن جانا، مستقبل میں آگے کو بڑھتے ہوئے ابدیت تک نفسی ترغیبات کے خلاف ڈٹ جانے کی یہ مکمل تصویر ایک ایسا اساطیری منظرنامہ ہےجو سیرتِ طیبہ اور روایتی مطالعۂ اسلام میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔اگر میاں انعام الرحمٰن کے منہجِ تحقیق کو مزید توسیع دی جائے تو ہجرت ہی کی طرح دوسرے چھوٹے چھوٹے موضوعات کو بشریاتی فیلڈورک کے طور پر تحقیقی مفروضوں کی جانچ پڑتال اور ردّ وقبول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
’’سفرِ جمال‘‘ سے واپس لوٹ کر ہمیں یہ نئے سوالات اٹھانے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا روایتی مسلم ذہن کو مطالعۂ اسلام کے دوران مذہبی اساطیر کی واقعاتی حیثیت پر غیرضروری حساسیت ترک نہیں کر دینی چاہیے؟ الہامی متون پر واقعاتی تناظر میں اس حساس لغویت پسندی کے باعث مطالعۂ اسلام کا کوئی بھی قاری سفر کے اولین پڑاؤ ہی سے واقعے اور قدر کی ایک ایسی دوئی میں پھنس جاتا ہے جہاں واقعے کی اساطیری حیثیت دم توڑ دیتی ہے۔لیکن میاں انعام الرحمٰن کے ہاں ہمیں متونِ اسلام میں ماقبل تاریخی واقعات کی اساطیری حیثیت پر یہ سادہ لوح زمانی و مکانی سمجھوتہ نہیں ملتا۔ معلوم و معروف تاریخ میں ہجرتِ نبوی ﷺ ہو یا ماقبل تاریخ میں پیش آیاواقعۂ آدم و ابلیس، موسیٰ علیہ السلام کی بھول چوک کو جنم دیتی نفسیاتی بے خبری ہو یا ہجرت کے مسئلے پر ایک جری طبیعت کے دیہاتی کا رسول اکرمﷺ سے سخت سوال، ہمیں ہرہر موقع پر الہامی متون سے استدلالی روایت کے استخراج کے ساتھ ساتھ اساطیری استعارے کی یاددہانی بھی ملتی ہے۔ذہن کا یہی شعری منطقہ، الہامی متون اور اخباروآثار کی قرأت کا یہی نفسیاتی پہلو بدلنے سے کسی بھی محقق قاری کے سامنے اطلاقی امکانات کا ایک لامحدود میدان کھل جاتا ہے۔
مذہبی بشریات کے تحقیقی سیاق وسباق میں میاں انعام الرحمٰن کی ندرتِ فکر اور جہانِ خیال کی وسعت کا اندازہ اس دو چارصفحات کے نہایت مختصر مضمون سے کیا جا سکتا ہے جو ’’ بعثتِ نبوی ﷺ کے عصری مکاشفے‘‘ کے عنوان سے ’’سفرِ جمال‘‘ کا اختتامی باب ہے۔یہاں ہمیں زرعی دور اور ریگستانی ثقافت میں بعثتِ نبوی ﷺ کا واقعہ ، پدرسری خاندانی نظام، زمین سے وابستگی اور آسمان سے شکستگی جیسے وہ بشریاتی اشارے ملتے ہیں جو اپنی گرہیں کھولے جانے کے لیے ایک مستقل مضمون کے محتاج ہیں۔اپنے طے شدہ اسلوب سے وفادار رہتے ہوئے میاں انعام الرحمٰن یہاں بھی اپنے سوچے سمجھے نتائج پر اصرار نہیں کرتے بلکہ کسی منجھے ہوئے محقق کی طرح ان کا موضوع مزید بحث اور مکالمے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے مفروضوں کو عیاں کرنا ہے تاکہ قاری انہیں آسانی سے ردّو قبول کر سکے۔ میاں انعام الرحمٰن کے اشاروں سے تحریک پاتے ہوئے اگر ہم ان کے مفروضوں سے کلّی اتفاق کریں تو سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ان اشاروں کے نتیجے میں مشرق و مغرب اور مغربی جدیدیت بالمقابل دانشِ قدیم کی جاری بحث کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت تو نہیں؟ آخر بشریاتی کینوس پر اس عظیم الشان واقعے کی کیا اہمیت ہے کہ ابراہیمی مذاہب کا آغاز اور اختتام ہی لیونت یعنی مشرقی بحیرۂ روم کے علاقوں میں ہوا؟12 دوسری طرف اگر ہم فاضل مصنف کے اطلاقی نتائج سے ذرا اختلاف کریں تو برصغیر پاک و ہند کو عصری معاشرت نہیں بلکہ بعثتِ رسول ﷺ کے زمانے کے ہندچینی فلسفۂ الٰہیات و بشریات کے تناظر میں دیکھنا غالباً زیادہ معقول ہو گا۔دراصل مشرقِ بعید اور ہندچینی ثقافتوں میں تو مکتوبہ اعتقادات پر مکمل اطاعت شعاری کے ساتھ ایمان لانے کے نفسیاتی رجحانات نہیں تھے، نہ ہی یہ اطاعت شعاری نیکی اور فسق کی کسوٹی تھی۔ہماری آج کی بحث کے تناظر میں وہاں کا فطری مذہب کلچر میں زیادہ گندھا ہوا تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اسی سے پھوٹتا تھا۔ان حالات میں انسانی ’سائیکی‘ کس حد تک ان ’جدید‘ مذاہب کے نظام ہائے اعتقادات کو قبولیت بخش سکتی تھی جن کا ظہور اس زمانے میں مشرقِ قریب کی جدید تہذیبوں سے ہوا؟13 کیا یہ جدیدیت سے اسی قسم کاذہنی و نفسیاتی بُعد نہیں جو آج خود کو روایتی کہنے والا مسلم ذہن محسوس کرتا ہے؟ بحث کا ایک علیحدہ اور مستقل میدان یہ بھی ہے کہ روایت کی عصری تعریف کیا ہے اور زمانی و مکانی عوامل کے ساتھ جدیدیت کا نفوذ کیا کوئی ایسی قلبِ ماہیت ہے جس کا ٹھوس احساس بھی ممکن ہو؟
’’سفرِ جمال‘‘ کی بشریاتی خاکہ بندی کا آخری اہم مشاہدہ پانی ہے۔میاں انعام الرحمٰن نے اس جانب چند اختتامی الفاظ میں آب زم زم کی اساطیری حیثیت اور ریگستانی معاشرت کی جانب اشا رے کیے ہیں۔ یہ دونوں اشارے کم از کم اس زاویے سے اہم ترین ہیں کہ مطالعۂ اسلام کے روایتی اہلِ علم شاید تاحال اس موضوع کی خاطرخواہ اہمیت کا اندازہ نہیں کر سکے14۔ پانی کی کمی کا یہ بظاہر سادہ سا نکتہ اپنی توسیع کے ساتھ بڑھتی ہوئی بین الاقوامی ماحولیاتی حساسیت سے جڑا ہوا ہے۔ مذہبی تناظر میں توحیدپرست مذاہب پر ساٹھ ہی کی دہائی سے یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار ہونے کے باعث وہ اس قدیم فسوں کاری میں خاتمے کا باعث بنے ہیں جہاں انسان نہ صرف خود کو بلکہ حقیقتِ مطلق کو بھی کائنات کا اٹوٹ انگ مانتا تھا۔اس تنقید کے مطابق توحیدپرست مذاہب نے شخصی خدا کے تصور کے بعد اس اساطیری سحر کو توڑ دیا جو زندگی، موت ، جنم ، کفن دفن، زرخیزی ، قحط اور دوسرے ان گنت مظاہر فطرت کو سری کیفیت عطا کرتا تھا۔ عرشِ معلیٰ پر موجود شخصی خدا کے تصور نے ایک طرف تو اس ہمہ اوستی پر تنقید کی اور دوسری طرف علت و معلول کے ایک پیچیدہ دائروی نظام کو خطی نظام سے تبدیل کر دیا۔ یہ ایک ایسا خالص مذہبی تناظر ہے جس میں انسان اور ماحول کے درمیان ایک لازمی دوئی کے باعث وہ عدم حساسیت پیدا ہوتی ہے جس کا سنگین انجام یہ عقیدہ ہےکہ زمینی وسائل کی شناخت ایک زندہ وجاوید حقیقت نہیں بلکہ انسانی استعمال کے لیے پیدا شدہ ایک نظام کی ہے15۔ یہاں توحید پرست مذاہب دراصل سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر کچھ مخصوص حدودوقیود کی رعایت کے ساتھ سرمائے کی بڑھوتری اور انسانی ترقی کے ایک مخصوص نظریے کی مذہبی تخلیقِ نو کرتے رہتے ہیں16۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تناظر میں قارئین کو فاضل مصنف کے مفروضوں سے لے کر نتائج تک کے سفرِ پر ازسرِ نو ایک تفصیلی تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے دیے گئے اشارے سے ایک مضبوط اور قابلِ اطلاق تھیوری سامنے آ سکے۔ہماری رائے میں کسی بھی مذہبی روایت کو بشریاتی سیاق و سباق میں پرکھتے ہوئے عملی رجحانات اور اعتقادات کے درمیان موجود نادیدہ کڑی کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ ہیں۔یہ وہی نکتہ ہےجس کا ذکر ہم اسلام بطور ایک نظری موضوع اور اسلام بطور ایک مجموعۂ عقائدواعمال و رجحانات کی ایسی دوئی کے طور پر کر آئے ہیں جس پر حالیہ بشریاتی تناظر میں کئی سوالیہ نشانات ہیں۔یہاں مسلم معاشروں کا مکمل فکری و عملی کونیاتی کینوس تخلیق کرتے لاشعوری مال مسالے کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے جو کسی بھی سماج کو تاریخ کے کسی خاص موڑ پر بدیہی مفروضے یا ایسی اولین سچائیاں بہم پہنچاتا ہے جن کے لیے استدلال کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔
امید ہے کہ فاضل مصنف اس بابرکت علمی منصوبے کو جاری رکھیں گے اور ہمیں ان کی جانب سے قلب و ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی مزید تخلیقات میسر آئیں گی جن کی مسلم معاشروں کو اشد ضرورت ہے۔