بجھا چراغِ دیارِ دل ہے، ہوئی ہے ویران بزمِ ہستی
اجل نے چھینا ہے وہ ستارہ، جو میری رونق تھا کہکشاں تھا
گرا ہے وہ شجر جس کے سائے میں، زندگی پُر سکوں بڑی تھی
وہ محرمِ رازِ دل تھا میرا، وہ شفقتوں کا بھی سائباں تھا
تھی کتنی پُرکیف زندگانی، تمہارے ہونے سے اے مسیحا
تو میری دنیا تو میری جنت، تو میرا دل تھا تو میری جاں تھا
ہیں گھولتی رس میری سماعت میں، آج تک بولیاں اسی کی
وہ مسکراتا تھا بزم میں جب، تو مسکراتا پھر اک جہاں تھا
خدا کی اس پر نوازشیں تھیں، محبتیں تھیں، عنایتیں تھیں
وہ باوفا تھا وہ باصفا تھا، وہ علم و حکمت کا آسماں تھا
کسی بھی جانب جو حال آیا، تو ڈھال بن کر کھڑا ہوا تھا
زمانے بھر کی مصیبتوں سے، ہر ایک آفت سے وہ اماں تھا
ہرا بھرا چھوڑ کر جو گلشن، گیا ہے راہِ عدن پہ وہ جو
خدا میری ماں کو صبر دے دے کہ اس کا وہ خاص مہرباں تھا
اولاد ساری سے پیار اس کا، مجھے فخر کہ میں مان اس کا
بنا کے فرزند مجھ کو رکھا، وہ میری خوشیوں کا راز داں تھا
خدا تیری لحد کو سجائے، نورِ ایماں کی روشنی سے
باغِ نبوی کا خوشہ چیں تو، علومِ قرآن کا ترجماں تھا
محبتوں کی لڑی میں جس نے، پرو کے رکھا سبھی کو احساں
وہ چہرۂ خاندانِ صفدر، جو سارے رشتوں کا پاسباں تھا
(۲۲ اگست ۲۰۲۵ء)