تایاجان علیہ الرحمہ، ایک گوہر نایاب

مشہور رومی فلاسفر سینیکا کا قول ہے: Death is a part of life, just as much as birth is. We move towards it as we move towards sunset (موت زندگی کا ایک حصہ ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پیدائش ہے۔ ہم اس کی طرف بڑھتے ہیں جیسے سورج غروب کی طرف بڑھتا ہے) 

بے شک موت سے کسی کو فرار ممکن نہیں۔ ہر ایک نفس نے بالآخر اس فانی دنیا سے کوچ کر کے دار البقا کی طرف جانا ہے "کل نفس ذائقۃ الموت"، یہ دنیا ایک سرائے ہے اور موت اس کا دروازہ۔ موت نہ بادشاہ کو بخشتی ہے نہ فقیر کو، نہ امیر کو اور نہ ہی غریب کو۔ البتہ خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو علم کے چراغ کو روشن کر کے جاتے ہیں اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ 

میرے تایا جان، شیخ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارن صاحبؒ انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے، جو رہتی دنیا تک علم و عمل کی روشنی پھیلا کر گئے۔ آپ علم و فہم کا خزانہ، سنتِ رسول ﷺ کے عملی پیکر اور سادہ طرزِ حیات کے آئینہ دار تھے۔ اللہ رب العزت نے انہیں دینی و علمی خدمات کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ذہانت، علم، جرأت اور غیرت میں آپ اپنے والدِ محترم (دادا جان) شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی عملی تصویر تھے۔ بقول شاعر ؎

دانشِ مرد بہ زِ گنجِ زر است
علم، چراغِ روانِ بشر است
(آدمی کا علم سونے کے خزانوں سے بہتر ہے، کیونکہ علم انسان کی روح کا چراغ ہے۔)

وہ محدث تھے، مگر صرف کتب کے صفحات تک محدود نہ تھے۔ ان کی گفتگو میں سنت کی خوشبو تھی، ان کی مجلس میں حدیث کا نور جھلکتا تھا، اور ان کی ذات سے محبتِ رسول ﷺ کا رنگ ٹپکتا تھا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: "علماء وہ ہیں جو دنیا سے زیادہ آخرت کو پہچانتے ہیں۔" یقیناً میرے تایا ابو اس قول کی عملی تصویر تھے۔ ان کی زندگی عبادت، تقویٰ اور تعلیمِ دین کے لیے وقف رہی۔

سوانح

آپ ۵ اپریل ۱۹۵۲ء کو گکھڑ میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ تجوید القرآن، گکھڑ سے قرآن مجید حفظ کیا۔ جامعہ نصرت العلوم، گوجرانوالہ سے درس نظامی کیا۔ ۱۹۷۵ء سے تادمِ وفات جامعہ نصرت العلوم میں مدرس و استاد الحدیث کے مرتبے پر فائز رہے۔ تقریباً ۵۰ سال جامع مسجد نور میں امامت کی خدمات انجام دیں۔ کئی سال جامع مسجد تقویٰ پیپلز کالونی میں خطابت کرتے رہے۔ ۳۵ سال درسِ قرآن دیا۔ ۵۶ سال تراویح میں مکمل قرآنِ مجید سنایا اور اکثر رمضان المبارک کی ساعتیں اعتکاف میں گزارنے کی سعادت حاصل تھی۔ گویا تمام عمر اشاعتِ دین اور علومِ دینیہ کی تدریس میں گزری۔

تصنیفی خدمات

آپ نے کئی قیمتی علمی و تحقیقی کتب تصنیف کیں، جیسے: • آفتابِ تحقیق کی تحقیقی کرنوں کا انکار (ایک غیر مقلدانہ جسارت) • الدروس الواضحہ فی شرح الکافیہ • بخاری شریف غیر مقلدین کی نظر میں • غیر مقلدین کے متضاد فتوے • علمِ متشابہات خاصۂ خداوندی • انکشافِ حقیقت • اظہار الغرور فی کتاب آئینۂ تسکین الصدور • خزائن السنن • مجذوبانہ واویلا • مولانا ارشاد الحق اثری کے علمی جائزہ کا تحقیقی جائزہ • مروجہ قضاءِ عمری بدعت ہے • نمازِ جنازہ کا بہتر طریقہ • تانیب الخطیب (تالیف علامہ زاہد الکوثریؒ) کا اردو ترجمہ، بعنوان: ابو حنیفہؒ کا عادلانہ دفاع • تصویر بڑی صاف ہے سبھی جان گئے، بجواب آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے • تین طلاقوں کے مسئلہ پر غیر مقلد عالم کے مقالے کا مدلل جواب • وضوء کا مسنون طریقہ

اخلاق و اوصاف

اللہ رب العزت نے انہیں ذہانت، علم، سادگی، حلم، تواضع اور مہمان نوازی جیسی اعلیٰ صفات سے نوازا۔ آپ ہمیشہ سادہ لباس زیب تن کرتے، مصنوعی شان و شوکت اور نمود و نمائش سے دور رہتے۔ سادہ سا کرتہ شلوار پہنتے اور کاندھے پر رومال لازمی جزو تھا۔ یوں تو مزاج ہر وقت نرم ہوتا مگر دین کے معاملہ میں سخت تھا۔ زندگی میں کبھی تصویر نہ کھینچوائی۔ اگر کوئی کھینچنے کی کوشش کرتا تو فوراً ٹوک دیتے کہ: "میری جانب سے ہرگز اجازت نہیں۔"

کبھی انہیں غیبت کرتے نہ دیکھا، اگر کوئی ان کے سامنے غیبت کر بھی رہا ہوتا تو گفتگو میں حصہ نہ لیتے، خاموش رہتے۔ اس کے باوجود خوش مزاجی کا یہ عالم تھا کہ زائرین، شاگردوں اور ساتھیوں کا ہجوم ہمیشہ آپ کے گرد رہتا۔ آپ کا دسترخوان ہمیشہ مہمانوں کے لیے سجا رہتا۔ کوئی اچانک بھی آجاتا تو اسے ضیافت کے بغیر واپس نہ جانے دیتے۔ مہمان نوازی کی خوبی انہیں دادا جانؒ سے ورثہ میں ملی تھی۔ مہمان نوازی مومن کی پہچان، علماء کی شان اور سنتِ ابراہیمی ہے۔ تایا جان اس فرمانِ نبویؐ کے بہترین مصداق تھے: "من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ" (جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے)۔ صلہ رحمی اور ایثار کے پیکر تھے۔ خاندان یا عزیز و اقارب میں کسی کی بیماری یا خوشی و غمی کی خبر ملتی تو فوراً پہنچ جاتے۔ باوجود علالت کے، تا عمرِ آخر یہی معمول رہا۔

بچوں کی تعلیمی کامیابیوں پر نہایت مسرت کا اظہار کرتے۔ یوں تو سب بھتیجوں و بھتیجیوں، بھانجوں اور بھانجیوں کے ساتھ شفقت فرماتے لیکن ناچیز کے ساتھ خصوصی محبت والا معاملہ تھا۔ عصری تعلیم کے نتائج ہوں یا وفاق المدارس کے امتحانات، فوراً حاضر ہوتے اور سب سے پہلا سوال یہی کرتے: "ہاں بھئی، بتاؤ دونوں بہن بھائیوں نے کتنے نمبر لیے؟" پھر پیار بھری تھپکی دیتے اور انعام عطا کرتے۔ بھائی شکوہ کرتا، آپ اسے کیوں ہمیشہ زیادہ انعام دیتے ہیں تو مسکرا کر کہتے: "بھئی، اس کے نمبر بھی تو زیادہ ہیں نا!" دراصل ان کا یہ خاص برتاؤ اپنی بھتیجی کے ساتھ قلبی وابستگی کا ایک حسین انداز تھا۔ ہمیشہ تاکید کرتے: "میری بیٹی کو نئے درجے کی کسی کتاب کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔" اکثر بغیر کہے تفاسیر کے سیٹ بھیج دیتے۔ ہر ملاقات پر شکوہ کرتے: "تم آتی نہیں نہ مجھ سے ملنے؟ زیادہ مصروف ہو جاتی ہو۔ دیکھو، میں خود آ گیا ہوں اپنی بیٹی سے ملنے۔"

ایک یاد بہت نمایاں ہے: جب بڑے بھائی ارسلان نے قرآنِ مجید مکمل کیا، آپ سعودیہ عرب میں ہمارے ساتھ تھے۔ آخری سبق مسجدِ حرام میں سنایا۔ اس دن آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ فرمانے لگے: "آج کی دعوت میری طرف سے!" والدِ محترم (شیخ الحدیث مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد صاحب) نے انکار کیا اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں، مگر آپ بضد رہے: "مجھے اپنے بھتیجے کی خوشی منانے دو!"

اے شمعِ وفا! تیرے پروانے ہزاروں ہیں!
اک میں ہی نہیں تنہا، دیوانے ہزاروں ہیں!

خاندان کی سب سے بڑی رونق آپ کے گھر میں ہوا کرتی تھی۔ جب بھی جاتے تو ہلہ گلہ، پوتے پوتیوں کی چہکاریں اور مسکراہٹیں گونج رہی ہوتیں۔ وجہ یہی تھی کہ آپ نے خاندان کو نہایت خوش اسلوبی سے جوڑ رکھا تھا۔ اکثر فرماتے: "اللہ نے مجھے صرف بیٹے عطا فرمائے ہیں، لیکن کیا ہوا، یہ میری بہوئیں ہی میری بیٹیاں ہیں۔"

آپ کی حسِ مزاح بھی لاجواب تھی۔ ہر وقت تائی جان اور گھر والوں کے ساتھ خوش طبعی سے ماحول کو شاداب رکھتے۔ پوتے پوتیاں ہر دم آپ کے گرد جمع رہتے، تحمل مزاجی کا یہ عالم تھا کہ بچوں کے شور، شرابے اور چہکاروں سے کبھی تنگ نہ ہوتے۔ اور اگر کبھی بچے گھر میں موجود نہ ہوتے تو فوراً پوچھتے: "بھئی، اتنی خاموشی کیوں ہے؟ کہاں ہیں میرے گھر کی رونقیں؟"

میں ماضی کے صفحات پلٹوں تو یادوں کے کئی باب سامنے آتے ہیں، جو خوشبو کی مانند دل کو معطر کر دیتے ہیں۔ ان تمام یادوں کو صفحہ قرطاس پر لانا ممکن نہیں ہے۔ یہی یادیں دراصل اس بات کا اعلان ہیں کہ آپ نے زندگی ہمیشہ سربلندی اور حق گوئی کے ساتھ گزاری۔ آپ سعادت و حمیت کی زندگی جئیے۔ ہمیشہ باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔ اہل باطل کو منہ توڑ جواب دیا کبھی قلم سے، کبھی زبانی للکار سے۔ آپ دلائل و تحقیق کی روشنی میں مخالفین کی جہالت بے نقاب کرتے رہے۔ آپ کے جانے سے فیض علم کا ایک بہت بڑا باب بند ہوگیا۔

سانحہ ارتحال

آپ کا اس دنیا سے جانا ایک بہت بڑا سانحہ اور لواحقین کے لیے نہایت بھاری ہے۔ اور بے شک ایک عالم کی موت ایک پوری دنیا کی موت کے مترادف ہے "مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَم"۔ ایک عالم کے جانے سے جو علمی نقصان اور خلا پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی چیز پر نہیں کر سکتی۔ آپ کی باکمال زندگی کی طرح، آپ کی موت بھی باکمال تھی۔ جمعہ کے مبارک دن، عین جمعہ کی برکت والی گھڑیوں میں، غسل کے بعد آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونا آپ کی خوش بختی اور رب کریم کی عنایتوں کی واضح علامت تھی۔ سنن ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ، او لیلۃ الجمعۃ، الا وقاہ اللہ فتنۃ القبر۔
یعنی: جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو جائے، اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنے (عذابِ قبر) سے محفوظ رکھتا ہے۔ (جامع ترمذی، حدیث: ۱۰۷۴)

آپ کی آخری منزل تک آپ کو رخصت کرنے کے لیے علماء کرام، تلامذہ، عزیز و اقارب، بڑے چھوٹے، ہر شخص کا جم غفیر جمع ہونا اس بات کی روشن علامت ہے کہ زمانہ ایک گوہر نایاب سے محروم ہو گیا۔ ہر چہرہ، ہر آنکھ، ہر دل اس فقدان کے غم میں شریک تھا۔

مضی احبتنا وفؤادی یتبعہم
وما بقیت سوی ذکری لہم فی دمی
(ہمارے پیارے گزر گئے اور میرا دل ان کے ساتھ چل پڑا، میرے اندر اب بس ان کی یادیں ہی خون میں رواں ہیں۔)

آہ، خاندانِ صفدریہ کی کڑیاں ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی ہیں۔ یہ سانحہ قیامت سے کم نہیں، بطور خاص تائی جان کے لیے۔ اللہ پاک سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کی آل اولاد کو آپ کے دینی اور علمی مشن کو احسن طریقہ سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔ آمین یا رب العالمین۔


(اشاعت بیاد مولانا عبد القدوس خان قارنؒ)

اشاعت بیاد مولانا عبد القدوس خان قارنؒ

برادرِ عزیز مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا قارن صاحبؒ کے انتقال کی دل فگار خبر
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

’’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،       ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

ابتدائی اطلاعات اور مختصر تعزیتی پیغامات
مولانا عبد الوکیل خان مغیرہ

والد محترم رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال
حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ صفدری و برادران

اللہ والوں کے جنازے اور وقت کی پابندی
مولانا مفتی ابو محمد

نمازِ جنازہ میں کثیر تعداد کی شرکت
حافظ عبد الجبار

سانحۂ ارتحال کی خبریں اور بیانات
حافظ عبد الرشید خان سالم

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا اظہارِ تعزیت
مولانا عبد الرؤف محمدی

اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے
مولانا فضل الرحمٰن

جیسے آپ کا دل دُکھا ہے، ہمارا دل بھی دُکھا ہے
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی

حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے متبعِ کامل
 مولانا میاں محمد اجمل قادری

اللہ تعالیٰ ان کی خدماتِ دینیہ کو قبول فرمائے
مولانا محمد الیاس گھمن

زاہدان، ایران سے تعزیت
مولانا غلام اللہ

علمائے کرام کے پیغامات بسلسلۂ تعزیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

جامعہ فتحیہ لاہور میں دعائے مغفرت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

استاذ العلماء حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری

اسلاف کی جیتی جاگتی عملی تصویر تھے
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

اعزيكم واهله بهٰذا المصاب
مولانا مفتی محمد قاسم القاسمی

اسلاف کی عظیم روایات کے امین تھے
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

حق تعالیٰ شانہ صبرِ جمیل کی نعمت سے سرفراز فرمائیں
حضرت مولانا اللہ وسایا

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یادگار تھے
مولانا محمد الیاس گھمن

تنظیمِ اسلامی کی جانب سے تعزیت
اظہر بختیار خلجی

جامعہ محمدی شریف چنیوٹ کی تعزیتی قرارداد
مولانا محمد قمر الحق

مجلسِ انوری پاکستان کی تعزیتی پیغام
    مولانا محمد راشد انوری

جامعہ حقانیہ سرگودھا کی جانب سے تعزیت
حضرت مولانا عبد القدوس ترمذی

علمی و دینی حلقوں کا عظیم نقصان
وفاق المدارس العربیہ پاکستان

تعزیت نامہ از طرف خانقاہ نقشبندیہ حسینیہ نتھیال شریف
مولانا پیر سید حسین احمد شاہ نتھیالوی

جامعہ اشاعت الاسلام اور جامعہ عبد اللہ ابن عباس مانسہرہ کی طرف سے تعزیت
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی

تحریک تنظیم اہلِ سنت پاکستان کا مکتوبِ تعزیت
صاحبزادہ محمد عمر فاروق تونسوی

جامعہ فاروقیہ شجاع آباد ملتان کی طرف سے تعزیت
مولانا زبیر احمد صدیقی

اللہ تعالیٰ علمی، دینی اور سماجی خدمات کو قبول فرمائے
متحدہ علمائے برطانیہ

پاکستان شریعت کونسل کے تعزیت نامے
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
پروفیسر حافظ منیر احمد

علمائے دیوبند کے علم و عمل کے وارث تھے
نقیب ملت پاکستان نیوز

سرکردہ شخصیات کی تشریف آوری اور پیغامات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر و برادران

خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد کی جامعہ نصرۃ العلوم آمد
مولانا حافظ محمد حسن یوسف

وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کی جامعہ نصرۃ العلوم آمد
مولانا حافظ فضل اللہ راشدی

امیرتنظیمِ اسلامی پاکستان جناب شجاع الدین شیخ کی الشریعہ اکادمی آمد
مولانا محمد عامر حبیب

جامعہ نصرۃ العلوم میں تعزیت کیلئے شخصیات اور وفود کی آمد
حافظ علم الدین خان ابوہریرہ

الشریعہ اکادمی میں تعزیت کیلئے شخصیات اور وفود کی آمد
ادارہ الشریعہ

مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کا سفرِ آخرت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’تیرے بغیر رونقِ دل اور در کہاں‘‘
مولانا عبد الرحیم

ایک عابد زاہد محدث مربی و معلم کی مکمل تصویر
قاری سعید احمد

استاد جی حضرت قارنؒ کے تدریسی اوصاف
اکمل فاروق

حسین یادوں کے انمٹ نقوش
مولانا محمد عبد المنتقم سلہٹی

جامع الصفات اور منکسر المزاج عالمِ دین
مولانا محمد عبد اللہ عمر

وہ روایتِ کہنہ اور مسنون وضع قطع کے امین
مولانا محمد نوید ساجد

چراغ جو خود جلتا رہا اور دوسروں کو روشنی دیتا رہا
محمد اسامہ پسروری

استادِ گرامی حضرت قارنؒ صاحب کی یاد میں
پروفیسر غلام حیدر

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القدوس قارنؒ بھی چل بسے!
مولانا زبیر احمد صدیقی

حضرت استاد مکرم رحمہ اللّٰہ کا حاصلِ حیات ’’عبد‘‘ اور حسنِ خاتمہ کے اشارے
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

حضرت قارنؒ کی یادیں
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

مانسہرہ میں یوم آزادی اور حضرت قارنؒ کی تاریخی آمد
مولانا حافظ عبد الہادی المیدانی سواتی

آہ! سائبانِ شفقت ہم سے جدا ہوا ہے
قاری محمد ابوبکر صدیقی

مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کے ساتھ وابستہ یادیں
اسد اللہ خان پشاوری

مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ کے ہزارہ میں دو یادگار دن
مولانا قاری شجاع الدین

حضرت قارن صاحبؒ سے ملاقاتوں اور استفادے کی حسین یادیں
مولانا حافظ فضل اللہ راشدی

علمِ دین کا ایک سایہ دار درخت
مولانا میاں عبد اللطیف

آہ! استاذ قارن صاحبؒ
مفتی محمد اسلم یعقوب گجر

حضرت قارن رحمہ اللہ اور ڈاکٹر صاحبان کی تشخیص
حافظ اکبر سیالکوٹی

استاد محترم، ایک عہد کے ترجمان
مفتی شمس الدین ایڈووکیٹ

حضرت شیخ قارنؒ — امام اہلسنت نور اللہ مرقدہ کی تصویر
مولانا قاری عبد القدیر سواتی

تحریک ختمِ نبوت اور حضرت قارن رحمہ اللہ تعالیٰ
مولانا عبد اللہ انیس

حضرت مولانا عبد القدوس قارنؒ: چند یادیں
مولانا حافظ خرم شہزاد

محبت اور دلجوئی کرنے والے بزرگ
قاری محمد عثمان رمضان

ایک عہد کا اختتام
   حافظ حفظ الرحمٰن راجپوت

استاد عالی وقار
ڈاکٹر حافظ محمد رشید

چراغِ علم بجھ گیا
مولانا محمد عمر عثمانی

’’یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ‘‘
مولانا عبد الجبار سلفی

ایک بے مثال شخصیت
بلال مصطفیٰ ملک

مطمئن اور نورانی چہرہ
پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید مشرقی

حضرت قارنؒ اور مولانا فضل الہادی سواتی
عمار نفیس فاروقی

نعی وفاۃ الشیخ عبدالقدوس خان رحمہ اللہ تعالیٰ
مولانا ذکاء اللہ

آہ ایک اور علم و معرفت کا درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا
مولانا شفیق الرحمان شاکر ایبٹ آبادی

استاد محترم مولانا عبد القدوس قارنؒ بھی چلے گئے
محمد مقصود کشمیری

خاندانِ سواتی کا ایک درخشندہ ستارہ
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

ایک آفتابِ علم کا غروب
صاحبزادہ حافظ حامد خان

حضرت قارن صاحبؒ حضرت شیخ سرفرازؒ کی نظر میں
محمد سرور کشمیری

امت ایک مخلص عالم سے محروم ہو گئی
مفتی رشید احمد العلوی

ہزاروں طالبانِ علم کے مُفیض
یحیٰی علوی

آہ! ایک درخشاں ستارۂ علم و فضل
ڈاکٹر ناصر محمود

حضرت قارنؒ سے پہلی ملاقات
محمد بلال فاروقی

دینِ متین کا ایک اور روشن چراغ گل ہوگیا
محمد عمران حقانی

استاد جی حضرت قارنؒ اور ملکی قانون کی پابندی
 مولانا امداد اللہ طیب

حضرت قارن رحمہ اللہ کا پابندئ وقت کا ایک واقعہ
شہزادہ مبشر

حضرت قارنؒ اور قرآن کا ادب
قاری عبد الوحید مدنی

’’قارن‘‘ کی وجہِ تسمیہ
 مولانا حافظ فرمان الحق قادری

چراغِ علم کی رخصتی
مولانا محمد ادریس

استاد جی حضرت قارنؒ کے گہرے نقوش
مولانا محمد حنظلہ

دل بہت غمگین ہوا!
محمد فاروق احمد

حضرت قارن صاحبؒ کی وفات اور قرآن کا وعدہ
میاں محمد سعید

’’وہ چہرۂ خاندانِ صفدر، جو سارے رشتوں کا پاسباں تھا‘‘
احسان اللہ

’’دے کر وہ دینِ حق کی گواہی چلا گیا‘‘
لیاقت حسین فاروقی

’’مجلس کے شہسوار تھے استادِ محترمؒ‘‘
قاری محمد ابوبکر صدیقی

’’تیری محفلیں تھیں گلشنِ دیں کی خوشبوئیں‘‘
   حافظ حفظ الرحمٰن راجپوت

یہ ہیں متوکل علماء
قاضی محمد رویس خان ایوبی

میرے ماموں زاد حضرت قارنؒ کی پُر شفقت یادیں
سہیل امین

سانحۂ ارتحال برادرِ مکرم
مولانا محمد عرباض خان سواتی

’’گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا‘‘
امِ ریحان

’’وقار تھا اور سادگی تھی اور ان کی شخصیت میں نور تھا‘‘
ڈاکٹر سبیل رضوان

عمِ مکرمؒ کی شخصیت کے چند پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تایاجان علیہ الرحمہ، ایک گوہر نایاب
اُمیمہ عزیز الرحمٰن

"اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا"
حافظ عبد الرزاق خان واجد

والد گرامی حضرت قارنؒ کے ہمراہ مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کے جنازہ میں شرکت
حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ صفدری

’’اک ستارہ تھا وہ کہکشاں ہو گیا‘‘
اہلیہ حافظ علم الدین خان ابوہریرہ

’’کیا بیتی ہم پہ لوگو! کسے حال دل سنائیں؟‘‘
اہلیہ حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ

میرے پیارے پھوپھا جانؒ
محمد احمد عمر بٹ

دل جیتنے والے پھوپھا جانؒ
بنت محمد عمر بٹ

میرے دادا ابو کی یاد میں
حافظ حنظلہ عمر

شفقتوں کے امین
دختر مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

دادا جان ہماری تعلیم و تربیت کے نگہبان
دختر حافظ علم الدین ابوہریرہ

آہ! حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ
مولانا محمد فاروق شاہین

حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی نمازِ جنازہ و تعزیتی اجتماع
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

’’جوڑی ٹوٹ گئی‘‘
مولانا حافظ محمد حسن یوسف

مولانا عبد الحق بشیر اور مولانا زاہد الراشدی کے تاثرات
عمار نفیس فاروقی

الشریعہ اکادمی میں تعزیتی تقریب
مولانا محمد اسامہ قاسم

مدرسہ تعلیم القرآن میترانوالی کے زیر اہتمام مولانا عبدالقدوس قارنؒ سیمینار
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری
حافظ سعد جمیل

قارن کی یہ دعا ہے الٰہی قبول کر لے!
مولانا عبد القدوس خان قارن

فہرست تصنیفات حضرت مولانا حافظ عبدالقدوس خان قارنؒ
مولانا عبد الوکیل خان مغیرہ

منتخب تاثراتی تحریریں
مولانا حبیب القدوس خان معاویہ

افکار و نظریات حضرات شیخینؒ سیمینار سے خطاب
مولانا عبد القدوس خان قارن
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری

’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کے تقاضے
مولانا عبد القدوس خان قارن

بخاری ثانی کے اختتام کے موقع پر دعائیں
مولانا عبد القدوس خان قارن
  مولانا عمر شکیل خان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی کی تحریروں میں حضرت قارنؒ کا تذکرہ
ادارہ الشریعہ

مجلہ الشریعہ میں حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کا تذکرہ
مولانا حافظ کامران حیدر

فہرست اشاعت بیاد حضرت قارنؒ
ادارہ الشریعہ

پیش لفظ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عرضِ مرتب
ناصر الدین عامر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter