مشہور رومی فلاسفر سینیکا کا قول ہے: Death is a part of life, just as much as birth is. We move towards it as we move towards sunset (موت زندگی کا ایک حصہ ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پیدائش ہے۔ ہم اس کی طرف بڑھتے ہیں جیسے سورج غروب کی طرف بڑھتا ہے)
بے شک موت سے کسی کو فرار ممکن نہیں۔ ہر ایک نفس نے بالآخر اس فانی دنیا سے کوچ کر کے دار البقا کی طرف جانا ہے "کل نفس ذائقۃ الموت"، یہ دنیا ایک سرائے ہے اور موت اس کا دروازہ۔ موت نہ بادشاہ کو بخشتی ہے نہ فقیر کو، نہ امیر کو اور نہ ہی غریب کو۔ البتہ خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو علم کے چراغ کو روشن کر کے جاتے ہیں اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔
میرے تایا جان، شیخ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارن صاحبؒ انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے، جو رہتی دنیا تک علم و عمل کی روشنی پھیلا کر گئے۔ آپ علم و فہم کا خزانہ، سنتِ رسول ﷺ کے عملی پیکر اور سادہ طرزِ حیات کے آئینہ دار تھے۔ اللہ رب العزت نے انہیں دینی و علمی خدمات کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ذہانت، علم، جرأت اور غیرت میں آپ اپنے والدِ محترم (دادا جان) شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی عملی تصویر تھے۔ بقول شاعر ؎
دانشِ مرد بہ زِ گنجِ زر است
علم، چراغِ روانِ بشر است
(آدمی کا علم سونے کے خزانوں سے بہتر ہے، کیونکہ علم انسان کی روح کا چراغ ہے۔)
وہ محدث تھے، مگر صرف کتب کے صفحات تک محدود نہ تھے۔ ان کی گفتگو میں سنت کی خوشبو تھی، ان کی مجلس میں حدیث کا نور جھلکتا تھا، اور ان کی ذات سے محبتِ رسول ﷺ کا رنگ ٹپکتا تھا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: "علماء وہ ہیں جو دنیا سے زیادہ آخرت کو پہچانتے ہیں۔" یقیناً میرے تایا ابو اس قول کی عملی تصویر تھے۔ ان کی زندگی عبادت، تقویٰ اور تعلیمِ دین کے لیے وقف رہی۔
سوانح
آپ ۵ اپریل ۱۹۵۲ء کو گکھڑ میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ تجوید القرآن، گکھڑ سے قرآن مجید حفظ کیا۔ جامعہ نصرت العلوم، گوجرانوالہ سے درس نظامی کیا۔ ۱۹۷۵ء سے تادمِ وفات جامعہ نصرت العلوم میں مدرس و استاد الحدیث کے مرتبے پر فائز رہے۔ تقریباً ۵۰ سال جامع مسجد نور میں امامت کی خدمات انجام دیں۔ کئی سال جامع مسجد تقویٰ پیپلز کالونی میں خطابت کرتے رہے۔ ۳۵ سال درسِ قرآن دیا۔ ۵۶ سال تراویح میں مکمل قرآنِ مجید سنایا اور اکثر رمضان المبارک کی ساعتیں اعتکاف میں گزارنے کی سعادت حاصل تھی۔ گویا تمام عمر اشاعتِ دین اور علومِ دینیہ کی تدریس میں گزری۔
تصنیفی خدمات
آپ نے کئی قیمتی علمی و تحقیقی کتب تصنیف کیں، جیسے: • آفتابِ تحقیق کی تحقیقی کرنوں کا انکار (ایک غیر مقلدانہ جسارت) • الدروس الواضحہ فی شرح الکافیہ • بخاری شریف غیر مقلدین کی نظر میں • غیر مقلدین کے متضاد فتوے • علمِ متشابہات خاصۂ خداوندی • انکشافِ حقیقت • اظہار الغرور فی کتاب آئینۂ تسکین الصدور • خزائن السنن • مجذوبانہ واویلا • مولانا ارشاد الحق اثری کے علمی جائزہ کا تحقیقی جائزہ • مروجہ قضاءِ عمری بدعت ہے • نمازِ جنازہ کا بہتر طریقہ • تانیب الخطیب (تالیف علامہ زاہد الکوثریؒ) کا اردو ترجمہ، بعنوان: ابو حنیفہؒ کا عادلانہ دفاع • تصویر بڑی صاف ہے سبھی جان گئے، بجواب آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے • تین طلاقوں کے مسئلہ پر غیر مقلد عالم کے مقالے کا مدلل جواب • وضوء کا مسنون طریقہ
اخلاق و اوصاف
اللہ رب العزت نے انہیں ذہانت، علم، سادگی، حلم، تواضع اور مہمان نوازی جیسی اعلیٰ صفات سے نوازا۔ آپ ہمیشہ سادہ لباس زیب تن کرتے، مصنوعی شان و شوکت اور نمود و نمائش سے دور رہتے۔ سادہ سا کرتہ شلوار پہنتے اور کاندھے پر رومال لازمی جزو تھا۔ یوں تو مزاج ہر وقت نرم ہوتا مگر دین کے معاملہ میں سخت تھا۔ زندگی میں کبھی تصویر نہ کھینچوائی۔ اگر کوئی کھینچنے کی کوشش کرتا تو فوراً ٹوک دیتے کہ: "میری جانب سے ہرگز اجازت نہیں۔"
کبھی انہیں غیبت کرتے نہ دیکھا، اگر کوئی ان کے سامنے غیبت کر بھی رہا ہوتا تو گفتگو میں حصہ نہ لیتے، خاموش رہتے۔ اس کے باوجود خوش مزاجی کا یہ عالم تھا کہ زائرین، شاگردوں اور ساتھیوں کا ہجوم ہمیشہ آپ کے گرد رہتا۔ آپ کا دسترخوان ہمیشہ مہمانوں کے لیے سجا رہتا۔ کوئی اچانک بھی آجاتا تو اسے ضیافت کے بغیر واپس نہ جانے دیتے۔ مہمان نوازی کی خوبی انہیں دادا جانؒ سے ورثہ میں ملی تھی۔ مہمان نوازی مومن کی پہچان، علماء کی شان اور سنتِ ابراہیمی ہے۔ تایا جان اس فرمانِ نبویؐ کے بہترین مصداق تھے: "من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ" (جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے)۔ صلہ رحمی اور ایثار کے پیکر تھے۔ خاندان یا عزیز و اقارب میں کسی کی بیماری یا خوشی و غمی کی خبر ملتی تو فوراً پہنچ جاتے۔ باوجود علالت کے، تا عمرِ آخر یہی معمول رہا۔
بچوں کی تعلیمی کامیابیوں پر نہایت مسرت کا اظہار کرتے۔ یوں تو سب بھتیجوں و بھتیجیوں، بھانجوں اور بھانجیوں کے ساتھ شفقت فرماتے لیکن ناچیز کے ساتھ خصوصی محبت والا معاملہ تھا۔ عصری تعلیم کے نتائج ہوں یا وفاق المدارس کے امتحانات، فوراً حاضر ہوتے اور سب سے پہلا سوال یہی کرتے: "ہاں بھئی، بتاؤ دونوں بہن بھائیوں نے کتنے نمبر لیے؟" پھر پیار بھری تھپکی دیتے اور انعام عطا کرتے۔ بھائی شکوہ کرتا، آپ اسے کیوں ہمیشہ زیادہ انعام دیتے ہیں تو مسکرا کر کہتے: "بھئی، اس کے نمبر بھی تو زیادہ ہیں نا!" دراصل ان کا یہ خاص برتاؤ اپنی بھتیجی کے ساتھ قلبی وابستگی کا ایک حسین انداز تھا۔ ہمیشہ تاکید کرتے: "میری بیٹی کو نئے درجے کی کسی کتاب کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔" اکثر بغیر کہے تفاسیر کے سیٹ بھیج دیتے۔ ہر ملاقات پر شکوہ کرتے: "تم آتی نہیں نہ مجھ سے ملنے؟ زیادہ مصروف ہو جاتی ہو۔ دیکھو، میں خود آ گیا ہوں اپنی بیٹی سے ملنے۔"
ایک یاد بہت نمایاں ہے: جب بڑے بھائی ارسلان نے قرآنِ مجید مکمل کیا، آپ سعودیہ عرب میں ہمارے ساتھ تھے۔ آخری سبق مسجدِ حرام میں سنایا۔ اس دن آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ فرمانے لگے: "آج کی دعوت میری طرف سے!" والدِ محترم (شیخ الحدیث مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد صاحب) نے انکار کیا اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں، مگر آپ بضد رہے: "مجھے اپنے بھتیجے کی خوشی منانے دو!"
اے شمعِ وفا! تیرے پروانے ہزاروں ہیں!
اک میں ہی نہیں تنہا، دیوانے ہزاروں ہیں!
خاندان کی سب سے بڑی رونق آپ کے گھر میں ہوا کرتی تھی۔ جب بھی جاتے تو ہلہ گلہ، پوتے پوتیوں کی چہکاریں اور مسکراہٹیں گونج رہی ہوتیں۔ وجہ یہی تھی کہ آپ نے خاندان کو نہایت خوش اسلوبی سے جوڑ رکھا تھا۔ اکثر فرماتے: "اللہ نے مجھے صرف بیٹے عطا فرمائے ہیں، لیکن کیا ہوا، یہ میری بہوئیں ہی میری بیٹیاں ہیں۔"
آپ کی حسِ مزاح بھی لاجواب تھی۔ ہر وقت تائی جان اور گھر والوں کے ساتھ خوش طبعی سے ماحول کو شاداب رکھتے۔ پوتے پوتیاں ہر دم آپ کے گرد جمع رہتے، تحمل مزاجی کا یہ عالم تھا کہ بچوں کے شور، شرابے اور چہکاروں سے کبھی تنگ نہ ہوتے۔ اور اگر کبھی بچے گھر میں موجود نہ ہوتے تو فوراً پوچھتے: "بھئی، اتنی خاموشی کیوں ہے؟ کہاں ہیں میرے گھر کی رونقیں؟"
میں ماضی کے صفحات پلٹوں تو یادوں کے کئی باب سامنے آتے ہیں، جو خوشبو کی مانند دل کو معطر کر دیتے ہیں۔ ان تمام یادوں کو صفحہ قرطاس پر لانا ممکن نہیں ہے۔ یہی یادیں دراصل اس بات کا اعلان ہیں کہ آپ نے زندگی ہمیشہ سربلندی اور حق گوئی کے ساتھ گزاری۔ آپ سعادت و حمیت کی زندگی جئیے۔ ہمیشہ باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔ اہل باطل کو منہ توڑ جواب دیا کبھی قلم سے، کبھی زبانی للکار سے۔ آپ دلائل و تحقیق کی روشنی میں مخالفین کی جہالت بے نقاب کرتے رہے۔ آپ کے جانے سے فیض علم کا ایک بہت بڑا باب بند ہوگیا۔
سانحہ ارتحال
آپ کا اس دنیا سے جانا ایک بہت بڑا سانحہ اور لواحقین کے لیے نہایت بھاری ہے۔ اور بے شک ایک عالم کی موت ایک پوری دنیا کی موت کے مترادف ہے "مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَم"۔ ایک عالم کے جانے سے جو علمی نقصان اور خلا پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی چیز پر نہیں کر سکتی۔ آپ کی باکمال زندگی کی طرح، آپ کی موت بھی باکمال تھی۔ جمعہ کے مبارک دن، عین جمعہ کی برکت والی گھڑیوں میں، غسل کے بعد آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونا آپ کی خوش بختی اور رب کریم کی عنایتوں کی واضح علامت تھی۔ سنن ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ، او لیلۃ الجمعۃ، الا وقاہ اللہ فتنۃ القبر۔
یعنی: جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو جائے، اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنے (عذابِ قبر) سے محفوظ رکھتا ہے۔ (جامع ترمذی، حدیث: ۱۰۷۴)
آپ کی آخری منزل تک آپ کو رخصت کرنے کے لیے علماء کرام، تلامذہ، عزیز و اقارب، بڑے چھوٹے، ہر شخص کا جم غفیر جمع ہونا اس بات کی روشن علامت ہے کہ زمانہ ایک گوہر نایاب سے محروم ہو گیا۔ ہر چہرہ، ہر آنکھ، ہر دل اس فقدان کے غم میں شریک تھا۔
مضی احبتنا وفؤادی یتبعہم
وما بقیت سوی ذکری لہم فی دمی
(ہمارے پیارے گزر گئے اور میرا دل ان کے ساتھ چل پڑا، میرے اندر اب بس ان کی یادیں ہی خون میں رواں ہیں۔)
آہ، خاندانِ صفدریہ کی کڑیاں ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی ہیں۔ یہ سانحہ قیامت سے کم نہیں، بطور خاص تائی جان کے لیے۔ اللہ پاک سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کی آل اولاد کو آپ کے دینی اور علمی مشن کو احسن طریقہ سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔ آمین یا رب العالمین۔