مجھے میری پھوپھو جان نے بتایا کہ جب میں نے تمہارا نام خنساء رکھا تو پھوپھا جان کہتے کہ میری خواہش تھی کہ میری بیٹی ہوتی اس کا نام خنساء رکھتا۔ پھر اللہ کا کرنا پھوپھا جان کے گھر بیٹی بن کر آئی، جن کی تعریف محبت و شفقت کے گن میں ہمیشہ گاتی تھی، اتنی پر خلوص شخصیت، اتنی اعلیٰ تقویٰ و پرہیزگاری کہ اللہ کریم کا جتنا شکر کریں کم کہ ہمیں ان کی خدمت کا موقع ملا ان کے زیر سایہ ہماری تربیت ہوئی۔
ابو جان ہمیشہ ہمیں سلوک و اتفاق کا درس دیتے اور سب میں برابری کرتے۔ میرے بیٹے حسین احمد جو کہ فوت ہو چکا ہے اس کو مسجد میں لے کر جاتے اور ایک دفعہ خود اٹھا کر چیز لینے گئے حالانکہ ابو جان بچوں کو زیادہ باہر نہیں لے کر جاتے تھے۔ حسین احمد کو کہتے تھے یہ میرا شیر ہے ۔ بہت ہی کم عرصہ میں حسین احمد نے اپنے دادا جان سے بے انتہا پیار لیا اور اپنے دادا جان کے ہاتھوں میں 16 نومبر 2019ء بروز ہفتہ کو جان دے دی۔
تقریباً پانچ ماہ کے بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو پھوپھا جان کہتے کہ ’’حسین احمد کو تو میں نے گود میں اٹھانا تھا لیکن اس کے نانا نے اٹھا لیا‘‘۔ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد ابو جان نے میرے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
تین رمضان 2020ء کو میرے والد صاحب کی وفات کے بعد پہلی عید کے قریب مجھے بلایا کہ بیٹی خوشی کا موقع ہے عید قریب ہے۔ مطلب ابو جان اپنے الفاظ میں مجھے سمجھا رہے تھے کہ رسم و رواج میں نہ پڑنا سوگ کی کیفیت نہ رکھنا۔ شرعی معاملات ابو جان بڑے پیار سے احسن طریقے سے سمجھاتے تھے کہ کسی بات کا برا نہیں لگتا تھا۔
ابو جان نے پوچھنا کہ کسی چیز کی کمی ہے تو بتاؤ ہمیشہ ابو جان نے ہر خوشی غمی میں ساتھ دینا۔ ابو جان کے لیے ہمیشہ میں دعا کرتی کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا محتاج نہ کرے۔ میں اپنے حقیقی والد صاحب کی وفات پر اتنا درد اتنا صدمہ نہیں لیا جتنا ایک روحانی باپ کے جانے سے دل افسردہ آنکھیں پر نم۔ اتنی عظیم ہستی ہم سے جدا ہو گئی جس کے منہ سے ہم نے کبھی گلہ و شکوہ نہیں سنا۔
ابو جان کی وفات سے کچھ دن پہلے میرے شوہر مجھے کہتے میں انتہائی پریشان ہوں اللہ خیر فرمائے۔ بار بار امی جان اور ابو جان کی طرف دھیان جاتا تھا اتنی بے چینی میں نے دیکھی کئی راتیں کروٹیں بدلتے رہے نیند نہیں آتی تھی۔ راتوں کو تسبیح پڑھنا پھر نفل پڑھ کے دعا بھی کی اللہ خیر فرمائے، جو بہتر اللہ وہ کرے، اس طرح کی ہماری کیفیت تھی کہ دل پہ انتہا کا بوجھ محسوس ہوتا تھا آنکھیں اشک بار ہوئی۔ بس اللہ خیر والا معاملہ فرمائے کی دعا کرتی تھی۔
ان کی بہت سی کرامات کی میں عینی شاہد ہوں کہ ابو جان کا کبھی کوئی چیز کھانے کو دل کرنا تو اکثر ان کی خواہش پر اتفاقاً وہ چیز مل جانی کہیں سے آجانی۔ زبان سے لفظ نکلتے تھے وہ اکثر ہم نے پورے ہوتے دیکھے۔
لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ دردِ دل کی جو دوا ہے وہ میرے پھوپھا جان کا پرسکون چہرہ اور لاکھوں شاگرد علماء طلباء وغیرہ کا جنازہ میں شریک ہونا۔ وہ ان شاء اللہ کامیاب سرخرو دربارِ الٰہی میں پیش ہوئے ہے۔ بس دعائیہ کلمات جیسے کہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’اے باری تعالیٰ جب تیرے محبوب کی میں نے صرف تیرے لیے ستائش کی ہے۔ تو تو بھی روز قیامت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرنے والے کو محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بخش دے آمین۔‘‘
اتنے پر نور چہرہ کو اللہ کریم جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ ہمیں ان کی تربیت و اخلاق کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دے، آمین۔