حافظ محمد عمر فاروق بلال پوری: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الحسنات میڈیا کے پلیٹ فارم سے میں ہوں آپ کا میزبان محمد عمر فاروق بلال پوری۔ ناظرین، ہم ایک نشست یا پوڈ کاسٹ کرنے جا رہے ہیں، جس کا عنوان ہے ’’استاذ العلماء حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں‘‘۔ ناظرین، یہ نشست صرف ایک خراجِ عقیدت نہیں بلکہ ایک نسل کی تربیت، سادگی، اخلاص اور استقامت کا پیغام ہے۔ ہمارے ساتھ اس وقت تشریف فرما ہیں حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے برادرِ کبیر جانشینِ امامِ اہلِ سنتؒ، عظیم مذہبی سکالر حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب۔
استاذ جی، سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں کچھ فرمائیں۔
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ و بارک وسلم۔ مولانا عبد القدوس قارن صاحبؒ میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ میری ولادت سن ۱۹۴۸ء کی ہے، ان کی سن ۱۹۵۲ء کی ہے۔ گکھڑ میں ابتدائی تعلیم میں نے بھی اور انہوں نے بھی اپنی والدہ محترمہ سے آغاز کیا تھا۔ والدہ محترمہؒ اور والدِ محترمؒ دونوں سے۔ والدہ محترمہ، گھر میں ان کا ایک مدرسہ ہوتا تھا شام کو، پرانی روایات کے مطابق، جو آج بھی چل رہا ہے۔ ہمارے چھوٹے بھائی قاری راشد صاحب اس ماحول کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری دونوں والدہ محترمہ، ایک اپنی، ایک سوتیلی والدہ محترمہ تھیں، وہ والد صاحب کی چچا زاد، بعد میں نکاح ہوا تھا۔ دونوں پڑھاتی تھیں۔ اور اس مدرسے میں ترجمۂ قرآن پاک ہوتا تھا، بعض بچیوں نے حفظ بھی کیا قرآن پاک۔ ناظرہ بہت زیادہ بچیاں پڑھتی تھیں۔ بچے بچیاں آتے تھے۔ تو ہماری ابتدائی تعلیم جس کو ہم بنیادی تعلیم کہتے ہیں، قاعدہ، قرآن پاک ناظرہ، میں نے بھی اور قارن صاحبؒ نے بھی والدہ محترمہ سے اور والد محترم سے پڑھا۔
اس کے بعد گکھڑ کی جس مسجد میں والد صاحبؒ خطیب تھے، اب چھوٹے بھائی حماد صاحب وہاں خطیب ہیں، تو وہاں مدرسہ قائم ہوا حفظِ قرآن پاک کا۔ راہوالی کے سیٹھی محمد یوسف صاحب کا ذوق ہوتا تھا کہ وہ مختلف جگہوں پر خود جا کر ترغیب دے کر اور تعاون کر کے مدرسے بنواتے تھے۔ ہمارے ہاں مدرسہ قائم ہوا، حفظ، ناظرہ، حضرت مولانا قاری اعزاز الحق امروہی رحمۃ اللہ علیہ پہلے استاذ کے طور پر تشریف لائے۔ پھر ان کے بعد مختلف حضرات آتے رہے، ہمارے اور بھی اساتذہ ہیں، لیکن قاری محمد انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بڑے استاذ ہیں، جن سے میں نے بھی قرآن پاک یاد کیا، اور قارن صاحب نے بھی قرآن پاک یاد کیا۔ وہ گکھڑ میں طویل عرصہ پڑھاتے رہے۔ پھر وہ مدینہ منورہ چلے گئے۔ اور مدینہ منورہ میں کم و بیش تیس پینتیس سال انہوں نے مسجد نبوی میں حفظِ قرآن پاک کی تعلیم دی ہے۔ بڑے شفیق استاذ تھے، میں ان کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ اللہ رب العزت نے انہیں ہمارا شیلٹر بنا کر مسجد نبوی میں بٹھایا ہوا ہے۔ وہ ہمارے سروں کا سایہ ہیں، دعائیں فرماتے رہتے تھے۔
قارن صاحبؒ نے بھی ابتدائی تعلیم والدہ صاحبہ سے اور پھر قاری محمد انور صاحبؒ سے حاصل کی۔ اور سکول بھی انہوں نے پڑھا۔ میں سکول نہیں پڑھ سکا۔ میں چوتھی جماعت میں تھا جب وہ مدرسہ شروع ہوا حفظ کا، تو میں تو چوتھی جماعت سے اٹھایا ہوا یا بھاگا ہوا کہہ لیں، اس کے بعد آج تک کسی سکول میں پڑھنے کے لیے نہیں گیا۔ انہوں نے خیر میٹرک کیا، ہائی اسکول میں، اور ابتدائی تعلیم ان کی یہ تھی۔ پھر وہ نصرۃ العلوم میں آ گئے۔ درسِ نظامی میں نے بھی نصرۃ العلوم میں پڑھا ہے، اور قارن صاحبؒ نے بھی۔
حافظ بلال پوری: ابتداء سے لے کر آخر تک؟
مولانا راشدی: تقریباً درسِ نظامی سارا ہی۔ کچھ کتابیں پہلے والد صاحبؒ سے میں نے پڑھ لی تھیں۔ انہوں نے بھی شاید پڑھی ہوں گی۔ لیکن ابتدا سے آخر تک درسِ نظامی نصرۃ العلوم میں انہوں نے بھی پڑھا، میں نے بھی پڑھا۔ میرا ان کا چار سال کا فرق تھا تقریباً۔ اور ان کے ساتھیوں کا گروپ۔ میرا گروپ تو الگ تھا، کچھ ہم تھوڑا سینئر تھے۔ ان کا گروپ، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، مولانا عبد الہادی صاحب شیخوپورہ کے، مولانا قاری خبیب احمدؒ جو ہمارے بہنوئی بھی بنے بعد میں، جہلم والے۔ ان کا گروپ ہوتا تھا، مولانا عقیل صاحب تھے۔ تو یہ انہوں نے تعلیم حاصل کی۔
اور پھر تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں سن ۱۹۶۹ء میں فارغ ہوا تھا، تو حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مرکزی جامع مسجد کے خطیب، حضرت والد صاحبؒ کے استاذ تھے۔ تو وہ مجھے لے گئے وہاں۔ سن ۱۹۶۹ء سے وہیں بیٹھا ہوں الحمد للہ۔ اور قارن صاحبؒ جب فارغ ہوئے، میرا خیال ہے میرے سے تین چار سال بعد فارغ ہوئے تو چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ کے معاون کے طور پر مدرس بھی بنے اور مدرسے کی نظامت بھی سنبھالی اور ایک عرصہ گزارا۔ بڑے متحرک بڑے معاملہ فہم اور کنٹرولر قسم کے ساتھی تھے۔ ایک عرصہ چچا محترمؒ کے ساتھ بطور ناظم مدرسے کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اور مدرس تو وہ آخر دم تک تھے۔ اپنی وفات سے ایک دن پہلے بھی اسباق پڑھائے ہیں انہوں نے۔ اس کے ساتھ مسجد نور کے امام بھی تھے، وہ بھی تقریباً تیس پینتیس سال کا عرصہ بنتا ہے۔ اور آخری دن بھی فجر کی نماز پڑھائی ہے۔
بیمار تو کافی عرصہ سے تھے لیکن معمولات چل رہے تھے۔ ہمت والا آدمی تھا۔ یہ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے۔ کوشش کرتے تھے کام وقت پر ہو۔ اور سادہ طبیعت تھی۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔
حافظ بلال پوری: استاذ جی گھر کے ماحول میں حضرت قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دینی دلچسپی کس طرح پروان چڑھی؟
مولانا راشدی: گھر کا ماحول ہی تعلیمی تھا ہمارا۔ میں گھر کے مدرسے کے بارے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ شام کو عصر سے عشاء تک تقریباً ہمارے گھر میں تعلیمی ماحول ہی ہوتا تھا۔ محلے کے بچے بچیاں آتے تھے، کوئی ناظرہ پڑھ رہا ہے، کوئی حفظ کر رہا ہے، کوئی بہشتی زیور پڑھ رہا ہے، کوئی ترجمہ پڑھ رہا ہے، والدہ محترم دونوں پڑھایا کرتی تھیں۔ اور تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ ہمارے گھر میں پڑھنے والوں میں سابق صدرِ پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ صاحب بھی ہیں، سابق آئی جی پنجاب پولیس احمد نسیم صاحب بھی ہیں، پاک آرمی کے ایجوکیشن کور کے سربراہ تھے بریگیڈیر محمد علی چغتائی صاحب، وہ بھی ہیں۔ بڑے بڑے لوگوں نے تعلیم حاصل کی ہے والدہ محترمہ سے۔ قارن صاحبؒ نے بھی وہیں۔ ہمارا ماحول تھا ہی تعلیمی۔ اور اب بھی ہمارے گھر کا ماحول تعلیمی ہے۔ اللہ پاک جزائے خیر دے ہمارے سب سے چھوٹے بھائی قاری راشد صاحب کو، انہوں نے ماحول قائم رکھا ہوا ہے۔ وہ دن کو گھر ہوتا تھا ، شام کو مدرسہ بن جاتا تھا۔ اور اب تو وہ دن کو بھی مدرسہ ہی چلاتے ہیں وہاں الحمد للہ۔ تو یہ ہمارا تعلیمی ماحول ہے شروع سے۔
حافظ بلال پوری: استاذ جی، جامعہ نصرۃ العلوم میں حضرت قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کا دائرہ اور اثر کیا تھا؟
مولانا راشدی: وہ ایک عرصہ ناظم رہے ہیں اور مدرس بھی رہے ہیں۔ اور ناظم کے طور پر اور مدرس کے طور پر ایک کامیاب ناظم اور ایک کامیاب مدرس تھے۔ وہ نظم و نسق میں بھی بڑے مضبوط تھے، اور تعلیم میں بھی ان کے شاگرد ہزاروں ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں ہیں۔ انہوں نے ابتدا سے لے کر دورۂ حدیث تک تقریباً تمام درجوں کی کتابیں پڑھائی ہیں۔ بہت اچھے مدرس تھے۔ معقولات، منقولات دونوں پر دسترس تھی۔ اور طرز وہی جو ہمارے پرانے مدرسین کا ہوتا ہے، وہ حضرت والد صاحبؒ کے اور حضرت صوفی صاحبؒ کے طرز پر پڑھایا کرتے تھے اور ملک بھر میں ان کے بے شمار شاگرد ہیں، اور شاگردوں کے شاگرد بھی ہیں۔ اور الحمد للہ ایک کامیاب اور ایک محترم استاذ کے طور پر انہوں نے زندگی گزاری ہے۔
حافظ بلال پوری: حضرت قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کن تدریسی اسلوب اور اخلاقی انداز سے معروف تھے؟
مولانا راشدی: اخلاقی انداز سے تو حضرت والد صاحبؒ کے اثرات الحمد للہ، کہ گفتگو سلیقے سے کرنی ہے، اختلاف بھی دائرے میں کرنا ہے، اور ایک دوسرے کا احترام بھی۔ اور سادہ مزاج تھے، زیادہ تکلفات میں نہیں پڑتے تھے۔ مکان اپنا بنا لیا تھا لیکن ساری زندگی مسجد کے مکان میں، آخر میں جنازہ بھی وہیں سے اٹھا ہے۔ طبیعت میں، لباس میں، اٹھنے بیٹھنے میں سادگی تھی۔ ایک دوسرے کا احترام تھا۔ اور مہمان نواز تھے۔ مہمان نوازی میں ان کا کمال کہ جو بھی دوست کوئی ملتا تھا تو کوشش کرتے تھے کچھ نہ کچھ کھا کر جائے، کچھ نہ کچھ پی کر جائے۔ اور دوستوں کا حلقہ بھی بڑا وسیع تھا۔
مسلکی کاموں میں بھی شہر کے ساتھیوں کی دینی جماعتوں کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ جو کام بھی ہو، ختمِ نبوت کے محاذ پر، ناموسِ صحابہؓ کے محاذ پر، یا جو بھی جماعتیں کام کر رہی تھیں، خود آگے نہیں آتے تھے، لیکن سرپرستی سب کی کرتے تھے۔ معاونت بھی کرتے تھے، مشورہ بھی دیتے تھے، کہیں دیکھتے تھے ڈانٹنے کی ضرورت ہے تو ڈانٹ بھی دیتے تھے۔ یعنی بیک ڈور سرپرست تھے تمام تحریکات کے، دینی جماعتوں کے۔ لیکن خود سامنے نہیں آئے۔ خود ان کا سارا کام تدریسی اور تعلیمی ہی رہا ہے۔
حافظ بلال پوری: حضرت قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا دینی تحریکوں میں کیا کردار رہا اور تحریکی و تنظیمی ذوق کیسا تھا؟
مولانا راشدی: میں گزارش کرتا ہوں، ایک بات تو میں نے کی ہے کہ وہ دینی تحریکوں کے، دینی جماعتوں کے سپورٹر تھے۔ سپورٹ کرتے تھے۔ اور دو تحریکوں میں تو ان کا عملی کردار بھی ہے۔ مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم۔ یہ سن ۱۹۷۶ء کی بات ہے، اس کے اسباب مختلف ہیں، پنجاب کے محکمہ اوقاف نے مدرسہ نصرۃ العلوم کو اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا۔ عنوان یہ تھا ’’مسجد نور بمع چالیس کمروں کے‘‘۔ نصرۃ العلوم کا نام نہیں لیا انہوں نے۔
ہم نے آپس میں مشورہ کیا۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہم سب کے بزرگ تھے، میرے والد صاحبؒ کے بھی استاذ تھے۔ اور میں ان کے پاس ہی تھا، ان کے نائب کے طور پر۔ تو حضرت مولانا عبد الواحد صاحبؒ نے ہمیں کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ تو اپنی ضد میں کر رہے ہیں لیکن راستہ کھل جائے گا پھر۔ اس پر کچھ احتجاج کرنا چاہیے۔ نوید انور نوید ایڈووکیٹ، بعد میں ڈسٹرکٹ بار کے صدر بھی رہے ہیں۔ ہمارے دوست تھے۔ صوفی رستم صاحبؒ، مولانا محمد علی جامیؒ، ڈاکٹر غلام محمد صاحبؒ، ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ قبضہ نہیں دیں گے۔ ہم نے یہ طے کر لیا تھا۔ اور کہا کہ آرڈر واپس لو۔ ہم نے گرفتاریوں کی تحریک شروع کر دی۔ ہم نے یہ طے کیا کہ نصرۃ العلوم کے اساتذہ اور طلبہ، ان کے نظم میں خلل نہیں آنے دیں گے، اور مسلکی کارکن گرفتاریاں پیش کر کے تحریک کو منظم کریں گے۔
لیکن اس دوران ہوا یہ کہ محکمہ اوقاف نے۔ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمۃ اللہ علیہ مسجد نور کے خطیب تھے، مدرسہ کے مہتمم تھے، ان کی جگہ قارن صاحبؒ کو مسجد نور کا خطیب مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ یہ سازش تھی دو بھائیوں کو لڑانے کی۔ وہ بھتیجے تھے اور صوفی صاحبؒ کے معاون تھے۔ تو نوٹیفیکیشن آ گیا کہ حافظ عبد القدوس قارن صاحب کو مسجد نور کا خطیب مقرر کیا گیا ہے۔ یہ بات تھی کہ الحمد للہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا تھا، وہ مشورہ مجھ سے کرتے تھے، اور اکثر بات مانتے تھے، جو میں کہتا تھا کرتے تھے وہ۔ میرے پاس آئے کہ کیا کرنا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ بہت بڑی شرارت ہے خاندان کے خلاف اور ادارے کے خلاف۔ اس کا جواب بھی اسی لہجے میں ہونا چاہیے، اسی لیول پر ہونا چاہیے جس لیول پر۔ آپ تیاری کریں، آپ بھی گرفتاری دیں۔ یہی جواب ہے اس کا۔ جس درجے کی یہ سازش ہے نا، اس کا جواب یہی ہے۔ تو خیر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
یہ طے تھا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم کا کوئی استاذ کوئی طالب علم گرفتاری نہیں دے گا۔ لیکن یہ ضروری ہو گئی تھی۔ جمعے کے دن گھنٹہ گھر چوک سے جلوس نکالا کرتے تھے، گرفتاریاں دیتے تھے۔ تو میرے مشورے پر انہوں نے یہ کیا کہ جلوس سے خطاب کیا اور وہ نوٹیفیکیشن پڑھ کر سنایا، پھر یوں پھاڑا، میرا یہ جواب ہے، اور میں حاضر ہوں۔ اور چار مہینے کے لگ بھگ جیل میں رہے۔ بڑی استقامت کے ساتھ، بڑے صبر کے ساتھ۔ ہم نے طے کر رکھا تھا کہ ہم نے ضمانتیں نہیں کروانی۔ ضمانتیں ہو جاتی تھیں لیکن ہم نے طے کر رکھا تھا کہ نہیں ضمانتیں نہیں کروانی۔
الحمد للہ ہماری تین چار مہینے کی جدوجہد کا اتنا دباؤ پڑا۔ پنجاب اسمبلی میں بات ہوئی جو علامہ رحمت اللہ ارشد صاحبؒ نے کی، قومی اسمبلی میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے کی۔ مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ نے یہاں آکر عوامی جلسہ سے خطاب فرمایا مسجد نور میں۔ تو حکومت وہ نوٹیفیکیشن واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔ قارن صاحب کا وہ کردار میں نہیں بھولوں گا کبھی کہ انہوں نے میری بات سمجھی بھی اور عمل بھی کیا اور اس کا نتیجہ بھی نکلا۔ ورنہ بہت خرابیاں ہوتیں۔
اسی طرح سن ۱۹۸۴ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کا ایک واقعہ میں ریکارڈ میں لانا چاہتا ہوں۔ سن ۱۹۸۴ء کی تحریکِ ختمِ نبوت سیالکوٹ کے اسلم قریشی صاحب کے مسئلے پر تھی۔ مرکزی مجلس عمل حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ صدر تھے۔ گجرات کے ہمارے بریلوی علماء میں سے مولانا مفتی مختار احمد نعیمی صاحبؒ بڑے عالم تھے، وہ سیکرٹری جنرل تھے۔ میں سیکرٹری اطلاعات تھا۔ حافظ عبد القادر روپڑیؒ صاحب ہمارے نائب صدر تھے۔ پوری ایک ٹیم تھی جو کام کرتی تھی۔ تو ہم نے پنڈی میں ایک اجتماع کا اعلان کیا کہ اپنے مطالبات کے لیے پنڈی میں بہت بڑا اجتماع کریں گے۔ ایک تاریخ مقرر کر دی۔ جیسا کہ ہوتا ہے کہ پنڈی کا محاصرہ کر لیا گیا کہ کسی کو نہیں آنے دیں گے۔ ناکہ بندی ہو گئی۔
تو یہ تین چار ساتھی، قارن صاحبؒ، قاری یوسف عثمانی صاحب، امان اللہ قادری صاحب، اور وہ ہمارے ساتھی فوت ہو گئے ہیں، عبد المتین چوہان، حاجے کالے خان صاحب کے بیٹے، انہوں نے کہا کہ جانا ہے۔ یہ اس اجتماع میں شرکت کے لیے بس پہ بیٹھے، جہلم میں ان کو اتار لیا گیا۔ جہلم اتار لیا گیا کہ آپ کو آگے نہیں جانے دیں گے۔ یہ اِدھر اُدھر دیکھتے رہے کہ ناکہ بندی بڑی سخت تھی، کوئی جانے نہیں دے رہا تھا۔ ان کو ایک بات سوجھی۔ ایک بس پر خالی بوریاں جا رہی تھیں بار دانے کی۔ اس کے کنڈیکٹر سے بات کی کہ یار ہمیں باردانے میں باندھ کر لے جاؤ، ہمیں اس میں لپیٹو۔ معاملات طے کیے، جو کچھ بھی طے کیا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔
وہاں سے وہ بار دانے میں لپٹ کر یہ پنڈی گئے۔ لیکن لطیفے کی بات یہ ہے کہ باردانہ مرچوں کا تھا۔ وہ جس حالت میں بھی پہنچے، لیکن ان کی قربانی کہ یہ گئے، جلسہ اٹینڈ کیا۔ یعنی تحریکی ذوق تھا ان کا لیکن سامنے آ کر نہیں، پیچھے بیٹھ کر سپورٹ کرتے تھے، لیکن تحریکات میں حصہ بھی لیا۔ بڑے جری آدمی تھے۔
حافظ بلال پوری: استاذ جی، آج کی نسل کے لیے حضرت قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی سے کون سا پیغام سب سے اہم ہے؟
مولانا راشدی: سب سے پہلی بات کہ ان کا جو ذوق تھا، زندگی سادہ، میل جول سب سے۔ اور اختلاف ہوتا تھا، ہمارا بھی آپس میں اختلاف ہوتا تھا، بہت باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے، مجھ سے کرتے تھے، میں ان سے کرتا تھا، لیکن باہمی احترام، اور اختلاف کی حدود کو قائم رکھنا۔ اس معاملے میں حضرت والد صاحبؒ کی تلقین میں عرض کیا کرتا ہوں۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے، کوئی اختلافی بات کر رہے ہو کسی سے بھی، موقف مضبوط رکھو، لہجہ لچکدار رکھو۔ کوئی یہ نہ محسوس کرے کہ میری توہین کر رہا ہے، کوئی بھی ہو۔ یہ ہمیں وہاں سے گھٹی میں ملی ہے یہ بات، کہ بات میں لچک نہیں ہے لیکن لہجہ میں لچک ضروری ہے۔
وہ کہتے تھے بات میں لچک بالکل نہیں ہونی چاہیے، بات دوٹوک کرو، لیکن لہجہ اتنا لچکدار ہو جتنا ہو سکتا ہے۔ اور اس میں وہ مثال دیا کرتے تھے، والد صاحبؒ ہمیں سمجھاتے ہوئے، کہ اللہ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام جیسے جلالی پیغمبر کو فرعون جیسے متکبر کے پاس بھیجا تھا، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو، اور کہا تھا ’’قولا لہ قولا لینا‘‘ نرمی سے بات کرنا، شاید سمجھ جائے، شاید مان لے۔
قارن صاحب کے مزاج میں سادگی، اٹھنا بیٹھنا، کوئی تکلف نہیں، کوئی پروٹوکول نہیں، اور بات سلیقے سے کرنی ہے، اور موقع محل کو دیکھ کر کرنی ہے۔ اختلاف بھی اگر ہے تو سلیقے سے اظہار کرنا ہے۔ اور مہمان نواز۔ یہ ان کا عام تھا۔ اور پڑھنا پڑھانا۔ اور اپنے کام سے غرض رکھنی ہے۔ نئی نسل کے لیے ان کی زندگی کا پیغام یہی ہے کہ اپنے آپ کو بزرگوں کے نقشِ قدم پر، اپنے بزرگوں پر اعتماد۔ والد صاحبؒ کی تلقین بھی یہی ہوتی تھی کہ اپنے جو اکابر ہیں ان کے دائرے سے نہیں نکلو بھئی، ان کے دائرے میں رہو۔ اختلافِ رائے ہوتا ہے، وہ کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اپنے کام میں، اپنے مشن میں بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان کے دائرے میں رہتے ہوئے۔
یہ قارن صاحب کا مزاج تھا۔ اور اس کے ساتھ بطور بھائی کے، الحمد للہ یہ بات میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں، جب بھی کوئی خاندانی مسئلہ ہوا ہے، یا مسلکی مسائل ہوتے ہیں، جماعتی اختلافات ہوتے ہیں، جب بھی ہم نے آپس میں بات کی ہے تو انہوں نے میری بات مانی ہے۔ مجھے بہت احترام دیا ہے انہوں نے الحمد للہ۔ ہوتی ہیں باتیں، لیکن جب بھی موقع آیا ہے، انہوں نے پورا احترام، اور پورے سلیقے کے ساتھ معاملات کو سلجھایا ہے۔ بہت سے معاملات ہم نے مل کر سلجھائے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ باہمی اعتماد کے ساتھ جب بھی کوئی آخری فیصلے کا موقع آیا ہے، ہم نے طے کیا ہے اور اسی پر عمل ہوا ہے جو ہم نے طے کیا ہے۔
حافظ بلال پوری: یہ پوڈ کاسٹ صرف ایک خراجِ عقیدت نہیں بلکہ ایک نسل کی تربیت، اخلاص، سادگی، اور استقامت کا پیغام ہے۔ دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگلی پوڈ کاسٹ تک کے لیے اجازت دیجیے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
(ضبطِ تحریر: مدیر منتظم مجلہ الشریعہ)