آج دل غم سے بوجھل اور آنکھیں اشکبار ہیں۔ ابھی ابھی جمعۃ المبارک پڑھانے کی بابرکت ساعتوں سے فارغ ہو کر گھر پہنچا ہی تھا کہ ایک دل دہلا دینے والی خبر نے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ امامِ اہلِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے نہایت فاضل، باکمال اور جلیل القدر صاحبزادہ، حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ بقضائے الٰہی اس دنیا سے رخصت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبد القدوس خان قارنؒ صرف ایک فرد نہیں تھے، بلکہ ایک علمی روایت کے امین، ایک دینی قلعے کے پاسبان اور ایک ایسے چراغ تھے جن کی روشنی نے سینکڑوں دلوں کو ایمان و یقین کی حرارت بخشی۔ آپ کا وجود اپنے والد گرامی کی علمی، فکری اور روحانی میراث کا عملی مظہر تھا۔ آپ کا درس و تدریس کا انداز، نصوصِ شرعیہ سے استدلال، فقہ و حدیث پر گہری نظر، اور قلم سے ایسے موتی بکھیرنا کہ پڑھنے والا اَش اَش کر اٹھے۔ یہ سب آپ کی علمی عظمت کے روشن پہلو تھے۔ آپ نے نہ صرف مدارس و جامعات میں تدریس کی خدمت انجام دی بلکہ اپنے قلم سے بھی ملت کو گراں قدر تحفے دیے۔
مولانا قارنؒ کی شخصیت میں ایک طرف علمی وقار، سنجیدگی اور تحقیق کی گہرائی تھی، تو دوسری طرف عاجزی، انکساری اور اخلاص کی چمک تھی۔ شاگرد آپ کو استاذ نہیں بلکہ مربی کہتے، اور اہلِ علم آپ کو ایک جید محقق کے طور پر جانتے تھے۔ آپ کی وفات محض ایک عالمِ دین کی رخصتی نہیں، بلکہ ایک عہد کا اختتام ہے۔ وہ عہد جس میں علم، عمل اور اخلاص ایک ساتھ نظر آتے تھے۔ آپ کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ مدتوں پُر نہیں ہو سکے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔