محترم المقام حضرت مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا عزیز الرحمٰن و مولانا رشید الحق خان دامت برکاتہم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ گو ناگوں صفات کے مالک تھے۔ ان کا سایہ بہت سے فتنوں کے لیے سدباب رہا۔ ان کا تبحر علمی بے مثال تھا۔ وہ علمائے دیوبند کے علم و عمل کے وارث تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے جو کام بھی شروع کیا، مستقل مزاجی کے ساتھ کیا اور ہمیشہ عزیمت پر عمل کیا۔ اپنی پوری زندگی دین حق کی حفاظت میں صَرف کی اور جب بھی کسی اہلِ باطل نے اسلام کے مسلّمہ اصولوں میں کسی ایک اصول کے خلاف قلم اٹھایا تو حضرت مولانا نے بطریقِ احسن اس کا تعاقب کیا۔ ’’وجادلھم بالتی ھی احسن‘‘ کا عملی نمونہ پیش کیا اور دلائل کے میدان میں ہمیشہ سرفراز ہی رہے، لیکن اس مشکل گھاٹی سے گزرتے ہوئے کبھی آپ نے اپنے اکابرین کی تحقیقات سے سرِمو انحراف نہیں کیا۔ نیز جس طرح آپ نے اپنے قلم کے ذریعے اسلام کی نظریاتی سرحدوں کا پہرا دیا، اسی طرح عملی تحریکات میں بھی شریک رہے۔ بالخصوص تحریک ختم نبوت میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جہدِ مسلسل کرتے رہے۔
اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ وہ دین کا روشن چراغ تھے جن سے بے شمار دینی مشعلیں روشن ہوئیں۔ ان کو ایک عالم حق اور باعمل بااخلاص ہونے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ’’خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را‘‘۔ دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوارِ رحمت و غفران و رضوان میں جگہ عطا فرمائے اور امت میں ایسے افراد زہاد پیدا فرمائے جو اقامتِ دین کا فریضہ اسی طرح ادا کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہل و عیال اور متعلقین کرام پر ہمیشہ اپنے فضل و کرم کا سایہ رکھے۔
آخر میں اپنے بھائیوں جیسے عزیزوں حضرت مولانا زاہد الراشدی، حضرت مولانا عبد الحق خان بشیر و دیگر برادران سے عرض کروں گا کہ وہ اپنے بھائی رحمہ اللہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہمت اور استقامت کے ساتھ دین حق پر سختی سے کار بند رہیں اور اپنی اولاد کو بھی اس پر کار بند رکھیں تاکہ یہ چراغ بجھنے نہ پائے۔