(ادارۃ الحسنات انٹرنیشنل کے زیر اہتمام فروری ۲۰۲۳ء کے دوران جامعہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں ’’افکار و نظریات حضرات شیخینؒ سیمینار‘‘ سے خطاب)
بعد الحمد والصلوۃ۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم واما بنعمۃ ربک فحدث۔
قابل صد احترام علماء کرام، معزز سامعین عظام! آج کا یہ پروگرام حضرات شیخینؒ کے نظریات و فکر اور ان کے افکار کے بیان میں منعقد ہوا ہے۔ مجلس کا انعقاد کرنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں اور میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ علماء کرام اپنی اپنی سوچ کے مطابق، اپنے اپنے مطالعے کے مطابق، اپنے اپنے مزاج کے مطابق بیانات کریں گے، آپ غور کے ساتھ ان کے بیانات سنیں، میں صرف دو تین منٹ میں اپنی بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔
تحدیثِ نعمت کے طور پر کہ پروردگار نے ہمیں ایسے حضرات کے ساتھ وابستہ کیا، نسبی لحاظ سے بھی اور علم کے لحاظ سے بھی، جنہوں نے دین کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اس مجلس کا عنوان ہے حضرت شیخ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات۔ مجھے اس موقع پر امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے، انہوں نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو سیرت منانے کی چیز نہیں، سیرت اپنانے کی چیز ہے۔ اسی طرح بزرگان دین کے افکار نظریات سننے کی اتنی ضرورت نہیں جتنا ان نظریات کو اپنانے اور افکار پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے بزرگوں نے دین کی جو خدمت کی تو ان کا اصل مقصد تو اللہ کی رضا اور دین کی خدمت تھا، لیکن ظاہری اسباب میں سے بھی کوئی نہ کوئی سبب پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔ مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف لکھی، اصل میں خدمت حدیث مقصود تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اس دور میں ہر آدمی قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر بات حضورﷺ کی جانب منسوب کر دیتا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری سبب دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب صحیح منسوب روایات کا انتخاب کر کے امت کو اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ ہر قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والا سچا نہیں ہے، آپؒ نے سچی روایات کو جمع کر کے خدمت سرانجام دی۔
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کا مجموعہ اکٹھا کیا۔ لکھنے والوں نے لکھا ہے اس دور میں کچھ لوگ غلط نظریات کا پرچار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ فقہاء کے پاس اپنے مسالک پر، اپنے نظریات پر، اپنے اعمال پر، اپنے افعال پر کوئی دلیل نہیں ہے تو امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ابو داؤد شریف لکھ کر فقہاء کو ہتھیار دے دیا۔ اگر کوئی آدمی ہاتھ سینے پر باندھتا ہے اس کو بھی دلیل دے دی اور جو ناف کے نیچے باندھتا ہے اس کو بھی دلیل دے دی۔
اسی طرح ہمارے ان دونوں بزرگوں کا جو نقطہ نظر تھا، تعبیر میں آپ فرق مان لیں، لیکن دونوں کا نقطہ نظر ایک تھا۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی سے جو ساتھی ملتا، فارغ ہوتا، ملاقات کرتا تو اس کو ایک سبق دیتے کہ سلف کے اور اپنے اسلاف کے دامن کو نہ چھوڑنا۔ حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جب کوئی آدمی پوچھتا کہ حضرت! کوئی نصیحت فرمائیں تو فرماتے خود رائی کو نہ اپنانا۔ دونوں کا لب لباب ایک ہے کہ اپنے اسلاف سے وابستہ رہو۔ ان حضرات کا یہ فکر اور یہ نظریہ کہ اپنے اسلاف کے ساتھ وابستہ رہو، اب یہ اسلاف کے ساتھ وابستگی کا مظہر آپ حضرت شیخ کی کتابیں دیکھیں، حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں دیکھیں تو آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ جمہور اہل سنت والجماعت کے نظریات کا تحفظ ان حضرات نے اپنا مشن بنایا۔ اکیلی اور منفرد رائے کو پیش نظر نہیں رکھا، بلکہ اس کے مقابلے میں جیسے مولانا عبدالواحد صاحب رسولنگری زید مجدہ بیان کر رہے تھے کہ حضرت شیخؒ نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ اصولی بنیادوں پر بھی ہیں، فروعی مسائل پر بھی ہیں۔ آپؒ نے جہاں اہل سنت والجماعت کے مجموعی جمہوری نظریے کی مخالفت دیکھی تو قلم اٹھایا۔
حضرت شیخؒ کی زندگی پر، ان کی کتابوں پر تبصرہ کرنے والے اپنے اپنے لحاظ سے تبصرہ کرتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ حضرت شیؒخ کی کتابیں فروعی مسائل پر ہیں، حالانکہ اس کا حقیقت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی بعض لوگوں نے کہا کہ امام بخاریؒ کا مقصد حنفیوں کی مخالفت تھی، حالانکہ یہ تبصرہ درست نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا تو اعزاز ہی حنفی اساتذہ کے ذریعے سے ہے۔ بخاری شریف میں جو ثلاثیات ہیں ان بائیس ثلاثیات میں سے بیس ثلاثیات حنفی اساتذہ سے لی ہیں، لہٰذا یہ تبصرہ کرنا کہ امام بخاری نے بخاری شریف حنفیوں کے خلاف لکھی ہے، غلط ہے۔
دیکھیے ایک ہوتا ہے اختلاف، یہاں چونکہ میرے ساتھ میرے تلامذہ بھی ہیں، میرے ساتھ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ سے عقیدت کا اظہار کرنے والے بھی ہیں، میں آپ حضرات سے ایک ہی اپیل کرتا ہوں۔ آج کے دور میں اختلاف برائے مخالفت ہے، اختلاف برائے اختلاف رہنا چاہیے، اختلاف برائے مخالفت نہیں ہونا چاہیے۔ امام بخاریؒ کو بھی اپنے بعض اساتذہ سے اختلاف تھا، مخالفت نہیں تھی۔ مخالفت کا معنی یہ ہے کہ محاذ قائم کر لینا، مقابلے میں اتر آنا، گالم گلوچ اور جیسے آج کل میڈیا میں ہو رہا ہے، یہ انداز نہیں۔ اختلاف کرو، اختلاف سے کوئی نہیں روکتا، مخالفت مت کرو، مخالفت کی اجازت نہیں ہے۔ مخالفت اور اختلاف میں فرق رکھیں۔ مخالفت کہتے ہیں محاذ آرائی کو، مقابلے میں نکل آنے کو، کسی کی بات برداشت نہ کر کے بازو چڑھا کر میدان میں آنے کو۔ اس مخالفت کی قباحت بیان کی جائے گی، اختلاف تو ہوتا رہتا ہے۔
ایک بات جو اس موضوع کے ساتھ متعلق نہیں، لیکن کسی نہ کسی درجے میں تعلق بھی ہے بیان کرتا ہوں۔ یہ مدرسہ انوار العلوم میرے دونوں شیخین کریمینؒ کی مادر علمی ہے۔ یہیں سے انہوں نے حضرت مولانا عبدالقدیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ صاحب اور مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالی سے استفادہ کیا اور انہی کی تعلیم آگے پھیلائی۔ اس لیے انوار العلوم کے حالات کو جان کر، دیکھ کر ایک قسم کا درد دل میں اٹھتا ہے کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اور چچا محترم حضرت صوفی عبدالحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تعلیم حاصل کی، یہ ان کا مادر علمی ہے۔ جس طرح اپنی ماں کا احترام ہوتا ہے اسی طرح اپنے مادر علمی کا احترام اور اپنے اکابر کے مادرِ علمی کا احترام بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
مدارس اور مساجد پر کسی کی جاگیر نہیں ہے، لیکن میں ایک فقہی مسئلہ آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ حضرات فقہاء نے مسئلہ لکھا ہے کہ فضا میں اڑنے والے پرندے کسی کی ملکیت نہیں، لیکن اگر کوئی آدمی شکار کر کے اس کو اپنی ملکیت میں لاتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، محنت کرتا ہے تو اس کی محنت کے نتیجے میں وہ اس کی ملکیت ہو جاتا ہے، اس پر اس کا حق ہوتا ہے، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ممنوع ہے۔ یا جیسے سمندر کے مچھلیاں کسی کی جاگیر نہیں، لیکن اگر کسی نے شکار کر کے ان پر قبضہ کر لیا اس کی ملکیت ہو گئی تو کسی دوسرے آدمی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی ملکیت میں مداخلت کرے۔ اسی طرح مساجد و مدارس کے یہ مراکز کسی کی جاگیر نہیں، لیکن اگر کسی کی 12 سال کی، 14 سال کی، 18 سال کی، 50 سال کی محنت ہو تو اس کی محنت کو رائیگاں نہیں ہونے دیا جائے گا۔
مفتی عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی موجودگی میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کو اس مدرسے اور مسجد کا حصے دار بنایا، پھر مولانا قاضی حمید اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے متولی اور ذمہ دار بنے۔ اس کے بعد ہمارے عزیز مولانا محمد داؤد صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی سالہا سال کی محنت ہے، لہٰذا گڑبڑ کرنے والے اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ یہ ہمارے اکابر کا مادر علمی ہے۔ جن حضرات نے محنتیں کی ہیں، ان کا حق مقدم ہے۔ یہ کسی کی جدی پشتی وراثت نہیں ہے، محنت کا حق تسلیم کرتے ہوئے ہم ان حضرات کے لیے دعاگو بھی ہیں، ان کو ثابت قدمی کا مشورہ بھی دیتے ہیں اور اُن حضرات کو جو گڑبڑ پھیلانا چاہتے ہیں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں، میں اپنے تلامذہ سے یہی کہتا ہوں کہ دیکھو اختلاف کرو، اختلاف حق ہے لیکن مرکز سے کٹنے کی جرأت نہ کرنا۔ مرکز کی حفاظت کرنا، مرکز کے خلاف کام کرنے والے، مرکز کو اکھاڑنے والوں کے ساتھ نہ بیٹھنا۔ جس کا میرے ساتھ تعلق ہے میں کھلے طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا، ہمارے اکابر کا، شیخینؒ کا مادر علمی ہے۔ اگر ہم نصرۃ العلوم کے لیے قربانیاں دے سکتے ہیں تو انوار العلوم کے لیے بھی قربانیاں دیں گے ان شاء اللہ تعالی۔ یہاں محنت ہے، محنت کے ذریعے سے شریعت حق دیتی ہے۔ اس لیے یہ حق ہے علامہ زاہد الراشدی صاحب کا، یہ حق ہے مولانا محمد داؤد صاحب کا ہے، یہ حق ہے ان لوگوں کا جو ان حضرات کو ساتھ لے کر چلے اور ساتھ چل رہے ہیں۔ مداخلت کرنے والے خوامخواہ کی مداخلت سے گریز کریں، ورنہ نتائج برے سے برے ہوں گے۔
میں نے کہا کہ حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب رحمہما اللہ تعالی ان حضرات کے متفقہ طور پر افکار و نظریات یہ تھے کہ اکابر کے دامن کے ساتھ وابستہ رہنا۔ صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تلقین کیا کرتے تھے کہ خود رائی سے بچنا۔ مآل دونوں کا ایک ہے۔ الفاظ مختلف ہیں تعبیر ایک ہے۔ ہم بھی اگر افکار و نظریات کا تذکرہ کرتے ہیں تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ افکار و نظریات کو اپنا کر زندگی گزاریں۔ انہوں نے جو ہمارے لیے سبق چھوڑا اسے اپنائیں۔
آپ حضرتؒ کی کتابیں دیکھیں، اب دیکھیے تبصرہ کرنے والے مختلف انداز میں تبصرہ کرتے ہیں۔ کسی نے حضرت شیؒخ کی خدمات کا یوں تذکرہ کیا کہ حضرت ؒنے رد رد رد ہی کیا ہے۔ اللہ کے بندو! ایک لمحہ کے لیے غور کرو۔ سیلاب آ جائے، ایک عمارت ہے جس کے چاروں طرف سوراخ ہیں تو عقل مند آدمی چاروں طرف کی سوراخ بند کرے گا تاکہ یہ پانی عمارت میں داخل ہو کر نقصان نہ پہنچائے۔ جہاں سے بھی اہل سنت والجماعت کے جمہوری نظریے کی مخالفت شروع ہوئی حضرات نے اس کے سامنے بند باندھا، خواہ وہ غلام جیلانی برق ہو، غلام احمد پرویز ہو، احمد رضا خان ہو یا پھر مرزا قادیانی ہو۔ جنہوں نے بھی جمہور کے نظریے کی مخالفت کی، سیلابی ریلے کی صورت میں انہوں نے ان کا رد کیا۔
اور پھر یہ آپ حضرات کے لیے عرض کروں کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی اپنے اساتذہ میں عملی زندگی میں سب سے زیادہ متاثر تھے حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ جب دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو کر آئے، اپنے علاقے میں رسومات دیکھیں۔ جنازے کے موقع پر رسومات، دعا بعد الجنازہ، پھر دوسرے تیسرے دن ایصالِ ثواب کے نام پر دورانِ قرآن، اسقاطِ حیلہ وغیرہ تو حضرت مولانا غلام غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس دور میں جس دور میں ان مسائل کا ذکر کرنا بھی موت کو دعوت دینا تھا حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے علاقے سے ان رسومات کا خاتمہ کیا۔ آج مانسہرہ، الائی، بٹگرام میں جائیں، مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کے ان افکار کو، ان نظریات کو اور اس سوچ و فکر کو اس انداز کے ساتھ عوام الناس نے مانا کہ وہاں اب ان رسومات کا بہت کم تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایک مسلک کے خلاف نہیں، بلکہ جہاں سے بھی جمہور کے مسلک کی مخالفت ہوئی انہوں نے اس کا دفاع کیا۔ اپنی جماعت میں شامل ہو کر انہوں نے مخالفت کی تو حضرت شیخ نے کوئی معافی نہیں دی، بلکہ قلم اٹھایا۔ اس لیے حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی اور حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات کی بنیاد سلف صالحین کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا ہے۔ اپنی رائے کو ٹھونسنے کی کوشش مت کرو۔ ”واما بنعمۃ ربک فحدث“ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ پروردگار تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں ایسے اساتذہ کے ساتھ، ایسے علمی طبقے کے ساتھ، ایسے علمی خاندان کے ساتھ وابستگی نصیب فرمائی کہ ہم جتنا بھی تیرا شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ مجھے بھی اور آپ کو بھی عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین