افکار و نظریات حضرات شیخینؒ سیمینار سے خطاب

(ادارۃ الحسنات انٹرنیشنل کے زیر اہتمام فروری ۲۰۲۳ء کے دوران جامعہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں ’’افکار و نظریات حضرات شیخینؒ سیمینار‘‘ سے خطاب)

بعد الحمد والصلوۃ۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم واما بنعمۃ ربک فحدث۔

قابل صد احترام علماء کرام، معزز سامعین عظام! آج کا یہ پروگرام حضرات شیخینؒ کے نظریات و فکر اور ان کے افکار کے بیان میں منعقد ہوا ہے۔ مجلس کا انعقاد کرنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں اور میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ علماء کرام اپنی اپنی سوچ کے مطابق، اپنے اپنے مطالعے کے مطابق، اپنے اپنے مزاج کے مطابق بیانات کریں گے، آپ غور کے ساتھ ان کے بیانات سنیں، میں صرف دو تین منٹ میں اپنی بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔

تحدیثِ نعمت کے طور پر کہ پروردگار نے ہمیں ایسے حضرات کے ساتھ وابستہ کیا، نسبی لحاظ سے بھی اور علم کے لحاظ سے بھی، جنہوں نے دین کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اس مجلس کا عنوان ہے حضرت شیخ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات۔ مجھے اس موقع پر امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے، انہوں نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو سیرت منانے کی چیز نہیں، سیرت اپنانے کی چیز ہے۔ اسی طرح بزرگان دین کے افکار نظریات سننے کی اتنی ضرورت نہیں جتنا ان نظریات کو اپنانے اور افکار پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے بزرگوں نے دین کی جو خدمت کی تو ان کا اصل مقصد تو اللہ کی رضا اور دین کی خدمت تھا، لیکن ظاہری اسباب میں سے بھی کوئی نہ کوئی سبب پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔ مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف لکھی، اصل میں خدمت حدیث مقصود تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اس دور میں ہر آدمی قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر بات حضورﷺ کی جانب منسوب کر دیتا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری سبب دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب صحیح منسوب روایات کا انتخاب کر کے امت کو اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ ہر قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والا سچا نہیں ہے، آپؒ نے سچی روایات کو جمع کر کے خدمت سرانجام دی۔

امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کا مجموعہ اکٹھا کیا۔ لکھنے والوں نے لکھا ہے اس دور میں کچھ لوگ غلط نظریات کا پرچار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ فقہاء کے پاس اپنے مسالک پر، اپنے نظریات پر، اپنے اعمال پر، اپنے افعال پر کوئی دلیل نہیں ہے تو امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ابو داؤد شریف لکھ کر فقہاء کو ہتھیار دے دیا۔ اگر کوئی آدمی ہاتھ سینے پر باندھتا ہے اس کو بھی دلیل دے دی اور جو ناف کے نیچے باندھتا ہے اس کو بھی دلیل دے دی۔

اسی طرح ہمارے ان دونوں بزرگوں کا جو نقطہ نظر تھا، تعبیر میں آپ فرق مان لیں، لیکن دونوں کا نقطہ نظر ایک تھا۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی سے جو ساتھی ملتا، فارغ ہوتا، ملاقات کرتا تو اس کو ایک سبق دیتے کہ سلف کے اور اپنے اسلاف کے دامن کو نہ چھوڑنا۔ حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جب کوئی آدمی پوچھتا کہ حضرت! کوئی نصیحت فرمائیں تو فرماتے خود رائی کو نہ اپنانا۔ دونوں کا لب لباب ایک ہے کہ اپنے اسلاف سے وابستہ رہو۔ ان حضرات کا یہ فکر اور یہ نظریہ کہ اپنے اسلاف کے ساتھ وابستہ رہو، اب یہ اسلاف کے ساتھ وابستگی کا مظہر آپ حضرت شیخ کی کتابیں دیکھیں، حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں دیکھیں تو آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ جمہور اہل سنت والجماعت کے نظریات کا تحفظ ان حضرات نے اپنا مشن بنایا۔ اکیلی اور منفرد رائے کو پیش نظر نہیں رکھا، بلکہ اس کے مقابلے میں جیسے مولانا عبدالواحد صاحب رسولنگری زید مجدہ بیان کر رہے تھے کہ حضرت شیخؒ نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ اصولی بنیادوں پر بھی ہیں، فروعی مسائل پر بھی ہیں۔ آپؒ نے جہاں اہل سنت والجماعت کے مجموعی جمہوری نظریے کی مخالفت دیکھی تو قلم اٹھایا۔

حضرت شیخؒ کی زندگی پر، ان کی کتابوں پر تبصرہ کرنے والے اپنے اپنے لحاظ سے تبصرہ کرتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ حضرت شیؒخ کی کتابیں فروعی مسائل پر ہیں، حالانکہ اس کا حقیقت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی بعض لوگوں نے کہا کہ امام بخاریؒ کا مقصد حنفیوں کی مخالفت تھی، حالانکہ یہ تبصرہ درست نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا تو اعزاز ہی حنفی اساتذہ کے ذریعے سے ہے۔ بخاری شریف میں جو ثلاثیات ہیں ان بائیس ثلاثیات میں سے بیس ثلاثیات حنفی اساتذہ سے لی ہیں، لہٰذا یہ تبصرہ کرنا کہ امام بخاری نے بخاری شریف حنفیوں کے خلاف لکھی ہے، غلط ہے۔

دیکھیے ایک ہوتا ہے اختلاف، یہاں چونکہ میرے ساتھ میرے تلامذہ بھی ہیں، میرے ساتھ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ سے عقیدت کا اظہار کرنے والے بھی ہیں، میں آپ حضرات سے ایک ہی اپیل کرتا ہوں۔ آج کے دور میں اختلاف برائے مخالفت ہے، اختلاف برائے اختلاف رہنا چاہیے، اختلاف برائے مخالفت نہیں ہونا چاہیے۔ امام بخاریؒ کو بھی اپنے بعض اساتذہ سے اختلاف تھا، مخالفت نہیں تھی۔ مخالفت کا معنی یہ ہے کہ محاذ قائم کر لینا، مقابلے میں اتر آنا، گالم گلوچ اور جیسے آج کل میڈیا میں ہو رہا ہے، یہ انداز نہیں۔ اختلاف کرو، اختلاف سے کوئی نہیں روکتا، مخالفت مت کرو، مخالفت کی اجازت نہیں ہے۔ مخالفت اور اختلاف میں فرق رکھیں۔ مخالفت کہتے ہیں محاذ آرائی کو، مقابلے میں نکل آنے کو، کسی کی بات برداشت نہ کر کے بازو چڑھا کر میدان میں آنے کو۔ اس مخالفت کی قباحت بیان کی جائے گی، اختلاف تو ہوتا رہتا ہے۔

ایک بات جو اس موضوع کے ساتھ متعلق نہیں، لیکن کسی نہ کسی درجے میں تعلق بھی ہے بیان کرتا ہوں۔ یہ مدرسہ انوار العلوم میرے دونوں شیخین کریمینؒ کی مادر علمی ہے۔ یہیں سے انہوں نے حضرت مولانا عبدالقدیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ صاحب اور مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالی سے استفادہ کیا اور انہی کی تعلیم آگے پھیلائی۔ اس لیے انوار العلوم کے حالات کو جان کر، دیکھ کر ایک قسم کا درد دل میں اٹھتا ہے کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اور چچا محترم حضرت صوفی عبدالحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تعلیم حاصل کی، یہ ان کا مادر علمی ہے۔ جس طرح اپنی ماں کا احترام ہوتا ہے اسی طرح اپنے مادر علمی کا احترام اور اپنے اکابر کے مادرِ علمی کا احترام بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

مدارس اور مساجد پر کسی کی جاگیر نہیں ہے، لیکن میں ایک فقہی مسئلہ آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ حضرات فقہاء نے مسئلہ لکھا ہے کہ فضا میں اڑنے والے پرندے کسی کی ملکیت نہیں، لیکن اگر کوئی آدمی شکار کر کے اس کو اپنی ملکیت میں لاتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، محنت کرتا ہے تو اس کی محنت کے نتیجے میں وہ اس کی ملکیت ہو جاتا ہے، اس پر اس کا حق ہوتا ہے، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ممنوع ہے۔ یا جیسے سمندر کے مچھلیاں کسی کی جاگیر نہیں، لیکن اگر کسی نے شکار کر کے ان پر قبضہ کر لیا اس کی ملکیت ہو گئی تو کسی دوسرے آدمی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی ملکیت میں مداخلت کرے۔ اسی طرح مساجد و مدارس کے یہ مراکز کسی کی جاگیر نہیں، لیکن اگر کسی کی 12 سال کی، 14 سال کی، 18 سال کی، 50 سال کی محنت ہو تو اس کی محنت کو رائیگاں نہیں ہونے دیا جائے گا۔

مفتی عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی موجودگی میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کو اس مدرسے اور مسجد کا حصے دار بنایا، پھر مولانا قاضی حمید اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے متولی اور ذمہ دار بنے۔ اس کے بعد ہمارے عزیز مولانا محمد داؤد صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی سالہا سال کی محنت ہے، لہٰذا گڑبڑ کرنے والے اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ یہ ہمارے اکابر کا مادر علمی ہے۔ جن حضرات نے محنتیں کی ہیں، ان کا حق مقدم ہے۔ یہ کسی کی جدی پشتی وراثت نہیں ہے، محنت کا حق تسلیم کرتے ہوئے ہم ان حضرات کے لیے دعاگو بھی ہیں، ان کو ثابت قدمی کا مشورہ بھی دیتے ہیں اور اُن حضرات کو جو گڑبڑ پھیلانا چاہتے ہیں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں، میں اپنے تلامذہ سے یہی کہتا ہوں کہ دیکھو اختلاف کرو، اختلاف حق ہے لیکن مرکز سے کٹنے کی جرأت نہ کرنا۔ مرکز کی حفاظت کرنا، مرکز کے خلاف کام کرنے والے، مرکز کو اکھاڑنے والوں کے ساتھ نہ بیٹھنا۔ جس کا میرے ساتھ تعلق ہے میں کھلے طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا، ہمارے اکابر کا، شیخینؒ کا مادر علمی ہے۔ اگر ہم نصرۃ العلوم کے لیے قربانیاں دے سکتے ہیں تو انوار العلوم کے لیے بھی قربانیاں دیں گے ان شاء اللہ تعالی۔ یہاں محنت ہے، محنت کے ذریعے سے شریعت حق دیتی ہے۔ اس لیے یہ حق ہے علامہ زاہد الراشدی صاحب کا، یہ حق ہے مولانا محمد داؤد صاحب کا ہے، یہ حق ہے ان لوگوں کا جو ان حضرات کو ساتھ لے کر چلے اور ساتھ چل رہے ہیں۔ مداخلت کرنے والے خوامخواہ کی مداخلت سے گریز کریں، ورنہ نتائج برے سے برے ہوں گے۔

میں نے کہا کہ حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب رحمہما اللہ تعالی ان حضرات کے متفقہ طور پر افکار و نظریات یہ تھے کہ اکابر کے دامن کے ساتھ وابستہ رہنا۔ صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تلقین کیا کرتے تھے کہ خود رائی سے بچنا۔ مآل دونوں کا ایک ہے۔ الفاظ مختلف ہیں تعبیر ایک ہے۔ ہم بھی اگر افکار و نظریات کا تذکرہ کرتے ہیں تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ افکار و نظریات کو اپنا کر زندگی گزاریں۔ انہوں نے جو ہمارے لیے سبق چھوڑا اسے اپنائیں۔

آپ حضرتؒ کی کتابیں دیکھیں، اب دیکھیے تبصرہ کرنے والے مختلف انداز میں تبصرہ کرتے ہیں۔ کسی نے حضرت شیؒخ کی خدمات کا یوں تذکرہ کیا کہ حضرت ؒنے رد رد رد ہی کیا ہے۔ اللہ کے بندو! ایک لمحہ کے لیے غور کرو۔ سیلاب آ جائے، ایک عمارت ہے جس کے چاروں طرف سوراخ ہیں تو عقل مند آدمی چاروں طرف کی سوراخ بند کرے گا تاکہ یہ پانی عمارت میں داخل ہو کر نقصان نہ پہنچائے۔ جہاں سے بھی اہل سنت والجماعت کے جمہوری نظریے کی مخالفت شروع ہوئی حضرات نے اس کے سامنے بند باندھا، خواہ وہ غلام جیلانی برق ہو، غلام احمد پرویز ہو، احمد رضا خان ہو یا پھر مرزا قادیانی ہو۔ جنہوں نے بھی جمہور کے نظریے کی مخالفت کی، سیلابی ریلے کی صورت میں انہوں نے ان کا رد کیا۔

اور پھر یہ آپ حضرات کے لیے عرض کروں کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی اپنے اساتذہ میں عملی زندگی میں سب سے زیادہ متاثر تھے حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ جب دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو کر آئے، اپنے علاقے میں رسومات دیکھیں۔ جنازے کے موقع پر رسومات، دعا بعد الجنازہ، پھر دوسرے تیسرے دن ایصالِ ثواب کے نام پر دورانِ قرآن، اسقاطِ حیلہ وغیرہ تو حضرت مولانا غلام غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس دور میں جس دور میں ان مسائل کا ذکر کرنا بھی موت کو دعوت دینا تھا حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے علاقے سے ان رسومات کا خاتمہ کیا۔ آج مانسہرہ، الائی، بٹگرام میں جائیں، مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کے ان افکار کو، ان نظریات کو اور اس سوچ و فکر کو اس انداز کے ساتھ عوام الناس نے مانا کہ وہاں اب ان رسومات کا بہت کم تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایک مسلک کے خلاف نہیں، بلکہ جہاں سے بھی جمہور کے مسلک کی مخالفت ہوئی انہوں نے اس کا دفاع کیا۔ اپنی جماعت میں شامل ہو کر انہوں نے مخالفت کی تو حضرت شیخ نے کوئی معافی نہیں دی، بلکہ قلم اٹھایا۔ اس لیے حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی اور حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات کی بنیاد سلف صالحین کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا ہے۔ اپنی رائے کو ٹھونسنے کی کوشش مت کرو۔ ”واما بنعمۃ ربک فحدث“ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ پروردگار تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں ایسے اساتذہ کے ساتھ، ایسے علمی طبقے کے ساتھ، ایسے علمی خاندان کے ساتھ وابستگی نصیب فرمائی کہ ہم جتنا بھی تیرا شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ مجھے بھی اور آپ کو بھی عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

https://youtu.be/tcpmMAt_OOE


(اشاعت بیاد مولانا عبد القدوس خان قارنؒ)

اشاعت بیاد مولانا عبد القدوس خان قارنؒ

برادرِ عزیز مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا قارن صاحبؒ کے انتقال کی دل فگار خبر
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

’’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،       ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

ابتدائی اطلاعات اور مختصر تعزیتی پیغامات
مولانا عبد الوکیل خان مغیرہ

والد محترم رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال
حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ صفدری و برادران

اللہ والوں کے جنازے اور وقت کی پابندی
مولانا مفتی ابو محمد

نمازِ جنازہ میں کثیر تعداد کی شرکت
حافظ عبد الجبار

سانحۂ ارتحال کی خبریں اور بیانات
حافظ عبد الرشید خان سالم

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا اظہارِ تعزیت
مولانا عبد الرؤف محمدی

اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے
مولانا فضل الرحمٰن

جیسے آپ کا دل دُکھا ہے، ہمارا دل بھی دُکھا ہے
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی

حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے متبعِ کامل
 مولانا میاں محمد اجمل قادری

اللہ تعالیٰ ان کی خدماتِ دینیہ کو قبول فرمائے
مولانا محمد الیاس گھمن

زاہدان، ایران سے تعزیت
مولانا غلام اللہ

علمائے کرام کے پیغامات بسلسلۂ تعزیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

جامعہ فتحیہ لاہور میں دعائے مغفرت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

استاذ العلماء حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری

اسلاف کی جیتی جاگتی عملی تصویر تھے
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

اعزيكم واهله بهٰذا المصاب
مولانا مفتی محمد قاسم القاسمی

اسلاف کی عظیم روایات کے امین تھے
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

حق تعالیٰ شانہ صبرِ جمیل کی نعمت سے سرفراز فرمائیں
حضرت مولانا اللہ وسایا

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یادگار تھے
مولانا محمد الیاس گھمن

تنظیمِ اسلامی کی جانب سے تعزیت
اظہر بختیار خلجی

جامعہ محمدی شریف چنیوٹ کی تعزیتی قرارداد
مولانا محمد قمر الحق

مجلسِ انوری پاکستان کی تعزیتی پیغام
    مولانا محمد راشد انوری

جامعہ حقانیہ سرگودھا کی جانب سے تعزیت
حضرت مولانا عبد القدوس ترمذی

علمی و دینی حلقوں کا عظیم نقصان
وفاق المدارس العربیہ پاکستان

تعزیت نامہ از طرف خانقاہ نقشبندیہ حسینیہ نتھیال شریف
مولانا پیر سید حسین احمد شاہ نتھیالوی

جامعہ اشاعت الاسلام اور جامعہ عبد اللہ ابن عباس مانسہرہ کی طرف سے تعزیت
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی

تحریک تنظیم اہلِ سنت پاکستان کا مکتوبِ تعزیت
صاحبزادہ محمد عمر فاروق تونسوی

اللہ تعالیٰ علمی، دینی اور سماجی خدمات کو قبول فرمائے
متحدہ علمائے برطانیہ

پاکستان شریعت کونسل کے تعزیت نامے
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
پروفیسر حافظ منیر احمد

علمائے دیوبند کے علم و عمل کے وارث تھے
نقیب ملت پاکستان نیوز

سرکردہ شخصیات کی تشریف آوری اور پیغامات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر و برادران

خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد کی جامعہ نصرۃ العلوم آمد
مولانا حافظ محمد حسن یوسف

وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کی جامعہ نصرۃ العلوم آمد
مولانا حافظ فضل اللہ راشدی

امیرتنظیمِ اسلامی پاکستان جناب شجاع الدین شیخ کی الشریعہ اکادمی آمد
مولانا محمد عامر حبیب

جامعہ نصرۃ العلوم میں تعزیت کیلئے شخصیات اور وفود کی آمد
حافظ علم الدین خان ابوہریرہ

الشریعہ اکادمی میں تعزیت کیلئے شخصیات اور وفود کی آمد
ادارہ الشریعہ

مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کا سفرِ آخرت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’تیرے بغیر رونقِ دل اور در کہاں‘‘
مولانا عبد الرحیم

ایک عابد زاہد محدث مربی و معلم کی مکمل تصویر
قاری سعید احمد

استاد جی حضرت قارنؒ کے تدریسی اوصاف
اکمل فاروق

حسین یادوں کے انمٹ نقوش
مولانا محمد عبد المنتقم سلہٹی

جامع الصفات اور منکسر المزاج عالمِ دین
مولانا محمد عبد اللہ عمر

وہ روایتِ کہنہ اور مسنون وضع قطع کے امین
مولانا محمد نوید ساجد

چراغ جو خود جلتا رہا اور دوسروں کو روشنی دیتا رہا
محمد اسامہ پسروری

استادِ گرامی حضرت قارنؒ صاحب کی یاد میں
پروفیسر غلام حیدر

حضرت استاد مکرم رحمہ اللّٰہ کا حاصلِ حیات ’’عبد‘‘ اور حسنِ خاتمہ کے اشارے
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

حضرت قارنؒ کی یادیں
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

مانسہرہ میں یوم آزادی اور حضرت قارنؒ کی تاریخی آمد
مولانا حافظ عبد الہادی المیدانی سواتی

آہ! سائبانِ شفقت ہم سے جدا ہوا ہے
قاری محمد ابوبکر صدیقی

مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کے ساتھ وابستہ یادیں
اسد اللہ خان پشاوری

مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ کے ہزارہ میں دو یادگار دن
مولانا قاری شجاع الدین

حضرت قارن صاحبؒ سے ملاقاتوں اور استفادے کی حسین یادیں
مولانا حافظ فضل اللہ راشدی

علمِ دین کا ایک سایہ دار درخت
مولانا میاں عبد اللطیف

آہ! استاذ قارن صاحبؒ
مفتی محمد اسلم یعقوب گجر

حضرت قارن رحمہ اللہ اور ڈاکٹر صاحبان کی تشخیص
حافظ اکبر سیالکوٹی

استاد محترم، ایک عہد کے ترجمان
مفتی شمس الدین ایڈووکیٹ

حضرت شیخ قارنؒ — امام اہلسنت نور اللہ مرقدہ کی تصویر
مولانا قاری عبد القدیر سواتی

تحریک ختمِ نبوت اور حضرت قارن رحمہ اللہ تعالیٰ
مولانا عبد اللہ انیس

حضرت مولانا عبد القدوس قارنؒ: چند یادیں
مولانا حافظ خرم شہزاد

محبت اور دلجوئی کرنے والے بزرگ
قاری محمد عثمان رمضان

ایک عہد کا اختتام
   حافظ حفظ الرحمٰن راجپوت

استاد عالی وقار
ڈاکٹر حافظ محمد رشید

چراغِ علم بجھ گیا
مولانا محمد عمر عثمانی

’’یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ‘‘
مولانا عبد الجبار سلفی

ایک بے مثال شخصیت
بلال مصطفیٰ ملک

مطمئن اور نورانی چہرہ
پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید مشرقی

حضرت قارنؒ اور مولانا فضل الہادی سواتی
عمار نفیس فاروقی

نعی وفاۃ الشیخ عبدالقدوس خان رحمہ اللہ تعالیٰ
مولانا ذکاء اللہ

آہ ایک اور علم و معرفت کا درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا
مولانا شفیق الرحمان شاکر ایبٹ آبادی

استاد محترم مولانا عبد القدوس قارنؒ بھی چلے گئے
محمد مقصود کشمیری

خاندانِ سواتی کا ایک درخشندہ ستارہ
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

ایک آفتابِ علم کا غروب
صاحبزادہ حافظ حامد خان

حضرت قارن صاحبؒ حضرت شیخ سرفرازؒ کی نظر میں
محمد سرور کشمیری

امت ایک مخلص عالم سے محروم ہو گئی
مفتی رشید احمد العلوی

ہزاروں طالبانِ علم کے مُفیض
یحیٰی علوی

آہ! ایک درخشاں ستارۂ علم و فضل
ڈاکٹر ناصر محمود

حضرت قارنؒ سے پہلی ملاقات
محمد بلال فاروقی

دینِ متین کا ایک اور روشن چراغ گل ہوگیا
محمد عمران حقانی

استاد جی حضرت قارنؒ اور ملکی قانون کی پابندی
 مولانا امداد اللہ طیب

حضرت قارن رحمہ اللہ کا پابندئ وقت کا ایک واقعہ
شہزادہ مبشر

حضرت قارنؒ اور قرآن کا ادب
قاری عبد الوحید مدنی

’’قارن‘‘ کی وجہِ تسمیہ
 مولانا حافظ فرمان الحق قادری

چراغِ علم کی رخصتی
مولانا محمد ادریس

استاد جی حضرت قارنؒ کے گہرے نقوش
مولانا محمد حنظلہ

دل بہت غمگین ہوا!
محمد فاروق احمد

حضرت قارن صاحبؒ کی وفات اور قرآن کا وعدہ
میاں محمد سعید

’’وہ چہرۂ خاندانِ صفدر، جو سارے رشتوں کا پاسباں تھا‘‘
احسان اللہ

’’دے کر وہ دینِ حق کی گواہی چلا گیا‘‘
لیاقت حسین فاروقی

’’مجلس کے شہسوار تھے استادِ محترمؒ‘‘
قاری محمد ابوبکر صدیقی

’’تیری محفلیں تھیں گلشنِ دیں کی خوشبوئیں‘‘
   حافظ حفظ الرحمٰن راجپوت

یہ ہیں متوکل علماء
قاضی محمد رویس خان ایوبی

میرے ماموں زاد حضرت قارنؒ کی پُر شفقت یادیں
سہیل امین

سانحۂ ارتحال برادرِ مکرم
مولانا محمد عرباض خان سواتی

’’گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا‘‘
امِ ریحان

’’وقار تھا اور سادگی تھی اور ان کی شخصیت میں نور تھا‘‘
ڈاکٹر سبیل رضوان

عمِ مکرمؒ کی شخصیت کے چند پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تایاجان علیہ الرحمہ، ایک گوہر نایاب
اُمیمہ عزیز الرحمٰن

"اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا"
حافظ عبد الرزاق خان واجد

والد گرامی حضرت قارنؒ کے ہمراہ مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کے جنازہ میں شرکت
حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ صفدری

’’اک ستارہ تھا وہ کہکشاں ہو گیا‘‘
اہلیہ حافظ علم الدین خان ابوہریرہ

’’کیا بیتی ہم پہ لوگو! کسے حال دل سنائیں؟‘‘
اہلیہ حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ

میرے پیارے پھوپھا جانؒ
محمد احمد عمر بٹ

دل جیتنے والے پھوپھا جانؒ
بنت محمد عمر بٹ

میرے دادا ابو کی یاد میں
حافظ حنظلہ عمر

شفقتوں کے امین
دختر مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

دادا جان ہماری تعلیم و تربیت کے نگہبان
دختر حافظ علم الدین ابوہریرہ

آہ! حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ
مولانا محمد فاروق شاہین

حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی نمازِ جنازہ و تعزیتی اجتماع
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

’’جوڑی ٹوٹ گئی‘‘
مولانا حافظ محمد حسن یوسف

مولانا عبد الحق بشیر اور مولانا زاہد الراشدی کے تاثرات
عمار نفیس فاروقی

الشریعہ اکادمی میں تعزیتی تقریب
مولانا محمد اسامہ قاسم

مدرسہ تعلیم القرآن میترانوالی کے زیر اہتمام مولانا عبدالقدوس قارنؒ سیمینار
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری
حافظ سعد جمیل

قارن کی یہ دعا ہے الٰہی قبول کر لے!
مولانا عبد القدوس خان قارن

فہرست تصنیفات حضرت مولانا حافظ عبدالقدوس خان قارنؒ
مولانا عبد الوکیل خان مغیرہ

منتخب تاثراتی تحریریں
مولانا حبیب القدوس خان معاویہ

افکار و نظریات حضرات شیخینؒ سیمینار سے خطاب
مولانا عبد القدوس خان قارن
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری

’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کے تقاضے
مولانا عبد القدوس خان قارن

بخاری ثانی کے اختتام کے موقع پر دعائیں
مولانا عبد القدوس خان قارن
  مولانا عمر شکیل خان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی کی تحریروں میں حضرت قارنؒ کا تذکرہ
ادارہ الشریعہ

مجلہ الشریعہ میں حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کا تذکرہ
مولانا حافظ کامران حیدر

فہرست اشاعت بیاد حضرت قارنؒ
ادارہ الشریعہ

پیش لفظ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عرضِ مرتب
ناصر الدین عامر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter