امام اہلسنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے فرزندِ ارجمند اور استادِ گرامی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن گذشتہ دنوں جمعہ کی تیاری کے دوران دل کی تکلیف کے باعث جانبر نہ ہو سکے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اسی شب دس بجے ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت ہوئی۔ ایک جم غفیر ان کے جنازہ میں شریک تھا۔ ان کی اچانک وفات سے ہر وہ شخص متاثر اور غمگین ہوا جن کا ان سے کسی بھی حوالے سے تعلق تھا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ۔ حضرت قارن صاحب سے وابستہ یادیں ذہن میں اب بھی تازہ ہیں:
میں جب درجہ ثانیہ کے سال جامعہ نصرۃ العلوم زیرِ تعلیم تھا تو اس وقت حضرت قارن صاحب کے پاس میرا کوئی سبق تو نہیں تھا لیکن اس وقت بھی خارجی مطالعہ کا بہت شوق تھا، بالخصوص امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتابیں خریدنا اور ان کا مطالعہ کرنا میری سرگرمیوں میں سے تھا۔ جب معلوم ہوا کہ حضرت امام اہل سنہ کی کتابیں مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ شائع کرتا ہے اور اس کا سارا اہتمام حضرت مولانا عبدالقدوس قارن صاحب فرماتے ہیں تو بعض اوقات ان کی رہائش گاہ جو مدرسہ کے اندر ہی تھی اور سیڑھیوں کے ذریعہ وہ اپنے گھر جاتے تو جب میں نے کوئی کتاب خریدنی ہوتی تو پہلے بیل دی جاتی، حضرت تشریف لاتے تو انہیں بتایا جاتا کہ فلاں کتاب خریدنی ہے تو حضرت کتاب کا نام پوچھ کر واپس جاتے اور کتاب سمیت سیڑھیوں سے نیچے تشریف لاتے، کتاب کی قیمت بتاتے اور کتاب عنایت فرماتے۔
اس طرح مجھے زمانہ طالب علمی میں حضرت امام اہل سنہ کی کئی کتابیں حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ سے خریدنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ اس دوران ان کی بے پناہ شفقت بھی میسر آتی۔ ایک دفعہ پوچھنے لگے آپ کس درجے میں پڑھتے ہیں؟ میں نے بتایا درجہ ثانیہ۔ تو فرمانے لگے کہ حضرت شیخ کی کتابیں پڑھتے ہو وہ سمجھ میں بھی آتی ہیں؟ میں نے کہا حضرت ابھی تو اتنی سمجھ نہیں آتی، کوشش کرتا ہوں کہ ان کا کچھ نہ کچھ مطالعہ ہوتا رہے۔ فرمانے لگے چلو یہ اچھا ہے کہ کتابیں جمع کر رہے ہو، عالم بننے کے بعد جب مطالعہ کرو گے تو ان شاء اللہ تب ٹھیک سمجھ آئیں گی۔ بحمد للہ وہ کتابیں آج بھی موجود ہیں اور ان سے اکثر و بیشتر استفادہ ہوتا رہتا ہے۔
دورانِ طالب علمی ایک چیز جو میں نے حضرت قارن صاحب میں دیکھی وہ وقت کی پابندی تھی۔ پورا سال پانچوں نمازیں ان کی امامت میں ادا کرنے کی سعادت ہوئی، فجر کے بعد عوامی درس اور اکثر و بیشتر ان کے اسباق کی سماعت کی سعادت ہوتی۔ نصرۃ العلوم میں واحد ان کا درس تھا بغیر لاؤڈ اسپیکر کے ان کی آواز پوری مسجد میں گونجتی اور ایک عجیب نورانی سماں باندھ دیتی۔
کئی سال پہلے اپنے علاقہ کامونکی میں ایک مسجد کی ازسرِ نو تعمیر کے بعد مسجد انتظامیہ کی درخواست پر میں نے حضرت قارن صاحب سے وقت کی درخواست کی جو انہوں نے قبول فرمائی اور گوجرانوالہ سے کامونکی تشریف لے گئے۔ اسی تقریب میں حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری صاحب بھی مہمان خصوصی تھے، جب ہم مسجد میں پہنچے تو منتظمین نے بتایا کہ ابھی تک میاں اجمل قادری صاحب نہیں پہنچے لہٰذا قارن صاحب کی خدمت میں درخواست کر دیں کہ بیان تھوڑا سا طویل فرما دیں تاکہ حضرت میاں صاحب ان کے بیان کے دوران تشریف لے آئیں۔ میں نے حضرت قارن صاحب کی خدمت میں درخواست کی اور عرض کیا کہ مسجد کی دوبارہ تعمیر ہوئی ہے لہٰذا مسجد کے فضائل پر آپ گفتگو فرما دیں، اگر گھنٹہ گفتگو ہو جائے تو مناسب ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت قارن صاحب نے سوا گھنٹہ مسجد کی عظمت و فضیلت اور کردار پر سیر حاصل گفتگو کی جو کہ قابل رشک تھی۔ لیکن سوا گھنٹہ بیان کرنے کے بعد بھی میاں محمد اجمل قادری صاحب تشریف نہ لائے۔
حضرت نے مجھے فرمایا کہ ہاں بھئی! بیان تو کر لیا ہے اب واپسی کرتے ہیں۔ حضرت جونہی مسجد سے نکلے اور باہر گلی میں داخل ہوئے تو ادھر سے میاں صاحب تشریف لا رہے تھے۔ انہوں نے آتے ہی حضرت قارن صاحب کو زور سے سینے سے لگایا اور اونچی آواز سے کہا ’’ماشاءاللہ! ابن امام اہل سنہ تشریف لائے ہیں، ماشاء اللہ‘‘۔ اور ساتھ ہی حضرت قارن صاحب کا ہاتھ پکڑا اور دوبارہ مسجد میں لے گئے۔ وہاں میاں صاحب نے بیان کیا اور پھر مقامی میزبان کے گھر کچھ دیر کھانے کے لیے بیٹھے رہے۔ کافی دیر تک مجلس رہی دونوں بزرگوں کا آپس میں عقیدت و محبت دیدنی تھا۔ جب میاں صاحب سے اجازت لے کر ہم واپس گاڑی کی طرف لوٹے تو میں نے ازراہ تفنن حضرت قارن صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت یہ آپ کی کرامت ہے کہ آپ کے بیان کے بعد میاں صاحب تشریف لے آئے ہیں تو حضرت نے مسکرا کر فرمایا یہ میری نہیں آپ کی کرامت ہے کہ وہ آپ کے پروگرام میں تشریف لے آئے ہیں۔
ابھی گزشتہ سال جامعہ نصرۃ العلوم کے سالانہ امتحان کے موقع پر حضرت مہتمم جامعہ مولانا محمد فیاض خان سواتی صاحب کا حکم ہوا کہ آپ بھی امتحان کے لیے جامعہ تشریف لائیں، میں حاضر ہوا تو ہر ممتحن کا نام کمپیوٹر سے لکھا ہوا دیوار پر چسپاں تھا جبکہ میرا نام کمپیوٹر کی بجائے قلم (ہاتھ) سے لکھا ہوا چسپاں تھا۔ دورانِ امتحان حضرت قارن صاحب تشریف لائے، ہر ممتحن کی نشست پر خود تشریف لے گئے، سب سے گلے لگ کر ملے، حال احوال اور خیر خیریت دریافت کی، جب میرے پاس پہنچے تو میرا نام دیکھ کر مسکراہٹ بھرے انداز میں فرمانے لگے: ’’کیا وجہ ہے کہ سیاسی لوگوں کا نام سب سے ہٹ کر لکھا گیا ہے؟‘‘ میں نے ازراہِ تفنن عرض کیا کہ ’’حضرت میرا نام اس لیے سب سے مختلف انداز میں لکھا ہے کہ سیاسی لوگ ذرا راہِ راست سے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔ اس بات پر حضرت خوب مسکرائے اور سینے سے لگا کر اپنی دعاؤں سے خوب نوازا۔
حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ کا تصویر اور ویڈیو کیمرے کے متعلق موقف بہت واضح تھا۔ وہ تصویر اور ویڈیو کو نہ صرف ناجائز سمجھتے بلکہ جس مجلس میں تصویر کشی یا ویڈیو کیمرہ نظر آتا تو وقت دینے کے باوجود وہاں تشریف نہ لاتے۔ بعض اوقات دور سے کیمرہ دیکھ کر واپس لوٹ آتے۔ یہ ان کی بنیادی شرائط میں ہوتا کہ اسٹیج پر تصویر کشی اور ویڈیو کیمرہ نہیں ہوگا، جب تسلی کرائی جاتی تب آمادہ ہوتے۔
اس موقف پر وہ ساری زندگی کاربند رہے۔ ایک مرتبہ برادرم حافظ عمر فاروق صاحب نے مرکزی جامع مسجد (شیراں والا باغ) گوجرانوالہ میں "الحسنات میڈیا" کے زیر اہتمام علماء دیوبند سیمینار منعقد کیا۔ مہمانانِ گرامی میں حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب اور حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب بھی تھے۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دینا میرے ذمے تھا۔ دونوں بزرگ اسٹیج پر موجود تھے اور ہم نے طے کیا تھا کہ پہلے مولانا قارن صاحب کا خطاب ہو جائے کیونکہ ان کے خطاب کے دوران ویڈیو کیمرہ بند رہے گا، جب وہ خطاب کر کے تشریف لے جائیں پھر حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب خطاب فرمائیں گے اور ویڈیو کیمرہ بھی چلا لیا جائے گا۔ مگر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے فرمایا کہ مجھے ایک دوسری جگہ بھی خطاب کے لیے جانا ہے لہٰذا پہلے میرا خطاب ہو جائے۔ ہم نے کہا کہ پہلے مولانا قارن صاحب کا خطاب طے ہے۔ حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ بات سمجھ گئے۔ اور فرمانے لگے ’’یار میری وجہ سے آپ پریشان مت ہوں، پہلے بھائی جان (مولانا زاہد الراشدی) کا خطاب کروائیں، انہوں نے دوسری جگہ جانا ہے، میں تو آپ کے پاس ہوں، میرا خطاب بعد میں ہو جائے گا۔ رہی بات کیمرے کی تو اس کو بھی چلا لیں میں ڈائس کے پیچھے بیٹھ جاتا ہوں۔‘‘ ہم نے کہا نہیں حضرت آپ اسٹیج کی کرسی پر ہی تشریف فرما ہوں اور ہم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے خطاب کے دوران بھی کیمرہ بندہ رکھیں گے۔ پھر حضرت زاہد الراشدی صاحب کا خطاب آڈیو ریکارڈ ہوا ویڈیو نہ بن سکی۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللّٰہ کے درجات بلند فرمائے۔ وہ بہت شفیق، ہمدرد اور درد دل رکھنے والے بزرگ تھے۔ ایسے اللہ والے صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آخرت کی تمام منزلیں آسان کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین۔