14 اگست 2006ء بروز پیر، مانسہرہ کی دینی و علمی تاریخ کا وہ درخشاں باب ہے جسے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اسی ایک دن میں دو عظیم الشان اجتماعات منعقد ہوئے، جن میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ مہمانِ خصوصی تھے۔ علما و مشائخ، طلبہ و طالبات، فاضلات اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان سے فیض پایا اور ان کے ایمان افروز خطابات سے دلوں کو جلا بخشی۔
حضرتؒ کا انکساری بھرا سفر
انتظامیہ نے خواہش ظاہر کی کہ حضرتؒ کے لیے خصوصی گاڑی بھیجی جائے، مگر آپؒ نے ہمیشہ کی طرح سادگی و انکساری کو ترجیح دی اور ایک عام سواری میں رات بھر کا طویل سفر طے کر کے مانسہرہ پہنچے۔ صبح سویرے قلندر آباد میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل مولانا شیخ محمد عقیل کے ہاں قیام فرمایا۔ بعد ازاں مولانا فضل الہادی اور مولانا عبید اللہ شاہ آپ کو جامعہ بنوریہ لے آئے۔ یہ منظر ہی حضرتؒ کی عظیم شخصیت کا آئینہ دار تھا کہ بڑا سے بڑا عالم بھی عاجزی اور تواضع میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔
جامعہ بنوریہ للبنات مانسہرہ کی ختم بخاری تقریب
صفدر چوک ڈب نمبر 1 میں قائم جامعہ بنوریہ للبنات الاسلامیہ میں پہلی بار بخاری شریف کے اختتام کی پرنور تقریب منعقد ہوئی، جس میں خواتین، طالبات، فاضلات اور علما و مشائخ کی بڑی تعداد شریک تھی۔
نظامت و خطابات
جلسے کی نظامت مولانا مفتی فضل الہادی نے کی۔ پراثر خطابات کرنے والوں میں حضرت مولانا عبد الغفور دامت برکاتہم، مہتمم جامعہ حضرت مولانا سید قاضی شاہ، حضرت مولانا سید عبید اللہ شاہ، حضرت مولانا سراج العارفین، حضرت مولانا شاہ عبد العزیزؒ اور استاذِ مکرم حضرت مولانا خلیل الرحمن نعمانی شامل تھے۔
مولانا خلیل الرحمن نعمانی نے فرمایا:
’’پہلی ختم بخاری میں حضرت قارنؒ کی شفقت جامعہ کے مستقبل کے لیے ایک روشن مینار ہے۔‘‘
جامعہ کے سرپرست حضرت مولانا سید مہتاب شاہ نے حضرت مہمانِ مکرم سمیت تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ان کی آمد کو جامعہ کے لیے سعادت اور علاقے کے لیے خیر و برکت قرار دیا۔ اسی طرح جامعہ منہاج العلوم کے مہتمم حضرت مولانا فیض الباری نے بتایا کہ دورۂ حدیث کے زمانے میں حضرت قارنؒ ان کے استاد اور ناظم رہے ہیں۔
منظوم استقبالیہ اور حدیث کی قراءت
مولانا فضل الہادی نے عربی منظوم استقبالیہ لکھا، جسے قاری عادل محمود نے خوش الحانی سے پڑھا اور پھر فریم کر کے حضرتؒ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اسی موقع پر مولانا فضل الہادی نے بخاری شریف کی متعلقہ حدیث بھی سند کے ساتھ پڑھ کر سنائی۔
حضرتؒ کا خطاب اور تشریحِ حدیث
حضرت قارنؒ نے جامعہ کے منتظمین، اساتذہ اور معاونین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ حضرات نے اس علاقے کو بچیوں کی تعلیم سے بھی مالامال کر دیا ہے۔ یہ ایک عظیم دینی خدمت ہے۔‘‘
آپؒ نے ہزارہ کے علما و مشائخ کی علمی روایت، تحریکِ آزادی میں ان کی قربانیوں اور مدارس کی خدمات کا ذکر کیا۔ اپنے شاگرد مولانا فضل الہادی کی علمی صلاحیتوں کو سراہا، مولانا خلیل الرحمن نعمانی پر اعتماد کا اظہار فرمایا اور مولانا فیض الباری کو اپنے والدِ ماجد کے ممتاز شاگردوں میں شمار کیا۔
کتاب النکاح کی آخری حدیث کی تشریح میں آپؒ نے نہایت باریک نکات بیان کیے:
- بیٹیاں گھروں میں شوہروں کے لیے سکون و راحت کا باعث بنیں.
- بیٹے بڑے منصب پر بھی ہوں تو والدین کے نصیحت کرنے کا حق باقی رہتا ہے۔
آخر میں حضرت مولانا عبد الغفور دامت برکاتہم کی پُرسوز دعا پر یہ تاریخی اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ خواتین اور طالبات کی کثیر شرکت نے اسے ایک یادگار تقریب بنا دیا.
لبرکوٹ کا عظیم اجتماع
نمازِ ظہر کے بعد حضرت قارنؒ ایک بڑے قافلے کے ہمراہ، حضرت مولانا سراج العارفین اور مولانا فضل الہادی کی معیت میں لبر کوٹ روانہ ہوئے۔ راستے میں حضرت مولانا فیض الباری کے مدرسے میں مختصر حاضری دی اور پھر جامعہ اُم سلمہ للبنات لبر کوٹ پہنچے جہاں ختم بخاری کی تقریب جاری تھی۔ اس اجتماع کے ناظم بھی مولانا فضل الہادی تھے۔
علما کے خطابات اور استقبال
جامعہ کے بانی حاجی علی حسین، مہتمم مولانا خلیل الرحمن نعمانی، ناظم قاری محمد اعجاز، مولانا نور الٰہی، قاضی حبیب الرحمن اور دیگر علما نے والہانہ استقبال کیا۔ خطابات میں حضرتؒ کی آمد کو اپنی سعادت قرار دیا گیا۔
منظوم سپاس نامہ اور ولولہ انگیز درس
یہاں بھی مولانا فضل الہادی نے نیا عربی منظوم سپاس نامہ پیش کیا جسے قاری عادل محمود روفی نے ترنم کے ساتھ پڑھا۔ اس کے بعد حضرت قارنؒ نے نہایت دلنشین انداز میں حدیث شریف سنائی اور فرمایا:
’’اس علاقے میں دینداری کے ساتھ لوگوں کا گہرا تعلق، علماء کی بڑی تعداد اور اپنے والدِ گرامی کے شاگردوں کو دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا۔‘‘
آپؒ نے بخاری شریف کی حدیث کی روشنی میں سماجی مسائل، خاندانوں میں رقابتوں کے اسباب اور ان کے ازالے کی صورتیں بیان کیں۔ ساتھ ہی علم کے فضائل، مدارس کی اہمیت اور علما کی قربانیوں پر مفصل گفتگو فرمائی۔ یہ ولولہ انگیز خطاب تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا اور سامعین ہمہ تن گوش رہے۔
اجازتِ تدریس
جامعہ کے مدرس میں نے اور مولانا امر اللہ نے حضرتؒ سے متن الکافی کی اجازت حاصل کی جبکہ دیگر علما نے بھی حدیث شریف کی اجازت لی۔ پروگرام کا اختتام حضرت مولانا عبد الغفور دامت برکاتہم کی دعا پر ہوا۔
اچھڑیاں میں قیام اور واپسی
نمازِ عصر کے بعد حضرت قارنؒ اچھڑیاں تشریف لے گئے اور اپنی ہمشیرہ کے ہاں قیام فرمایا، مولانا سراج العارفین اور مولانا فضل الہادی حضرت کو اچھڑیاں پہنچا کر واپس آگئے۔ حضرت قارن رحمہ اللّٰہ نے جامعہ انوار القرآن ہزارہ یونیورسٹی کے خطیب اور جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل مولانا حافظ تاج محمود سے بھی ملاقات کی اور انہیں اپنی کتاب "انکشاف حقیقت" بطورِ تحفہ عطا کی۔ یہی کتاب اپنے شاگرد مولانا فضل الہادی کو بھی مرحمت فرمائی۔
اگلے دن حسبِ معمول سادگی اور خودداری کے ساتھ اکیلے ہی گوجرانوالہ واپس روانہ ہو گئے۔
یوں یومِ آزادی 14 اگست 2006ء کا دن مانسہرہ کی فضاؤں میں حضرت قارنؒ کے ایمان افروز خطابات، ان کی عاجزی و خلوص اور ان کی علمی شان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ ایک ہی دن دو عظیم اجتماعات میں علما، طلبہ، طالبات، فاضلات اور عوام نے حضرتؒ کے فیوض و برکات سے استفادہ کیا۔ یہ دن مانسہرہ کے لیے ایک عظیم سرمایہ اور حضرتؒ کی حیاتِ مبارکہ کا تابندہ باب ہے۔
اللَّهُمَّ اغفِر لِحَضرَةِ القَارِن، وَمَنِحْنَا الِانتِفَاعَ بِفُيُوضَاتِهِ، وَاحفَظْنَا بَعدَهُ مِنَ الفِتَنِ مَا ظَهَرَ وَمَا بَطَنَ، وَلَا تَحرِمنَا أَجرَهُ، وَاجمَعنَا بِهِ فِي دَرجَاتِ الجَنَّةِ مَعَ الأَبرَارِ۔