عم مکرم علیہ الرحمۃ کی شخصیت کے کتنے ہی پہلو ہیں جن کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
بچپن میں سب سے پہلے ان کے متعلق جو خاص تاثر ماحول میں سامنے آیا، وہ ان کی انتظامی صلاحیت تھی۔ جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو وہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے ناظم تھے اور اس کے علاوہ خاندان میں ہر خوشی غمی کے موقع پر انتظامات میں پیش پیش ہوتے تھے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ بھی ایسے معاملات میں عم مکرم کو ہی اعتماد کے ساتھ ذمہ داری سونپتے تھے۔
حضرت کی تصانیف پہلے ادارہ نشر واشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم سے شائع ہوتی تھیں۔ پھر بعد میں انھوں نے مسودات کی کتابت وغیرہ کے اخراجات ادارے کو ادا کر کے اپنی کتابیں خود شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو ’’مکتبہ صفدریہ’’ کے نام سے طباعت واشاعت کی ذمہ داری بھی عم مکرم کے سپرد کی جو آخر وقت تک انھی کے پاس رہی اور وہ اپنے بچوں (خصوصاً برادرم مولانا عبد الوکیل مغیرہ) کی معاونت سے انجام دیتے رہے۔
پھر تعلیم وتعلم کے حوالے سے ان کا تعارف ایک بہت قابل اور پختہ مدرس کے طور پر سامنے آیا۔ ان کی تدریسی قابلیت کے ساتھ ان کی بلند آواز بھی شہرہ رکھتی تھی۔ مدرسے میں داخل ہوں تو لاوڈ اسپیکر کے بغیر بھی انھی کی آواز گونج رہی ہوتی تھی۔ نقلی اور عقلی، دونوں طرح کے علوم مہارت اور گرفت کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ ہماری جماعت کو ان سے درجہ سادسہ میں میبذی اور شرح العقائد اور موقوف علیہ میں ہدایہ رابع پڑھنے کا موقع ملا۔ دورہ حدیث کے سال سنن ابی داود کی تدریس ان کے سپرد تھی۔
حضرت شیخ الحدیثؒ کی علالت کی وجہ سے ان کے آخری سالوں میں ایک خلا سا محسوس ہونے لگا کہ جن مسلکی ودینی موضوعات پر انھوں نے تصنیف وتالیف کا کام کیا، اس کا تسلسل جیسے ٹوٹ رہا ہے۔ عم مکرم کا طبعی میلان اس وقت تک تصنیف وتالیف کا نہیں تھا، لیکن انھوں نے دادا جیؒ کی تصانیف کی اشاعت کا بیڑہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کام کے تسلسل پر بھی ذاتی طور پر توجہ دی اور بڑی محنت سے اسی دائرے میں متعدد تصانیف قلم بند کیں اور اس سلسلے کو بساط بھر جاری رکھنے کی کوشش کی۔
علمی قابلیت اور تدریس وتصنیف کی صلاحیت تو حضرتؒ کی اولاد میں والد گرامی سمیت ہمارے متعدد اعمام کرام کو منتقل ہوئی، البتہ مسلکی ذوق اور مسلکی موضوعات پر تصنیف وتالیف کے تسلسل کی حد تک یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کی جانشینی زیادہ تر عم مکرم مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کے حصے میں آئی۔ لیکن اس جانشینی کا ایک اور پہلو بھی تھا جو اور کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ وہ مسلکی صلابت کے ساتھ ساتھ اس اعتدال اور شخصی وقار ومتانت کا بھی نمونہ تھے جو حضرت شیخ الحدیثؒ کی شخصیت میں پائی جاتی تھی۔ وہ انھی کی طرح دیوبندی حلقے کی مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی یکساں سرپرستی کرتے تھے اور بین المسالک تعلقات میں بھی ان کے ہاں یہی رواداری دیکھنے کو ملتی تھی۔ خاص طور پر والد گرامی کے خلاف بعض مسلکی حلقوں کی مہم بازی کا حصہ بننے سے انھوں نے خود کو بھی الگ رکھا اور اپنے بچوں کو بھی اس کی لپیٹ میں نہیں آنے دیا۔
ان کی وفات سے حضرت شیخ الحدیثؒ کے علم وتبحر اور انداز فکر کا ہی نہیں، مسلکی اختلافی معاملات میں ان کی متانت وشرافت اور شخصی وقار کا جانشین بھی دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ غفر اللہ لہ ورحمہ رحمۃ واسعۃ۔ آمین