سن 2012ء کی ایک خوشگوار یاد آج بھی دل و دماغ میں تازہ ہے۔ 15 رجب 1433ھ بمطابق 4 جون 2012ء بروز پیر جامعہ اشاعت الاسلام کالج دوراہا مانسہرہ میں ہماری دستار بندی کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ یہ صرف ایک تعلیمی تقریب نہیں تھی بلکہ میرے لیے زندگی کا ایک سنگِ میل اور خوشبو سے لبریز دن تھا۔ اس سے ایک روز قبل 3 جون کو فرزندِ امام اہل سنت، استاذِ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ جامعہ رحیمیہ مانسہرہ تشریف لائے۔ آپ اپنی بڑی ہمشیرہ اُمِ عدیل عمران کے گھر اچھڑیاں بھی گئے۔ یہ ملاقات بھی نہایت محبت و شفقت سے معمور تھی۔
اسی دوران شیخ الحدیث حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی دامت برکاتہم اور استاذِ حدیث مولانا فضل الہادی نے حضرت قارنؒ سے گزارش کی کہ وہ جامعہ اشاعت الاسلام کالج دوراہا مانسہرہ کی ختمِ بخاری و دستار بندی کی تقریب میں شرکت فرمائیں۔ اس سعادت کے لیے مجھے حکم ملا کہ حضرت کو اپنے ساتھ لے کر تقریب میں حاضر ہوں۔ جب ہم اچھڑیاں سے روانہ ہوئے اور کالج دوراہا پہنچ کر جامعہ کی حدود میں داخل ہونے لگے تو مہمانِ خصوصی ہونے کے باوجود حضرتؒ نے اپنی شناخت ظاہر نہ ہونے دی۔ حتیٰ کہ سیکیورٹی پر مامور افراد نے باقاعدہ آپ کی تلاشی لی اور آپ نے ذرا برا نہ مانا۔ اس وقت میرے دل نے گواہی دی کہ یہ شخصیت واقعتاً اہلِ دل، بے نفس اور متواضع ہیں۔ حالانکہ آپ جیسے بزرگ کا مقام یہ تھا کہ ہزاروں لوگ استقبال کے لیے کھڑے ہوں، لیکن آپ نے قدم بہ قدم خاکساری کا عملی مظاہرہ کیا۔
جلسہ کے اسٹیج سیکرٹری مولانا فضل الہادی صاحب خود تھے۔ انہیں جب اطلاع دی گئی کہ حضرت پہنچ گئے ہیں تو پھر حضرت کا والہانہ اور جذباتی استقبال ہوا۔ مولانا فضل الہادی نے جامعہ کے فکری و نظریاتی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بطورِ خاص یہ بات عرض کی: ’’حضرت! ہم فکری حوالے سے نہ تو رضاخانی ہیں اور نہ چھتروڑگڑھی۔‘‘ اس پر حضرتؒ نے تبسم فرمایا اور شفقت سے اس بات کی تائید کی، یہ تبسم آج بھی میری آنکھوں کے سامنے تازہ ہے۔
حضرت قارنؒ کو یہ جان کر مزید مسرت ہوئی کہ یہ صرف ختمِ بخاری کی تقریب نہیں بلکہ ان کے محترم ماموں قاری محمد امینؒ کے بیٹے سہیل امین (راقم الحروف) کی دستار بندی بھی ہے۔ جیسے ہی آپ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے نہایت پراثر الفاظ کہے جو آج بھی میرے دل پر نقش ہیں۔ آپ نے فرمایا:
’’میرے لیے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ آج 63 فاضلین اور 12 مفتیانِ کرام کی دستار بندی کی تقریب میں میرے ماموں زاد بھائی سہیل امین کا نام بھی شامل ہے۔‘‘ مزید فرمایا: ’’شیخ الحدیث حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی، مولانا فضل الہادی اور مہتمم جامعہ حضرت مولانا عبدالقدوس دامت برکاتہم العالیہ کا یہ بڑا احسان ہے کہ انہوں نے مجھے اس بابرکت محفل میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے ابتدا میں محض مروّت اور رسم کے طور پر قبول کیا، لیکن یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ میرے ماموں قاری محمد امینؒ کے فرزند کی دستار بندی ہے۔ میرے ماموں میرے صرف ماموں نہیں بلکہ جگری دوست تھے۔ اگر میں آج یہاں شریک نہ ہوتا اور واپس گوجرانوالہ چلا جاتا تو مجھے ساری زندگی افسوس رہتا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج مجھے اپنے ماموزاد بھائی سہیل امین کی دستار بندی پر جتنی خوشی ہوئی ہے شاید اپنے بیٹے کی تقریب میں بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔‘‘
یہ الفاظ سن کر میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے واقعی حضرت قارنؒ نے اپنی شفقت اور محبت سے میرے سر پر دستِ کرم رکھ دیا ہو۔ یہ تقریب نہایت اخلاص، محبت اور علم و برکت کے ماحول میں منعقد ہوئی۔ حضرت قارنؒ کے پراثر کلمات نے اس تقریب کو مزید یادگار بنا دیا۔ حاضرین کے دل شاداب ہو گئے اور سب نے محسوس کیا کہ یہ دن زندگی بھر نہیں بھول سکیں گے۔
آخر میں دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ اس محفل میں شریک ہونے والے تمام حضرات کی محنت کو قبول فرمائے اور اس ناچیز طالبِ علم کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ بالخصوص دعا ہے کہ فرزندِ امام اہل سنت، استاذِ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ، جن کی 15 اگست کو وفات ہوئی اور رات دس بجے جنازہ ادا کیا گیا، اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
(۱۶ اگست ۲۰۲۵ء)