مفتی عیسی گورمانی مرحوم جامعہ علوم اسلامیہ میرپور میں مدرسِ حدیث تھے، سابق مفتی نصرۃ العلوم گجرانوالہ تھے، حاجی بوستان مرحوم بھی منشورِ مہتممی پر مکمل عملدرآمد کیا کرتے تھے، انہوں نے مفتی عیسیٰ خان گورمانی کو بیک بینی و دوگوش مدرسہ سے فارغ کر دیا۔ تو حاجی صاحب مرحوم نے مجھے فرمایش کی کہ آپ جناب زاہد الراشدی اور جناب قارن سے رابطہ کریں بلکہ نصرۃ العلوم میں جا کر ان سے کہیں کہ دونوں بھائی اپنی خدمات میرپور جامعہ علوم اسلامیہ کے حوالے کریں، منہ مانگی تنخواہ دوں گا۔ میں نے حقِ دوستی نبھاتے ہوئے جناب راشدی اور قارن مرحوم سے رابطہ کیا۔
’’خالو جی! ہم نے اللہ کا دین بولی لگانے کے لیے نہیں پڑھا کہ جہاں زیادہ بولی لگے وہاں بخاری اور صحاح ستہ پڑھائیں۔ یہ دین ہے، ٹھیکہ اور سٹیج ڈرامہ نہیں کہ اداکاروں کی طرح ریٹ بڑھاتے رہیں۔ ہماری تربیت ہی یہ ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے والد چھپڑوالی مسجد کے خستہ حال مدرسے میں گزشتہ نصف صدی سے پڑھا رہے ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد کے بڑے مدارس نے اعلیٰ گریڈ کی پیشکشیں کیں مگر انہوں نے فرمایا، دین کی منڈی نہیں لگانی، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں، رزق دوڑ کر ہمیں تلاش کرتا ہے۔‘‘ قارن صاحب نے کہا، ’’ہماری تیسری نسل پروان چٰڑھ گئی ہے ہم اہلِ گجرانوالہ سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مدرسے ریٹ کے حساب سے چلنے لگیں تو دین کا رکھوالا کون ہو گا؟ سوچیے، جہاں مفتی عیسیٰ اور آپ اور کے دوسرے لایق فایق مدرسین دیہاڑی دار کی طرح فارغ کر دیے گئے، وہاں ہم پچاس سالہ نصرت العلوم کی خدمات کو طلاق دے دیں؟ خالو جی معذرت! ہم آپ کی بات نہیں مان سکتے۔ دعا کجیے اللہ ہمیں یہیں موت نصیب فرمائے۔‘‘
اور پھر قارن صاحب واقعی تادمِ واپسین ڈیڑھ کمرے کے اسی مکان میں اللہ کے حضور پیش ہو گئے، ان کے ما شاء اللہ اٹھارہ پوتے پوتیاں سبھی رزق کھا رہے ہیں۔ یہ ہیں متوکل علماء۔