آج کی بہت دل گرفتہ اور رقت آمیز کیفیت
آج جامعہ اشرف العلوم کے مہتمم حضرت مولانا مفتی نعیم اللہ دامت برکاتہم العالیہ، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ تشریف لائے اور حضرت شیخ الحدیث علامہ زاہد الراشدی دامت برکاتہم العالیہ سے ان کے برادرِ مرحوم کی تعزیت کی۔
اس دوران برادر مکرم مولانا عبد الوکیل خان مغیرہ بھی حاضر ہوئے۔ انہوں نے رونے والی کیفیت کے ساتھ، اشکبار آنکھوں اور لرزتی آواز میں یہ خبر سنائی کہ آج ہمارے والدِ گرامی سیالکوٹ کے ایک پروگرام کے لیے روانہ ہونا چاہتے تھے، مگر افسوس! آج والد موجود نہیں ہیں۔ یہ سن کر ہمارے دلوں پر کرب و صدمے کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ہم نے بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پایا، مگر حضرت مولانا راشدی کی کیفیت تو اور بھی زیادہ غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی تھی، بمشکل ضبط کر پا رہے تھے۔
حضرت قارنؒ ہمیں کب تک رلاتے رہیں گے؟ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں خوش و خرم رکھے، اور ہمارا یہ رونا دھونا ان کے حق میں نیکی بنا کر قبول فرمائے۔ ہمارے دردِ دل کے بدلے ربِ کریم انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
(۱۷ اگست ۲۰۲۵ء)
مانسہرہ میں حضرت قارنؒ کی یادیں
3 جون 2012ء بروز اتوار 13 رجب المرجب 1433ھ حضرت شیخ الحدیث و التفسیر مولانا حافظ محمد عبد القدوس خان قارنؒ صبح کے وقت اپنے طالب علم محمد ارشد مانسیروی (شریک دورہ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) کے ہمراہ مانسہرہ تشریف لائے۔ آپ سب سے پہلے تاء مسجد میں پہنچے اور وہیں نماز فجر ادا فرمائی۔ بعد ازاں آپ کو جامعہ رحیمیہ لے جایا گیا۔ جامعہ رحیمیہ میں پروگرام کا آغاز نماز ظہر کے بعد ہونا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد جامعہ کے سامنے کھلے میدان میں قناعتیں لگائی گئیں اور ایک عظیم الشان جلسے کے لیے سٹیج تیار کیا گیا۔ اس اجتماع میں علماء کرام، طلبہ، عوام الناس اور ہر طبقہ فکر کے افراد شریک تھے۔
مہمان خصوصی: شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا حافظ محمد عبد القدوس خان قارن
صدارت: حضرت مولانا خلیل الرحمن نعمانیؒ (شیخ الحدیث جامعہ رحیمیہ)
سرپرستی: حضرت مولانا عبد الغفور دامت برکاتہم العالیہ
منتظمِ جلسہ: حضرت مولانا عبد الرحیم علوی (مہتمم جامعہ رحیمیہ)
نقیبِ محفل: فضل الہادی (سابقہ استاد حدیث جامعہ رحیمیہ و جامعہ اشاعت الاسلام مانسہرہ)
دیگر علماء کی شرکت: خصوصاً حضرت مولانا شبیر احمد کشمیری
علماء کرام کے پُر اثر خطابات کے بعد حضرت قارنؒ کی خدمت میں استقبالیہ نظم پیش کی گئی، جو جامعہ کے دو طلبہ نے نہایت خوبصورت انداز میں سنائی۔ بعد ازاں وہ منظوم استقبالیہ ایک فریم کی صورت میں آپ کو بطور یادگار پیش کیا گیا۔ اس کے بعد حضرت قارنؒ نے تقریباً سوا گھنٹہ نہایت بصیرت افروز درس دیا۔ اس درس میں آپ نے امام بخاریؒ کے حالات و سوانح، بخاری شریف کی عظمت و اہمیت، حدیث شریف کے مقام و مرتبہ، شریعت سے وابستگی کے فوائد، شریعت سے دوری کے نقصانات، اور بالخصوص نئے فاضل علماء کو سیاسی، سماجی اور علمی میدان میں کردار ادا کرنے کی بھرپور ترغیب دی۔
اس جلسہ میں 12 طلبہ نے دورہ حدیث کی تکمیل پر سندِ فراغت حاصل کی، جبکہ 20 حفاظ کرام کی دستار بندی کی گئی۔ اس بابرکت اجتماع میں پیش کیا گیا یہ قصیدہ حضرت مولانا نصر الدین خان عمر زید مجدہم اور ان کے برادران مکرمین دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ (نوٹ: یہ قصیدہ اس لنک پر دستیاب ہے)
(۱۹ اگست ۲۰۲۵ء)
میری زندگی کا پہلا جمعہ اور حضرت قارنؒ
میری زندگی کا پہلا جمعہ جو میں نے پڑھایا وہ جامع مسجد جان محمد، پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں تھا۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں ہمارے محترم و مکرم استاذِ گرامی حضرت مولانا عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ (ٹیکسلا) خطیب تھے۔ اس وقت رجب المرجب کا آخری عشرہ شروع ہو چکا تھا، سالانہ امتحانات قریب تھے اور تیاری جاری تھی کہ حضرت کے بھانجے، ہمارے ہم جماعت اور حضرت مولانا ضیاء الدین رحمہ اللہ کے فرزند، مولانا محمد بلال (ہری پور) نے اطلاع دی کہ استاذِ گرامی حضرت مولانا عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ ٹیکسلا تشریف لے گئے ہیں اور آپ کو حکم دیا ہے کہ ان کی مسجد میں جمعہ پڑھائیں۔
میں نے راستے کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت مولانا محمد عبدالقدوس خان قارن سواتی رحمہ اللہ جمعہ پیپلز کالونی میں پڑھاتے ہیں اور ان کی مسجد ہے جامع مسجد تقویٰ، جو جامع مسجد جان محمد کے قریب ہے۔ لہٰذا انہی کے ہمراہ جانا ہوگا۔ چنانچہ 24 رجب المرجب 1417ھ بمطابق 6 دسمبر 1996ء، بروز جمعہ میں نے پہلی مرتبہ جمعہ کے دونوں عربی خطبے کتاب "نماز حنفی" سے رٹ کر یاد کیے۔
صبح نو بجے ہی میں نے حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن رحمہ اللہ کے گھر پیغام بھیجا کہ کس وقت جانا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ مسجد میں تشریف لائے اور مسکراتے ہوئے طلبہ سے فرمایا: "اسے منبر پر بٹھاؤ، تقریر سنو، ابھی تو نو بجے ہیں، جب جانے لگیں گے تو اطلاع دے دی جائے گی۔"
متعین وقت پر رکشہ آیا اور میں حضرت قارن رحمہ اللہ کے ساتھ مسجد روانہ ہوا۔ راستے میں میں نے عرض کیا: "استاد جی! یہ میرا پہلا جمعہ ہے، کچھ رہنمائی فرمائیں۔" وہ مسکرائے اور فرمانے لگے: "تمہاری تقریریں تو ہم سنتے رہتے ہیں، بڑا شور مچاتے ہو۔" اس کے بعد انہوں نے جمعہ کے بیان کے لیے معراج النبی ﷺ کے موضوع پر نکات سمجھائے اور ایک جملہ یاد کروایا جس میں ان تمام انبیاء علیہم السلام کے نام اشارۃً جمع تھے جنہوں نے آسمانوں پر حضور ﷺ کا استقبال فرمایا۔ وہ جملہ تھا: "أَعْيَاهُم"۔
ہمزہ (أ) سے: حضرت آدم علیہ السلام (پہلا آسمان)
عین (ع) سے: حضرت عیسیٰ علیہ السلام (دوسرا آسمان) ـ اسی آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے۔
یاء (ي) سے: حضرت یوسف علیہ السلام (تیسرا آسمان)
الف (ا) سے: حضرت ادریس علیہ السلام (چوتھا آسمان)
ہاء (هـ) سے: حضرت ہارون علیہ السلام (پانچواں آسمان)
میم (م) سے: حضرت موسیٰ علیہ السلام (چھٹا آسمان)
اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام۔
پھر اس جملے کی لطافت کو نمایاں کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس کا لفظی ترجمہ ہے: "اس نے ان سب کو تھکا دیا"، لیکن یہاں یہ مطلب مراد نہیں بلکہ اس کا لازمی مفہوم مراد ہے، یعنی: "وہ ان سب سے آگے نکل گئے"۔ اور حقیقت یہی ہے کہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے سفر میں تمام انبیاء سے آگے بڑھ گئے۔
یوں میں نے زندگی کا پہلا جمعہ اسی مسجد میں پڑھایا۔ جمعہ کے بعد واپسی بھی اسی رکشے سے ہوئی۔ میں نے حضرت قارن رحمہ اللہ سے درخواست کی کہ چھٹیوں میں یہیں رہ کر تفسیر پڑھنا چاہتا ہوں، ساتھ ہی عرض کیا کہ فلسفے کے بعض اسباق مجھے سمجھ نہیں آئے، اس لیے آپ "ہدایت الحکمت" پڑھا دیں۔ وہ مسکرا کر فرمانے لگے: "چھٹیوں میں تو چھٹیاں ہی کروں گا!" بعد میں ہم نے یہی درخواست حضرت مولانا عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ سے کی تو انہوں نے شفقت فرماتے ہوئے ہمیں "ہدایت الحکمت" پڑھانا شروع کیا۔ میں، مولانا قاری محمد خورشید اور حضرت مولانا حماد الرحمٰن ہم سبق تھے۔ مگر افسوس! تین ہی اسباق کے بعد حضرت کی طبیعت ناساز ہو گئی اور سلسلہ رک گیا۔ انہی دنوں حضرت قارن رحمہ اللہ بھی شدید بیمار ہوگئے۔ ایک دن فرمانے لگے: "مولوی فضل الہادی! میں نے تجھے کتاب پڑھانے سے انکار کیا تھا، اسی لیے بیمار ہوا ہوں۔" میں نے عرض کیا: "استاد جی! ایسا نہیں، میں نے تو حضرت عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ سے سبق شروع کیا تھا، مگر وہ بھی بیمار ہوگئے۔" اس پر وہ حیران ہو کر فرمانے لگے: "عجیب بات ہے، جو پڑھائے وہ بھی بیمار، اور جو نہ پڑھائے وہ بھی بیمار!"
یہ پہلا جمعہ تھا جو میں نے پڑھایا اور وہ بھی حضرت قارن رحمہ اللہ کی معیت میں۔ اگلا جمعہ 13 دسمبر 1996ء کو مسجد عثمان غنیؓ، محمدی ٹاؤن میں پڑھانا پڑا۔ وہاں مجھے ناظم جامعہ، حضرت مولانا محمد ریاض خان سواتی رحمہ اللہ نے بھیجا تھا۔ یوں مسلسل دو جمعے پڑھانے کی سعادت ملی۔ اللہ تعالیٰ ان تینوں بزرگوں، حضرت مولانا عزیز الرحمٰن ٹیکسلا رحمہ اللہ، حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن رحمہ اللہ، اور ناظم جامعہ حضرت مولانا صوفی محمد ریاض خان سواتی رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے، ان کی قبور کو نور سے بھر دے اور ہمیں ان کی برکات سے ہمیشہ مستفید فرمائے۔
اللَّهُمَّ لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم۔ ترجمہ: اے اللہ! ہمیں ان کے اجر و ثواب سے محروم نہ فرما، اور ان کے بعد ہمیں فتنے میں نہ ڈال۔