ابا جی شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقدوس خان صاحب قارن رحمہ اللہ تعالٰی بہت محبت کرنے والے اور اعلیٰ کردار و اخلاق، ملنسار و مہمان نواز شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے اچانک یوں ایسے چلے جانے کی وجہ سے ہم پر جو غم کا پہاڑ ٹوٹا اور جس صدمے سے ہم دوچار ہوئے ہیں اس دکھ و الم کا کوئی مداوا نہیں کر سکتا۔
جس دن میری شادی ہوئی اس دن ہم آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر آئے۔ راستے میں ایک جگہ پوچھتے کہ کھانا ہے کچھ، تو کھانے کے لیے کچھ لے لیتے ہیں؟ مگر میں خاموش رہی۔ ابا جی کا ایسے پوچھنا مجھے بہت اچھا لگا کہ ان کو فکر مندی تو تھی۔ پھر جب گھر دروازے کے پاس پہنچے تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر گھر لے کر آئے۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے حقیقی والد ہوں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ ہمیں ہمارے والد کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر محبت کرنے والے، خیال رکھنے والے انسان تھے۔ ابا جی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بہووں کو کبھی بھی بہو نہیں سمجھا بلکہ بیٹی سمجھا۔ ابا جی رحمۃ اللہ علیہ بچوں سے بہت زیادہ پیار محبت اور شفقت سے پیش آتے۔ سب بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ بچوں کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کا بھی خیال رکھتے اور موسم کے مطابق بچوں کے کپڑے وغیرہ بھی چیک کرتے کہ کسی نے ٹھنڈے موسم میں سردی سے بچاؤ کا مکمل انتظام کر رکھا ہے یا نہیں؟
ابا جی رحمۃ اللہ علیہ پیسوں کے معاملے میں دل کے بہت زیادہ فراخ دل تھے۔ ہم تین فیملیاں (بھائی مغیرہ، بھائی ابوہریرہ اور ہماری فیملی) آپ کے ساتھ رہتے تھے تو آپ آئے دن بچوں کو پیسے ضرور دیتے۔ ایسے ہی اگر ہم اپنے میکے جاتیں تو ابا جی ہمیں پیسے دیتے کہ یہ میرے بچوں کے ہیں ان کے کھانے پینے کا خیال کرنا۔ ایسے ہی اگر ہم ابا جی کی پسند کی کوئی کھانے کی چیز بناتے اور وہ اچھی بن جاتی تو ابا جی ہمیں انعام ضرور دیتے۔ ایسے ہی جب ابا جی کے مہمان آتے اور ہم ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے تب بھی ابا جی خوشی خوشی انعام سے نوازا کرتے۔
ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کا بچوں کے بغیر دل نہیں لگتا تھا جب ہم میکے جاتے تو ابا جی فون کر کے ضرور پوچھتے کہ واپسی کب ہے، میرا بچوں کے بغیر دل نہیں لگ رہا، یا تو آکر مل جاؤ یا پھر میں آجاتا ہوں۔ اسی بہانے تمہارے پنڈ والوں (موڑ ایمن آباد) تمہارے ابا جی سیف اللہ بٹ صاحب، تایا جی قاری ضیاء اللہ صاحب، ذکاء اللہ صاحب سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ ایسے کئی بار آپ ہمارے گھر (موڑ ایمن آباد) تشریف لائے اور وہاں بچوں کو ہنستا کھیلتا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔
ابا جی رحمۃ اللہ علیہ خود بتاتے ہوتے تھے کہ جب تمہارا بڑا بھائی محمد عمر بٹ آٹھ نو سال کی عمر میں نہر میں ڈوب کر فوت ہوا تو وہ رات میں تم لوگوں کی طرف رہا تھا۔
ابا جی رحمۃ اللہ علیہ بچوں کی دینی تعلیم کو لے کر بہت زیادہ فکر مند رہتے تھے اور فرماتے ہوتے تھے کہ دنیاوی تعلیم بھی ضروری ہے لیکن دینی تعلیم ہی دنیا و آخرت سنوار دے گی۔ اس لیے اپنے بچوں کو دینی تعلیم کی طرف راغب کرو۔
ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کو ہم نے کبھی کسی کی برائی کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلکہ اگر گھر میں کبھی ایسی کوئی بات ہو رہی ہوتی تو آپ اس طرف دھیان بالکل نہ دیتے بلکہ خاموش رہتے۔ اور ایسی ویسی کسی بات میں شامل نہ ہوتے بلکہ ہماری باتوں کا رخ موڑنے کے لیے اپنی کوئی بات چھیڑ دیتے۔
ویسے تو ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کا سب پوتے پوتیوں سے بہت زیادہ پیار تھا مگر بھائی عمر کے بیٹے حافظ محمد حنظلہ عمر کے بارے میں کہتے تھے کہ سب پوتے ایک طرف حنظلہ ایک طرف۔ مگر ابا جی میرے بڑے بیٹے محمد التمش سے بھی بہت زیادہ پیار محبت کرتے تھے۔ ابا جی کبھی کبھار التمش کو تنگ کرتے کہ میں نے "تمہارے نانا سے اس کی گاڑی چھین لینی ہے" جس کی وجہ سے التمش چڑ جاتا تھا تو اسے کہتے تھے کہ میں تمہاری باتیں سننے کے لیے تمہیں تنگ کرتا ہوں۔ گزشتہ بڑی عید کو میرے میاں اور محمد التمش، ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میترانوالی جانور پسند کرنے گئے تو ابا جی کہتے تھے کہ سارے راستے میں التمش کی باتوں نے بور نہیں ہونے دیا۔ سارے راستے گپ شپ لگاتا رہا ہے۔
جب کبھی کبھار التمش کو کسی شرارت کی وجہ سے مار پڑتی تو ابا جی مجھے غصے ہوتے کہ "کڑیے منڈے نوں ماریا نہ کر، اس سے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے۔"
بچوں کی تعلیمی کامیابیوں پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے اور غالباً آخری انعام بھائی عمر کی بیٹی کو میٹرک میں کامیابی پر ملا۔
ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح میرے میاں کو بھی لکھنے پڑھنے کا ذوق و شوق ہے تو ابا جی رحمہ اللہ کبھی کسی کتاب کا نام بتاتے کہ یہ موجود ہے تو لے کر آؤ۔ اسی بہانے کبھی کبھار آپ ہمارے کمرے میں بھی تشریف لاتے۔ تھوڑی دیر بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور اپنی مطلوبہ کتاب لے کر نیچے اپنے کمرے میں واپس تشریف لے جاتے۔
اب تو بس ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کی صرف یادیں ہی رہ گئی ہیں اب تو بھرا ہوا گھر بھی اکیلا محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی اماں جی (ساس صاحبہ) کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے آمین ثم آمین۔ جس طرح ابا جی رحمۃ اللہ علیہ نے ساری زندگی دین کی خدمت کی اللہ تعالٰی آپ کی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ بالایمان نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔