استاذ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، امام جامع مسجد نور، خطیب جامع مسجد تقویٰ سیٹلائٹ ٹاؤن، گوجرانوالہ، استاذ الاساتذہ، حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب فی ذمۃ اللہ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ کریم ان کی زندگی بھر کی تمام حسنات کو قبول فرمائیں، لغزشوں سے درگزر فرمائیں اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرماتے ہوئے اعلیٰ علیین میں مقامِ فاخرہ سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔ یادِ ماضی کے حسین لمحات میں کھو کر کچھ بکھرے ہوئے موتیوں کو پاتال سے منصۂ شہود پر لانے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ۔
استاذِ محترم 5 اپریل 1952ء کو گکھڑ میں پیدا ہوئے، یہ ایک والدہ سے تین بھائی ہیں، جن میں سب سے بڑے استاذِ محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہیں، جبکہ درمیانی نمبر اِن کا تھا، اور چھوٹے بھائی مولانا عبد الحق خان بشیر صاحب دامت برکاتہم العالیہ گجرات والے ہیں۔
حفظِ قرآن مجید گکھڑ میں ہی پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا امتحان پاس کر کے امتیازی نمبروں میں سندِ فراغت حاصل کی۔ جبکہ 1975ء سے تاحال جامعہ میں ہی تدریس کرتے رہے۔ بیچ میں کچھ عرصہ ادارے کے ناظم بھی رہے۔ شنید ہے کہ موصوفِ ممدوح کی ناظمیت کا زمانہ ادارے کے لئے نیک شگون ثابت ہوا اور اس دور میں ادارے نے بہت ترقی کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر حضراتِ شیخین کریمین کی طرف سے انہیں کے زیرِ سایہ استاذِ محترم کو ’’استاذ الحدیث‘‘ بھی بنا دیا گیا، یقیناً جامعہ نصرۃ العلوم جیسے علم و عمل کے ’’بحرِ ذخار‘‘ ادارے میں تدریس کا مل جانا ہی غنیمت ہوتا ہے چہ جائیکہ ’’ناظمِ ادارہ‘‘ اور ’’استاذ الحدیث‘‘ مقرر ہو جانا — زہے مقدر، زہے نصیب —
1998ء کی ایک یخ بستہ صبح تھی جب بندہ جامعہ میں درجہ ثالثہ میں داخلے کے لئے وہاں حاضر ہوا، میرا وہ اس وقت کا ’’خوفناک ترین‘‘ اور زندگی بھر کا ’’یادگار ترین‘‘ داخلہ ٹیسٹ تھا جو استاذِ محترم نے لیا۔ اس کی وجہ سے میں پھر جامعہ کا ایسا اسیر ہوا کہ دورۂ حدیث سے فارغ ہو کر ہی وہاں سے بادلِ نخواستہ رخصت ہوا۔ زندگی بھر مجھے ان میں اور کسی تبلیغی سلسلے کے استاذ و شیخ میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا، یقیناً وہ روایتِ کہنہ اور مسنون وضع قطع کے امین تھے۔ آج بھی ان کا سراپا آنکھوں کے سامنے گھوم کر نمناکی کا ساماں پیدا کر رہا ہے۔ بندہ کو 2003ء میں استاذِ محترم سے دورۂ حدیث شریف کے سال بخاری شریف جلد ثانی اور مسلم شریف جلد اول سبقاً پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آج بھی ان کی کٹورے جیسی آواز کانوں میں رس گھول کر دل کو حزین و مغموم کر رہی ہے۔
استاذِ محترم کے بڑے بیٹے حضرت مولانا حافظ نصر الدین خان عمر حفظہ اللہ تعالیٰ شروع سے ہی بندہ کے کلاس فیلو رہے ہیں۔ استاذِ محترم کو میں نے منتہی کتب کی تدریس کرتے ہی دیکھا ہے، لیکن جب ان کے چھوٹے بیٹے غالباً ’’مغیرہ‘‘ کے ادارے میں ابتدائی کتب پڑھنے کی باری آئی تو شفقتِ پدری سے مغلوب ہو کر استاذِ محترم نے ’’علم الصرف‘‘ اپنے زیرِتدریس کر کے محبت کی اعلیٰ مثال پیش کی۔ مجھ سمیت کسی بھی طالب علم کو کسی بھی مسئلے میں، کبھی بھی استاذِ محترم نے تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا اور ہمہ وقت طلبہ کو ایک مشفق استاذ کے ساتھ ساتھ ایک سایہ دار سائباں بھی مہیا کئے رکھا، یہ سب اعمال یقیناً آج ان کے لئے صدقہ جاریہ ہیں، ان شاء اللہ۔
استاذِ محترم کلاس میں دورانِ تدریس ایک بہترین مدرس و معلم جبکہ فارغ اوقات بالخصوص بعد از نمازِ مغرب و عشاء حوض کے پاس ایک ستون کے ساتھ تشریف فرما ہوتے جس میں کوئی دیکھنے والا محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ استاذ کون ہیں اور طلبہ کون؟۔ بذلہ سنجی اور نکتہ رسی میں حضرت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ سدا بہار بلکہ باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ اس سب کچھ کے باوجود حضرت کا رعب و دبدبہ قابلِ دید ہوتا تھا، جہاں سے گزر جاتے تھے یا جس طرف ایک مرتبہ بغور دیکھ لیتے تھے، طلبہ کو ’’کچھ کچھ ہونے‘‘ لگتا تھا۔
استاذِ محترم اپنے علاقے میں صرف میرے ہی استاذ نہیں تھے بلکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ (۱) مولانا محمد حنیف حنفی صاحب، اکالی (۲) مولانا عبد الرحمٰن صاحب، ناڑیاں (۳) مفتی عتیق الرحمٰن صاحب، ہلاں (۴) مولانا محمد طارق بوٹا صاحب، اکالی والوں کے استاذ اور شیخ بھی تھے۔ میں ان سب حضرات سے بھی تعزیت کناں ہوں۔ حضرت کی رحلت یقیناً خاندانِ سواتی و خاندانِ صفدر کے لئے دکھ اور افسوس کی گھڑی ہے، بندہ ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ میرے بہی خواہوں، دوستوں اور جاننے والوں نے دکھ اور پریشانی کی اس گھڑی میں بندہ کے ساتھ اظہارِ افسوس و تعزیت کیا، ان میں بالخصوص استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد افضل خان صاحب، مفتی حبیب اللہ اختر صاحب، برادرِ عزیز مولانا عدیل ساجد اور مولانا مسعود کریم صاحب، مولانا عطاء الرحمٰن صاحب، مولانا فضل الرحمٰن صاحب، مولانا مفتی ادریس مظہر صاحب، حافظ اعجاز احمد خان صاحب، مولانا ضیاء اللہ عابد صاحب، قاری وسیم عثمانی صاحب، مولوی عبد المجید چاچا صاحب، مولانا برکت عثمانی صاحب و دیگر شامل ہیں۔ سبھی کے اسماء گرامی شامل کرنا دشوار ہے اس لئے کوئی ساتھی محسوس نہ کرے، میں سبھی کا مشکور ہوں، اللہ کریم تمام احباب کو اپنی شایانِ شان جزائے خیر سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔
ابھی سفر میں ہوں، فرصت کے ان لمحات میں غم غلط کرنے اور استاذِ محترم کو چند گھڑیاں ساتھ رکھنے پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یہ چند سطور جو بندہ کے حافظہ میں فی الوقت مستحضر تھیں، پیش کر دی ہیں۔ کسی سہو، غلطی یا کمی بیشی پر دلی معذرت۔ والسلام مع الاکرام۔