گزشتہ روز تنظیم اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر جناب شجاع الدین شیخ صاحب الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ تشریف لائے، جہاں انہوں نے اکادمی کے مدیر حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب سے ان کے برادرِ گرامی مولانا عبدالقدوس خان قارن علیہ الرحمہ کی وفات پر تعزیت کی۔ مغرب کے وقت جب شیخ صاحب اکادمی پہنچے تو معمول کے مطابق اکادمی میں ہفتہ وار فکری نشست جاری تھی۔ حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب نے جناب شجاع الدین شیخ صاحب کو خطاب کی دعوت دی۔
اس موقع پر تنظیم اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ الشریعہ اکادمی آمد کے دو مقاصد تھے، ایک حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب سے ان کے برادرِ محترم کی وفات پر تعزیت اور دوم حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب کی زیارت کی سعادت۔
انہوں نے کہا کہ مولانا زاہدالراشدی صاحب ہم پر ہمیشہ شفقت فرماتے ہیں۔ میرے لیے سعادت ہے کہ جب سے تنظیم اسلامی کی ذمہ داری میرے اوپر عائد ہوئی ہے حضرت سے استفادے اور رہنمائی حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، روزنامہ اسلام میں حضرت کے آرٹیکلز اور ماہنامہ الشریعہ (آن لائن) سے استفادہ ہوتا ہے۔ سیکولر، لادین طبقے کے اسلام اور اسلامی نظام پر اعتراضات کے جوابات کے حوالے سے حضرت کی بڑی خدمات ہیں۔ ہم جب بھی ان کے سامنے اپنا دردِ دل رکھتے ہیں تو اپنی شفقتوں اور دعاؤں سے نوازتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی وفات کے بعد اپریل 2010ء میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں ملک کے چوٹی کے علماء ملکی حالات اور مسائل کے حوالے سے جمع ہوئے تھے اور حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کی سربراہی میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تھا، اس میں بھی حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب کا بنیادی کردار تھا۔
انہوں نے کہا سود کے خلاف تحریک میں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے ساتھ حضرت نے بھرپور معاونت فرمائی اور اسی حوالے سے ایک اجلاس میں حضرت نے فرمایا تھا کہ جس طرح 1974ء کی تحریک ختم نبوت چلی تھی، جس کا تعلق عقیدے سے تھا اور اس میں سب مسالک اور مکاتبِ فکر جمع تھے اسی طرح سود کے خلاف بھی ایسی تحریک چلنی چاہیے کیونکہ یہ اللہ اور رسول سے جنگ کے خلاف تحریک ہے۔
آخر میں مدیر اکادمی حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب نے فرمایا ہمیشہ دینی جماعتوں نے مشترکہ جدوجہد کی ہے، اسی لیے آئندہ بھی دینی تحریکات کے لیے مل کر مشترکہ جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔
اس موقع پر ڈاکٹر محمد عمارخان ناصر، مولانا نصرالدین خان عمر، چوہدری بابر رضوان باجوہ، حافظ امجد معاویہ، حافظ خرم شہزاد، حافظ عبدالجبار، مولانا محفوظ الرحمٰن، مفتی عثمان جتوئی، ڈاکٹر محمد رشید اور اکادمی کے دیگر رفقاء اور متعلقین بھی موجود تھے۔