میرے عظیم تایا زاد بھائی، مشفق و مہربان استاذِ گرامی حضرت قارن صاحبؒ ۱۵ اگست ۲۰۲۵ء بروز جمعۃ المبارک، جمعہ کی تیاری کے دوران حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث ۷۳ سال کی عمر میں رب کے حضور پیش ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ گزشتہ کئی سال سے دل، شوگر اور بلڈ پریشر جیسے عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کا جنازہ جمعہ ہفتہ کی درمیانی شب دس (۱۰) بجے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں ادا کیا گیا، نمازِ جنازہ ان کے بڑے صاحبزادہ مولانا حافظ نصر الدین خان عمر نے پڑھائی۔ شہر کے قدیم ’’بڑے قبرستان‘‘ میں ان کے مشفق چچا مفسر قرآن محدث کبیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی نوّر اﷲ مرقدہٗ کے قرب و جوار میں ہی ان کو سپرد خاک کیا گیا۔ پسماندگان میں انہوں نے اہلیہ، چھ بیٹے اور بہت سے پوتے پوتیاں سوگوار چھوڑے، ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ، وکل شیء عندہ باجل مسمیٰ۔
اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر پوری طرح عمل پیرا ہونے اور بہترین منتظمانہ، بے انتہا مشفقانہ اور بے مثال عالمانہ صفات کے باعث، ہمارے بڑے بزرگوں (حضرت امام اہل سنت و حضرت صوفی صاحب رحمہما اﷲ) کے بعد حضرت قارن صاحبؒ کا سایۂ شفقت نہ صرف پورے خاندان بلکہ جملہ دینی، تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور مسلکی تمام ہی حلقوں، متعلقین و متوسلین اور اہلِ شہر کے لیے تقویت اور اطمینان کا باعث تھا۔ اللہ رب العزت نے اپنے دین کی عظیم الشان مخلصانہ خدمات کے لیے نصف صدی سے زائد عرصہ ان کو قبول فرمائے رکھا۔ ان کی ہمہ جہت خدمات کا دائرہ کار مختلف شعبوں کے وسیع دائروں میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی تمام زندگی مدرسہ نصرۃ العلوم و جامع مسجد نور کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کر رکھی تھی، ادارہ کو ترقی کی عظیم بلندیوں پر پہنچانے میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تصنیفی سلسلے میں بھی ان کی شاندار علمی و تحقیقی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
ان کو قرآن کریم کی تلاوت سے بے حد لگاؤ تھا، آپ ہمیشہ فرض نماز کی امامت میں بھی ترتیب سے مکمل قرآن پڑھنے کا معمول جاری رکھتے تھے۔ حضرات شیخین کریمینؒ کی طرح اللہ نے ان کے معمولات میں بھی بڑی برکت رکھی تھی، اس قدر مصروفیات کے باوجود پابندئ وقت کا اہتمام لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ انہوں نے ہر دینی و مسلکی تحریک کے محاذ پر اول دستے کا کردار ادا کیا، بین المسالک رواداری کے فروغ اور ملکی امن و امان کے لیے ان کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔
وہ اپنے والد ماجد حضرت شیخ الحدیثؒ کی طرح خوابوں کی تعبیر کا بھی خصوصی ملکہ رکھتے تھے۔ روحانی سلسلہ میں ان کے والد ماجدؒ نے ان کی علمی و روحانی ترقی کو دیکھتے ہوئے اپنی خلافت سے بھی نوازا۔ آپ اپنے اخلاق کریمانہ، زندہ دلی، درویش صفت، قلندرانہ، عاجزانہ، انتہائی ملنسار، مہمان نواز، متحرک، سخی شخصیت کے بدولت ہر دلعزیز تھے۔
ان کی اس طرح اچانک وفات سے ہر کوئی غمگین اور صدمے کی کیفیت میں ہے، ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے جو دور دور تک پُر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اللہ کریم خطاؤں کو معاف فرمائے، خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر درجات عطا فرمائے، آمین۔ تاحدِ نگاہ انسانوں کے سمندر علماء کرام، طلبہ عظام، معززین شہر، محبین و مخلصین و متعلقین و مریدین نے اپنے محسن کی نماز جنازہ میں شرکت کر کے الوداع کیا۔ ملک بھر سے علماء و عوام تعزیت کے لیے مسلسل تشریف لا رہے ہیں۔
ان کے شاگرد، معتقدین و محبین دنیا بھر سے فون و میسیجیز اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کے ذریعے اپنے دلی جذبات کا اظہار فرما رہے ہیں اور ہمارے صدمے اور غم میں برابر کے شریک ہو کر ہماری ہمت و حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، اس کے لیے ہم بے حد ممنون و شکر گزار ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ اپنے اپنے مقامات پر ان کے لیے مغفرت و بلندی درجات کی دعاؤں اور مسنون ایصال ثواب کا اہتمام ضرور فرمائیں، اللہ پاک اجر عظیم سے نوازے، آمین۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ فی جنات النعیم بحرمۃ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔