مادرِ علمی جامعہ نصرت العلوم سے گزشتہ چار سال سے تعلیمی وابستگی ہے، اس دوران جامعہ کے کئی ماہر اور اپنے اپنے فن میں ماہر اساتذہ کرام سے درسی استفادے کا شرف حاصل ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے لیکن ایک ایسی شخصیت، ایک ایسا مہرباں، جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تو احساس ہوا کہ دنیا میں اب بھی ایسی شخصیات موجود ہیں جن کے تدریسی اوصاف کی مثال دینی ہو تو آدمی سرِ دست ان کا نام ذکر کر سکتا ہے۔ یہ عظیم شخصیت استاد جی حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی ہے۔
گزشتہ سال "التبیان فی علوم القرآن" استاد جی سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی، گویا یہ ان کے تدریسی کمالات و اوصاف سامنے آنے کی ایک ابتداء تھی۔ استاذ جی کی طبیعت اکثر ناساز رہتی اس کے باوجود سبق کے لیے تشریف لاتے اور پیریڈ کا پورا وقت علمی نکات اور جاندار آواز میں پڑھاتے، سبق کے دوران کتاب کا فہم اور پچیدہ عبارات کا سہل تو حاصل ہوتا ہی تھا اس کے ساتھ ساتھ استاد جی کے اپنے علمی اور مطالعاتی ذخیرہ سے جو متاع حاصل ہوتی، وہ دل کے گوشوں میں گھر کر لیتی۔ استاد جی کسی بھی مسئلہ میں جمہور مفسرین کے موقف کو بڑی تائید، دلائل اور جامع انداز میں پیش کرتے اور واضح کرتے کہ جمہور کا موقف اختیار کرنے میں کیا کیا فوائد اخذ ہوں گے۔
امسال استاد جی کے پاس بخاری شریف (اول) اور ترمذی شریف (اول) کے اسباق آئے تو استاد جی کی شخصیت میں چھپے تدریسی اوصاف مزید منکشف ہوئے اور روز بروز ہوتے ہی چلے گئے۔ چند ایک کا ذکر کیے دیتا ہوں۔
- فقہی ذوق اور استاد جی کا آپس میں گہرا رشتہ تھا، یہ ذوق آپ کی ہر ہر بات سے عیاں ہوتا اور پھر دورانِ سبق آپ متنِ حدیث کی فقہی نہج پر انتہائی جامع تشریح فرماتے جس سے طلبہ کا ذوق بھی بیدار رہتا اور مسائل کا فہم بھی آسان تر ہوتا چلا جاتا۔
- رفعِ تعارض اور تطبیقات سے جیب کے قلم سا تعلق تھا، پچیدہ سے پچیدہ عبارات اور اختلافی معرکۃ الآرا مسائل میں تطبیق اس شان سے قائم فرماتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے۔
- جمہور محدثین، فقہاء اور علماء کے دامن سے وابستگی استاد جی کا وصفِ عالی تھا، جس میں وہ الگ ہی شان رکھتے تھے، حدیث سے اخذ ہونے والے اختلافی مسائل کو جمہور کے موقف میں ایسے جامع اور مدلل انداز میں ڈھالتے کہ طلبہ کو مکمل تشفی بھی ہوتی اور مزید شروحات کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت بھی نہ رہتی۔
- منہج احناف اور فکرِ دیوبند سے خاندانی بنیادوں پہ گہرا تعلق تھا، اس کے باوجود اختلافی مسائل میں جانبِ مخالف جماعتوں کے نظریہ و موقف کو بڑی شائستگی اور میانہ روی سے بیان کرتے، اکثر یوں فرماتے کہ "بعض حضرات کو اس متن سے مغالطہ ہوا ہے اور انہوں نے اس کا مطلب یوں مراد لیا ہے" حتیٰ کہ جماعتِ منکرِ حدیث کا نظریہ بیان کرتے ہوئے بھی شائستگی کو غالب رکھتے اور اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔
- مدارس میں کتب کی عبارت کی تلاوت کا طریقہ رائج ہے، بیشتر اساتذہ اولاً طالب علم سے مکمل حدیث تلاوت کرواتے ہیں اور بعد ازاں ترجمہ و تشریح کی جانب متوجہ ہوتے ہیں، لیکن استاد جی قارن صاحب عبارت کو جزوی طور پر ساتھ ساتھ لے کر چلتے، متنِ حدیث کے ہر ہر جزو کی تشریح فرماتے، جزوی عبارتوں سے اخذ ہونے والے مسائل و مستدلات کی نشاہدہی بھی فرماتے، جو کہ انتہائی دقیق اور مشکل اندازِ تدریس میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کو آسانی کے ساتھ سر انجام دینا استاد جی کا ہی طرہ امتیاز تھا۔
- بلند اور جاندار آواز میں تدریس آپ کے خون میں رچی بسی تھی، بیماری کی حالت میں بھی ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ سبق کی تقریر بلند آواز سے فرماتے جس سے جامعہ کی پوری فضاء گونجتی اور ہر ہر کونہ فیض یاب ہوتا۔
اس قدر علمی و تحقیقی شخصیت ہونے کے باوجود طبیعت میں مزاح غالب تھا۔ چٹکلوں سے بچپن سے ہی گہرا ناطہ تھا جو کہ آخر دم تک قائم رہا، تبیان کے سبق کے ابتدائی ایام میں بچپن کی شرارتوں اور سب سے منفرد شرارتوں کا باب بڑی تفصیل سے بیان فرمایا۔ دورانِ سبق مسائل کی صورتِ مسئلہ اور نکاح وغیرہ کے مسائل کو خاص طور پر کسی طالب علم کا نام لے کر سمجھاتے، جن میں مزاح کا بھرپور تڑکا ہوتا، بعض اوقات بڑے سنجیدہ انداز میں انفرادی اور اشاری چٹکلے سناتے جس سے طلبہ لوٹ پوٹ ہو جاتے اور خود آگے عبارت کی تفہیم کی جانب بڑھ جاتے۔
لیکن اب اس عظیم روح کی رخصتی سے جامعہ کے در و دیوار پہ جدائی کا گہرا سکوت طاری ہے، وابستگان صدموں سے دو چار ہیں اور ان کی غیر موجودگی کا خود کو یقین دلا رہے ہیں، ان کے علمی و فکری سائے کی تلاش میں سر گرداں ہیں، ان کے بعد آنے والے فتنوں سے خائف ہیں اور تقدیر ازل سے شکوہ کناں ہیں!
بچھڑا کچھ اس اداء سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا