میرے پیارے دادا ابو شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ محمد عبد القدوس خان قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ دو ہفتے قبل (15 اگست بروز جمعۃ المبارک ) ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کا جانا میرے لیے کسی بڑے سانحے سے کم نہیں۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی حافظ عکرمہ عمر سلّمہ اکثر جمعہ دادا ابو کے پیچھے پڑھتے جمعہ پڑھ کر دادا ابو ہمیں پیار محبت شفقت سے گلے لگاتے اور شاباشی دیتے اور اپنے ہاں (گھر میں) آنے کا پوچھتے۔ 15 اگست بروز جمعۃ المبارک کو میں اور حافظ عکرمہ معمول سے ہٹ کر گھر کے سامنے مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لیے چلے گئے۔
جب ہم جمعہ پڑھ کر واپس گھر دروازے کے قریب پہنچے تو میرے والد محترم مولانا حافظ نصر الدین خان عمر صاحب دروازے پر کھڑے ہمارے انتظار میں رو رہے تھے اور ان سے کوئی بات نہیں ہو رہی تھی۔ ہمیں والدہ محترمہ نے بتایا کہ تمہارے دادا ابو کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہ خبر سن کر ہمیں یقین نہیں آیا کیونکہ میں ابھی گزشتہ کل (14 اگست) کو دیر تک ان سے ملاقات کر کے گیا تھا۔ ان کی وفات کا سن کر زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد جاری ہوا۔ اور ہم بھاری قدموں اور زخمی دل کے ساتھ دادا ابو کے گھر روانہ ہوئے۔ دادا ابو کا پرسکون نورانی چہرہ دیکھ کر اطمینان ہوا مگر آپ کی ہمیشہ کی جدائی نے رلا دیا۔
والد محترم اور سب چاچووں کے ساتھ بیٹھ کر جنازہ اور تدفین کے حوالے سے مشاورت کی اور بعد از نماز عشاء رات دس بجے نماز جنازہ والد محترم حافظ نصر الدین خان عمر نے پڑھایا۔ تدفین کے بعد قبر پر عم مکرم قاری عبدالرشید خان سالم نے سر کی سائیڈ پر سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی ابتدائی تلاوت کی. پاؤں والی سائیڈ پر راقم (حافظ حنظلہ عمر) کو پڑھنے کی سعادت ملی.
کچھ یادیں کچھ باتیں
جب میرا نو سوا نو سال کی عمر میں حفظ قرآن کریم ہوا تو دادا ابو نے جامعہ مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم میں باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا۔
جس میں شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی صاحب دادا ابو مولانا عبدالقدوس خان قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب، صوفی عطاء اللہ نقشبندی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، نانا ابو محترم امان اللہ میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور میرے حفظ کے استاد استاذ الاساتذہ محترم حضرت قاری محمد منور صاحب رحمۃ اللہ علیہ خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
جن کے سامنے مجھے آخری سبق سنانے کی سعادت ہوئی تب دادا ابو خوشی سے نہال تھے اور ان کے خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے۔ اسی لیے ہمیشہ کہتے ہوتے تھے کہ "میرا حنظلہ ایک طرف اور باقی سارے پوتے ایک طرف۔"
ہماری بچپن سے لے کر آج تک انہوں نے ہر خواہش کو پورا کیا۔ چاہے میری تعلیم کا معاملہ ہو یا زندگی کی کوئی اور ضرورت، مجھے کبھی بھی ان کے سامنے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ان کا میرے لیے یہ کہنا ہی کافی تھا کہ “میرا حنظلہ ایک طرف اور باقی سارے پوتے ایک طرف۔” دادا ابو ہم بہن بھائیوں کو ہر جمعہ پیسے دیا کرتے تھے، اور ہم سب اسے “جُمّی” کہتے تھے۔ ہر ہفتے کا سب سے بڑا انتظار یہی ہوتا کہ کل دادا ابو ہمیں جمی دیں گے۔ مگر اب وہ انتظار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔
گزشتہ سال کا ایک سفر ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس سفر میں، میں دادا ابو اور دادا ابو کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الحق خان بشیر صاحب مانسہرہ گئے تھے۔ پورے ہفتے کا یہ سفر نہایت خوشگوار رہا۔ اس سفر میں کئی جگہوں پر مجھے نماز کی امامت کا موقع ملا، اور دادا ابو میرے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ یہ سفر آج بھی میری یادوں کا قیمتی خزانہ ہے۔ دادا ابو سفر میں دعاؤں کا اہتمام کرتے اور جو مشہور مقامات ہوتے وہ بھی بتلاتے جاتے۔ سفر میں دادا ابو اپنے ہم سفروں کے کھانے پینے کا بہت خیال رکھتے اور وقتا فوقتاً کھانے پینے اور تقاضہ حاجات کے بارے میں پوچھتے رہتے۔
میرے لئے یہ بھی سعادت کی بات ہے کہ مجھے دادا ابو کے ساتھ تقویٰ مسجد پیپلز کالونی میں نماز تراویح پڑھانے کا اتفاق ہوا اور رمضان المبارک کی تراویح کے دن بھی میرے لیے بھلانے کے نہیں جب دادا ابو نے آخری بار مسجد میں تراویح پڑھائی تھی تو وہ ان کا مسجد کا آخری مصلی تھا اور میرا پہلا مصلی۔ ان تراویح میں پہلی دس رکعتیں دادا ابو پڑھاتے اور اگلی دس میں پڑھاتا تھا۔ دادا ابو روزانہ میرا اعتماد بڑھاتے جاتے تھے کہ تراویح پڑھتے ہوئے گھبرانا نہیں ہے۔ ہمیشہ اعتماد کے ساتھ اور روانی کے ساتھ پڑھو گھبرانے کی ضرورت نہیں، میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ یوں بندہ کو اعتماد ملتا گیا۔ اس سال جب ختمِ قرآن ہوا اور ہم گھر میں بیٹھے تھے تو دادا ابو نے مجھ سے کہا: “اگر میں تصویر کو جائز سمجھتا تو آج تیرے ساتھ بیٹھ کر ایک تصویر کھنچواتا۔” مگر اب وہ لمحہ ایک حسرت بن کر رہ گیا ہے۔
شخصیت کے اعتبار سے وہ بڑے شفیق، مہربان اور عظیم انسان تھے۔ ان کی زندگی ہماری خوشیوں اور سہولتوں کے لیے وقف تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے تو ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دادا ابو کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی اگلی منازل آسان فرمائے، اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ رحمۃ اللہ واسعۃ۔ آمین یا رب العالمین۔