پاکستان کی معروف و عظیم دینی درسگاہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ عبد القدوس قارن خان صاحبؒ ایک زندہ کردار اور مخلص استاد تھے۔ علم و اخلاص، سادگی و تقویٰ اور عاجزی و انکساری کی روشن علامت، حضرتؒ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی رحلت ایک ایسا ناقابلِ تلافی نقصان ہے، جس کی تلافی آنے والے کئی عشروں میں بھی ممکن نہیں۔ حضرتؒ علم، سادگی اور اخلاص کی ایک روشن قندیل تھے، جو بجھ تو گئی، مگر اس کی روشنی اہلِ علم و نسبت کے دلوں کو مدتوں منور کرتی رہے گی۔
حضرت مولانا عبد القدوس قارن خان صاحبؒ گوجرانوالہ کی ایک عظیم علمی و روحانی شخصیت تھے۔ وہ ریاکاری اور دنیاداری سے پاک، خالص اللہ والے بزرگ تھے۔ ان کی زندگی علم، عمل اور اخلاق کا حسین امتزاج تھی۔ ان کا وجود نہ صرف دینی اداروں، بلکہ پورے خطے کے لیے باعثِ برکت اور رہنمائی تھا۔ راقم کو حضرتؒ سے دو بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جو میری زندگی کے نہایت قیمتی لمحات میں سے ہیں۔ پہلی ملاقات جامعہ نصرۃ العلوم میں ہوئی۔ حضرتؒ ظہر کے بعد سبق پڑھا کر باہر تشریف لائے تو میں نے اپنا تعارف پیش کیا کہ میں مولانا اسحاق صاحب کا بیٹا ہوں اور پسرور سے حاضر ہوا ہوں۔ حضرتؒ کا یہ سننا تھا کہ نہایت گرم جوشی سے گلے لگا لیا اور نہایت شفقت و محبت سے پیش آتے ہوئے، حال احوال دریافت کیا۔ حضرتؒ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور میں جامعہ کے مرکزی گیٹ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ چند لمحوں بعد ایک خادم میرے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا: ’’استاد جی دروازے پر کھڑے آپ کا انتظار کر رہے ہیں، انہوں نے فرمایا ہے: وہ مہمان کہاں گئے، انہیں گھر لے آئیں۔‘‘ میں حیرت کے ساتھ واپس گیا تو واقعی حضرتؒ گھر کے دروازے پر میرے منتظر تھے۔ جیسے ہی میں قریب پہنچا، حضرتؒ نے میرا ہاتھ تھاما اور فرمایا: ’’چلیے، گھر چلتے ہیں۔‘‘ یہ واقعہ ان کی بے لوث محبت، خلوصِ دل اور مہمان نوازی کا روشن مظہر تھا۔
حضرتؒ کا معمول نہایت سادہ، مگر کردار میں عظمت لیے ہوئے تھا۔ اگرچہ دل کے مریض تھے مگر اپنے کام خود انجام دیتے۔ میں نے دیکھا وہ سارا منظر کہ ایک ہاتھ میں رجسٹر دوسرے ہاتھ سے سہارا لے کر سیڑھیاں چڑھتے۔ بیٹے نے اوپر سے دیکھا اور عرض کیا: ’’ابا جی، وہیں رکیں میں آتا ہوں۔‘‘ تو حضرتؒ نے فرمایا میں خودی آجاتا ہوں۔ بیٹے کے اصرار کرنے کے باوجود حضرت نے اسے منع کیا پھر گرجدار کڑک آواز میں فرمایا، گویا کہ بوڑھا آدمی ایک دم سے جوان ہوگیا ہو: ’’میں خود ہی آؤں گا، اوپر ہی رہو... بوڑھوں کو کبھی خود بھی کام کرنے دیا کرو۔‘‘ یہ جملہ ان کی خودداری، سادگی اور خود اعتمادی کی اعلیٰ مثال ہے، جو آج بھی دل میں گونجتا ہے۔
جب حضرتؒ کے گھر پہنچے تو جو منظر دیکھا، وہ دنیاوی تزئینات سے پاک، مگر روحانی سکون سے بھرپور تھا۔ ان کا دسترخوان وسیع دل کی مانند کشادہ، اور طبیعت مہمان نواز تھی۔ نشست و برخاست میں سادگی اور روحانیت جھلکتی تھی۔ جو ان سے ایک بار ملتا، وہ ان کا ہو کر رہ جاتا۔ راقم کو ان سے بے حد روحانی سکون حاصل ہوا۔ ان کی عاجزی، بے تکلفی اور محبت نے دل کو مسخر کر لیا۔
ہمارے آباء سے ان کے پرانے تعلقات تھے، مگر جب خود ان سے ملاقات ہوئی تو ان کے اخلاص نے عقیدت کو محبت میں بدل دیا۔ اگر کوئی امام اہلِ سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی عملی جھلک دیکھنا چاہے، تو حضرت عبد القدوس قارن خانؒ کی شخصیت میں وہ مکمل تصویر نظر آتی تھی۔ ان میں علم و حلم، وقار و سنجیدگی، اور دینی غیرت کا حسین امتزاج موجود تھا۔ ان کی زندگی اکابرِ دیوبند کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھی۔ وہ نہ صرف ان کے علمی وارث تھے بلکہ طرزِ زندگی، سادگی، تقویٰ اور فکرِ دین کے بھی نمائندہ تھے۔ وہ اپنے شاگردوں کو ہمیشہ اکابر سے جوڑنے کی فکر میں رہتے، ان کا تذکرہ محبت سے کرتے، اور ان کے طرزِ عمل کو اپنانے کی ترغیب دیتے۔ حضرت مولانا عبد القدوس قارن خان صاحبؒ صرف ایک عالمِ دین، استاد یا شیخ الحدیث نہیں تھے، بلکہ وہ ایک مکتبِ فکر، ایک جیتی جاگتی تاریخ، اور اکابر کے فیضان کا مظہر تھے۔ ان کی زندگی علم، عمل، اخلاق، تواضع، قناعت اور اخلاص کا حسین پیکر تھی۔ وہ ایک ایسا چراغ تھے، جو خود جلتا رہا اور دوسروں کو روشنی دیتا رہا۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر ان کی تعلیمات، طرزِ عمل، شفقتیں اور نصیحتیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، ان کے فیوض و برکات کو تادیر جاری رکھے، اور ہمیں بھی اپنے اکابر کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔