حضرت مولانا محمد عبد القدوس خان قارنؒ، امام اہلِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے لائق فرزند اور آپ کے علوم و افکار کے امین تھے، آپ نے نہ صرف اپنے عظیم والد کے قائم کردہ علمی و فکری محاذوں کو سنبھالا بلکہ اپنی تصنیفات، تحقیقات اور وعظ و نصیحت کے ذریعے انہیں مزید آگے بڑھایا۔ رافضیت، تجدد پسندی، انکارِ حیات الانبیاء اور دیگر باطل نظریات کے رد میں حضرت قارنؒ نے جس استقامت اور بصیرت کے ساتھ دیوبندیت کی نمائندگی کی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ آپ کی علمی مجالس میں تفقہ، آپ کے بیانات میں اخلاص اور آپ کی شخصیت میں عجز و شفقت نمایاں تھی۔ انسان کی زندگی کے صفحات میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر نقش ہو جاتے ہیں، میرے لیے ان حسین لمحات میں نہایت قیمتی یادیں وہ ہیں جو حضرت مولانا محمد عبد القدوس خان قارنؒ سے ملاقاتوں اور ان کی شفقتوں سے وابستہ ہیں۔
حضرت استاد محترمؒ سے پہلی ملاقات 10 جون 2009ء کو ہوئی، میں عمر کے ساتویں سال میں تھا۔ خبر ملی کہ حضرت مولانا محمد عبد القدوس خان قارنؒ گوجرانوالہ سے جامعہ بنوریہ مانسہرہ تشریف لا رہے ہیں، اور صبح کا ناشتہ جامعہ اشاعت الاسلام کے مہتمم حضرت مولانا عبدالقدوس ہزاروی صاحب کے ہاں کریں گے۔ میری خوش قسمتی رہی کہ میرے چچا جان حضرت مولانا عبدالہادی صاحب کی شفقت ہمیشہ شاملِ حال رہی۔ مُلک کے اکابر جہاں بھی تشریف لاتے وہ ہمیں ضرور وہاں لے جاتے۔ اس دن بھی انہوں نے صبح سویرے کہا: فضل اللہ کو تیار کرو، گوجرانوالہ سے ہمارے استاد محترم آ رہے ہیں۔ میں چچا جان کے ساتھ جامعہ پہنچا۔ حضرت، مہتمم صاحب کے گھر ناشتہ فرما رہے تھے اور ان کے بھتیجے مولانا محمد احسن خدامی صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ناشتہ کے بعد حضرتؒ جامعہ تشریف لائے، طلبہ دو صفوں میں کھڑے تھے اور حضرت قارنؒ بیچ سے گزر رہے تھے۔ چچا جان نے تعارف کروایا: یہ مولانا فضل الہادی صاحب کا بیٹا ہے۔ حضرت قارنؒ نے شفقت فرماتے ہوئے مجھے گود میں اٹھایا اور پیار دیا۔ میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔
اسی موقع پر میرے والد صاحب نے منبر سے اعلان فرمایا کہ حال ہی میں میری دو کتابیں تکمیل کو پہنچی ہیں: درجہ سادسہ میں علم العروض والقوافی کی متن الکافی۔ اور یہ فن میں نے حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ صاحب ہی سے سیکھا ہے۔ اور دورہ حدیث شریف میں داخل نصاب امام طحاوی کی شرح معانی الآثار۔ ان دونوں کتابوں کا آخری سبق ہمارے گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہوئے ہمارے مہمان اور استاد محترم پڑھائیں گے۔ متن الکافی کی آخری عبارت مولانا محمد حسین ہزاروی نے پڑھی۔ طحاوی شریف کا اختتامی سبق بھی حضرت قارنؒ نے پڑھایا۔
جامعہ اشاعت الاسلام سے فراغت کے بعد حضرت قارنؒ جامعہ بنوریہ للبنات مانسہرہ تشریف لے گئے۔ مجھے بھی چچا جان کے ہمراہ وہاں پہنچنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ منظر نہایت روح پرور تھا؛ ایک بڑا مجمع موجود تھا اور مختلف اہلِ علم کے خطابات جاری تھے، آخر میں میرے والدِ گرامی حضرت مولانا فضل الہادی نے حضرت قارنؒ کو خطاب کی دعوت دینے سے قبل مانسہرہ کے نوجوان عالم مولانا قاری عبدالباسط کو مائیک پر مدعو کیا، انہوں نے نہایت دلنشین لہجے میں والدِ گرامی کا تحریر کردہ عربی قصیدہ پیش کیا جس نے محفل کو کیف و سرور سے بھر دیا۔
بعد ازاں والد صاحب نے حضرت استاذِ مکرم قارنؒ کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے فرمایا: حضرت امام اہلِ سنتؒ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن آپ کے فرزندان اُس عظیم علمی و فکری وراثت کے امین اور ترجمان ہیں۔ حضرت مولانا محمد عبد القدوس خان قارن نے اپنے والدِ گرامی کے قائم کردہ تمام محاذوں کو نہایت استقامت کے ساتھ سنبھالا ہوا ہے۔ خواہ وہ قادیانیت کا فتنہ ہو، متجددین کے انحرافات ہوں، رافضیت کا محاذ ہو، ناصبیت کی گمراہی، اہلِ حدیث کی تشدد پسندی کا رد ہو، بریلوی مکتبِ فکر کا غلو ہو، یا مماتی فکر کے شبہات۔ حضرت نے ہر محاذ پر دیوبندیت کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ آپ کی تصنیفات، تحریرات، تحقیقات، وعظ و نصیحت اور بیانات سب اسی حق گوئی و استقامت کے آئینہ دار ہیں۔ جب والدِ گرامی نے تعارف کے دوران مماتیت کا لفظ استعمال کیا تو علماء کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت قارنؒ نے انکارِ حیات الانبیاء جیسے نہایت حساس مسائل میں بھی جرات مندانہ اور مدلل موقف اختیار کیا اور ہمیشہ حق کو واضح فرمایا۔ بعد ازاں حضرت قارنؒ نے بخاری شریف کی آخری حدیث پر نہایت پراثر درس دیا۔ علماء، طلباء، خواتین، طالبات، عالمات اور عامۃ الناس سب ہی اس درس سے بے حد متاثر ہوئے اور محفل کا رنگ یکسر بدل گیا۔
دوسری ملاقات حضرت استاد محترمؒ سے 8 فروری 2013ء کو ہوئی جب شیخ الکل حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت قارنؒ گوجرانوالہ سے ہمارے گھر تشریف لائے اور کچھ دیر آرام فرمایا۔ حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا جنازہ نمازِ جمعہ کے بعد تمبر کولا میں تھا۔ حضرت قارن صاحبؒ کے فرزند قاری حافظ شمس الدین خان طلحہ بھی ہمراہ تھے۔ ناشتہ کے دوران میری دونوں بہنوں (جن کی عمریں اس وقت چھ اور چار سال تھیں) نے حضرت قارن صاحبؒ کو قرآنی عربی کی گردانیں سنائیں۔ حضرت نے خوشی کا اظہار کیا اور انہیں سات سو روپے انعام دیا۔ اس کے بعد حضرت نے جامع مسجد ابراہیم باغ لمبی ڈھیری میں (جہاں والد صاحب خطیب تھے) جمعہ پڑھایا، خطاب فرمایا، خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔ بعد ازاں جنازے میں شرکت کے لئے چچا جان حضرت مولانا عبدالہادی صاحب کے ہمراہ موٹر سائیکل پر تشریف لے گئے۔ مجھے بھی حضرت ہزارویؒ کے جنازہ میں چچا عبدالشکور صاحب کے ساتھ شرکت نصیب ہوئی اور دیگر مشائخ کے ساتھ ساتھ حضرت قارن صاحبؒ کا پراثر تعزیتی بیان سنا۔
2017ء میں جب ہم گوجرانوالہ منتقل ہوئے تب میں درجہ ثانیہ میں تھا تو حضرت قارنؒ کی شفقتیں اور قریب سے زیارت کرنا مقدر بنا۔ ہر ملاقات میں نئے زاویے سے ان کی محبت اور توجہ دیکھنے کو ملتی۔ انہی ایام میں ایک یادگار موقع یہ بھی آیا کہ ایک جمعہ کے دن حضرت کے گھر جانا ہوا، کافی دیر تک ملاقات رہی، بار بار خود اُٹھ کر کھانے پینے کی چیزیں لاتے۔ میں نے مؤدبانہ عرض کیا: “حضرت! آپ تکلیف نہ فرمائیں۔” مگر حضرت اپنی عادت کے مطابق خود ہی چیزیں لاتے رہے۔ یہ ان کی عاجزی و شفقت کا بے مثال مظہر تھا، اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس دن میرا سر بالکل منڈا ہوا تھا تو مسکرا کر پنجابی میں فرمایا: "عمرہ کر آیا ایں دسیا وی نئیں؟"
اس کے بعد استاد جی کی شفقتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخرکار یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ میں نے حضرت سے ہدایہ جلد رابع، بخاری شریف جلد ثانی اور ترمذی شریف جلد اول پڑھنے کا شرف پایا۔ یہاں یہ بات بھی میرے لیے باعثِ فخر ہے کہ میرے والد گرامی نے بھی حضرت سے ہدایہ جلد رابع 1997ء میں یہیں پر پڑھنے کا شرف حاصل کیا تھا۔ اس طرح علم و استفادہ کی یہ روایت والد سے بیٹے تک منتقل ہوئی۔
حضرت کا معمول تھا کہ ہر سال کے آغاز میں پہلی درسگاہی نشست تعارفی ہوا کرتی تھی۔ دورہ حدیث کے آغاز میں بھی جب یہ نشست ہوئی تو ایک ایک طالب علم سے تعارف پوچھتے رہے۔ جب میرا نمبر آیا تو میں نے کہا: نام فضل اللہ۔ حضرت نے دوبارہ پوچھا: "نئیں صحیح ناں دس!" میں نے پھر کہا: فضل اللہ۔ تیسری بار حضرت نے فرمایا: "نئیں راشدی وی نال لا کے دس!" پھر ہنستے ہوئے کہا: "ہُن ٹھیک دسیا ای!" یہ الفاظ پنجابی میں حضرت کی محبت اور شگفتگی کے ساتھ ادا ہوئے جو ہمیشہ یاد رہیں گے۔
حضرت کی شفقت کا ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ کلاس میں سبق کے دوران بات سمجھانے کے لئے اکثر میرا نام لے کر مثال دیا کرتے۔ بسا اوقات والد صاحب کا بھی نام لیا کرتے، اور جب دیہاتی علاقہ کی مثال دینی ہوتی تو ہمارے آبائی وطن "آلائی" کا نام لیا کرتے، جس سے مجھے حضرت کی قربت کا خاص احساس ہوتا۔
حضرت قارنؒ تصویر کے سخت خلاف تھے اور ہمیشہ اس کی ممانعت فرمایا کرتے تھے۔ میں جب ہمارے دادا جان اور والد گرامی کی عمرہ کے سفر سے واپسی ہوئی تو اس دن (8 فروری 2023ء) جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں حضرات شیخینؒ سیمینار منعقد ہوا۔ ہمارے گھر میں حضرت قارنؒ، ان کے برادرِ بزرگ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب اور دوسرے بھائی حضرت مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب تینوں تشریف فرما تھے۔ تو کسی نے وہاں حضرت قارنؒ کی تصویر بنا کر اپ لوڈ کر دی۔ اس بات پر حضرت نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ ہم نے وہ تصویر ختم کروائی۔ جب بخاری شریف یا ترمذی شریف کے سبق میں تصویر کا ذکر آتا تو حضرت مزاحیہ انداز میں میری طرف دیکھ کر فرمایا کرتے: "اینیں تے ھِک پیالی چائے پیا کے میری فوٹو کچھی سی"- یہ جملہ وہ بارہا محبت بھرے انداز میں دہراتے، گویا اپنی ناپسندیدگی کو بھی ایک لطیف مزاح اور شفقت میں ڈھال دیتے تھے۔ جب بھی کسی پروگرام میں جانا ہوا استاد جی مجھے فرماتے "دیہان رکھیں کوئی فوٹو نہ بناوے"۔
استادِ محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب فرماتے ہیں: مسجد نور کی تحریک کے دوران محکمہ اوقاف نے ایک نہایت خطرناک سازش کی۔ انہوں نے ہمارے خاندان میں اختلاف پیدا کرنے کے لیے یہ نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی جگہ میرے چھوٹے بھائی حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کو مسجد نور کا خطیب مقرر کیا جائے۔ بظاہر یہ ایک سرکاری تقرری تھی مگر حقیقت میں خاندان کے دو بزرگوں کے درمیان دوری ڈالنے اور تحریک کو کمزور کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ جب یہ نوٹیفیکیشن حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کو ملا تو انہوں نے مجھ سے بات کی۔ میں نے کہا کہ یہ جتنی بڑی سازش ہے اس کا جواب بھی اسی شان کا ہونا چاہیے۔ آپ کارکنوں کے اجتماع میں یہ نوٹیفیکیشن بلند آواز سے پڑھ کر سب کو سنائیں، پھر اسے پرزہ پرزہ کر کے اعلان کریں کہ "میری طرف سے اس حکم کا یہی جواب ہے" اور اسی وقت گرفتاری پیش کر دیں۔ چنانچہ حضرت قارنؒ نے اسی جرأت مندانہ انداز میں عمل کیا۔ کارکنوں کے سامنے نوٹیفیکیشن کو پھاڑ ڈالا اور اعلان کیا کہ ’’یہ ہے میرا جواب‘‘۔ پھر خود گرفتاری پیش کر دی اور یوں چار پانچ ماہ قید و بند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ ان کی یہ قربانی اس بات کی دلیل بنی کہ اہلِ علم کا وقار اور مدارس و مساجد کی آزادی چند نوٹیفیکیشنز سے پامال نہیں کی جا سکتی۔
آج وہ دلیر، باوقار اور باہمت عالمِ دین حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ ہم سے رخصت ہو چکے ہیں، مگر ان کی جرأت، اخلاص اور استقامت کی یہ داستان ہمیشہ اہلِ حق کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔ ان کی یادیں، ان کی باتیں اور ان کی مٹھاس دل کو ہمیشہ تازگی عطا کرتی رہیں گی۔ حضرت قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی علم و استقامت اور خدمتِ دین سے عبارت تھی۔ ان کی وفات بھی قابلِ رشک ہوئی، جمعہ کا دن اور بوقت جمعہ ان کے پوتے نے بتایا کہ جب آخری لمحات شروع ہوئے تو ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھا، دو مرتبہ کلمہ شہادت، دوسری مرتبہ کلمہ شہادت مکمل ہوا تو آنکھیں بند ہو گئیں اور روح پرواز کر گئی۔
اللہ تعالیٰ حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ اور حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی قربانیوں کو قبول فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگزر کرے، درجات بلند فرمائے، قبور کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اپنے خاص مقربین کے ساتھ اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ہمیں ان کے علوم، اخلاص اور برکات سے ہمیشہ فیضیاب رکھے، آمین یا رب العالمین۔