گزشتہ دنوں ابنِ امامِ اہل سنہ شیخ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارن کا انتقال ہوا ان کی تعزیت کا سلسلہ جامعہ نصرت العلوم اور دیگر متعلقین کے ہاں تاحال جاری ہے۔ 19 اگست 2025 بروز سوموار بمطابق ۲۲ صفر ۱۴۴۷ھ جامع مسجد امام اہلسنتؒ گکھڑ منڈی میں حضرت رحمہ اللہ کے بڑے بھائی مفکر اسلام علامہ زاہد الراشدی اور چھوٹے بھائی محقق اہلسنت مولانا عبدالحق خان بشیر دامت فیوضھم تشریف فرما تھے، مولانا حماد الزہراوی اور مولانا منہاج الحق خان راشد، نیز حضرت رحمہ اللہ کے صاحبزادہ مولانا نصر الدین خان عمر بھی موجود تھے۔ گکھڑ بھر سے علماء و متعلقین تعزیت کیلئے آتے رہے، نمدیدہ و رنجیدہ مجلس دعاؤں اور دلاسوں سے آباد رہی۔
مجلس کے اختتام پر مولانا عبد الحق خان بشیر رحمہ اللہ نے اپنے مختصر مگر جامع خطاب میں فرمایا:
اللہ رب العزت نے اس کائنات کے اندر موت و حیات کا جو سلسلہ شروع کیا ہمارا اہلسنت والجماعت کا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ یہ اللہ کا قانون قیامت تک رہے گا اور یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ اس قانون سے اگر کوئی مستثنیٰ ہوتا تو اللہ کے محبوب حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ مستثنیٰ ہوتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ پر بھی یہ قانون جاری ہوا اور آپ پر بھی موت آئی۔ اور یہ موت و حیات اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک آزمائش کے طور پر دی ہے کہ کون اس قانون کے حوالے سے اللہ کی راہ پر چلتا ہے اور کون اس راہ کو ترک کرتا ہے۔ جہاں تک اللہ کے قانون کا اور اللہ کے راستے کا تعلق ہے تو اللہ رب العزت نے انسانوں کی زندگی کا قانون پہلے انسان کے ذریعے پہلے ہی دن اتار دیا تھا۔ فرمایا ’’قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ اس آیت میں انسان کو بتا دیا گیا ہے کہ اس قانون کے مطابق زندگی گزارو گے تو واپس اسی جنت میں آؤ گے اور اگر تم نے اس راستے کر ترک کر دیا تو تمہارا ٹھکانہ کوئی اور ہو گا۔
ہم آج ایک ایسی شخصیت کے حوالہ سے جمع ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے علمِ قرآن، علمِ تفسیر، علمِ حدیث، علمِ فقہ اور دوسرے علوم پر کمال مہارت عطا فرمائی تھی اور تقریباً پچاس سال تک وہ ان علوم کی تدریس کرتے رہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق موت کا قانون ان پر جاری ہوا، ایسی شخصیات کے چلے جانے پر ہم مایوس ہو جاتے ہیں کہ اب ہمارے دین و ایمان کا کیا ہو گا؟ لیکن جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے تو اطمینان ہونے لگتا ہے جانے والوں سے فرق تو پڑتا ہے، جیسے پچھلے دور میں ہم حضرت نانوتویؒ کو تلاش کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے، اس سے اگلے دور میں حضرت مدنیؒ اور حضرت تھانویؒ کو تلاش کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے، اس سے اگلے دور میں حضرت بنوریؒ اور حضرت امام اہل سنہؒ کو تلاش کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے، نقصان تو ہوتا ہے لیکن دین کی حفاظت کی ذمہ داری چونکہ اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ دین قیامت تک کیلئے محفوظ ہے، شخصیات کے جانے سے اس پر حرف نہیں آ سکتا۔
ان کے متصل بعد جانشین امام اہل سنہ مفکر اسلام علامہ زاہد الراشدی دامت برکاتہم نے مختصر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میں اسی بات کو آگے چلاؤں گا کہ سن ۱۹۷۰ء یا ۱۹۷۱ء میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ شیرانوالہ باغ تشریف لائے اور علماء کے جوڑ میں خطاب کرتے ہوئے یہی آخری بات انہوں نے اپنے لہجے میں یوں فرمائی کہ دیکھو یار، آپ نے کام کرنا ہے، اگر آپ انتظار کریں گے کہ امیرِ شریعتؒ تشریف لائیں، آپ انتظار کریں گے کہ حضرت احمد علی لاہوریؒ آئیں گے، یا آپ کو حضرت تھانویؒ یا مدنیؒ کا انتظار ہو گا تو وہ نہیں آئیں گے۔ اور اپنے لہجے میں فرمایا، اب ہمارے ساتھ ہی گزارا کرنا ہو گا۔
اللہ پاک بھی ہمارے ساتھ ہی گزارا کر رہا ہے، وہ اب نہیں آئیں گے، اب وہ نہیں آئیں گے۔ باقی جب کوئی چلا جاتا ہے تو وہ خلا پُر نہیں ہوتا، میں بھی پچاس سال سے میدان میں ہوں، جو بزرگ چالیس سال پہلے تھے وہ تیس سال پہلے نہیں تھے، جو تیس سال پہلے تھے وہ دس سال پہلے نہیں تھے، جو دس سال پہلے تھے وہ اب نہیں ہیں۔ اور آج بھی دیکھتے ہی دیکھتے ایسی شخصیات دنیا سے اٹھی ہیں کہ واقعتاً ان کے جانے کے بعد اندھیرا ہو جانا چاہیے، لیکن اندھیرا نہیں ہے۔ کمی کمزوری ہے، اندھیرا نہیں، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے دین کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے۔ دین کی وجہ سے مدرسہ قائم ہے، دین کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے، اس کے بہانے ہم بھی بچ جاتے ہیں۔
ہمارے بھائی نے زندگی بہت اچھی گزاری ہے، پڑھنے پڑھانے میں گزاری ہے، خاص کر یہ کہ بیماریوں کے باوجود زندگی بھر معمولات میں کوئی کمی نہیں آئی، آخری سے پچھلے دن اسباق پڑھائے، وفات والے دن فجر پڑھائی، اور جمعہ کی تیاری کرتے ہوئے معمولات کی ادائیگی کے دوران اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ چہرے پر سکون تھا جس سے تسلی ہوتی ہے۔ ایک صحابی کے استفسار پر حضورؐ نے فرمایا جانے والے کے تین حق ہیں: (۱) اس کے حق میں دعا کی جائے، (۲) وہ کوئی کام کرنا چاہتا تھا اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے (۳) ان کی وجہ سے جو تعلقات تھے ان روابط کو قائم رکھا جائے۔
اللہ پاک ہم سب کو ان کے معمولات اور ان روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، حوصلہ عطا فرمائیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ سب کا شکریہ کہ آپ تشریف لائے، اس سے حوصلہ بڑھتا ہے، ڈھارس بندھتی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کی اس غمگساری کو قبول فرمائیں اور اور اس کا اجر ہم سب کو نصیب فرمائیں۔
اسی دعا پر مجلس اختتام پذیر ہوئی۔