آج علم کا ایک آفتاب غروب ہو گیا۔ آج محبت کا ایک سائبان اٹھ گیا۔ آج ہزاروں شاگرد یتیم ہو گئے۔ میری زبان لڑکھڑا رہی ہے، دل لرز رہا ہے، اور آنکھیں سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ میرے استاد، میرے محسن، میرے مربی، استاذ الحدیث حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
میں جمعہ پڑھا رہا تھا، فارغ ہو کر دفتر آیا، حسبِ عادت موبائل ہاتھ میں لیا، ایک کے بعد ایک پیغام، ایک ہی جملہ ’’استاذ جی نہیں رہے‘‘۔ وہ الفاظ میرے دل کو تیر کی طرح کاٹ گئے۔ دنیا تھم گئی، سانس رک گیا، اور روح پر ایک یخ بستہ سردی طاری ہو گئی۔ تصدیق کے لیے میں نے فوراً ان کے صاحبزادے، میرے عزیز بھائی اور درجہ ثالثہ سے دورہ حدیث تک کے ہم جماعت مولانا حبیب القدوس خان معاویہ سے رابطہ کیا، ان کی رندھی ہوئی آواز، ہچکیوں میں ڈوبے جملے، اس خبر کو پتھر کی سل کی طرح میرے دل پر رکھ گئے۔
یہ وہی استاذِ مکرم تھے جن سے میں نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درجہ ثالثہ کی کتب سے لے کر صحیح بخاری شریف ثانی اور جامع ترمذی شریف اول پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ وہ میرے محسن بھی تھے اور مربی بھی۔ میرے سے بے پناہ محبت کرتے، ہر ملاقات میں شفقت کے موتی لٹاتے۔ ان کی مجالس علم و تقویٰ کے نور سے بھری ہوتیں، اور ان کی نصیحتیں زندگی کا سرمایہ بن جاتیں۔ وہ ہر شاگرد کو اولاد کی طرح چاہتے، ہر سوال پر مسکرا کے جواب دیتے، ہر کمزوری کو ڈھانپ دیتے، میرے لیے وہ صرف استاد نہیں، میرے بچوں کے لیے دعاگو بزرگ، محبت کے مینار، اور شفقت کا سمندر تھے۔ آج وہ سمندر خشک ہو گیا۔ آج وہ مینار زمین بوس ہو گیا۔
وہ صرف میرے استاد نہیں، میرے دو بھائیوں جیسے عزیزوں اور میرے ہم جماعتوں حبیب القدوس خان معاویہ اور عبد الوکیل خان مغیرہ کے والدِ محترم بھی تھے۔ کئی بار میرے گھر تشریف لائے۔ ایک دن جب میرے بیٹے محمد زکی عثمانی نے قرآن حفظ کرنا شروع کیا تو انہوں نے شفقت بھرے ہاتھ سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، دعا دی اور فرمایا: ’’یہ بچہ ان شاء اللہ حافظِ قرآن بنے گا‘‘۔ استاد جی کی دعا کی برکت سے آج الحمدللہ میرا بیٹا حافظ قرآن ہے۔ یہ الفاظ آج بھی میرے دل میں نقش ہیں، اور ان کی محبت کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے گا۔
آج ان کا مسکرانا، ان کا پڑھانا، ان کا دعا دینا، سب ایک حسین مگر رلانے والی یاد بن گیا۔ ان کی مجلس میں بیٹھنا گویا جنت کی خوشبو محسوس کرنا تھا۔ ان کے الفاظ دل میں اترتے اور دل کو سنوار دیتے۔ اور آج، آج وہ آواز، وہ خوشبو، وہ پرنور چہرہ، سب کچھ ہم سے دور، بہت دور جا چکا ہے۔ ہزاروں شاگرد جو قرآن و سنت کی خدمت میں مصروف ہیں، آج اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کر رہے ہیں۔ ہزاروں دل جن میں ان کی محبت کی روشنی تھی، آج اس روشنی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ جامع مسجد نور، جامعہ نصرۃ العلوم کا گلشن اجڑ گیا، اور ہم جیسے شاگردوں کے دل کا ایک کونا ہمیشہ کے لیے خالی ہو گیا۔
اے اللہ! یہ تیرے نیک بندے تھے ،تیرے دین کے معلم تھے، تیرے کلام اور تیرے نبی ﷺ کی سنت کے چراغ بردار تھے۔ اے اللہ! انہیں جنت الفردوس میں وہ مقام عطا کر جو ان کے علم، ان کی محنت اور ان کی محبت کا حق ہے۔ ان کے درجات بلند کر، اور ان کے شاگردوں کو ان کا سچا وارث بنا آمین۔