15 اگست 2025ء کو علم و عرفان کا ایک چراغ بجھ گیا، حضرت استاد محترم جامعہ نصرت العلوم کے استاذ الحدیث ہزاروں طلبہ کے مربی اور لاکھوں دلوں کے رہبر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ کی وفات ایک ایسا خلا ہے جو مدتوں پر نہیں ہو سکے گا، علمی مقام و خدمات، آپ کو اللہ تعالٰی نے تفسیر، حدیث، فقہ، اور خوابوں کی تعبیر میں غیر معمولی مہارت عطا فرمائی تھی۔ آپ کا درسِ بخاری اور ترمذی طلبہ کے دل و دماغ میں رس گھولتا تھا، حدیث کی باریکیوں پر آپ کی گرفت، اسناد کے حوالے سے مضبوط یادداشت، اور فقہی بصیرت سب پر واضح تھی۔ آپ نے ہزاروں طلبہ کو علمِ حدیث، اصولِ تفسیر اور فقہ کی تعلیم دی، آپ کے شاگرد نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تدریس، دعوت، اور فتویٰ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تقویٰ و روحانیت
حضرت استاذ صاحبؒ کا لباس، طرزِ زندگی، گفتگو، سادہ اور شہرت سے کوسوں دور، آپ کے تقویٰ کی زندہ علامت تھی۔ آپ کے شب و روز تعلیم و تعلّم، درس و تدریس، عبادت، تلاوت، ذکر و اذکار، اور تدبر میں گزرتے تھے۔ کسی سے بغض، حسد، یا دنیاوی دوڑ میں شامل ہونا آپ کی فطرت میں نہ تھا۔ آپ کے چہرے سے نرمی، نظر سے حیا، اور زبان سے حکمت جھلکتی تھی۔ طلبہ کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ ادب ہمیشہ آپ کی شخصیت کا حصہ رہا۔
اخلاص اور سادگی
حضرت الاستاذ کا ہر عمل اخلاص سے لبریز ہوتا۔ کسی شہرت یا دنیاوی منصب کی تمنا نہ تھی، حتیٰ کہ تبلیغی اجتماعات اور بڑے دینی اجتماعات میں شرکت بھی سادگی، خاموشی اور عاجزی سے کرتے۔
تعلیم و تربیت میں انفرادیت
آپؒ محض کتابوں کے استاذ نہ تھے بلکہ دلوں کو جیتنے والے مربی بھی تھے۔ طلبہ کے مزاج کے مطابق سمجھاتے، دعائیں دیتے، ان کے اخلاق و روحانیت کی فکر کرتے، بہت سے طلبہ آپ کی ایک مسکراہٹ کو زندگی بھر کی دولت کہتے ہیں۔
تعلیمی و تدریسی خدمات
آپؒ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں تدریس کے لیے وقف کیا۔ تقریباً نصف صدی تک آپؒ نے اس عظیم ادارے میں حدیث و فقہ کی کتابیں پڑھائی۔ راقم الحروف کو بھی 2004ء میں بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھنے کا شرف آپؒ ہی کی شاگردی میں نصیب ہوا۔ آپؒ کو فقہی بصیرت، محدثانہ تبحر، اور دقیق علمی انداز میں خاص امتیاز حاصل تھا۔
آپ جامع مسجد تقویٰ پیپلز کالونی میں 35 برس تک خطیب بھی رہے اور جامع مسجد نور میں نصف صدی سے زائد امام رہے۔ حضرت الاستاذؒ سے میرے تعلقات، محبت، شفقت اور روحانی فیض کا ایک روشن باب تھا۔ آپؒ صرف ایک عظیم محدث، جلیل القدر استاد اور علومِ حدیث کے ماہر نہیں تھے بلکہ وہ اپنے شاگردوں کے لیے سراپا شفقت و محبت بھی تھے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ علم، اخلاص، عاجزی اور تعلق باللہ سے مزین تھا۔
میرا خاص اعزاز
اللہ تعالٰی نے مجھے یہ سعادت بخشی کہ مجھے حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ جیسے عظیم استاد کی شاگردی نصیب ہوئی۔ آپؒ ہمیشہ شفقت و محبت سے مجھے نوازتے اور خاص طور پر حضرت قاری صاحب کہہ کر مخاطب فرماتے۔ یہ انکساری اور محبت کا وہ انداز تھا جس پر میں اکثر شرمندہ ہو جاتا کہ اتنی بڑی شخصیت، میرے مربی اور حدیث کے استاد مجھ ناچیز کو اتنے ادب سے بلاتے ہیں۔
استاد محترم میرے گھر بھی کئی بار تشریف لائے، بیسیوں پروگراموں میں مجھے آپ کی معیت، قربت اور راہنمائی مسیر آئی۔ ان مجالس میں اکثر مجھے تلاوت قرآن کریم کی سعادت بھی ملتی اور آپ ہمہ تن گوش ہو کر سنتے، میری تلاوت پر تبصرہ فرماتے، راہنمائی کرتے اور دلنشین الفاظ میں حوصلہ افزائی بھی فرماتے۔ ایک بار فرمایا، آپ تلاوت میں مدات اور غنات کی برابری کا خاص خیال رکھتے ہیں ورنہ اکثر قراء اس میں کوتاہی کرتے ہیں، آپ قراءت کی باریکیوں کو خوب سمجھتے ہیں کیونکہ آپ صرف اسٹیج کے قاری نہیں بلکہ مدرس بھی ہیں۔ یہ کلمات میرے لیے نہ صرف خوشی بلکہ تجدیدِ عزم کا ذریعہ تھے۔ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ نے مجھے تجوید و قراءت کے میدان میں پیش قدمی کے لیے مسلسل حوصلہ دیا۔
ایک یادگار واقعہ عزیزم پروفیسر حافظ قاری محمد خزیمہ خان سواتی نے روایت کیا جو میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ غالباً 2007ء میں ایک قراءت اور خطاب پر مشتمل پروگرام کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ اور استاد مکرم جانشینِ مفسرِ قرآن مولانا قاری محمد فیاض خان سواتی مہتمم جامعہ نصرت العلوم بھی شریک تھے۔ پہلے تلاوت کا سیشن تھا جس میں قاری محمد ابراہیم کاسی سمیت کئی قراء شریک تھے۔ بعد ازاں تقاریر ہوئیں تو حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا، اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ محفلِ قراءت بھی ہے تو ہم اپنا قاری سعید نصرت العلوم سے ساتھ لاتے پھر آپ کو پتہ چلتا قاری کسے کہتے ہیں۔ یہ جملے میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ ایک استاد کا اپنے شاگرد کے لیے ایسا فخر، ایسی محبت اور اتنی عزت واقعی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
وفات کی خبر
آپ کی وفات کی خبر مجھے مکہ مکرمہ میں مطاف کے اندر ملی تو روح کانپ اٹھی اور دل پر یہ خبر ایک بجلی بن کر گری۔ بلاشبہ یہ نقصان صرف ایک فرد کا نہیں ایک عہد، ایک روایت اور ایک قافلے کا تھا۔ علماء، طلبہ اور آپ سے عقیدت رکھنے والے ہر شخص کے دل پر یہ خبر ایک بجلی بن کر گری۔ اللہ تعالٰی ہمارے اس مربی اور استاذ محترم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو جنت میں بلند سے بلند تر فرمائے۔ اور ان کے علم کو صدقہ جاریہ بنا دے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
(۱۳ اگست ۲۰۲۵ء)