حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمہ اللہ ایک عظیم مدرس، عظیم باپ کے عظیم بیٹے اور عظیم بھائی کے عظیم بھائی تھے۔ انہوں نے واقعی ایک نہایت بابرکت اور عظیم زندگی گزاری۔ ساری زندگی پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس میں بسر کی، اور جامعہ نصرت العلوم کے ساتھ ساتھ علومِ دینیہ کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ ان سے تعلق اور محبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے صاحبزادے اور مفکرِ اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے بھائی تھے۔ لیکن اس نسبت کے علاوہ بھی ان کی ذات اپنی جگہ محبت و احترام کی مستحق تھی۔
میری پہلی ملاقات ان سے دارالعلوم مدنیہ رسول پارک لاہور میں اس وقت ہوئی جب دورۂ تفسیر کے چند اسباق جو حضرت مفتی عیسیٰ صاحب رحمہ اللہ نہیں پڑھا سکے تھے، ان کے ذمے لگائے گئے۔ وہ گجرانوالہ سے روزانہ تشریف لاتے اور دورہ تفسیر کے اسباق پڑھاتے، غالباً دس پارے انہوں نے پڑھائے۔ پھر بعد ازاں مختلف مواقع پر ان سے ملاقاتیں رہیں، مجالس میں حاضری ہوئی اور سلام و دعا کا سلسلہ رہا۔
خصوصی طور پر ایک موقع مجھے آج بھی یاد ہے جب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ہمیں اہلِ لاہور کو یہ ذمہ داری سونپی کہ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی شان میں نازیبا کلمات کہنے والے ایک تنظیم کے رکن کو لگام دینے کے لیے کچھ کام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ہم نے لاہور کے علماء کی رپورٹ مرتب کر کے گوجرانوالہ پیش کی۔ اس وقت وہاں علماء کرام کا ایک بھرپور اجلاس جاری تھا۔ جب ہم نے اپنی رپورٹ پیش کی تو مولانا عبدالقدوس قارن صاحب سمیت تمام علماء کرام نے اطمینان کا اظہار فرمایا۔ اسی موقع پر حضرت مولانا نے مجھے اپنے سینے سے زور سے لگایا، گویا یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنا علم و فیض میرے سینے میں منتقل کر رہے ہوں۔ یہ ان کی بے پناہ شفقت اور محبت کا ایک انمول لمحہ تھا، جو میرے لیے بہت بڑی سعادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
بعد ازاں بھی ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ چند ماہ پہلے پاکستان شریعت کونسل پنجاب کا پورا وفد ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوا، جہاں مولانا عمیر، مولانا محمد جاوید، اور حکیم ارشد، حافظ محمد زبیر جمیل بھی موجود تھے۔ اس موقع پر حضرت نے بڑی بے تکلفانہ مگر عالمانہ گفتگو فرمائی۔ ان کی ہنسی مذاق اور پرخلوص باتیں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ محبت کرنے والے اور دل جوئی کرنے والے بزرگ تھے۔ یقیناً ہم ایک بڑی ہستی سے محروم ہو گئے ہیں اور ہمیں اعتراف ہے کہ ہم ان سے فیض حاصل کرنے کا حق کماحقہ ادا نہ کر سکے۔
گزشتہ دنوں مفکرِ اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ساتھ ایک نشست میں گفتگو کے دوران حضرت نے فرمایا کہ مولانا عبدالقدوس قارن رحمہ اللہ کا مؤقف تھا کہ تصویر کشی کو وہ بالکل درست نہیں سمجھتے تھے اور اس بارے میں بڑی شدت سے عمل کرتے تھے۔ اگرچہ کسی کا موقف مختلف ہو سکتا ہے، لیکن ان کی اس رائے کا احترام بہرحال ضروری ہے۔
الحمد للہ! ان کے صاحبزادے مولانا حافظ نصر الدین خان عمر سے بھی بڑا محبت بھرا اور برادرانہ تعلق ہے۔ وہ پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ کے امیر ہیں اور مختلف امور پر مشاورت رہتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبدالقدوس قارن رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہل خانہ اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔