غالباً 2017ء یا 2018ء کی بات ہے مجھے جامعہ اقبالیہ سیالکوٹ تلاوت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہمارے دوست مفتی مبشر صاحب اور مولانا نور الحسن صاحب جو اس وقت وہاں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے تھے انہوں نے ہی ترتیب بنائی تھی کیونکہ مفتی مبشر صاحب سے اکثر وہاں تجوید اور خصوصاً قراءاتِ عشرہ کے حوالے سے بات چلتی رہتی تھی کہ سیالکوٹ میں اس پر معیاری کام ہونا چاہیے۔
خیر، جب تلاوت جاری تھی تو اس دوران حضرت استاذ جی مولانا عبد القدوس قارن صاحب بالائی منزل سے نچلے ہال میں تشریف لائے، پکچر میں جو صوفہ نظر آرہا ہے اس پر ایک نعت خواں اور ایک خطیب صاحب تشریف رکھے ہوئے تھے، میں زمین پر بیٹھا تلاوت کر رہا تھا کیونکہ مجھے اسی طرح زیادہ سہولت تھی۔ منتظمین نے حضرت کو صوفے پر بٹھانے کی کوشش کی تو فرمانے لگے (مفہوم:) نہیں قرآن پڑھنے والا نیچے بیٹھا ہوا ہے میں ادھر ہی نیچے بیٹھوں گا، سبحان اللہ۔ صوفے پر بیٹھے حضرات بھی نیچے بیٹھ گئے۔ یہ سارا معاملہ میں بھی دیکھ اور سن رہا تھا۔ بہت عجیب اثر ہوا۔ اس دوران بھی اور بعد میں بھی یہ خیال کئی دفعہ آیا کہ کیا شان ہے ہمارے ان بڑوں کی جو اپنے عمل سے کئی کئی چیزیں ہمیں سکھا گئے۔ کئی دفعہ احباب کے ساتھ اس واقعے کو شیئر کیا کہ ہمارے لیے یہ سب سیکھنے کی چیزیں ہیں۔ ادب ہی سب کچھ ہے جو بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ تلاوت جاری رہی، بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ حضرت کے بیٹھنے اور توجہات سے وہ تلاوت بہت ہی پر اثر رہی۔
سیالکوٹ سے بجائے ایبٹ آباد کے میں نے گوجرانوالہ گھنٹہ گھر تک کا سفر حضرت کی سواری میں ہی کیا تھا۔ چھوٹوں کو آگے بڑھانے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے تو حضرت نے بیان میں تین، چار دفعہ اور پھر گاڑی میں دورانِ سفر بھی مجھے حوصلہ افزاء کلمات سے نوازا جو میرے لیے سعادت مندی تھی، حقیقت میں حضرت کی توجہات و برکات تھیں، لیکن افسوس کہ اس وقت وہ کلمات اور سفر کی باتیں لکھ نہ سکا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ حضرت جی کو کروٹ کروٹ جنت کی خوشبوئیں نصیب فرمائے، درجات بلند فرمائے۔