انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ پاک نے اس امت کو ایسے نفوسِ قدسیہ عطا فرمائے جن کی زندگی علم و عمل، اخلاص و للہیت اور محبت و شفقت کا پیکر ہوتی ہے۔ انہی میں سے ایک محترم و مکرم مولانا عبد القدوس قارن صاحبؒ تھے۔ آپ جامعہ نصرۃ العلوم کے استاذ الحدیث تھے، ایک باوقار، سنجیدہ اور باعلم شخصیت جن کے پاس بیٹھنا گویا علم و حکمت کے سمندر میں غوطہ زن ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہ صرف علم کا ملکہ عطا فرمایا بلکہ علمی لطائف، قیمتی نصائح اور نایاب واقعات سے دلوں کو منور کرنے کی خاص صلاحیت بھی عطا کی۔ آپ کی گفتگو میں نرمی بھی تھی، وقار بھی اور دلوں کو اپنی جانب کھینچ لینے والا انداز بھی۔ بڑوں کے ساتھ علمی گفتگو اور بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ، دونوں میں آپ کی شخصیت ایک مثال تھی۔ اللہ نے آپ کو ایسی بلند اور پُراثر آواز دے رکھی تھی کہ سپیکر کی حاجت نہ رہتی۔ افسوس ایسے علم بردار، ایسے باذوق اور بامروّت اساتذہ ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں اور ان کا حقیقی نعم البدل نظر نہیں آتا۔
چونکہ میرا سسرال بھی نصرۃ العلوم کے پڑوس میں واقع ہے تو جب بھی جانا ہوتا ہے تو کوشش ہوتی کہ نماز قارن صاحب کی امامت میں ادا کروں تاکہ ملاقات بھی ہو جائے۔ جیسے ہی استاد جی سے ملتا تو فوراً خوشی سے کہتے (ہور سنا علی پوری، لگدا سوریاں ول آیاں اے)۔ اللہ تعالیٰ استاد جی کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے اور ان کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے سے ہمیں فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ یہ لوگ چراغِ راہ تھے، اور چراغ بجھ جائیں تو راستے اندھیرے ہو جاتے ہیں۔